پاکستان اور بھارت کے مابین لڑائی میں فاتح کون؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مئی 2025ء) سیزفائر کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں ہی دعوے کر رہے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نے چار دنوں پر محیط حالیہ لڑائی میں اپنے مقاصد حاصل کر لیے۔ اس لڑائی کا آغاز پاکستان میں ان متعدد مقامات پر بھارت کے فضائی حملوں سے ہوا تھا، جہاں نئی دہلی کے مطابق دہشت گردی کا انفراسٹرکچر موجود تھا۔
یہ حملے اپریل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام حملے کے جواب میں کیے گئے۔ پہلگام حملےمیں میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا ذمہ دار بھارت پاکستان کو ٹھہراتا ہے جبکہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ کس کا کتنا نقصان ہوا؟کارنیگی تھنک ٹینک سے منسلک ایشلی ٹیلس نے پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ لڑائی کے بارے میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''اگر جیت کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے کہ کس نے کتنے ایسے طیارے کھوئے، جنہیں اڑانے کے لیے پائلٹ کی موجودگی ضروری ہے، تو بھارت یقینی طور پر یہ لڑائی ہار گیا۔
(جاری ہے)
‘‘تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت ''مؤثر طریقے سے پاکستان کے کئی سرفیس ٹارگٹس کو روکنے میں کامیاب بھی ہوا، جس سے پاکستان کو خاطر خواہ نقصان ہوا۔‘‘
یونیورسٹی آف اوسلو کے فابیان ہوفمان نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے حریف ملک کے طیاروں کو مار گرانے کے دعوے بھی کیے ہیں، تاہم اس مضمون کی تصنیف تک ان کا کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے مزید کہا، ''جو چیز نمایاں ہے، وہ حریف ملک میں ملٹری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کے لیے دونوں طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے روایتی سسٹمز کا بڑے پیمانے پر استعمال ہے۔ ان کے اہداف میں دونوں ممالک کے دارالحکومت کے قریب واقع مقامات بھی شامل تھے۔‘‘اس کے علاوہ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے پانچ بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا، جن میں تین جدید فرانسیسی رافال طیارے بھی شامل تھے۔
پاکستان کے مطابق یہ طیارے بھارتی حدود میں گرائے گئے تاہم نئی دہلی نے اب تک اس حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔اے ایف پی نے جب رافال طیارے بنانے والی کمپنی ڈاسو (Dassault) سے رابطہ کیا، تو اس کی جانب سے اس مضمون کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ تاہم اے ایف پی کی رپورٹ میں یورپی عسکری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان نے کم از کم ایک رافال طیارہ تو مار گرایا ہو گا، لیکن ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کہ بھارت کے تین رافال طیارے تباہ کر دیے گئے ہوں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ رافال طیارے کو چینی میزائل PL-15E کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور اس کا ملبہ بھارتی ریاستی حدود کے اندر ملا۔
م ا / م م (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اے ایف پی بھارت کے
پڑھیں:
بھارت کی آبی جارحیت اور مذموم ہتھکنڈے
بھارت نے ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کو پاکستان کے ساتھ آبی معاہدے پر فیصلہ دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے، بھارت نے کبھی اس عدالت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق بھارت حسب عادت بغیر اطلاع کے دریائے ستلج اور جہلم میں مزید پانی چھوڑ رہا ہے، جس سے شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، وسیع پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
بھارت نے اپنے جارحانہ رویے اور آبی وسائل پر غیر قانونی قبضے کے ذریعے خطے میں نہ صرف پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ عالمی آبی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا، پانی کے انتظام میں ایک تاریخی دستاویز ہے، لیکن بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کے آبی حقوق کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور باہمی تعاون کا ایک سنگ بنیاد ہے، جس کا مقصد خطے میں امن و امان کو برقرار رکھنا تھا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی اور مذموم حکمت عملی کے ذریعے اسے ہمیشہ کمزور کیا ہے۔
بھارت کا بین الاقوامی ثالثی عدالت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی قانونی حیثیت سے انکار کرنا پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ یہ عدالت سندھ طاس معاہدے کے تحت طے پانے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف سفارتی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
اس رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے مقاصد کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے، چاہے اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوں اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ’آبی جارحیت‘ ہے جو بھارت کے بانی نظریات اور فلسفے کی بھی توہین ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے جو طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جس کا تعارف کبھی گاندھی کے عدم تشدد اور نہرو کے سیکولر ازم سے کیا جاتا تھا۔ لیکن آج، اسی بھارت نے وہ روپ دھار لیا ہے، جس سے کبھی آزادی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ اب وہ ملک جو کبھی نوآبادیاتی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، خود ایک نئے سامراج کا پرچارک بن چکا ہے۔ نئی دہلی نے اب وہی کردار اپنا لیا ہے جو کسی زمانے میں وائسرائے ہند کا تھا یعنی ازخود فیصلہ کرنا، نقشہ کھینچنا اور اپنی سوچ کی مخالفت یا مزاحمت کرنے والوں کو طاقت سے خاموش کر دینا۔چھ مئی کو بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ وہی معاہدہ جو 1960سے اب تک تین جنگوں کے باوجود قائم رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی مثال تھی کہ دشمن ممالک بھی تعاون کر سکتے ہیں، لیکن اب یہ بھی بھارت کی جارحیت کی نذر ہو چکا ہے۔
