(گزشتہ سے پیوستہ)
٭عالمی طاقتیں اگرکشمیرکے مسئلے پربراہ راست دخل دیتی ہیں اورحالات قابو سے باہرہوتے ہیں،توان کے سامنے ایٹمی تصادم کا خدشہ ہے، جس کی آگ دنیاکولپیٹ میں لے سکتی ہے۔
٭بھارت اورپاکستان کے ساتھ تجارتی اوردفاعی تعلقات کی وجہ سے عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیرپرمؤقف اختیارکرنے سے گریزاں رہیں۔
٭سردجنگ کے دوران امریکااورسوویت یونین نے اپنے جغرافیائی مفادات کے تحت جنوبی ایشیا میں پالیسیزاپنائیں،جس سے مسئلہ کشمیر پس منظرمیں چلاگیا۔
٭بھارت نے کشمیرکواپناداخلی معاملہ قرار دے کربین الاقوامی مداخلت کو مسترد کیا، جس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمدممکن نہ ہوسکا۔
٭اقوام متحدہ کی قراردادیں سفارشات کی حیثیت رکھتی ہیں اوران پرعملدرآمدکیلئیکوئی مثرنفاذی میکانزم موجودنہیں ہے۔بھارت کوچین کے خلاف تزویراتی دیواربناناتھا لہذ ا امریکا اوراس کے اتحادی بھارت کوناراض کرنے کاخطرہ مول نہ لے سکے۔بھارت دنیاکی سب سے بڑی اسلحہ مارکیٹ ہے۔اگرکشمیرحل ہوگیا،توامن آجائے گا۔ اوراگرامن آ گیا،تواسلحہ کون خریدے گا؟
چین،جس کی واضح موجودگی لداخ اوراروناچل پردیش میں موجودہے،اورجوبھارت سے تزویراتی محاذآرائی بھی رکھتاہے کیونکہ بھارت کواڈ اتحادکے رکن ہونے کی حیثیت سے لداخ سے سی پیک کوکاٹنے کیلئے سرگرم ہے،یہی وجہ ہے کہ چین نے آگے بڑھ کر لداخ کے اس علاقے پراپنا قبضہ مضبوط کرلیاہے جہاں سے انڈیاکی طرف سے سی پیک کوخطرہ ہو سکتا تھا۔خودانڈین وزیردفاع راج ناتھ نے بھارتی اسمبلی میں اس بات کا اعتراف کیاکہ چین اس وقت بھارتی لداخ کے36ہزارمربع کلومیٹرپرقابض ہوچکاہے۔
روس خطے میں اسلحہ فروخت کرنے والا بڑا کھلاڑی،جوبھارت کاتاریخی حلیف بھی رہاہے اور ایران جوایٹمی صلاحیت کے کنارے پر کھڑا ہے، اور جس کے وجودسے مشرقِ وسطی کی سیاست لرزتی ہے۔ایسے نازک،بارودی خطے میں کشمیر ایک سلگتا شعلہ ہے،جواگرپھٹ پڑاتویہ خطہ نہیں، بلکہ انسانیت جل کرراکھ ہوجائے گی۔ کشمیر کو ’’حل نہ ہونے والامسئلہ‘‘بنا کر رکھناعالمی سیاست کا وہ مکارانہ کارڈہے،جس سے طاقتورممالک اپنی اہمیت اورموجودگی کاجوازقائم رکھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ عالمی طاقتیں محض ضامن نہیں رہیں، بلکہ نرغے میں آئے کشمیریوں کی بے حسی کے ساتھ تماشا دیکھنے والے بے ضمیرتماشائی بن چکی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پردستخط کرکے اگروہ خودعملدرآمدنہیںکرواتیں،تویہ عہدشکنی ہے یہ فریبِ عہد،دھوکہ،اورانسانی حقوق کے نام پرننگِ انسانیت ہے۔
یورپ میں یوکرین جیسے ممالک کی خودمختاری پرفوری شورمچایاجاتاہے،پابندیاں لگائی جاتی ہیں،فوجی امداددی جاتی ہے۔مگرکشمیر جہاں لاکھوں مسلمان دہائیوں سے محصورہیں،وہاں صرف بیانات،قراردادیں اورمصلحتوں کے پردے ہیں۔ یہ وہ دوہرامعیارہے جومسلم دنیااوراقوام عالم کے امن پسندعوام میں غصے،مایوسی اوربے چینی کوبڑھارہاہے۔کشمیری ان تمام خائن طاقتوں سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ ناانصافی کب تلک؟ کیا تم نے کبھی سوچاہے کہ وقت کامؤرخ تمہاری آئندہ آنے والی نسلوں کوتمہارے اس مکروہ کردارکی وجہ سے کس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا؟
اب سوال یہ ہے کہ اس نازک مسئلے پرتاخیرکاکیامطلب اورکیا نتائج نکل سکتے ہیں؟
٭تاخیرکامطلب ہے ایٹمی تصادم کے خطرے کودن بہ دن بڑھانا۔
٭تاخیرکامطلب ہے ہزاروں معصوم کشمیری بچوں کایتیم ہونا۔
٭تاخیرکامطلب ہے خطے کوبارودکے ڈھیرپربیٹھائے رکھنا۔
1971ء کی المناک شبِ سیاہ میں جب مشرقی پاکستان میں دشمن نے’’را‘‘کے ذریعے نفرت کے بیج بوئے،تومودی نے سقوطِ ڈھاکہ میں را کے مکروہ کردارکی داستان کااعتراف کرتے ہوئے 2015ء میں ڈھاکہ میں برملاکہا:ہم نے مکتی باہنی کوسپورٹ کیا،ہم نے پاکستان کو دولخت کیا۔یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی،مگراقوامِ متحدہ اورعالمی ضمیرنے مجرمانہ خاموشی اختیارکی۔
