سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئندہ ہفتے کے لیے ججز کا روسٹر جاری کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے کا ججز روسٹر جاری کر دیا گیا، چیف جسٹس اور جسٹس میاں گل حسن بینچ نمبر ون کا حصہ ہوں گے، دوسرا بینچ جسٹس منصور اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل ہوگا۔ سروسز میٹرز کے مقدمات کی سماعت کے لیے جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئندہ ہفتے کے لیے ججز کا روسٹر جاری کر دیا گیا ہے، جس کے مطابق مختلف بینچز میں متعین ججز مختلف نوعیت کے مقدمات کی سماعت کریں گے۔
پہلے بینچ کی سربراہی چیف جسٹس یحٰی آفریدی کریں گے، جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی اس بینچ کا حصہ ہوں گے۔ دوسرا بینچ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل ہوگا، جبکہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس شکیل احمد تیسرے بینچ میں کیسز کی سماعت کریں گے۔
پانچویں بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عرفان سعید اور جسٹس شہزاد احمد شامل ہوں گے، جبکہ چھٹے بینچ میں جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فرائض انجام دیں گے۔
جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس صلاح الدین پنوار اور جسٹس عامر فاروق ساتویں بینچ میں شامل ہوں گے۔
سروسز میٹرز کے مقدمات کی سماعت کے لیے جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دیا گیا ہے، جس میں جسٹس محمد شفیع صدیقی، جسٹس صلاح الدین پنوار، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہوں گے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی آٹھوا ریگولر بیچ کیسز سنے گا، جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی بینچ کا حصہ ہیں ۔ جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نوویں بینچ کا حصہ ہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی سربراہی اور جسٹس کی سماعت دیا گیا کے لیے ہوں گے کا حصہ
پڑھیں:
اکثریتی ججز نے 26ویں ترمیم آئینی بنچ کے سامنے لگانے کا کہا تھا، چیف جسٹس: جسٹس منصور، جسٹس منیب کے خط کا جواب
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور شاہ کے خط میں جوابی خط پہلی بار منظر عام پر آگیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کا جوابی خط جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31 اکتوبر کے اجلاس پر لکھا گیا۔ دونوں ججز نے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم 4 نومبر 2024 کو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان جیسے تمام سوالات کے جوابات میٹنگ منٹس اور چیف جسٹس کے خط میں سامنے آگئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ اجلاس کیوں نہیں بلایا؟ ان سوالات کے جواب بھی دیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کے خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191 اے کے تحت آرٹیکل 183/3 کی درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، آرٹیکل 191 اے کی ذیلی شق 4 کے تحت ججز آئینی کمیٹی ہی کیس فکس کرنے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 191اے کی ذیلی شق تین اے کے تحت آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے۔ خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191اے کی شق چار آئینی بینچ کے ججز پر مشتمل کمیٹی کو معاملہ سپرد کیا جاتا ہے نہ کہ ججز ریگولر کمیٹی، ججز کمیٹی 2023 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی اور کمیٹی کے اپنے بھائی ججز اراکین کی اس تشویش کو سمجھتا ہوں جو آئین چھبیسویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے حوالے سے ہے۔ چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ میں نے ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے 13 ججز سے رائے لی، جس میں اْن سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز (جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) نے کہا کہ آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت دائر کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، کیا ایسا 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ہو سکتا ہے؟۔ خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کے 13ججز میں سے 9 جج صاحبان کا موقف تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، جب ججز کی رائے آچکی تو یہ حقائق دونوں بھائی ججوں (جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) کو بتا دیے گئے اور انہیں 13 ججز کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔ خط میں مزید لکھا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانے کو مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف ججز کے درمیان انتہائی ضروری باہمی روابط کی روح مجروح ہوتی بلکہ اس سے سپریم کورٹ عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ مجبوراً، میں نے یہ دو خطوط اور ان کے جوابات (سربمہر بند لفافوں میں) سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کے حوالے کر دیے ہیں تاکہ وہ محفوظ طریقے سے رکھے جائیں، یہاں تک کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جو 5 نومبر 2024ء کو بلایا گیا ہے خط کے متن کے مطابق میں اس اجلاس میں جوڈیشل کمیشن سے درخواست کروں گا کہ وہ میرے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر معزز ججز کو آئینی بینچ کے اراکین کے طور پر نامزد کرے، تاکہ آئین کے آرٹیکل 191A کی ذیلی شق (3) کے کلاز (a) کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی یا آئینی بینچ کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ آرٹیکل 184 کے تحت دائر کردہ 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو پاکستان کے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے سامنے پیش کر سکے۔ چیف جسٹس نے خط میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بینچز کی تشکیل کے لیے کمیٹی کا اجلاس بلانا یا پاکستان کے سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دینا یقیناً آئین کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