’’بلیو اکانومی‘‘ پالیسی کی تیاری
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
ہزاروں سال سے سمندر کے راستے تجارت ہورہی ہے اور جب تجارتی جہاز ایک ساحلی بندرگاہ سے دوسرے کسی براعظم کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے ہیں تو اپنے ساتھ مال تجارت کے علاوہ تہذیبوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی زبان سیکھنے کے مواقعے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ دوستی بھائی چارے کے پیغام کے ساتھ آپس میں گھلنے ملنے کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں۔ ہنر و فن، دستکاری اور اس طرح کے بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے آگاہی ہوتی ہے، ایک ملک کی دوسرے ملک سے شناسائی ہوتی ہے۔
انھی بحری راستوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک سفارتکاری ہوتی رہی ہے۔ شعبے تعینات ہوتے رہے ہیں، دنیا بھر میں اب اس بحری عالمی تجارت، اس بحری دولت، بحری وسائل سمندر میں چھپی معدنیات زیر سمندر تیل و گیس کے ذخیروں کی تلاش اور اس بحری خزانے سے استفادے کے نام کو اب ’’بلیو اکانومی‘‘ کہا جانے لگا ہے۔
بہت سے ممالک ایسے ہیں جو آج سے کئی عشرے قبل سے اس دولت کو سمیٹ کر اس سے متعلق بلیو اکانومی پالیسی بنا کر اپنے خزانے بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ اب بھی دنیا بھر کے ساحل اپنے اپنے ملکوں کو پکار رہے ہیں کہ آئی ایم ایف یا کسی اور کے پاس نہ جاؤ، اپنے وسائل اپنے ذرایع اپنے سمندر اپنے ساحل کو ذرا تراش لو۔ تو دیکھو ہم زر و جواہر کے ڈھیر لگا دیں گے، بہت سے ملکوں نے بہت پہلے اس آواز پر کان دھر لیا تھا۔ پاکستان اس جانب متوجہ ہوا۔ پہلے تھوڑی بہت توجہ تھی اور سمندری تجارت کا اہم ترین جز مچھلیاں ایکسپورٹ کرکے لگ بھگ کبھی 50 کروڑ ڈالر کبھی 45 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کر لیتا تھا۔
لیکن کچھ عرصے سے پاک نیوی جس کی حکمرانی کافی عرصے سے بحیرہ عرب پر قائم تھی، اس کے اصرار پر حکومت پاکستان نے اس جانب اب بھرپور توجہ دی۔ پہلے بھی کچھ توجہ تھی لیکن اس مرتبہ وزارت بحری امور نے سمندری شعبے کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے جامع ’’بلیو اکانومی پالیسی‘‘ کی تیاری کا کام شروع کر دیا ہے اور یہ منصوبہ بندی 100 ارب ڈالر سے زائد آمدن لانے کا ذریعہ بنے گی۔ اب اسے مستقبل کا خواب نہیں سمجھا جائے گا بلکہ آج کی ترجیح ہوگی۔
پاکستان میں بلیو اکانومی سے جڑا ماہی گیری کا شعبہ ہے۔ یہ شعبہ جدید ٹیکنالوجی اور مہارت سے محروم ہے اس لیے اس کی کارکردگی بھی کچھ زیادہ نہ رہی اب بلیو اکانومی منصوبے کے تحت اس شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ مچھلی کی برآمدات کو کم ازکم 10 سے 15 ارب ڈالر تک لے جایا جا سکے۔ پہلے ماہی گیری شعبے کی برآمدات کا عالمی مارکیٹ میں بالکل قابل ذکر کوئی حصہ نہیں تھا لیکن اب امید ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی، جدید کولڈ چین وغیرہ سے برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔
کراچی کے ساحلی علاقوں میں زیر سمندر گیس اور تیل کے ابتدائی ذخائر کا تخمینہ 100 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس شعبے کو منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے۔ میرین یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ماہی گیروں کی جدید ترین خطوط پر تربیت مہیا کی جائے گی۔ کراچی کے ساحلوں کے نزدیک آلودگی پھیلتی چلی جا رہی ہے امید ہے اس جانب بھی توجہ دی جائے گی۔ اس طرح وقت آ گیا ہے کہ ’’بلیو اکانومی پالیسی‘‘ تیار کرکے سمندر کی وسعتوں سے سونا کشید کیا جائے۔ بلوچستان میں گڈانی کا خوبصورت ساحل اب صرف جہاز توڑنے کا مقام بن کر رہ گیا ہے۔
