سی ڈی اے اور نسٹ کے درمیان میرٹ پر مبنی بھرتیوں کے لیے کمیوٹر بیسڈ امتحان کا آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 17 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)چیئرمین سی ڈی اے، چیف کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل سول ڈیفنس محمد علی رندھاوا کی ہدایت پر سی ڈی اے اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے درمیان طے پانے والے مفاہمتی یادداشت (MoU) کے تحت سی ڈی اے میں مختلف شعبہ جات کیلئے میرٹ پر مبنی شفاف بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جو ۱۹ مئی تک جاری رہے گا اس سلسلہ میں چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے نسٹ میں جاری کمپیوٹر بیسڈ امتحانی مرکز کا اچانک نہ صرف دورہ کیابلکہ امتحانی انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس موقع پر، ممبر ایڈمن، ممبر اسٹیٹ، ڈی جی ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ ، ڈی جی ریسورس سمیت دیگر متعلقہ افسران بھی انکے ہمراہ تھے۔

چیئرمین سی ڈی اے، چیف کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل سول ڈیفنس محمد علی رندھاوا نے کہا کہ سی ڈی اے کی انتظامیہ کا عزم ہے کہ بھرتیوں کا عمل مکمل طور پر شفاف، میرٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انجام دیا جائے۔ اس سلسلے میں نسٹ کے ساتھ معاہدہ ایک اہم قدم تھا جسکے تحت امیدواروں کی اہلیت کا اندازہ اور ریکروٹمنٹ کمپیوٹرائزڈ ٹیسٹ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ یہ نظام سفارشات کے کلچر کو ختم کرکے صرف اور صرف میرٹ اور قابلیت کو ترجیح دے گا۔

چیئرمین سی ڈی اے، چیف کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل سول ڈیفنس محمد علی رندھاوا نے کہا کہ سی ڈی اے کو تعلیم یافتہ، ہنر مند اور جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ افراد کی ضرورت ہے اور یہ ٹیسٹ سسٹم اس امر کو یقینی بنائے گا کہ ادارے کو بہترین افرادی قوت میسر آئے گی۔

تفصیلات کے مطابق سی ڈی اے اور نسٹ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت تمام امتحانات کمپیوٹر بیسڈ طریقے سے لئے جائیں گے، جنکی نگرانی اور رزلٹ کی تیاری کا عمل مکمل طور پر خودکار اور شفاف ہوگا۔ اس سسٹم کے ذریعے امیدواروں کی درخواستوں کی سکریننگ سے لے کر فائنل سلیکشن تک تمام مراحل میں کسی قسم کے انسانی مداخلت کے بغیر میرٹ کو یقینی بنایا جائے گا۔ سہہ روزہ ٹیسٹ کا سلسلہ 17 مئی تا 19 مئی تک نسٹ یونیورسٹی میں جاری رہے گا جسمیں تقریباً 3823 امیدوار ٹیسٹ میں حصہ لیں گئیں۔ کل تین سیشنز منعقد کئے جارہے ہیں، جن میں سے ہر سیشن میں 485 امیدواروں کے ٹیسٹ دینےکی گنجائش ہے۔ آج کے روز پہلے سیشن میں 297 امیدواروں نے شرکت کی جبکہ دوسرے سیشن میں 312 امیدوار موجود تھے۔ اسی طرح تیسرے اور آخری سیشن میں بھی امیدواروں کی بڑی تعداد کی شرکت متوقع ہے۔ یہ ٹیسٹ سی ڈی اے اور نسٹ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت منعقد کیے جارہے ہیں، جن کا مقصد شفافیت اور میرٹ پر مبنی بھرتیوں کا عمل یقینی بنانا ہے۔

چیئرمین سی ڈی اے، چیف کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل سول ڈیفنس محمد علی رندھاوا نے امتحانی مرکز کے دورے کے دوران امتحانی عملے سے ٹیسٹ کی شفافیت کے بارے میں گفتگو کی اور نسٹ کے ریکروٹمنٹ کے معیار کو سراہا ۔ انہوں نے زور دیا کہ امتحانی مراکز پر تمام ضروری انتظامات مکمل طور پر شفاف اور بہترین ہونے چاہئیں تاکہ ہر امیدوار کو یکساں مواقع میسر آسکیں۔

چیئرمین سی ڈی اے، چیف کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل سول ڈیفنس محمد علی رندھاوا نے کہا کہ سی ڈی اے اور نسٹ کا یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے جدید تحقیق اور تربیتی پروگرامز سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس شراکت داری سے نہ صرف سی ڈی اے کو باصلاحیت افراد میسر آئیں گے بلکہ ملکی ترقی میں بھی مثبت کردار ادا کیا جاسکے گا۔

