فلسطینی مسئلے کا دو ریاستی حل ہی دیرپا امن کا ضامن، گوتیرش
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین مسئلے کا دو ریاستی حل ہی خطے میں پائیدار امن کا ضامن ہو گا۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اس خطے اور دنیا کو ہر محاذ پر امتحان درپیش ہے جس کا آغاز غزہ کے حالات سے ہوتا ہے۔
Tweet URLانہوں نے واضح کیا کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملوں کا کوئی جواب نہیں اور اسی طرح فلسطینی لوگوں کو اجتماعی سزا دینا بھی ناجائز ہے۔
(جاری ہے)
غزہ میں پائیدار امن کا مطالبہسیکرٹری جنرل نے کہا کہ غزہ میں فوری طور پر مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ تمام یرغمالیوں کو غیرمشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیے اور غزہ کا محاصرہ ختم کر کے علاقے میں انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی عسکری کارروائیوں کا دائرہ بڑھانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ ایسی کسی نام نہاد امدادی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا جس میں بین الاقوامی قانون اور انسانیت، غیرجانبداری اور آزادی کے اصولوں کی تعمیل نہ کی جائے۔
انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے لیے مکمل حمایت اور اسے مالی وسائل کی فراہمی کے مطالبے کو بھی دہرایا۔
دوریاستی حل کی اہمیتسیکرٹری جنرل نے غزہ کی آبادی کو متواتر نقل مکانی پر مجبور کرنے اور اسے علاقے سے باہر کسی اور جگہ منتقل کرنے کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ مغربی علاقے میں ہولناک حالات پر توجہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے آئندہ ماہ فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ سربراہی میں ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس ایک اہم موقع ہو گی۔ دنیا، خطہ اور سب سے بڑھ کر فلسطین اور اسرائیل کے لوگ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کو اپنی آنکھوں کے سامنے غائب ہوتا دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
لبنان اور یمن میں پیش رفتسیکرٹری جنرل نے لبنان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے اور حکومت اپنے پورے علاقے پر مکمل عملداری قائم کرے۔
انہوں نے ملک میں اصلاحات اور جنوبی علاقے میں لبنانی مسلح افواج کی تعیناتی کی کوششوں کو سراہا جس میں اسے اقوم متحدہ کی عبوری امن فورس (یونیفیل) کا تعاون بھی حاصل ہے۔انتونیو گوتیرش نے شام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک خودمختاری، آزادی، اتحاد اور علاقائی سالمیت بہت ضروری ہیں۔ اقوام متحدہ شام کے لوگوں کے زیرقیادت مشمولہ سیاسی عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے جس میں ملک کے تمام لوگوں کے حقوق کو تحفظ ملے۔
یمن کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں حملوں سے علاقائی اور مقامی معیشت کو نقصان ہوا۔ تاہم اب امریکہ اور حوثیوں کے مابین لڑائی کا خاتمہ خوش آئند ہے جس کا اعلان 6 مئی کو اومان میں ہوا تھا۔
سیکرٹری جنرل نے یمن میں حوثیوں کی حراست میں اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے عملے کی رہائی کے مطالبے کو بھی دہرایا۔
سوڈان اور لیبیا کا بحرانسیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سوڈان میں تشدد، بھوک اور نقل مکانی کا خاتمہ کرنے کے لیے نئی اور مربوط کثیرفریقی کوششیں ضروری ہیں۔ انہوں نے ایک روز قبل اس معاملے میں عرب لیگ اور افریقن یونین کے اجلاس میں نظرآنے والے تعاون کی ستائش کی اور کثیررخی ارتباط کو بہتر بنانے کے لیے عرب لیگ کی کوششوں کو سراہا۔
صومالیہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو اتحاد اور مشمولہ بات چیت کی اشد ضرورت ہے۔ الشباب کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ اور امن و سلامتی کو مضبوط بنانے میں صومالیہ کے شراکت داروں کی مدد بہت ضروری ہے۔
لیبیا کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں ملک میں مسلح گروہوں کے مابین لڑائی کا خاتمہ کرنے، اہم اداروں کی خودمختاری کو برقرار رکھنے، قومی انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور ملک میں طویل مدتی استحکام و خوشحالی لانے کی کوششوں میں فعال طور سے مدد دے رہا ہے۔
عراق کی مثالسیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے عراق میں اداروں کی مضبوطی، تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے، انسانی امداد کی فراہمی اور پائیدار ترقی کے علاوہ انسانی حقوق کو فروغ دینے کے لیے دو دہائیوں میں ہونے والی پیش رفت کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ عراق میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم آئی) نے ملک کو اس راہ پر آگے بڑھنے میں مد دی ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے رواں سال کے آخر پر عراق سے منظم انداز میں واپس چلا جائے گا۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اگرچہ خطے اور دنیا کو بہت سے مسائل درپیش ہیں لیکن عراق کی مثال سے یہ سبق لینا چاہیے کہ اتحاد اور یکجہتی سے کام لیتے ہوئے تمام تنازعات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور امن و خوشحالی پر مبنی مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کرتے ہوئے ہوئے کہا کے لیے
پڑھیں:
جنوبی غزہ میں محفوظ زونز کا اسرائیلی دعویٰ مضحکہ خیز ہے، یونیسیف
ترجمان جیمز ایلڈر نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں ماؤں اور بچوں کی صورتحال کبھی اتنی بھی خراب نہیں رہی اور ناصر ہسپتال کی راہداری ان خواتین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ابھی بچے کو جنم دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا کہ غزہ میں مائیں اور بچے بدترین ممکنہ حالات میں ہیں اور ناصر ہسپتال زخمیوں اور بیماروں سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے اور جنوبی غزہ کی پٹی میں محفوظ علاقوں کے وجود کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔ غزہ بھر اور خاص طور پر غزہ شہر میں شہریوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور شہر میں بار بار انخلا کے احکامات جاری کرنے کے بعد اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے جنہیں اسرائیل نے غزہ شہر سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے تاکید کی ہے کہ غزہ شہر سے پٹی کے جنوب میں پناہ گزینوں کی منتقلی کے لیے جو علاقے مقرر کیے گئے ہیں وہ موت کے میدان کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں ماؤں اور بچوں کی صورتحال کبھی بھی اتنی خراب نہیں رہی اور ناصر ہسپتال کی راہداری ان خواتین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ابھی بچے کو جنم دیا ہے۔ یونیسیف کے ترجمان نے اسرائیلی حکومت کے اس دعوے کے بارے میں کہ غزہ کی پٹی میں سیف زونز ہیں کے بارے میں کہا کہ جنوبی غزہ میں محفوظ زون ہونے کا دعویٰ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ یہاں آسمان سے بموں برستے ہیں اور ہر طرف دہشت پھیل جاتی ہے، جنگی جہازوں کے حملوں میں سکولوں اور ضروری سہولیات کو برباد کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) نے اپنی طرف سے اعلان کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں دسیوں ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور پانی اور خوراک تک رسائی محدود ہے۔ دریں اثنا، گزشتہ رات سے، جیسے ہی حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر اپنے ردعمل کا اعلان کیا، قابض حکومت کی فوج نے پورے غزہ اور خاص طور پر غزہ شہر کے شہریوں کے خلاف وحشیانہ حملوں کی ایک نئی لہر شروع کر دی ہے۔