جب پاکستان اورچین نے مل کراقتصادی راہداری کاخواب سجایاسی پیک، جوگوادر کو کاشغر سے ملاتاہے توسامراجی طاقتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ امریکا،آسٹریلیا،جاپان اوربھارت پرمشتمل کواڈ دراصل چین کوگھیرنے کاحربہ ہے اور پاکستان کواس جرم کی سزادی جا رہی ہے کہ وہ مشرق سے اٹھنے والے اس آفتابِ ترقی میں شریک کیوں ہے؟
فروری2019ء میں جب بھارتی طیارے پاکستان کی فضاؤں میں داخل ہوئے،پاک فضائیہ کے شاہینوں نے ان کی درگت بنائی۔ایک دن میں بھارت کے جدید ترین دو طیارے ، مگ-21، مار گرائے۔پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری اور پھر رہائی نے پاکستان کودنیابھرمیں امن پسند قوت کے طور پرمنوایا۔دودن بعدپاکستان نے اپنے اہداف کوکامیابی سے نشانہ بنایااوربھارت کوسنگین پیغام دیا کہ اب میدان تمہارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ مودی اس وقت پسپائی اختیارکرتے ہوئے بلبلااٹھاکہ اگرہمارے پاس آج رافیل طیارے ہوتے توہم اس خطے کی شکل ہی تبدیل کردیتے اورفوری طورپردنیاکے بہترین33فرانسیسی رافیل جنگی جہازوں کاآرڈردیکراپنے آقاؤں کویہ پیغام دیاکہ اب اسے خطے کابے تاج بادشاہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتالیکن وائے قسمت! جونہی 70 جنگی جہازوں کی اڑان بھرکراپنے پورے تکبر کے ساتھ(خاکم بدہن)پاکستان کوختم کرنے کیلئے فضاؤں میں اڑان بھری تومعلوم نہیں تھاکہ شیطان کے مقابلے کیلئے رحمان کی قوتیں میدان میں اتر چکی ہیں۔اک صدا گونجی۔۔۔۔!
اے تاریخ!قلم تھام،کہ ایک بار پھر برصغیر کی فضاؤں میں وہی بارودکی بوہے،وہی لہوکی لالی،وہی دجل وفریب کی دھندجس میں سچائی کا سورج ماندپڑجاتاہے۔ہمالیہ کے دامن سے گوادر کے ساحل تک،ہر ذی روح نے لرزاں دل کے ساتھ وہ ساعتیں گنی ہیں،جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہوئیںایک جانب حوصلے کا ہمالہ، پاکستان،اوردوسری طرف غرورومکاری کا استعارہ بھارتی گجرات کاقصاب!رات کے اندھیرے میں خاک وخون کی دہلیزسجانے پہنچ گیا۔
مئی2025ء میں حالیہ پاک-بھارت جنگی کشیدگی اورعالمی ضمیرکی آزمائش اس نہج پرپہنچے کہ فضاگرجنے لگی،زمین کانپنے لگی، اوردل دھڑکنے لگے۔مودی حکومت،داخلی سیاسی بحران ، کسان تحریکوں،معاشی زوال اورحزبِ اختلاف کی تابندہ پیش قدمی سے خوفزدہ،ایک مرتبہ پھراپنی پرانی چال پرآگئی ’’جنگ برائے ووٹ‘‘۔الزام تراشی کی نئی قسط مقبوضہ کشمیرمیں کسی جھوٹے حملے کے گردگھومتی ہے،جس کاالزام پاکستان پر عائد کیا گیا۔
جب بھارتی فضائیہ نے پاکستانی حدودکی خلاف ورزی کی،توپاک فضائیہ نے صرف اپنے دفاع کاحق استعمال نہ کیا،بلکہ دنیاکویہ جتا دیاکہ ہم صرف ایٹمی طاقت نہیں،بلکہ جنگی حکمت عملی میں بھی برترہیں۔بھارت کے جدیدترین لڑاکا طیارے، راڈار سے چھپنے والے اسرائیلی ڈرونز کے دعوے، سب خاک ہوگئے۔کئی مقامات پربھارت کے اہم عسکری اہداف کونشانہ بنایاگیا اور ان سب کے عالمی میڈیا میں باقاعدہ شواہدبھی پیش کردیئے۔
جب جنگی میدان میں بھارت کوشرمناک شکست کا سامناہوا،تواس کی کمرنازک حلیف اسرائیل کے خفیہ عسکری ماہرین نے تھپتھپائی۔ اسرائیل نے امریکی انتظامیہ کومتحرک کیا، جس نے فوراً سیزفائرکیلئے دباؤبڑھایا۔اقوامِ متحدہ میں سفارتی شوراٹھا،اورامریکی وزیر خارجہ نے براہ راست اسلام آباداوردہلی سے رابطہ کیا۔پاکستان نے سیزفائرکی رضامندی صرف امن کی خاطر دی، نہ کہ کمزوری کے تحت۔یادرہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ابتدامیں اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کی۔ وہ کہتے رہے:’’یہ انڈیااورپاکستان کااندرونی معاملہ ہے‘‘۔مگرجونہی بھارت کومنہ کی کھانی پڑی، امریکی سفارتکاری متحرک ہوئی اورسیز فائر کا انتظام کروایاگیاتاکہ مودی سرکارکومزید شرمندگی سے بچایاجاسکے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کو کے ساتھ
پڑھیں: