گینگ وار سے متاثرہ ہیٹی کا مقدر بدلنا چاہیے، الریکا رچرڈسن
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اگست 2025ء) ہیٹی کے لیے اقوام متحدہ کی سبکدوش ہونے والی نمائندہ اور امدادی رابطہ کار الریکا رچرڈسن نے کہا ہے کہ ملک کو طویل اور بدترین ہوتے انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں مسلح جتھوں کا تشدد پھیلتا جا رہا ہے اور اس سے شہریوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
عہدہ چھوڑنے سے قبل اپنی آخری بریفنگ میں انہوں نے بتایا ہے کہ ہیٹی کے حالات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔
ملک کی صورتحال تشویش ناک ہے جو فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ ہیٹی کا شمار دنیا کے ان پانچ مالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو قحط جیسے حالات درپیش ہیں۔ Tweet URLہولناک حالات کے باوجود ہیٹی کے لیے رواں سال طلب کردہ امدادی وسائل میں سے اب تک نو فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں، تاہم سیاسی عزم اور مالی وسائل کی موجودگی میں بحران پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ تکالیف اور مایوسی کو ہیٹی کا مقدر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ملک جس رفتار سے مسائل کا شکار ہو رہا ہے اسی رفتار سے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہو سکتا ہے۔
نقل مکانی اور غذائی قلتہیٹی میں جاری مسلح جرائم پیشہ جتھوں کے تشدد میں 13 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جو ملکی تاریخ میں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ملک کی تقریباً نصف تعداد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ تعداد بہت بڑی ہے اور اس کے پیچھے انسانوں پر مرتب ہونے والی اثرات اور لوگوں کی مشکلات کا تصور کرنا بھی آسان نہیں۔الریکا رچرڈسن نے بتایا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے لوگ اپنے ایسے عزیزوں کو پیچھےچھوڑ گئے ہیں جو جسمانی طور پر معذور یا معمر ہونے کے باعث نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔
عالمی برادری کا کردارالریکا رچرڈسن نے کہا ہے کہ ہیٹی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ذرائع موجود ہیں لیکن اس معاملے میں عالمی برادری کا کردار ویسا نہیں جیسا ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹی میں امن و امان برقرار رکھنے میں مدد دینے کثیرالفریقی مشن میں شامل اہلکاروں کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں نصف ہے اور اس کے پاس ضروری سازوسامان بھی موجود نہیں۔
اگرچہ مسلح جتھوں سے وابستگی رکھنے والے سیاست دانوں پر پابندیاں سست روی سے موثر ہونے لگی ہیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں جبکہ عالمی برادری ملک میں ہتھیاروں کی آمد روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔انہوں نے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ غور کریں کہ ہیٹی میں انسانی بحران کو حل کرنے کے لیے مزید کون سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
نظرانداز شدہ بحرانالریکا رچرڈسن یکم ستمبر میں لیبیا میں ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔
وہ کئی سال تک ہیٹی میں کام کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا بڑا بحران ہے جسے دنیا نے بظاہر بھلا دیا ہے۔ تاہم، اگر عالمی برادری اس پر قابو پانے کے طریقوں پر کام لینے کو تیار ہو تو اس بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔الریکا رچرڈ سن نے کہا کہ پرامید ہو کر ہی مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ ہیٹی کے لوگ پرامید ہیں اور انہوں نے یہ امید اپنے قابل قدر اور روشن ماضی سے حاصل کی ہے۔ یہ لوگ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ملک کو عالمی برادری میں مزید طاقتور آواز بننے کا موقع مل سکے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے الریکا رچرڈسن عالمی برادری کہا ہے کہ ہیٹی میں انہوں نے ہیٹی کے کے لیے نے کہا
پڑھیں:
پاکستان کا مصنوعی ذہانت کو اقوام متحدہ کے ضابطے میں لانے کا مطالبہ،
پاکستان نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے استعمال، خصوصاً اس کے عسکری پہلوؤں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت باقاعدہ ضابطے میں لایا جائے تاکہ یہ ٹیکنالوجی جبر یا اجارہ داری کا ہتھیار نہ بن سکے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی یہ اپیل ترقی پذیر ممالک کے ان خدشات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر اے آئی پر مؤثر کنٹرول نہ کیا گیا تو طاقتور ممالک اپنے مفاد کے مطابق اصول وضع کریں گے۔
اسی سال کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں جامع اور منصفانہ اے آئی گورننس پر زور دیا گیا تھا تاکہ ڈیجیٹل تقسیم کو کم کیا جا سکے، تاہم، انڈونیشیا اور برازیل جیسے عالمی جنوب کے کئی ممالک نے خبردار کیا ہے کہ غیر منظم اے آئی عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر ایجنڈا آئٹم ’بین الاقوامی امن و سلامتی کا تحفظ‘ کے تحت مصنوعی ذہانت پر اعلیٰ سطح کے مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے اس کے غلط استعمال کے امکانات کو اجاگر کیا اور زور دیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اے آئی کی تیاری اور استعمال کو مکمل طور پر منظم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ خودکار ہتھیاروں اور اے آئی سے لیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کا بڑھتا ہوا استعمال عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایسی ایپلیکیشنز جو بامعنی انسانی کنٹرول کے بغیر ہوں، انہیں مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔
میڈیارپورٹس میں وزیر دفاع کے حوالے سے بتایا گیاکہ ’اے آئی کو جبر یا ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے
اجلاس کی صدارت جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے کی، کیونکہ جنوبی کوریا ستمبر کے لیے 15 رکنی سلامتی کونسل کی صدارت کر رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے وزیر نے زور دیا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت ایک ’انتہائی اہم اور دہرا استعمال رکھنے والی ٹیکنالوجی‘ ہو سکتی ہے لیکن اس میں ’عدم مساوات بڑھانے اور عالمی نظام کو غیر مستحکم کرنے‘ کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
15 رکنی کونسل سے خطاب میں انہوں نے مزید کہاکہ ’ایسی ایپلی کیشنز جن پر بامعنی انسانی کنٹرول نہ ہو، ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے‘،۔
خواجہ آصف نے مصنوعی ذہانت کے غیر منظم ہونے کے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’اے آئی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے جھوٹی معلومات کی مہمات، جارحانہ سائبر آپریشنز اور نئے قسم کے ہتھیاروں کی تیاری ممکن ہو جاتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’خودکار ہتھیاروں اور اے آئی سے لیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کا بڑھتا ہوا استعمال عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے‘۔
انہوں نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہایسے اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہوں جو عدم استحکام پیدا کرنے والے استعمال کو روکیں اور پہلے سے ہی حفاظتی اقدامات اختیار کریں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی میں 4 روزہ فوجی تصادم کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس تنازعے کے دوران ’ایک ایٹمی طاقت نے خودکار اسلحہ اور تیز رفتار دہری صلاحیت رکھنے والے کروز میزائل دوسرے ملک کے خلاف استعمال کیے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے آئی کس قدر خطرناک ہو سکتی ہے‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ بدلتے ہوئے جنگی مستقبل میں ’اے آئی طاقت کے استعمال کی رکاوٹ کو کم کرتی ہے اور جنگ کو سیاسی و عملی طور پر زیادہ ممکن بناتی ہے‘۔
وزیردفاع نے کہا کہ اے آئی فیصلہ سازی کے وقت کو محدود کرتی ہے جبکہ سفارت کاری اور کشیدگی کم کرنے کی گنجائش کو تنگ کرتی ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’اے آئی میدانِ جنگ کی سرحدیں دھندلا دیتی ہے اور سائبر، فوجی اور معلوماتی اثرات کو غیر متوقع انداز میں یکجا کر دیتی ہے‘۔
انہوں نے زور دیا کہ اے آئی کو ’تصادم اور عدم استحکام‘ کے بجائے’امن و ترقی کے فروغ‘ کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمیں جنگ اور امن کے معاملات میں انسانی فیصلے کی بالادستی کو محفوظ رکھنا ہوگا، تاکہ ذہین مشینوں کے دور میں بھی ایجادات اخلاقی اور انسانی اصولوں کے مطابق رہیں‘۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’خوراک کی کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور تشدد کے واقعات روکنے جیسے شعبوں میں اے آئی مددگار ہو سکتی ہے، تاہم اگر اس پر قدغن نہ لگائی گئی تو یہ ہتھیار بھی بن سکتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی اب کوئی دور کی بات نہیں رہی، یہ یہاں موجود ہے، روزمرہ زندگی، معلوماتی دنیا اور عالمی معیشت کو تیز رفتاری سے بدل رہی ہے، تاہم ایجاد انسانیت کی خدمت کرے، اسے نقصان نہ پہنچائے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ نے ’اے آئی پر بین الاقوامی سائنسی پینل‘ اور ’اے آئی گورننس پر عالمی مکالمہ‘ قائم کیا ہے، انہوں نے کہا کہ انسانیت کی تقدیر کسی الگورتھم پر نہیں چھوڑی جا سکتی کیونکہ زندگی اور موت کے فیصلوں میں اختیار ہمیشہ انسانوں کے پاس ہونا چاہیے۔
اسی ضمن میں انہوں نے کونسل اور رکن ممالک سے اپیل کی کہ ’طاقت کے ہر استعمال میں انسانی کنٹرول اور فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائے‘۔
انتونیو گوتیریس نے مزید کہا کہ ’ایسے خودکار مہلک ہتھیاروں پر مشمتل سسٹمز پر پابندی ہونی چاہیے جو انسانی کنٹرول کے بغیر کام کرتے ہیں، اور اس کے لیے 2026 تک ایک قانونی معاہدہ ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ بھی انسانوں کے پاس ہونا چاہیے، مشینوں کے پاس نہیں‘۔
سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ ’جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے لے کر ہوابازی کی حفاظت تک، عالمی برادری نے ہمیشہ قوانین بنا کر، ادارے قائم کر کے اور انسانی وقار کو یقینی بنا کر ان ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کیا ہے جو ہمارے معاشروں کو غیر مستحکم کر سکتی تھیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اے آئی کو امن، انصاف اور انسانیت کے لیے ڈھالنے کے لیے وقت تیزی سے کم ہو رہا ہے، ہمیں تاخیر کیے بغیر عمل کرنا ہوگا‘۔
یہ پیش رفت گوگل کی جانب سے پاکستان سمیت 40 مزید ممالک میں ’گوگل اے آئی پلس پلان‘ شروع کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔
پاکستان میں گوگل کے کنٹری ڈائریکٹر فرحان قریشی نے ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان کا ڈیجیٹل منظرنامہ متحرک اور تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اور پاکستانیوں نے جس تخلیقی انداز میں اے آئی ٹولز کو اپنایا ہے وہ متاثر کن ہے‘۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے جولائی میں ’نیشنل اے آئی پالیسی 2025‘ کی منظوری دی تھی، اس پالیسی کے تحت 2030 تک 10 لاکھ اے آئی پروفیشنلز تیار کرنے، نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے فنڈز قائم کرنے، 50 ہزار شہری منصوبے اور ایک ہزار مقامی اے آئی مصنوعات اگلے 5 برس میں تیار کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ ”ہمارے نوجوان پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ انہیں اے آئی میں تعلیم، ہنر اور مساوی مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے“۔