اس موقع پر نسٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سی ڈی اے کو یقین دلایا کہ وہ مکمل شفافیت اور میرٹ کے اصولوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے بھرتیوں کے عمل کو کامیاب بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نسٹ کا جدید امتحانی نظام یقینی بنائے گا کہ صرف قابل ترین افراد ہی سی ڈی اے کا حصہ بنیں اور ادارے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرویڈیو وائرل ہونے کے بعد کنول شوذب کا علیمہ خان سے آمنا سامنا، دلچسپ مکالمہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کنول شوذب کا علیمہ خان سے آمنا سامنا، دلچسپ مکالمہ افواج پاکستان کی قیادت کی وجہ سے جوان بھارت کیخلاف حوصلے سے لڑے، وزیر دفاع آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی، آئی ایس پی آر نے نغمہ جاری کردیا زندگی گزارنا مشکل ہوگیا، تنخواہ دار طبقے کا حکومت سے ٹیکس میں کمی کا مطالبہ پاکستان پر حملے کی بھارتی سازش بے نقاب ، محمد عارف نے قوم کو خبردار کر دیا چیئرمین سینیٹ پے پال افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے روم روانہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سی ڈی اے اور نسٹ کے درمیان کے لیے

پڑھیں:

انتہا پسندی پر مبنی رجحانات اور نوجوان طبقہ

پاکستان میں انتہا پسندی پر مبنی پرتشدد رجحانات یا معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت سے جڑے مسائل ایک حساس اور سنگین مسئلہ بن گیا ہے ۔ سیاسی ،سماجی ،معاشرتی یا علاقائی ،لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی ہمیں یہ مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔بالخصوص نئی نسل یا نوجوان نسل میں عدم برداشت کا پہلو نمایاں طور پر سامنے آیا ہے۔

ہم ایک دوسرے سے عملی طور پر الجھتے جارہے ہیں ۔ایک دوسرے کے خیالات،فکر ،سوچ،مذہب، فرقہ ، زبان ، کلچر یا سماج اور ان کے رہن سہن کو قبول کرنے کی جگہ ہم ان کے بارے میں تعصب ،بغض یا سیاسی و فکری اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینے میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں ۔

تنقید کے بجائے ہمیں تضحیک اور ایک دوسرے کی مختلف رائے کو احترام دینے کے بجائے اسے دشمنی کے طور پر سمجھنا ہمارا قومی بیانیہ بنتا جارہا ہے ۔مکالمہ کا حسن اور اس کے طور طریقے یا سلیقہ بہت پیچھے چلاگیا ہے ۔اس کے مقابلے میں ہم مکالمہ کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا کر اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیتے ہیں۔انتہا پسندی،عدم برداشت کا نتیجہ پہلے پر تشدد رجحانات اور پھر دہشت گردی یا طاقت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔

ایک عمومی رائے یہ موجود ہے کہ تعلیم نئی نسل کی اعلیٰ تربیت کا سبب بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان میں سیاسی ،سماجی اور مذہبی شعور کی بیداری کا احسا س پیدا ہوتا ہے ۔یہ عمل نئی نسل کو منفی رجحانات سے مثبت اور تعمیری رجحان کی طرف لے جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے اختلافات کے باوجود سب کے لیے اپنے اندر احترام کا رشتہ پیدا کرتا ہے ۔لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں موجود مسائل یا ترجیحات میں تربیت کا عمل عملا پیچھے کی طرف چلاگیا ہے ۔

پاکستان میں سیاسی،سماجی اور علمی و فکری ماہرین کے بقول اگر ہم نے اپنی تعلیمی نظام میں ریاست میں موجود ان مسائل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا کر اسے تعلیمی نظام یا تربیت کا حصہ نہ بنایا تو معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا عدم برداشت جیسے اہم مسائل کا کوئی نتیجہ یا حل نہیں نکل سکے گا۔ایک حکمت عملی ہم نے ریاست اور حکومت کی سطح پر یہ اختیار کی ہوئی ہے کہ ہم نئی نسل کے مسائل کو سمجھنے یا اس کا ادراک نہ کرنے کے بجائے محض نئی نسل پر گالم گلوچ یا ان کو منفی انداز میں پیش کرکے سارا ملبہ نئی نسل پر ڈال دیتے ہیں۔

پنجاب میں خیبر پختون خواہ کے بعد صوبائی سطح پر پنجاب سینٹر فار ایکسیلنس برائے انتہا پسندی کے خلاف ایک باقاعدہ ادارہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر تشکیل دیا گیا ہے۔یہ ادارہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور ہوم سیکریٹری کی نگرانی میں تشکیل دیا گیا ہے ۔اس ادارے کو تعلیمی اداروں کی سطح پر یا وہ نوجوانوں کی سطح پر چلانے کے لیے تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو بنیادی مرکز بنایا گیا ہے۔ احمد خاور شہزاد ڈپٹی کوارڈینیٹنگ آفیسر پنجاب مقرر کیا گیا ہے۔

ان کے بقول ان کی ترجیحات میں نوجوانوں کو مستحکم کرنا ،عورتوں کو مستحکم کرنا، مدارس اصلاحات ، ڈیجیٹل یا آن لائن سطح پر ہونے والے انتہا پسند رجحانات کو بنیاد بنا کر ہم مثبت انداز میں ریاست کے پرامن بیانیہ کو مستحکم کیا جائے گا۔اسی تناظر میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ سوشل اینڈ کلچر اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرحان نوید یوسف اورڈی جی پنجاب محمد شاہد اقبال جو پروبیشن اینڈ پے رول سروس ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں کے زیر اہتمام ایک فکری نشست یا مکالمہ منعقد ہوا۔اس تقریب میں دیگر مقررین میں راقم کے علاوہ سعیدہ دیپ،قانونی ماہر یواین او ڈی سی پروفیسر سید حسنین حیدر اور ماہر تعلیم شانتی کماراور ڈین سوشل سائنسز ڈاکٹر ارم خالد شامل تھے۔اس مکالمہ میں طلبہ و طالبات سمیت بڑی تعداد میں اساتذہ نے بھی شرکت کی ۔

حکومت پنجاب یا ریاستی اداروں کی یہ موثر حکمت عملی ہے جس میں تعلیمی اداروں اور جامعات کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔میں خود ایسے کئی منصوبوں میں پنجاب کی مختلف جامعات اور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات سمیت اساتذہ کے ساتھ مختلف نوعیت کی تربیتی پروگرام بطور ٹرینر کام کرچکا ہوں ۔اس علمی اور فکری نشست میں ڈی جی محمد شاہد اقبال اور سی ای وی کے پنجاب کے ڈپٹی کوارڈنیشن افیسرمحمد خاور شہزاد نے نوجوانوںمیں انتہا پسندی رجحانات پر اعداد وشمار کے ساتھ کئی اہم نکات اٹھائے۔جن میں اہم بات یہ ہی ہے کہ اس میں کچھ تحقیق کے پہلو اور تجزیہ بھی تھا جو نئی نسل کو عدم برداشت کی لے جانے کا سبب بنتی ہے۔

اصولی طور پر اگر اس اہم اور حساس مسئلہ کو تعلیمی اداروں یا جامعات کی سطح پر حکمت عملی کا حصہ بنانا ہے تو اس میں اہم کردار جامعات کے وائس چانسلر ،ڈین اور فیکلٹی کے ممبران کا ہے۔اسی طرح تعلیمی نصاب میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، یہ واقعی ایک بڑا چیلنج ہے ۔یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اسٹوڈنٹس سوسائٹیوں کی تشکیل کو ممکن بنا کر اسے متحرک اور فعال کرکے اسے سرگرمیوں کا بنیادی مرکز بنائیں گی۔ڈیجیٹل لٹریسی کو باقاعدہ ایک بڑی علمی اور فکری مہم کی بنیاد پر چلانا ہوگا اور عملی طور پر بچوں اور بچیوں کے لیے نہ صرف جامعات بلکہ کالجز اور اسکولوں کی سطح پر ریاست،حکومت کی مختلف پالیسیوں کی آگاہی کی مدد سے ایک مثبت بیانیہ بنانا ہوگا۔

ردعمل یا نئی نسل پر غصہ نکالنے کے بجائے ان کے ساتھ مل بیٹھ کر کام کرنا ہوگااور ان کو مختلف مثبت سرگرمیوں کی بنیاد پران کے ساتھ جوڑ کرمعاشرے کو رواداری پر مبنی معاشرے کی طرف بڑھانا ہوگا۔یہ اچھی بات ہے کہ ہمیں لڑکیوں کو بھی اس تحریک کا حصہ بنانا ہوگا اور ان کی اس تحریک میں شمولیت نئے مثبت امکانات کو پیدا کرے گی۔نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان سمیت ریاست اورحکومتی سطح پر نئی بننے والی پالیسیوں پر ایک بڑی آگاہی اور شعور کی بیداری پر مبنی مہم کی ضرورت ہے۔

یہ کام محض رسمی تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ دینی مدارس کو بھی اس حکمت عملی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔اسی طرح اس کام کو موثر بنانے کے لیے ہمیں ادارہ جاتی سطح کی اصلاحات یا اسٹرکچرل ریفارمزدرکار ہیں اور ان اداروں میں جوابدہی ،نگرانی سمیت شفافیت کا ایسا نظام بھی قائم کرنا ہوگاجہاں تمام فریق ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہوں۔ایک بات یہ بھی سمجھنی ہوگی کہ محض طاقت کی بنیاد پر بیانیہ کارگر نہیں ہوسکتا اور یہ جنگ صرف ہم تعلیمی میدان اور علمی و فکری میدان میں ہی جیت سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین