کشمیر کے حوالے سے بھارت اور افغانستان کا مشترکہ بیان بے بنیاد ہے، قانونی ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
بیان میں جموں و کشمیر کو غلط طور پر بھارت کا حصہ قرار دینے کا حوالہ دیا گیا ہے جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقائق اور علاقے کی قانونی حیثیت سے متصادم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ قانونی ماہرین نے نئی دہلی میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ جاری ایک مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے جموں و کشمیر کو بھارت کے اٹوٹ انگ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی مذمت کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، گمراہ کن اور کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان پہلے ہی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان نئی دہلی میں ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان پر سخت تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ بیان میں جموں و کشمیر کو غلط طور پر بھارت کا حصہ قرار دینے کا حوالہ دیا گیا ہے جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقائق اور علاقے کی قانونی حیثیت سے متصادم ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک تنازعہ ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر زیر التواء ہے۔
1948ء کی قرارداد 47 سے شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں واضح طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت پر زور دیتی ہیں۔کوئی دو طرفہ یا یکطرفہ اعلامیہ اس بین الاقوامی وعدے کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ماہرین نے بھارت کے موقف میں تضاد کی نشاندہی کی ہے کیونکہ نئی دہلی نے خود طالبان کو پہلے دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا اور اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بھارت جو کبھی طالبان کی حکومت کو ناجائز اور دہشت گرد کہتا تھا، اب اس کے ساتھ مشترکہ بیانات جاری کر رہا ہے تاکہ کشمیر کے بارے میں اپنے پروپیگنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ اس کے علاوہ طالبان انتظامیہ کو خود اقوام متحدہ یا عالمی حکومتوں کی اکثریت تسلیم نہیں کرتی۔ لہذا طالبان حکومت کی طرف سے کوئی بھی توثیق یا بیان جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے میں کوئی قانونی یا سفارتی وزن نہیں رکھتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے جھوٹے بیانیے کو بار بار پیش کرنے کے لیے اس طرح کی کوششیں اس کی جاری مہم کا حصہ ہیں تاکہ عالمی برادری کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی اصل صورتحال کے حوالے سے گمراہ کیا جا سکے۔ مسلسل فوجی قبضہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جمہوری حقوق سے انکار زمینی صورتحال کے بارے میں بھارت کے بلند و بانگ دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تسلیم شدہ کشمیر کے
پڑھیں:
کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھارت و افغانستان کے وزرائے خارجہ کے بیان کو سختی سے مسترد کردیا
کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینیئر غلام محمد صفی نے بھارت اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں جموں و کشمیر سے متعلق دیے گئے بیان کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
غلام محمد صفی نے کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا موقف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے، جو کشمیر کو ایک غیر طے شدہ تنازعہ قرار دیتی ہیں اور اس کے حل کے لیے کشمیری عوام کی آزادانہ رائے شماری کو واحد راستہ تسلیم کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بھٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے
غلام محمد صفی نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینا تاریخی حقائق، بین الاقوامی قوانین اور کشمیری عوام کی خواہشات سے کھلا انحراف ہے۔
انہوں نے افغان وزیرِ خارجہ کے بیان پر بھی گہرے افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک برادر مسلم ملک کی جانب سے بھارت کے مؤقف کی تائید نہایت مایوس کن ہے، افغانستان، جو خود بیرونی تسلط اور جنگوں کی تکالیف سے گزرا ہے، اسے انصاف اور اصول کی بنیاد پر کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کا بھارت اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے پر تحفظات کا اظہار، افغان سفیر کی دفتر خارجہ طلبی
انہوں نے زور دیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کوئی انتہاپسندانہ یا سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک جائز، اصولی اور منصفانہ جدوجہد ہے جو حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے جاری ہے اور جسے اقوامِ متحدہ نے بھی تسلیم کر رکھا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں