وی ایکسکلوسیو: نظام کی بقا کے لیے خود کو مائنس کیا ورنہ اسمبلی توڑ دیتا تو آج بھی وزیراعظم ہوتا، چوہدری انوارالحق
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم چوہدری انوارالحق کا کہنا ہے کہ وہ اسمبلی توڑ دیتے تو آج بھی وزیراعظم ہوتے لیکن انہوں نے نظام کی بقا کے لیے خود کو مائنس کرتے ہوئے کرسی چھوڑ دی۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب، فیصل ممتاز راٹھور وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں عہدے سے ہٹانے کے عمل کو صرف حاصل شدہ ووٹس کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا کیونکہ عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو ہٹانے اور نئے وزیراعظم کے انتخاب دونوں کے لیے ایک ہی ووٹ استعمال ہوتا ہے۔
چوہدری انوارالحق نے کہا کہ اگر وہ اسمبلی تحلیل کر دیتے تو شاید آج بھی وہ وزیراعظم کے طور پر انٹرویو دے رہے ہوتے تاہم انہوں نے پرامن انتقال اقتدار کو ترجیح دی۔
انہوں نے بتایا کہ اسمبلی میں 53 ارکان ہیں اور سادہ اکثریت کے لیے 27 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے 8 ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی اور بعد ازاں یہ مؤقف اپنایا کہ حکومت بنا کر اپوزیشن میں بیٹھا جائے گا جو ان کے بقول ایک غیرمعمولی مؤقف ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی برس ایک’رولر کوسٹر رائیڈ‘ ثابت ہوئے جس میں عدم اعتماد کا تصور کئی مرتبہ سامنے آیا اور موجودہ تحریک دنیا کی پہلی پارلیمانی تاریخ میں 28 دن تک چلنے والی عدم اعتماد کی تحریک تھی۔
مزید پڑھیے: جتھوں کے زور پر مطالبات مانوں گا اور نہ ہی اسمبلی توڑوں گا، وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق
انہوں نے کہا کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز بخوبی جانتے تھے کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔
’میری ذات سے کیا اختلاف تھا؟‘انوارالحق کے مطابق ریاست میں جب بھی کوئی شخص اسٹیٹس کو چیلنج کرتا ہے اور مختلف طبقات کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے تو ردعمل شدید ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سسٹم میں صرف وہی وزیراعظم مائنس ہوئے جبکہ کابینہ کا بیشتر حصہ اب بھی موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان پر آئینی انتشار کے الزامات لگائے گئے جن کا جواب انہوں نے میڈیا میں دیا۔ ان کے بقول ریاست میں پھیلنے والا عدم استحکام’مینجڈ اَن ریسٹ‘ تھا اور وقت آنے پر اس کے پس منظر، ایکشن کمیٹیز اور مبینہ اسپانسرشپ سب سامنے آ جائیں گی۔
مزید پڑھیں: انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع، فیصل راٹھور نئے وزیراعظم آزاد کشمیر نامزد
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان کے نظریے اور تحریک تکمیلِ پاکستان پر ایمان کی حد تک یقین ہے اور وہ اسی نظریے کے سپوت ہیں۔ اسٹیٹس کو سے ٹکرانے کی وجہ سے انہیں سخت سیاسی فیصلے کرنے پڑے۔
فیصلہ سازی میں تاخیر کے الزام کی تردیدانہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ان کے دور میں فیصلے نہیں ہوتے تھے۔
ان کے مطابق اگر فیصلے نہ ہوتے تو ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے اور بجٹ لیپس ہونا چاہیے تھا لیکن ان کے دور میں ایک پائی بھی ضائع نہیں ہوئی۔
انوارالحق نے کہا کہ وہ ہر سال بجٹ 20 جون کو بند کر دیتے تھے تاکہ آخری دنوں میں کی ہونے والی ’چاندی‘ روکی جا سکے۔ تمام فیصلے رولز آف بزنس کے مطابق ہوئے اور ان کے دفتر میں موجود ہزاروں فائلوں میں کوئی اختلافی نوٹ موجود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تحریک عدم اعتماد: وزیراعظم آزاد کشمیر انوارالحق استعفیٰ دیں گے یا نہیں؟ خود بتا دیا
انہوں نے بتایا کہ 3 جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل حکومت چلانا آسان نہیں تھا اور قومی سلامتی کے اداروں سے مسلسل مشاورت بھی ضروری ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’میں رول آف لا پر گورننس کمپرومائز نہیں کرتا۔‘
مراعت اور اخراجات سے متعلق الزاماتسابق وزیراعظم نے کہا کہ انہیں اپنی مدت کے دوران نہ کوئی غیرضروری مراعات حاصل ہوئیں نہ مالی بے ضابطگی کا کوئی ثبوت موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بطور اسپیکر اور بطور اسمبلی ممبر بھی پینشن نہیں لیتے۔
وزیراعظم ہاؤس کے بجٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کو انہوں نے ’جہالت پر مبنی صحافت‘ قرار دیا اور کہا کہ بجٹ اور اصل اخراجات میں فرق سمجھنا ضروری ہے جبکہ اے جی آفس کے ریکارڈ سے ان کے تمام بلوں کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ برسوں سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور اب بھی سرکاری رہائش دستیاب نہ ہونے پر کرائے کے گھر کے ایک پورشن میں منتقل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سیاسی صورتحال اور آنے والا دورانہوں نے کہا کہ ریاست میں جب بھی کسی کے غیر قانونی مفادات کو چھیڑا جائے تو ردعمل سامنے آتا ہے خواہ تعلق صحافت سے ہو یا سیاست سے۔
فیصل راٹھور کی بطور وزیراعظم نامزدگی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کا فیصلہ تھا کیونکہ وہ پارٹی کے اندر اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق پارٹی کی قیادت کو اگر فیصلہ کرنا تھا تو پہلی اور آخری ترجیح فیصل راٹھور ہی تھے۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر: وزیراعظم انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے لیے اسمبلی اجلاس طلب
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فیصل راٹھور کی حکومت نسبتاً آسان مرحلے میں آئی ہے کیونکہ ریاست میں احتجاجی ماحول سردیوں کی وجہ سے کمزور پڑچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں رقم موجود ہے اور ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ادارہ جاتی اکھاڑ پچھاڑ نہ کی گئی، تو وہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ایکشن کمیٹی کا بیانیہ اب کمزور ہو رہا ہے تاہم کچھ عناصر اب بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات پر سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت سمیت کسی نے اس بیانیے کا جواب نہیں دیا۔
’انڈیا میری جراتِ گفتار سے آج بھی پریشان ہے‘انوار الحق نے کہا کہ وہ نظریاتی انتشار کے الزامات کا سامنا کر چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت اور حساس ادارے ان کی تقاریر سے نالاں رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: میں نے وزیراعظم رہنا ہوتا تو کون روک سکتا تھا؟ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انورالحق کا اسمبلی میں خطاب
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مؤقف پر کھل کر بات کرنے کے باعث بھارت نے ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی حتیٰ کہ ان کے خطابات کو غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد کشمیر سابق وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سابق وزیراعظم ا زاد کشمیر چوہدری انوارالحق وی نیوز چوہدری انوارالحق انہوں نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد انہوں نے کہا کہ انوارالحق کے فیصل راٹھور ریاست میں کے مطابق کے خلاف آج بھی کے لیے
پڑھیں:
ای چالان سندھ کے دیگر شہروں میں کیوں نافذ نہیں کیا گیا؟
کراچی:شہر قائد میں ای چالان سسٹم نافذ کیے جانے کے بعد شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ یہ نظام سندھ کے دیگر شہروں میں کیوں نافذ نہیں کیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام پاور کاسٹ میں ڈی آئی جی ٹریفک سید پیر محمد شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے ای چالان سسٹم صرف کراچی میں نافذ کرنے اور سندھ کے دیگر شہروں میں نافذ نہ کیے جانے کے سوال کا جواب دیدیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ای چالان سسٹم صرف کراچی میں نافذ ہے اور باقی سندھ میں ہم ایک یا دو ماہ سے ڈمی چالان جاری کر رہے ہیں، جس کے بعد یہ نظام بہت جلد اب صوبے کے دیگر شہروں میں بھی نافذ کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس نظام کا آغاز صرف کراچی میں ہوا اور باقی سندھ میں نہیں، اس سوال کا جواب تو آئی جی سندھ ہی دے سکتے ہیں، میں کراچی کا ڈی آئی جی ہوں، اس لیے کراچی کا ذمے دار ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نظام فی الوقت کراچی میں نافذ ہے، لیکن اسے بہت جلد دیگر شہروں میں بھی نافذ کریں گے، کیوں کہ یہ ترمیم پورے سندھ میں لاگو کی گئی ہے۔