جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر رشید جہاں اور آج کی اداکارائیں !
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
’اور تو اور عورتوں کی آوازیں اور ان کا وزن بھی پردہ نشیں تھا۔ یعنی کوئی بی بی اس زور سے نہیں بولتی تھی کہ اس کی آواز مردانے میں جائے اور جب کوئی عورت پالکی میں سوار ہوتی تھی تو پتھر کا ٹکڑا یا سل پالکی میں رکھ دیا جاتا تھا کہ کہاروں کو اس کے اصل جسم کا اندازہ نہ ہو سکے اور بیبیاں تو بیبیاں مامائیں، اصیلیں اور لونڈیاں تک پردے کی پابند تھیں۔
زنانے میں آنے والے دس، گیارہ برس کے بچوں سے پردہ کیاجاتا تھا اور مشکوک چال چلن کی عورتوں سے بھی پردہ کیا جاتا تھا۔کسی عورت کی مجال نہیں تھی کہ وہ بزرگوں کے سامنے اپنے بچے کو گود لے لے۔
زنان خانے کی فضا کو مقدس رکھنے کے لیے یہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ کسی ترکاری والی کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ لانبی ترکاریوں مثلا کھیرے، لوکی، ترئی وغیرہ کو ٹکڑے ٹکڑے کیے بغیر سالم حالت میں اندر لے جائے ۔اس لیے کہ صورت کے لحاظ سے ان ترکاریوں کو فحش سمجھا جاتا تھا۔
اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ملیح آباد کے ایک صاحب کے لڑکے کی شادی میں ناچ ہو رہا تھا کہ بالا خانے سے ایک عورت جھک کر دیکھنے لگی۔صاحبان محفل میں سے ایک نے اسے گولی مار دی۔گولی مارنے والے نے صاحب خانہ سے کہا بھائی! آپ کی بیوی جھانک رہی رہی تھی، مجھ سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہوئی، میں نے اسے گولی مار دی۔ صاحب خانہ نے ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا، بہت اچھا کیا آپ نے۔ ‘
جوش ملیح آبادی : یادوں کی بارات ؛ (صفحہ نمبر ایک سو ستاسی / اٹھاسی )
یہ تھا بیسویں صدی کے آغاز کا برصغیر جہاں عورت کی یہ وقعت تھی کہ بالا خانے سے جھانکنے پر بیوی کو بھی گولی مارنے پہ خوشی کااظہار کیا جاتا تھا۔
مرد حضرات اپنی عیاشیوں کے لیے چاہے گھر میں مجرے کروائیں یا بالا خانے تشریف لے جائیں مگر عورتوں کے سامنے کھیرا بھی سالم حالت میں نہ جائے کہ کہیں کسی عورت کے ذہن میں کوئی برا خیال نہ آ جائے۔
وہ ایسی ڈمی نما عورتیں تھیں جن کی سوچ تک پہ پہرے بٹھانے پہ فخر محسوس کیا جاتا تھا۔
آئیے! کتابوں سے اس زمانے کی کچھ اور عورتوں کا حال جانتے ہیں :
میرے اس کہنے پر کہ ممانی جان آپ کیوں ایسے آدمی کو اپنے ہاں رکھتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بیٹی کس کس کو نکالوں، دھوبی ہے وہ کئی بدل چکا ہے، مالی چار کو نکال چکا ہے، عیدو بھی دو کو طلاق دے چکا ہے۔ عورتیں ہی اس ملک میں اتنی سستی مل جائیں تو میں کیا کروں۔‘
(افسانہ – چھدا کی ماں)
’ ایک مسلمان عورت کالے تنگ پاجامے، گلابی دوپٹہ اور چاندی کے زیور سے لدی ہوئی اٹھی۔ بلاق اس کا اتنا بڑا تھا کہ اس کا منہ اور دانت سب بلاق کے پیچھے چھپ گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں عورت کی چڑ چڑ سے تھک کرکسی مرد نے بلاق نکالا ہو گا تا کہ عورت کی آواز منہ میں ہی پھنس جائے۔ لیکن عورتیں بھی کیا بے وقوف ہیں کہ اس کو رواج بنا لیا۔‘
