Daily Mumtaz:
2025-10-05@05:32:59 GMT

عجائب گھر کا تین پہلوؤں میں قیمتی کردار

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

عجائب گھر کا تین پہلوؤں میں قیمتی کردار

بیجنگ :18 مئی کو بین الاقوامی عجائب گھر کا دن منایا جاتا ہے،رواں سال کا موضوع ہے: “تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے میں عجائب گھروں کا مستقبل”۔ یہ موضوع ایک سوال اٹھاتا ہے کہ جدید ڈیجیٹل دور میں، تہذیبی ورثے کے محافظ اور ثقافتی مکالمے کے مرکز کے طور پر عجائب گھر وقت کے ساتھ ہم آہنگی کیسے پیدا کریں گے اور جدید انسان کے لیے روحانی پناہ گاہ کا کردار کیسے ادا کریں؟اس سوال کے جواب میں ہم عجائب گھروں کی اہمیت کو تین جہتوں سے دیکھ سکتے ہیں۔سب سے پہلے ،نوجوان نسل میں مقبول اصطلاح “جذباتی قدر” ایک کنجی بن سکتی ہے۔چین کے سان شنگ ڈوئی ثقافتی ورثے کے کانسی کے ماسک آج کل سوشل میڈیا پر ایموجی کی صورت میں وائرل ہوئے ہیں۔ ڈون ہوانگ میں فریسکو کو آئس کریم کی شکل میں بنایا گیا ہے ، جبکہ دیگر عجائب گھر وں نے نائٹ ٹور کے پروگرام پیش کیے ہیں۔ان تمام اقدامات سے عجائب گھر نوجوانوں کو تخلیقی انداز میں تاریخی کہانیاں بیان کر رہے ہیں جس سے لوگوں کو آثار قدیمہ کی مقبولیت سے جذباتی قدر ملتی ہے۔ جذباتی سہارا فراہم کرتے ہوئے، عجائب گھروں کی اقتصادی قدر روزبروز نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ عجائب گھروں کی نوادرات کی بنیاد پر بننے والی فلمیں اور گیمز کامیابی حاصل کر رہی ہیں، جس سے عجائب گھروں کی معیشت کو فروغ ملا ہے۔ “بلیک متھ: وُوکھونگ” نے لوگوں کو قدیم عمارتوں کی جانب متوجہ کیا، بدھ مت کے ایک خوبصورت مجسمے نے ایک شہر کی سیاحتی رونق میں اضافہ کیا، اور نوادرات سے متاثر فریج میگنٹس سیاحوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ تاریخی ذخائر کے حامل عجائب گھر مسلسل نئی تخلیقات پیش کر رہے ہیں اور ثقافتی اخراجات کے نئے انداز ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2025 میں “لیبر ڈے” کی قومی تعطیلات کے دوران چین کے تمام عجائب گھروں میں 60.

49 ملین سے زیادہ وزٹس ریکارڈ کیے گئے ، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد کا اضافہ ہے۔ اور اسی طرح ، جشن بہار کی تعطیلات کے دوران روزانہ ایک کروڑ سے زیادہ وزٹس ہوئے ۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ عجائب گھر صرف تہذیبی ورثے کے محافظ نہیں ، بلکہ یہ اندرونی طلب اور مقامی ترقی کو فروغ دینے والے اقتصادی انجن بھی بن سکتے ہیں۔بیشک، عجائب گھروں کی سب سے بنیادی قدر تہذیبی ورثے کی حفاظت اور جدت کے فروغ میں ہے۔چین کے حہ موڈو سائٹ میوزیم میں محفوظ کاربنیائزڈ چاول زراعت کی قدیم تاریخ کی تہذیب بیان کرتے ہیں۔ ہائی ہون ہو کے مقبرے میں بانس کی تختی قدیم حکمرانی کی حکمت کو بیان کرتی ہے، اور مو گاؤ کھوغار کی دیواروں پر فریسکوز قدیم شاہراہ ریشم کی رونق کو اجاگر کرتی ہیں۔ ہزاروں سال کی تہذیب کے نقش قدم “ہم کہاں سے آئے ہیں” کے حتمی سوال کا جواب فراہم کرتے ہیں۔ عجائب گھروں کا مشن صرف ماضی کو محفوظ کرنا نہیں، بلکہ مستقبل کو متحرک کرنا بھی ہے۔ ڈیجیٹل آرکیالوجی اور نوادرات کی مرمت کی جدید تکنیکوں کے ذریعے ہم انتہائی نایاب مہارتوں کو نئی زندگی دیتے ہیں، اور قدیم خزانوں کو تخلیقات کی لائبریری میں تبدیل کرتے ہیں۔آج جب دنیا اختلافات و تنازعات کا سامنا کر رہی ہے ، عجائب گھروں کی عملی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ گندھارا آرٹ پاکستان اور چین کے باہمی تعاون سےجگمکا رہا ہے، اور چین کی لینگ چو میں عبادت کے لیے جید سے بنے سامان اوروسطی اور جنوبی امریکی ممالک کی مایا تہذیب کے اہرام کو قدیم تہذیبوں کی نمائش میں ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے، جو ہمیں بین الثقافتی مکالمے کا پیغام دیتاہے: ہمیں دوستانہ دل کے ساتھ ثقافتی باہمی سیکھنے کو فروغ دینا چاہیئے ، اور جدت کی طاقت کے ذریعے روایت کی حکمت کو بروئے کار لانا چاہیئے،تاکہ انسانیت بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو سکے۔جذباتی احساس سے لے کر اقتصادی سرگرمی تک،پھر تہذیب کی وراثت سے باہمی سیکھنے تک، عجائب گھر ہمیشہ انسانی روح کی روشنی کا ذریعہ رہے ہیں۔ تیز رفتار تبدیلی کے اس دور میں، یہ ماضی سے ملنے والے کیپسول کے ساتھ ساتھ مستقبل کی سمت رواں ایک ثقافتی جہاز بھی ہیں۔ ہم نوادرات کی بصیرت میں تہذیب کی گہرائی، وقت کی لمبائی، اور دنیا کی وسعت کو بہتر انداز میں سمجھیں گے۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عجائب گھروں کی عجائب گھر رہے ہیں چین کے

پڑھیں:

امریکی تحقیق کے مطابق بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم کا ایک ممکنہ کردار

ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ پیراسیٹامول (Acetaminophen) ہر گھر کی سب سے عام دوا ہے۔ بخار ہو، درد ہو یا تھکن ہو، ہمارا پہلا انتخاب یہی دوا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ایک نہایت اہم تشویشناک خبر سامنے آئی ہے۔

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے اپنے باضابطہ نوٹس میں خبردار کیا ہے کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول کے مسلسل استعمال سے بچے کی دماغی نشوونما پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اور یہ خدشہ موجود ہے کہ اس کے نتیجے میں Autism اور ADHD جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

یہ کوئی معمولی افواہ نہیں۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ نے پبلک ہیلتھ اور میڈیکل ہیلتھ کے سرکردہ قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں امریکی حکومت میں پھیلی بےچینی و تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایف ڈی اے نے اپنی ہدایات میں ڈاکٹروں اور عوام دونوں کو محتاط رہنے کا کہا ہے۔ 

یہ خدشہ کئی سال سے مختلف تحقیقی مطالعات (NEJM, JAMA, Lancet Psychiatry) میں اٹھایا جاتا رہا ہے کہ پیراسیٹامول اور بچے کی دماغی صحت کے درمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعلق ابھی حتمی طور پر ثابت نہیں ہوا، لیکن تعلق اور کچھ شواہد اتنے واضح ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی ریگولیٹری ایجنسی ایف ڈی اے نے احتیاط کا اعلان کر دیا ہے۔

آٹزم صرف ایک بچے کی مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ پورے گھر کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔ والدین کے لیے سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ ان کا بچہ ان کی آنکھوں میں دیکھ کر بھی اکثر جواب نہیں دیتا، عام باتوں کو نہیں سمجھتا، اور چھوٹی سی تبدیلی پر شدید بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسکول میں دوسرے بچے آپس میں دوستی کر لیتے ہیں، مل کر کھیل لیتے ہیں، مگر آٹزم والا بچہ اکثر اکیلا رہ جاتا ہے۔ والدین دن رات یہ سوچ کر کوفت میں رہتے ہیں کہ ان کا بچہ کب اور کیسے دنیا کے ساتھ چل پائے گا، وہ کہاں تک خود کفیل ہو سکے گا، اور ان کے بعد اس کا کیا بنے گا۔ یہ وہ کرب ہے جو ہر دن، ہر لمحے ان کے دل کو کاٹتا ہے، اور جسے سمجھنے کے لیے محض کتابی علم کافی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے احساس ضروری ہے۔

پاکستان کے لیے یہ خبر خاص طور پر اہم ہے۔ ہمارے ملک میں پیراسیٹامول سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا ہے، اکثر بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے۔ عام لوگ اسے بالکل محفوظ سمجھتے ہیں اور حمل کے دوران بھی خواتین روزانہ کئی دن تک استعمال کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم بھی وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو امریکی حکام اب تسلیم کر رہے ہیں؟

ذمے دارانہ رویہ یہ ہے کہ ہم گھبراہٹ پھیلانے کے بجائے سائنسی حقائق کو سامنے رکھیں۔ پہلی بات یہ کہ پیراسیٹامول اب بھی درد اور بخار کے لیے ایک مؤثر اور نسبتاً محفوظ دوا ہے، مگر حمل کے دوران اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے وقت اور ڈاکٹر کے مشورے سے مشروط کریں۔ دوسری بات یہ کہ حکومت، ریگولیٹری اتھارٹی اور میڈیکل کالجز کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر آگاہی مہم چلائیں، تاکہ عوام کو سمجھایا جا سکے کہ ’’محفوظ‘‘ دوا بھی بعض اوقات احتیاط مانگتی ہے۔

یہ وقت ہمارے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر دنیا کی بڑی ایجنسی احتیاط برت رہی ہے، تو ہمیں بھی چاہیے کہ پاکستانی مریضوں کے حق میں احتیاط کو اپنائیں۔ دوا ساز کمپنیوں، فارماسسٹوں اور ڈاکٹروں کی ذمے داری ہے کہ وہ مریض کو صحیح مشورہ دیں، اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو حقائق بتائے۔

ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ عوام کا اعتماد صحت کے نظام پر اسی وقت قائم رہتا ہے جب ہم سچائی اور احتیاط کو سامنے رکھتے ہیں۔ پیراسیٹامول کی یہ مثال ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ علاج کے ساتھ ساتھ شفافیت اور ذمے داری بھی اتنی ہی ضروری ہیں۔ یہ ایک اور الارم ہے اگر ہم آج احتیاط اور سچائی کو اپنانے کا حوصلہ نہیں کر پاتے تو کل یہ اور اس طرح کے پر بولتے طوفان بے قابو ہوں گے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین تنازع کے حل اور غزہ میں امن کیلئے پاکستان مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، عمران گورایہ
  • عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار
  •  پنجاب میں دریاؤں کی صورتحال نارمل، سیلاب متاثرین کی گھروں کی واپسی
  • 16 کروڑ سال پرانی مخلوق: اسکاٹ لینڈ میں سانپ اور چھپکلی کے ملاپ جیسا قدیم جانور دریافت
  • کردار اور امید!
  • سمندری طوفان بوالوئی سے ویتنام میں تباہی‘ ہلاکتیں 51 ہوگئیں
  • باجوڑ میں خوارج کیجانب سے گھروں کے اندر کھودی گئی خفیہ سرنگوں کا انکشاف
  • امریکی تحقیق کے مطابق بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم کا ایک ممکنہ کردار
  • سموگ کا خاتمہ، گھروں میں فری پلانٹس کی ڈلیوری جاری
  • پروین بابی کی بائیوپک سیریز؛ کون سی اداکارہ کردار ادا کریں گی؟