ایوان بالا کے اجلاس میں جمعہ کو سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں قائدِ حزبِ اختلاف کی جانب سے اٹھائے گئے نقط اعتراض کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ گزشتہ روز ایوان میں ہونے والی گفتگو پر غیر ضروری بحث کی اب کوئی گنجائش نہیں۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز جب ایمل ولی نے تقریر کی تو میں نے انہیں روکا۔وہ 9 مئی کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے، مگر میں نے گزارش کی کہ وہ اپنی بات 10 مئی کے حوالے سے کریں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ اس وقت معاملہ وہیں طے ہو گیا تھا اور ایوان کی کارروائی آگے بڑھ چکی تھی، اس لئے اب اس معاملے کو دوبارہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس وقت کسی بھی طرح کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں، میرا مقصد کسی کی توہین نہیں تھا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی پر دہلی سے جواب طلب کر لیا

بھارتی سپریم کورٹ نے جمعرات کو جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے مطالبے پر مرکز سے 8 ہفتوں میں جواب دینے کی ہدایت دی ہے، جبکہ سماعت کے دوران 22 اپریل کے پہلگام دہشتگرد حملے کا حوالہ بھی دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، کانگریسی رہنما چدمبرم

یہ درخواست وکیل سوائب قریشی کے ذریعے ایک ماہرِ تعلیم اور سماجی کارکن کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ریاستی حیثیت ایک مقررہ مدت، ترجیحاً 2 ماہ، میں بحال کی جائے۔

درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ طویل یونین ٹیریٹری اسٹیٹس وفاقیت کے بنیادی تصور کے منافی ہے، جبکہ پُرامن انتخابات اور عوامی اجتماعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی سیکیورٹی رکاوٹ موجود نہیں۔

چیف جسٹس بھوشن آر جی گوائی اور جسٹس کے وینوڈ چندرن کی بینچ نے کہا کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا، اور پہلگام واقعے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

یاد رہے کہ اس حملے میں 25 سیاح اور ایک مقامی آپریٹر ہلاک ہوئے تھے، جبکہ تینوں حملہ آور جولائی میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی اور جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ

درخواست گزاروں کے وکیل گوپال شنکرنارائنن نے مؤقف اختیار کیا کہ دسمبر 2023 کے فیصلے میں عدالت نے صرف اس لیے ریاستی حیثیت پر رائے نہیں دی کیونکہ مرکز نے یقین دہانی کرائی تھی کہ انتخابات کے بعد یہ بحال ہو جائے گی، لیکن 21 ماہ گزرنے کے باوجود ایسا نہیں ہوا۔

سال 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ کو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اس اقدام کو درست قرار دیا تھا، مگر ریاستی حیثیت کی بحالی کا معاملہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔

سیاسی حلقوں میں اس مسئلے پر قیاس آرائیاں جاری ہیں، خاص طور پر سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے حالیہ بیانات کے بعد، جنہوں نے پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں مثبت پیش رفت کی امید ظاہر کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارتی سپریم کورٹ پہلگام دہلی

متعلقہ مضامین

  • مودی کے ذریعے آر ایس ایس کی تعریف جدوجہد آزادی کی توہین ہے، اسد الدین اویسی
  • بلوچستان میں آپریشن کا مقصد معصوم عوام کو نقصان پہنچانا نہیں: ترجمان پاک فوج
  • بلوچستان میں دہشتگردی کیخلاف آپریشن کا مقصد عوام کو نقصان پہنچانا نہیں:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے دورہ برطانیہ منسوخ کردیا
  • سینیٹ اجلاس،حکومتی ارکان اور وزراء میں سول ایوارڈز کی تقسیم پر اپوزیشن کا احتجاج
  • 1500ویں جشن میلادالنبیؐ کو وفاقی و صوبائی حکومتیں اعلیٰ سطح پر منائیں، سینیٹ میں متفقہ قرارداد منظور
  • سینئر صحافی رضی دادا کو ایوارڈ نہ ملنے پر اینکر زریاب عرفان اور ایثار رانا کا احتجاج، وجہ بھی بتا دی
  • ملک بھرمیں عید میلاد النبی ﷺبھرپور انداز سے منانے کی قرارداد منظور
  • بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی پر دہلی سے جواب طلب کر لیا
  • سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد دینے والے شہر قائد پر پیسہ نہیں لگایا جاتا، خالد مقبول