اس میں بھی اب کمی واقع ہو گئی ہے اگر اس ساحل کی خوبصورتی کے لیے سرمایہ کاری کی جائے وہاں پر سرمایہ کاری کرنے سے مقامی آبادی کو روزگار بھی میسر آئے گا اور دنیا بھر سے سیاح بھی بڑی تعداد میں آ سکتے ہیں لیکن یہاں پر پہلا مسئلہ امن و امان ہے جسے حکومت امن قائم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرے جوکہ بلیو اکانومی پالیسی کا حصہ بھی ہو۔ اسی طرح کنڈ ملیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے بھی ایک اچھا خاصا تفریحی سیاحتی ساحل بنانے میں سوائے سرمایہ کاری کے اور کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔
’’ہنگول نیشنل پارک‘‘ میدانی ساحلی اور پہاڑی سلسلے پر مشتمل خوبصورت مناظر کی دولت سے مالا مال ساحلی پٹی ہے۔ پھر کراچی سے ساڑھے چار سو میل دور ’’پسنی‘‘ کی بات ہی کچھ اور ہے جو خوبصورت ساحل کے ساتھ نایاب آبی حیات کے لیے بھی مشہور ہے اور پھر جیوانی جسے پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی دینا ہوگی، اس کے ساتھ بلوچستان کے امن و امان کے مسائل کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔ اگر ان تمام تر ساحلی مقامات کو نیلی معیشت سے بدل دیتے ہیں تو یہ مقامی بے روز گار افراد کے لیے روزگار کا جاذب نظر ذریعہ بن جائے گا جس سے امن و امان کے مسائل کو بھی تیزی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
جس طرح کہا جا رہا ہے کہ بلیو اکانومی پالیسی کی تیاری کا آغاز کر دیا گیا ہے اگر درست منصوبہ بندی کرلی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں ساحلی سیاحت، محفوظ جہاز رانی، تجارتی جہازوں کو ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خوراک اور وسائل کی تلاش کا کام تیز تر کیا جاسکتا ہے۔
معدنیات تیل و گیس کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے اور یوں پائیدار بلیو اکانومی پالیسی کے ذریعے مقامی افراد کے لیے روزگار کے ہزاروں نہیں لاکھوں مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں جس سے 100 ارب ڈالر کی آمدن کم ہے اس سے کہیں زیادہ حاصل ہو سکتا ہے اور لاکھوں افراد کو روزگار کی فراہمی کا خواب کی تعبیر مل کر رہے گی لیکن اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے بس ہمت مرداں مدد خدا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ارب ڈالر کے لیے گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
حزب اللہ کی مزاحمت و مقاومت میں خواتین کا کردار
لبنان کی ایک ماہر تعلیم اور تربیتی اور تعلیمی مشیر محترمہ فاطمہ نصراللہ نے اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان کی مزاحمت کے مرکز میں خواتین اپنے روایتی کرداروں سے ہٹ کر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف مائیں اور بیویاں ہیں بلکہ انہیں ایک مزاحمتی معاشرے کے تسلسل کا بنیادی ستون اور آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے ایک زندہ درسگاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ خواتین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ انٹرویو: معصومہ فروزان
جبر اور جارحیت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد میں مصروف معاشروں میں خواتین کا کردار گھر اور خاندان کی حدود سے ماورا ہو جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ماؤں اور بیویوں کے طور پر بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے استاد،مربی، سرپرست اور رہنما کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ عزت،وقار، ہمت اور قربانی کی اقدار کے ساتھ بچوں کی پرورش ایک اہم اقدام ہے اور یہ تربیت ماضی اور آنے والی نسلوں کے درمیان گہرا رشتہ اور تعلق پیدا کرتی ہے اور اسے ثقافتی اور سماجی شناخت اور مزاحمت کے تسلسل کا بنیادی ستون بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں خواتین آنے والی نسلوں کی روح اور ایمان کی تشکیل کا بنیادی محور ہوتی ہیں اور اسلامی مزاحمت کے لئے ان کا اثر کسی بھی فوجی ہتھیار یا آلے سے کم نہیں ہوتا ہے۔
