Jang News:
2025-05-17@01:17:12 GMT

دل آزاری کسی کی نہیں ہونی چاہیے: سینیٹر عرفان صدیقی

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

دل آزاری کسی کی نہیں ہونی چاہیے: سینیٹر عرفان صدیقی

مسلم لیگ نبواز کے سینیٹر عرفان صدیقی—فائل فوٹو

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ کل اپنے پارٹی ممبر کو کہا کہ ہم 9 مئی پر نہیں صرف 10 مئی پر بات کریں۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کسی لیڈر کے بارے میں کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔

عرفان صدیقی کے جملے پر قائمہ کمیٹی میں قہقہے لگ گئے

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کے ایک جملے پر قائمہ کمیٹی میں قہقہے لگ گئے۔

انہوں نے کہا کہ شبلی فراز کا بہت احترام کرتا ہوں، جب کل ان سینیٹر نے بات کی تو میں نے کم از کم 3 بار ان کو بولنے سے روکا اور میں نے ان کے نامناسب الفاظ کو حذف کیا۔

ن لیگی سینیٹر نے مزید کہا کہ دل آزاری کسی کی نہیں ہونی چاہیے، مناسب نہیں کہ ہم لیڈرز کی ایوان میں توہین کریں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی مسلم لیگ

پڑھیں:

بھارت کو یورپ سے سبق سیکھنا چاہیے

گزشتہ صدی نے انسانیت کو ایک تلخ اور خونی سبق دیا۔ دو عالمی جنگوں، لاتعداد علاقائی تنازعات، اور نظریاتی تصادمات نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یورپ، جو تہذیب و تمدن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، میدانِ جنگ بن گیا۔ انسانوں کے بدن ہی نہیں، بلکہ اقوام اور ممالک کے وجود پارہ پارہ ہو گئے۔ بستیاں اجڑ گئیں، نسلیں مٹ گئیں، اور امن صرف ایک خواب بن کر رہ گیا۔مگر جب ہر طرف تباہی کا اندھیرا چھا گیا، تب عقل نے کروٹ لی۔زندگی کے اصل مقاصد پر غور شروع ہوا۔ امن کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ بین الاقوامی اصول و ضوابط مرتب کیے گئے تاکہ آئندہ نسلیں ویسی ہولناکی نہ دیکھیں جو ان کے آبائو اجداد نے دیکھی تھی۔ یہی سوچ تھی جس نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اور بعد ازاں ’’اقوامِ متحدہ‘‘ جیسے اداروں کو جنم دیا۔ ان اداروں کا مقصد یہی تھا کہ اختلافات کو بات چیت اور سفارتی کوششوں سے حل کیا جائے، نہ کہ گولی اور بارود سے۔یورپ کی مثال سب سے روشن ہے۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی یہ وہ ممالک تھے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ لیکن انہوں نے ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر ’’یورپی یونین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ایک مشترکہ کرنسی، آزادانہ سفر، اور باہمی انحصار پر مبنی معاشی نظام نے ان کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ آج ان کے درمیان جنگ کا تصور بھی محال ہے۔اب سوال یہ ہے: بھارت کب سیکھے گا؟پہلگام واقعے کے بعد جو جنگ چھڑی، اس نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ جنوبی ایشیا کے رہنما تاریخ کے ان سبقوں سے سبق نہیں سیکھ رہے جو یورپ نے بڑے خلوص اور قربانیوں سے سیکھے۔
پاکستان اور بھارت کبھی ایک ہی ملک کے دو حصے تھے۔ مختلف قومی نظریات کے باوجود دونوں کا تاریخی، ثقافتی، اور تہذیبی سرمایہ مشترک تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے فاصلے وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔ ان میں سب سے بڑا تنازعہ کشمیر ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ دنیا کی تسلیم شدہ قراردادوں کے باوجود بھارت اس دیرینہ مسئلے کو طاقت کے بل پر دبانا چاہتا ہے۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، وہاں انسانی حقوق کی پامالی، اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو مسلسل نظرانداز کرنا نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن کے منہ پر طمانچہ ہے۔
بھارت نے نہ صرف کشمیر پر ناجائز تسلط قائم رکھا ہے بلکہ پاکستان کے حصے کے دریائوں پر ڈیمز بنا کر بین الاقوامی آبی معاہدوں کی بھی دھجیاں اڑائی ہیں۔ پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو ہتھیار بنا کر بھارت اس خطے کو ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر لا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردی کی پشت پناہی اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں بھی مسلسل جاری ہیں۔
کیا بھارت کو اب بھی یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ جنگوں سے نہ کبھی امن ملا، نہ خوشحالی؟ اگر واقعی بھارت ایک ذمہ دار اور بڑی طاقت بننا چاہتا ہے تو اسے ماضی کی رعونت اور تکبر کو ترک کرنا ہوگا۔ اسے چاہیے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے، کشمیریوں کو ان کا جائز حق دے، پاکستان کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے، اور خطے میں خوشحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اب اسے یقین ہو جانا چاہئے کہ وہ اپنی جنگی قوت ، معیشت اور حجم سے پاکستان کو کبھی مرعوب نہیں کر پائے گا ۔ ہوش اور عقل کے ناخن لے کر اچھا پڑوسی بننے کی عادت ڈالے ۔
عارضی فائر بندی ضرور ہوئی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ خاموشی کب تک قائم رہے گی؟ اگر بھارت نے اب بھی اپنے رویے پر نظر ثانی نہ کی، تو خطہ مستقل جنگی کیفیت میں چلا جائے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا۔
یورپ کی طرح بھارت اور پاکستان بھی ’’ایشین یونین‘‘ کا خواب دیکھ سکتے ہیں اگر نیت ہو، اگر ضد چھوڑی جائے، اگر عوامی بھلائی کو ترجیح دی جائے۔
ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں سے کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوئی، صرف برباد ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو معلوم نہیں تھا کہ کس قوم کو للکار رہا ہے: خالد مقبول صدیقی
  • عافیہ صدیقی کیس تحریک بن چکا، پٹیشن ختم کرنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • میرا مقصد کسی کی توہین نہیں تھا، دل آزاری ہوئی تو معذر ت خواہ ہوں. عرفان صدیقی ،سینیٹ اجلاس میں نقطہ اعتراض پر جواب
  • حکمت متعالیہ، مسلم فلسفہ
  • بھارت کو یورپ سے سبق سیکھنا چاہیے
  • میرا مقصد کسی کی توہین نہیں تھا، کسی کی دل آزاری ہوئی تو معذر ت خواہ ہوں، سینیٹر عرفان صدیقی
  • تاریخ ہتھیاروں کی تعداد نہیں حوصلوں کی بلندی سے بنتی ہے، رانا سکندر
  • عدالت نے شیر افضل مروت کو کیس سے بری کر دیا
  • شاہ محمود نے سیاسی جنگ بندی، سنجیدہ قومی مکالمے کی درخواست کر دی