(افسانہ- میرا ایک سفر)
’لڑکیوں کی تعلیم کے حامد حسن بہت خلاف تھے۔ قرآن شریف، دو ایک دینیات کی کتابیں صدیقہ بیگم کو پڑھا دی گئی تھیں۔ صدیقہ بیگم کی ماں احمدی بیگم نے بالکل بھنورے میں پالا تھا۔ ہر ملنے جلنے والی سے پردہ کروایا جاتا، نہ کوئی سہیلی اور نہ کسی سے ملنا جلنا، نہ کہیں آنا نہ کہیں جانا۔‘
(افسانہ- بے زبان)
’ ڈاکٹرنی نے مجھ سے میری عمر پوچھی میں نے کہا 32 سال۔ کچھ اس طرز سے مسکرائی جیسے کہ یقین نہ آیا۔ میں نے کہا، مس صاحب آپ مسکراتی کیا ہیں؟ آپ کو معلوم ہو کہ 17 سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی اور جب سے ہر سال میرے ہاں بچہ ہوتا ہے۔ سوائے ایک تو جب میرے میاں سال بھر کو ولایت گئے تھے اور دوسرے جب میری ان سے لڑائی ہو گئی تھی۔
اور یہ دانت جو آپ غائب دیکھ رہی ہیں یہ ڈاکٹر غیاث نے اکھاڑ ڈالے۔ ساری بات یہ تھی کہ ہمارے میاں جو ولایت سے آئے تو ان کو ہمارے منہ سے بو آتی تھی۔
ہر بچے کے بعد میں کتنی مصر ہوئی کہ میں خود دودھ پلاؤں گی لیکن سنتا کون ہے؟ دھمکی یہ ہے کہ دودھ پلاؤ گی تو میں اور بیاہ کر لوں گا۔ مجھے ہر وقت عورت چاہیے، میں اتنا صبر نہیں کر سکتا کہ تم بچوں کی ٹلے نویسی کرو……‘
(پردے کے پیچھے – انگارے)
کل رات سامنے کے میدان میں ایک مولوی صاحب وعظ فرما رہے تھے۔ ہر چیز پہ حملہ تھا، سکولوں،کالجوں، لڑکے لڑکیوں کی تعلیم، پردہ، میاں بیوی، ترقی، خوشی، مغرب، ایشیا، غرض کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جس پر انہوں نے رائے زنی نہ کی ہو۔ انگریزی تعلیم کی برائی اور میاں کے رتبے پر بہت دیر تک روشنی ڈالتے رہے۔
سب سے زیادہ انہوں نے ٹاکیز کی خبر لی، آپ لوگ ٹاکیز دیکھنے جاتے ہیں، وہاں کنجریاں ہوتی ہیں، آنکھیں مٹکاتی ہیں، اپنی برہنہ چھاتیاں آپ کو دکھاتی ہیں، ننگی آپ کے سامنے آ جاتی ہیں۔
یہ ہے ہمارے مولویوں کی دماغی تصویر، ان کی آنکھوں میں ہر وقت ننگی عورتیں ناچتی ہیں۔ خیالات ہر وقت عورتوں میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کے جسمانی حصوں کا نام لینے کے لیے وہ وعظ میں بھی جگہ نکال لیتے ہیں۔‘
(افسانہ -سڑک)
ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم آج کے ٹاکیز میں کام کرنے والی سارہ خان، ثروت گیلانی اور ان تمام اداکاراؤں جو خود کو فیمنسٹ کہتے ہوئے شرماتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ فیمنسٹ کسی بد بلا کا نام ہے، سے پوچھیں کہ کیا وہ جانتی ہیں کہ برصغیر میں ایک ایسی فیمنسٹ گزری ہیں جنہوں نے ان اداکاراؤں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے حقوق کی جنگ لڑی۔
آج اگر وہ سکرین پر اپنے فن کے جوہر دکھاتی ہیں اور بالا خانے سے جھانکتے ہوئے گولی کھا کر نہیں مرتیں، آج اگر وہ ہر جگہ جانے کے لیے آزاد ہیں اور انہیں کھیرا لوکی سالم دیکھنے کی اجازت ہے تو اس کا سہرا بھی اس فیمنسٹ عورت کے سر بندھتا ہے جو آج سے 100 سال پہلے برصغیر کے سب مردوں اور خصوصا ملاؤں کے سامنے کھڑی ہو گئی اور عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔
یہ تھیں ڈاکٹر رشید جہاں، فیض احمد فیض کی استاد !
