میرا مقصد کسی کی توہین نہیں تھا، دل آزاری ہوئی تو معذر ت خواہ ہوں. عرفان صدیقی ،سینیٹ اجلاس میں نقطہ اعتراض پر جواب
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
ایوان بالا کے اجلاس میں جمعہ کو سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں قائدِ حزبِ اختلاف کی جانب سے اٹھائے گئے نقط اعتراض کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ گزشتہ روز ایوان میں ہونے والی گفتگو پر غیر ضروری بحث کی اب کوئی گنجائش نہیں۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز جب ایمل ولی نے تقریر کی تو میں نے انہیں روکا۔وہ 9 مئی کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے، مگر میں نے گزارش کی کہ وہ اپنی بات 10 مئی کے حوالے سے کریں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ اس وقت معاملہ وہیں طے ہو گیا تھا اور ایوان کی کارروائی آگے بڑھ چکی تھی، اس لئے اب اس معاملے کو دوبارہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس وقت کسی بھی طرح کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں، میرا مقصد کسی کی توہین نہیں تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے، امریکی قرارداد پر چین و روس کا سخت اعتراض
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے پیش کردہ غزہ امن منصوبے پر چین اور روس نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ غزہ فلسطینی عوام کا ہے اور کسی اور کے دائرہ اختیار میں نہیں آنا چاہیے۔
دونوں ممالک نے امریکی قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے کردار، شفافیت اور استحکام فورس کے اختیارات کے اہم پہلو واضح نہیں کرتی۔
چینی سفیر فو کونگ نے بیان دیا کہ اس قرارداد میں فلسطینی حکمرانی کے اصولوں کی عکاسی نہیں کی گئی اور امریکا نے انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس اور بورڈ آف پیس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، جبکہ روسی مندوب نے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی عوام کو عمل سے باہر رکھتا ہے اور غزہ و مغربی کنارے کی مزید تقسیم کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔
دوسری جانب برطانیہ، فرانس، جنوبی کوریا اور سلووینیا نے اس منصوبے کی حمایت کی، جبکہ ڈنمارک نے زور دیا کہ غزہ اور مغربی کنارے کو متحد رکھنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے سے متعلق قرارداد کی منظوری دی، جس کے حق میں 14 ووٹ آئے، مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا، اور روس و چین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
امریکی مندوب نے سلامتی کونسل میں پاکستان، مصر، قطر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور انڈونیشیا کا شکریہ ادا کیا، تاہم حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