پاک افغان بارڈر پردوبارہ جھڑپ، فائرنگ کا تبادلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
کرم میںپاک افغان شورکو باڈر پر کشیدگی ،دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری
ضلع کے دیگر باڈر پر سکیورٹی فورسزالرٹ، بارڈر حکام کاگاڑیوں کو پیچھے جانے کا حکم
ضلع کرم میں پاک افغان شورکو بارڈر پر ایک بار کشیدگی بڑھ گئی ،دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان جھڑپ کے دوران شدید فائرنگ کاتبادلہ ہوا ۔ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع کرم پاک میں افغان شورکو باڈر پر کشیدگی دوبارہ شروع ہوگئی اور دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ذرائع نے بتایا کہ پاک افغان سرحد شورکو سیکٹر میں سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے مابین جھڑپ کے دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے ۔کشیدگی کے باعث ضلع کے دیگر باڈر پر بھی سکیورٹی فورسز کو الرٹ کر دیا گیا ۔ادھر حرلاچی بارڈر پر بھی صورتحال کشیدہ ہے، جہاں بارڈر حکام نے تمام بھری گاڑیوں کو پیچھے جانے کا حکم دے دیا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: فائرنگ کا پاک افغان باڈر پر
پڑھیں:
چمن و طورخم بارڈر ہر قسم کی آمد و رفت کیلئے بند
پاک افغان حکام فورسز کے درمیان فائرنگ اور کشیدہ صورتحال کے پیش نظر چمن بارڈر اور طورخم بارڈر دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیوں اور مسافروں کی پیدل آمد ورفت کے لیے بند کر دیئے گئے۔
نجی ٹی وی کے مطابق طورخم بارڈر کی بندش سے دونوں جانب ہر قسم کی آمد و رفت اور پیدل جانے والے مسافروں کی نقل و حرکت رک گئی ہے، تمام مال بردار گاڑیوں کو لنڈی کوتل منتقل کردیا گیا ۔
طورخم بارڈر دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیوں اور پیدل آمدورفت کے لیے بند ہونے سے دونوں جانب کے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا ہوگا، تاہم موجودہ صورت حال میں سرحد کو بند کر دیا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے بعد بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں واقع بابِ دوستی کو آمدورفت کے لیے تاحکم ثانی بند کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ جو افغان پناہ گزین رضاکارانہ طور واپس جارہے ہیں یا جنہیں بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی اکثریت بلوچستان میں چمن کے راستے افغانستان جا رہی ہے، بلوچستان کے جن سات اضلاع کی سرحدیں افغانستان سے لگتی ہیں ان میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبداللہ، چمن نوشکی اور ضلع چاغی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 21 فروری کو پاکستانی اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد کے دونوں جانب تعمیراتی سرگرمیوں پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے لوگوں کی سرحد پار نقل و حرکت معطل کردی گئی تھی۔
مارچ میں صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی تھی، جب پاکستان اور افغان طالبان کی افواج کے درمیان سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں 6 فوجیوں سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے تھے، متعدد مکانات، ایک مسجد اور کلیئرنگ ایجنٹس کے کچھ دفاتر کو توپ خانے کی گولا باری سے نشانہ بنایا گیا تھا اور سرحد پار فائرنگ کا سلسلہ 3 روز تک جاری رہا تھا۔ اس کے بعد سرحد کے دونوں جانب قبائلی عمائدین اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہوئے تھے جس کا مثبت نتیجہ نکلا تھا۔