چولستان کے اونٹ کیوں مر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
جنوبی پنجاب کا علاقہ چولستان 3 اضلاع بہاولپور ،بہاولنگر اور رحیم یار خان پر مشتمل ہے۔ چولستان میں کل انسانی آبادی پونے 2 لاکھ ہے اور ان چولستانیوں کا روزگار صرف اور صرف مال مویشی پالنا ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق وسیع وعریض صحرائے چولستان میں 20لاکھ جانور ہیں جن میں 13لاکھ بھیڑ بکریاں ،5لاکھ گائے اور 28ہزار اونٹ شامل ہیں۔
چولستان میں بھوک اور پیاس سے مرنے والے جانوروں میں اونٹ کی شرح بہت کم ہے، جبکہ گائے اور بھیڑ بکریوں کی بہت بڑی تعداد بھوک اور پیاس سے مر جاتی ہے جس سے چولستانیوں کو خشک سالی کے دوران بڑے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چولستان میں اونٹ میں خارش کی بیماری بھی عام ہوتی ہے جو ایک اونٹ سے دوسرے اونٹ اور جانوروں تک پھیلتی ہے لیکن اس بیماری سے بھی اونٹ کے مرنے کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔لیکن حالی ہی میں رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے چولستانی علاقہ یونین کونسل ٹھنڈی چالیس آر ڈی میں فلو سے 3 دن میں 10 سے زائد اونٹ مر گئے ہیں۔
ان اونٹوں کی قیمت دو لاکھ سے لے کر 8لاکھ روپے تک بتائی جاتی ہے جو کہ ان کے مالکان مویشی پال کے لیے بہت بڑا مالی نقصان ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سے زائد اونٹوں کی آبادی رکھنے والے اس علاقے میں مختلف لوگوں کے 20 سے زائد اونٹ اب تک اس مہلک بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔اونٹوں کی جان لینے والی اس بیماری کے اتنے جلدی پھیلنے سے مقامی لوگ بہت پریشان ہیں کیونکہ ان کا روزگار صرف اور صرف اونٹوں اور ان کی خریدوفروخت پر منحصر ہے۔
جانوروں کے ماہرین کے مطابق اگر اس بیماری پر فوری طور پر قابو نہ پایا جا سکا تو یہ بیماری چولستان کے دوسرے اونٹوں میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔
مقامی اونٹ پال اللہ ڈیویا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اونٹوں کو نزلہ اور کھانسی ہوئی اور وہ اسے معمولی بیماری سمجھتے رہے لیکن یہ بیماری ان کے اونٹوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی ہے اور اب تک کم از کم 10 اونٹ اس کا شکار ہو کر مر چکے ہیں۔
اتنے اونٹوں کی ہلاکت کے بعد محکمہ لائیو اسٹاک صادق آباد کی ٹیم متاثرہ علاقہ میں پہنچ کر جانوروں کی ویکسینیشن شروع کر رہی ہے، لیکن یہ بیماری بری تیزی سے ایک اونٹ سے دوسرے اونٹ میں منتقل ہو رہی ہے۔
محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈاکٹر محمد مظہر کے مطابق ۳ دن پہلے انہیں اس بیماری کا علم ہوا جب بیماری دوسرے اونٹوں میں بھی پھیل چکی تھی۔ ان کے مطابق جب وہ اپنی ٹیم کے ساتھ متاثرہ علاقے میں پہنچے تو انہوں نے اونٹوں میں ناک سے پانی آنے اور سانس لینے میں دشواری کی علامات دیکھیں۔
لائیو سٹاک کا عملہ رحیم یارخان سے لیبارٹری کی ٹیم بھی ساتھ لے کر گیا اور انہوں نے 15اونٹوں کے خون کے نمونے لیے ہیں۔
ڈاکٹر مظہر کا کہنا ہے کہ بظاہر تو فلو اور نمونیا کی علامات لگتی ہیں مگر اس کی درست تشخیص نمونہ جات کے ٹیسٹ کے بعد ہو گی۔
ڈپٹی کمشنر رحیم یار خاں ظہیر انور جپہ کا کہنا ہے کہ متاثرہ اونٹوں کی ویکسینیشن کر دی گئی ہے جس کے بعد بیماری پر قابو پائے جانے کی امید ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چولستان میں دوسرے اونٹ اونٹوں کی کے مطابق
پڑھیں:
پاکستانی سولر صارفین کا رجحان آف گرڈ سولر سسٹم کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
پاکستان میں بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر لاکھوں گھر، دکانیں اور فیکٹریاں نیشنل گرڈ سے مکمل طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سستے سولر پینل کی تیاری آغاز، بجلی کے بلوں سے پریشان صارفین کے لیے بڑا ریلیف
پاور ڈویژن کے مطابق ملک بھر میں 12 سے 13 ہزار میگاواٹ سے زائد آف گرڈ سولر سسٹم نصب ہو چکے ہیں، اور سولر ماہرین کے مطابق آف گرڈ سسٹم کا رجحان اب سولر صارفین میں بڑھ رہا ہے۔
نیٹ میٹرنگ اور حکومتی پالیسیوں سے بے اعتمادیسولر انڈسٹری سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہ صارفین ہیں جو نہ تو نیٹ میٹرنگ کے جھنجھٹ میں پڑنا چاہتے ہیں اور نہ حکومتی پالیسیوں کے رحم و کرم پر رہنا چاہتے ہیں، بلکہ اپنی چھت پر سولر پینل اور بیٹری لگا کر 24 گھنٹے اپنی بجلی خود پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
آف گرڈ تنصیبات میں تیزی، انجینیئر نور بادشاہانجینیئر نور بادشاہ کا کہنا ہے کہ آف گرڈ سولر اب پاکستان کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا توانائی کا شعبہ ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اصل میں 15 ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ آف گرڈ تنصیب ہو چکی ہے کیونکہ 70 فیصد سے زائد صارفین رجسٹر ہی نہیں کرواتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ’جب گرڈ پر بھروسہ ہی نہیں تو نیٹ میٹرنگ کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ عرصے میں ہمارے آف گرڈ سسٹمز کی تنصیب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے لوگ 5–10 کلو واٹ لگاتے تھے، اب اوسط سسٹم 20 سے 50 کلو واٹ کا ہے۔ گاہک کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ’مجھے گرڈ سے مکمل آزاد کر دو، بل صفر چاہیے‘۔
نیٹ میٹرنگ پالیسیوں کے اثرات، شرجیل احمد سلہریسولر توانائی کے ماہر شرجیل احمد سلہری کا کہنا تھا کہ حکومت نے نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس لگا کر اور نئی پالیسیاں بنا کر جو سبق پڑھایا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آف گرڈ کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اب سولر کو آپ بھول جائیں، امریکی ’انورٹر بیٹری‘ نے پاکستان میں تہلکہ مچا دیا
لتھیم بیٹریوں کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک عام 3 بیڈ روم گھر اب 15 کلو واٹ پینل + 20 کلو واٹ بیٹری لگا کر سال بھر میں 3 سے 4 لاکھ روپے کا بل بآسانی بچا سکتا ہے۔
صارفین کے تجربات، راولپنڈی کے عدنان جنجوعہراولپنڈی کے رہائشی عدنان جنجوعہ آف گرڈ سولر سسٹم سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے 5 کلو واٹ پینل اور 15 کلو واٹ لتھیم بیٹری لگائی۔ میرا ماہانہ بل صفر روپے ہو گیا۔ اب مجھے لوڈشیڈنگ، فیول ایڈجسٹمنٹ، ٹیکس یا حکومتی پالیسی سے کوئی غرض نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گرڈ کا میٹر تو شوپیس بنا دیا ہے، کیونکہ حکومت کی ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی نئی پالیسی سننے کو ملتی ہے۔ کبھی ایک مسئلہ، کبھی دوسرا۔ بہتر ہے کہ بیٹری لے لی جائے۔
کیا آف گرڈ رجحان رکے گا؟ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ آف گرڈ انقلاب اب رکنے والا نہیں۔ جب تک بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی نہیں آتی اور گرڈ کی ساکھ بحال نہیں ہوتی، لاکھوں پاکستانی ہر ماہ گرڈ کو چھوڑتے رہیں گے اور اپنی چھتوں کو اپنا ذاتی پاور ہاؤس بناتے رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان سولر پینل گرڈ اسٹیشن گرڈ میٹر