دریاؤں کو ہتھیار بنا کر پانی کی فراہمی کو روکنے کی دھمکی دراصل ایک نئی قسم کی جنگ ہے۔ وہ جنگ ہے جس میں بندوقیں استعمال نہیں ہوتی بلکہ پانی روکنے کی صورت زندگی چھینی جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں پانی پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا بین الاقوامی برادری اس خاموش قتل پر خاموش ہی رہے گی؟ یہ وہی ملک ہے جس نے کبھی تقسیم کو المیہ کہا تھا مگر اب اسی تقسیم کو ووٹ بینک بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اِس پوری صورتحال کا افسوس ناک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھارتی جارحیت پر خاموش ہے۔ اقوام متحدہ، جو ہر عالمی تنازعے میں قراردادیں منظور کرتی ہے، یہاں بے بس دکھائی دیتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگوشیوں سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔ مغرب، جس نے امن، انصاف اور قانون کی دہائی دی تھی، آج بھارت کی منڈیوں اور ٹیکنالوجی کی چمک دمک کی وجہ سے اندھا ہو چکا ہے۔ دریائے ستلج اور جہلم میں بھارت کی جانب سے بغیر اطلاع پانی چھوڑنے کی حالیہ اطلاعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک جارحانہ قدم ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ سیلاب کی شدت میں اضافے سے زرعی زمینوں کو نقصان پہنچے گا، رہائشی علاقوں میں تباہی کا خدشہ ہوگا اور لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔
بھارت کی یہ غیر ذمے دارانہ حرکت خطے میں ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کے اثرات طویل مدت تک محسوس کیے جائیں گے۔پاکستانی حکام اور عوام کو اس صورتحال سے مکمل آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ خود کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھ سکیں۔ پانی کے بہاؤ پر مستقل نگرانی، سیلاب سے بچاؤ کے مؤثر اقدامات اور عوامی شعور کو بڑھانا اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ان غیر قانونی حرکات پر سخت ردعمل ظاہر کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائے اور خطے میں امن قائم رہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی سفارتی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرے اور بین الاقوامی فورمز پر بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف اپنے موقف کو واضح کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کی مقدار اور بہاؤ کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی غیر معمولی واقعے کو بروقت قابو میں لایا جا سکے۔
پانی کا مسئلہ اب صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کے لیے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف پاکستان کی کامیابی کا انحصار نہ صرف اس کی سفارتی محنت پر ہے بلکہ اس کی قومی یکجہتی، عوامی شعور اور حکومتی اقدامات پر بھی ہے۔ یہ مسئلہ ایک سنجیدہ قومی مسئلہ ہے جس کا حل صرف بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور باہمی تعاون سے ممکن ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کے وسائل پر قبضہ خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ بھارت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے کا عادی ہے، لیکن پاکستان کو اپنی قومی سلامتی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط اور متحد ہونا ہوگا۔ پانی کی بقا اور تحفظ کے لیے قومی سطح پر پالیسی سازی، قانونی چارہ جوئی، اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کی مذموم کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔یہ جدوجہد صرف پانی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے قومی وقار، خودمختاری اور خطے میں امن کے قیام کے لیے ہے۔
بھارت کی آبی جارحیت ایک ایسی جنگ ہے جو نہ صرف پانی کی تقسیم پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ خطے کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو ہر ممکنہ طریقے سے عالمی سطح پر اجاگر کرے اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو بے نقاب کرے تاکہ خطے میں امن و امان قائم رہ سکے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پانی کی قلت اور آبی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم عالمی سطح پر بھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ بھارت کا پاکستان کے دریاؤں میں غیر قانونی پانی چھوڑنا اور پانی کی آمد و رفت کو متاثر کرنا اس عالمی بحران کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اور باہمی اعتماد کی بحالی ضروری ہے، تاکہ پانی کے وسائل کو پرامن طریقے سے تقسیم کیا جا سکے اور دونوں ممالک کے عوام کو اس کا حق مل سکے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے آبی حقوق کا دفاع کرے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی اس جارحیت کو بے نقاب کر کے اسے قانونی و سفارتی محاذ پر بھی شکست دے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے اور بھارت کی اس آبی جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا موقف واضح کرے۔بھارت کی جانب سے آبی وسائل پر قبضہ اور معاہدوں کی خلاف ورزی خطے کی دیرپا ترقی اور امن کے لیے خطرہ ہے، اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اس کا بروقت حل نہ نکالا تو آنے والے وقت میں اس کے نقصان دہ اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو متاثر کریں گے۔ اس لیے تمام متعلقہ فریقین کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور مل کر پانی کے وسائل کے مؤثر انتظام کے لیے اقدامات کریں۔
پاکستان کی حکومت، سول سوسائٹی، اور عوام کو چاہیے کہ وہ پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لیے مشترکہ محنت کریں اور بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط اور متحد آواز بلند کریں تاکہ یہ خطہ پانی کے حوالے سے خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن سکے۔یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت اور اس کے مذموم ہتھکنڈے نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور بھارت کو اس کی کارروائیوں سے باز رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے تاکہ خطے میں امن قائم رہے اور پاکستان پانی کے حقیقی حق سے محروم نہ ہو۔