لبنان کی ایک ماہر تعلیم اور تربیتی اور تعلیمی مشیر محترمہ فاطمہ نصراللہ نے اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان کی مزاحمت کے مرکز میں خواتین اپنے روایتی کرداروں سے ہٹ کر ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف مائیں اور بیویاں ہیں بلکہ انہیں ایک مزاحمتی معاشرے کے تسلسل کا بنیادی ستون اور آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے ایک زندہ درسگاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ خواتین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔
انہوں نے آنے والی نسلوں کی شخصیت کی تشکیل میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ "مزاحمتی معاشرے میں خواتین ایک ایسی درسگاہ ہیں جو اپنے بچوں کو عزت و وقار کو برقرار رکھنے، اس کی حفاظت کرنے، وطن کی سرزمین سے محبت کرنے اور کسی بھی جارح کے خلاف اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔ تمام شعبوں میں سرگرم، باشعور اور مجاہد خواتین کی موجودگی لبنان کی اسلامی مزاحمت کی پہچان ہے۔ یہ خواتین اپنے خاندانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو عزت و آبرو اور جارح کے خلاف قیام کے لئے تربیت کرتی ہیں۔ اس تربیت شدہ نسل کا دشمن بھی آسانی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔
محترمہ فاطمہ نصراللہ نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ "شہید ماؤں کی خصوصیت ایسی ہے جسے دشمن شاید ہی سمجھ سکیں۔ وہ مائیں جو اپنے بچے کے شہید ہونے پر غمزدہ نہیں ہوتیں، بلکہ اس پر فخر کرتی ہیں اور اسے وطن اور قوم کے لیے قربانی سمجھتی ہیں۔" چہروں پر مسکراہٹ لیے اپنے بچوں کو محاذ پر بھیجنے والی مائیں ایک ایسی نسل کی پرورش کرتی ہیں جو شہادت کو فتح کا آغاز سمجھتی ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔ یہ مائیں اپنے بچوں کو ایمان اور حوصلے کے ساتھ سچائی اور معاشرے کے دفاع کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ "اگرچہ اسلامی مزاحمت کے دشمن مزاحمتی معاشرے کی روایات، ثقافت اور رسوم و رواج کی بغور نگرانی کرتے ہیں، لیکن شہید ماؤں اور مجاہد خواتین کے جذبے کی گہرائی کو وہ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی ہتھیار یا فوجی آلہ ان خواتین کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کو حق کی راہ پر گامزن کیا اور دشمن کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنے کا درس دیا۔ ان خواتین کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی آنے والی نسلیں ایمان اور حوصلے کے ساتھ میدان جنگ میں نمودار ہوں گی اور اپنے وطن اور قوم کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کریں گی۔ دشمن کتنی ہی کوشش کریں وہ فتح اور مزاحمت کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ اس نسل کی پرورش میں مضمر ان خواتین کی تربیت ایک ایسا انمول خزانہ ہے جو لبنان کی حزب اللہ کو میسر ہے۔
"فاطمہ نصراللہ" نے اپنے انٹرویو کے اختتام میں کہا ہے کہ "دشمنوں کے لیے ایک ایسی نسل کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے جو باشعور، فعال اور مجاہد خواتین کے ذریعے پروان چڑھی ہو۔" یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ خواتین، جو کہ مزاحمت کا مرکز ہیں، نہ صرف گھر اور خاندان میں بلکہ قوموں کی مزاحمت کی تاریخ میں بھی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں اور انشاءاللہ دشمن کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام اور بے نتیجہ رہے گی۔