کم عمری سے وہ ہندوستان کے سماجی اور معاشرتی مسائل سے متاثر ہوئیں۔
ننھیال کی حویلی دلی اندرون شہر’فراش خانہ‘ میں تھی۔ میڈیکل کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے حویلی آتیں تو چاروں طرف بہشتی زیور پڑھتی ہوئی، حویلیوں، شہ نشیوں، کوٹھڑیوں میں قید ان عورتوں کی کسمپرسی کا نظارہ کرتیں جنہیں ابھی تک انسان تو کیا، کسی جاندار مخلوق تک کا درجہ نہیں ملا تھا۔ ٹکے بندھے کپڑوں میں قید، زیوروں کے بوجھ تلے دبی، ایک بچہ گود میں، ایک پیٹ میں اور تین چار پلو سے لٹکے، نسوانی امراض کا شکار ان عورتوں کی زندگی کا مصرف استعمال میں لائی جانے والی کسی بھی بے مصرف چیز کا سا تھا جس سے دل بہلایا جا سکے۔ جب بوسیدہ ہو جائے تو بدل لی جائے اور ان فرسودہ روایات کا مذموم کھیل صدیوں سے مذہب کی آڑ میں جاری تھا۔
ڈاکٹر رشید جہاں نے ان تمام مظالم کو دیکھا، سنا اور سوچا، ایسا کیوں؟ کب تک؟ اس کا حل؟
اور پھر انہوں نے اپنے قلم کی کاٹ سے ان روایات میں شگاف ڈال دیا۔ یاد رکھیے، دبنگ ادیب کا قلم اور لفظ آہنی دیواروں کو کاٹنا سکھا کے نئے رستے تراشنے کے خواب دکھا سکتا ہے۔
ڈاکٹر رشید جہاں کے لہو میں تو انصاف کی بجلی کوندتی تھی سو قلم کے جہاد کے حوالے سے ان کی ملاقات سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی۔ معاشرے کی روایات کو ضرب لگاتے ہوئے 1932 میں ان چاروں کے افسانوں کا مجموعہ ’انگارے‘ شائع ہوا۔
رشیدجہاں کا ڈرامہ ’پردے کے پیچھے‘ انگارے میں چھپنے کی دیر تھی کہ ہنگامہ برپا ہو گیا۔ چھٹکی سی مسلمان لڑکی اور عمامہ و دستار کو للکارے، کٹھ ملا برافروختہ ہوئے۔ منبر سے ’رشید جہاں انگارے والی‘ کے خلاف وعظ ہوئے، جہنم کی وعید سنائی گئی اور کتاب ’انگارے‘ بحق سرکار ضبط ہوئی۔
رشید جہاں کا نام تاریخ میں پہلی فیمنسٹ عورت کے حوالے سے رقم ہوا۔ زمانے نے عورت کا ایک مختلف روپ دیکھا جو عورت کو انسان تسلیم کروانے پہ مصر تھی۔
ڈاکٹر رشید جہاں اور جوش ملیح آبادی ہم عصر تھے، دونوں نے اپنے زمانے کی تصویر کھینچی مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ جوش نے ان حالات کے بارے میں جو کچھ لکھا اس پہ کہیں بھی تاسف کی کیفیت نہیں۔ مگر ڈاکٹر رشید جہاں نے جو کچھ لکھا اس کے ہر لفظ سے دکھ ٹپکتا ہے۔ یہ ہیں دو ہم عصر مگر ایک مرد ہے اور ایک عورت۔
جو خواتین وحضرات آج پاکستانی فیمنسٹس کے نقطہ نظر، جدوجہد، نعروں اور جلوسوں کو تنقید کانشانہ بناتے ہیں، اور لفظ فیمنسٹ کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج جہاں وہ کھڑے ہیں اس میں بیشتر حصہ برصغیر کی فیمنسٹ عورتوں کا ہے۔
جنہوں نے متبادل بیانیہ برصغیر کے پدرسری نظام کے سامنے رکھا، میرا جسم میری مرضی آج کی بات نہیں۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ڈاکٹر رشید جہاں کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ڈاکٹر رشید جہاں کیا جاتا تھا بالا خانے انہوں نے کے سامنے عورت کی کے لیے تھی کہ تھا کہ اور ان
پڑھیں:
بھارت کو معلوم نہیں تھا کہ کس قوم کو للکار رہا ہے: خالد مقبول صدیقی
وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی—فائل فوٹووفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ بھارت کو معلوم نہیں تھا کہ کس قوم کو للکار رہا ہے۔
کراچی میں واقع گورنر ہاؤس سندھ میں یومِ تشکر کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے گھروں، مسجدوں اور آبادیوں پر حملہ کیا۔
ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ پاکستان نےحملہ کرنے والے مقامات پر جواب دیا، پاکستان کی یہ جیت کشمیر کے نوجوانوں کی جدوجہد کا جواب ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ افواجِ پاکستان نے بھارت کو منہ توڑ جواب دے کر پاکستانی قوم کا سرفخر سے بلند کر دیا ہے۔