WE News:
2025-07-01@19:08:09 GMT

جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر رشید جہاں اور آج کی اداکارائیں !

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

’اور تو اور عورتوں کی آوازیں اور ان کا وزن بھی پردہ نشیں تھا۔ یعنی کوئی بی بی اس زور سے نہیں بولتی تھی کہ اس کی آواز مردانے میں جائے اور جب کوئی عورت پالکی میں سوار ہوتی تھی تو پتھر کا ٹکڑا یا سل پالکی میں رکھ دیا جاتا تھا کہ کہاروں کو اس کے اصل جسم کا اندازہ نہ ہو سکے اور بیبیاں تو بیبیاں مامائیں، اصیلیں اور لونڈیاں تک پردے کی پابند تھیں۔

زنانے میں آنے والے دس، گیارہ برس کے بچوں سے پردہ کیاجاتا تھا اور مشکوک چال چلن کی عورتوں سے بھی پردہ کیا جاتا تھا۔کسی عورت کی مجال نہیں تھی کہ وہ بزرگوں کے سامنے اپنے بچے کو گود لے لے۔

زنان خانے کی فضا کو مقدس رکھنے کے لیے یہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ کسی ترکاری والی کو یہ اجازت  نہیں تھی کہ وہ لانبی ترکاریوں مثلا کھیرے، لوکی، ترئی وغیرہ کو ٹکڑے ٹکڑے کیے بغیر سالم حالت میں اندر لے جائے ۔اس لیے کہ صورت کے لحاظ سے ان ترکاریوں کو فحش سمجھا جاتا تھا۔

اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ملیح آباد کے ایک صاحب کے لڑکے کی شادی میں ناچ ہو رہا تھا کہ بالا خانے سے ایک عورت جھک کر دیکھنے لگی۔صاحبان محفل میں سے ایک نے اسے گولی مار دی۔گولی مارنے والے نے صاحب خانہ سے کہا بھائی! آپ کی بیوی جھانک رہی رہی تھی، مجھ سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہوئی، میں نے اسے گولی مار دی۔ صاحب خانہ نے ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا، بہت اچھا کیا آپ نے۔ ‘

جوش ملیح آبادی : یادوں کی بارات ؛ (صفحہ نمبر ایک سو ستاسی / اٹھاسی )

یہ تھا بیسویں صدی کے آغاز کا برصغیر جہاں عورت کی یہ وقعت تھی کہ بالا خانے سے جھانکنے پر بیوی کو بھی گولی مارنے پہ خوشی کااظہار کیا جاتا تھا۔

مرد حضرات اپنی عیاشیوں کے لیے چاہے گھر میں مجرے کروائیں یا بالا خانے تشریف لے جائیں مگر عورتوں کے سامنے کھیرا بھی سالم حالت میں نہ جائے کہ کہیں کسی عورت کے ذہن میں کوئی برا خیال نہ آ جائے۔

وہ ایسی ڈمی نما عورتیں تھیں جن کی سوچ تک پہ پہرے بٹھانے پہ فخر محسوس کیا جاتا تھا۔

آئیے! کتابوں سے اس زمانے کی کچھ اور عورتوں کا حال جانتے ہیں :

میرے اس کہنے پر کہ ممانی جان آپ کیوں ایسے آدمی کو اپنے ہاں رکھتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بیٹی کس کس کو نکالوں، دھوبی ہے وہ کئی بدل چکا ہے، مالی چار کو نکال چکا ہے، عیدو بھی دو کو طلاق دے چکا ہے۔ عورتیں ہی اس ملک میں اتنی سستی مل جائیں تو میں کیا کروں۔‘

(افسانہ – چھدا کی ماں)

’ ایک مسلمان عورت کالے تنگ پاجامے، گلابی دوپٹہ اور چاندی کے زیور سے لدی ہوئی اٹھی۔ بلاق اس کا اتنا بڑا تھا کہ اس کا منہ اور دانت سب بلاق کے پیچھے چھپ گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں عورت کی چڑ چڑ سے تھک کرکسی مرد نے بلاق نکالا ہو گا تا کہ عورت کی آواز منہ میں ہی پھنس جائے۔ لیکن عورتیں بھی کیا بے وقوف ہیں کہ اس کو رواج بنا لیا۔‘

(افسانہ- میرا ایک سفر)

’لڑکیوں کی تعلیم کے حامد حسن بہت خلاف تھے۔ قرآن شریف، دو ایک دینیات کی کتابیں صدیقہ بیگم کو پڑھا دی گئی تھیں۔ صدیقہ بیگم کی ماں احمدی بیگم نے بالکل بھنورے میں پالا تھا۔ ہر ملنے جلنے والی سے پردہ کروایا جاتا، نہ کوئی سہیلی اور نہ کسی سے ملنا جلنا، نہ کہیں آنا نہ کہیں جانا۔‘

(افسانہ- بے زبان)

’ ڈاکٹرنی نے مجھ سے میری عمر پوچھی میں نے کہا 32 سال۔ کچھ اس طرز سے مسکرائی جیسے کہ یقین نہ آیا۔ میں نے کہا، مس صاحب آپ مسکراتی کیا ہیں؟ آپ کو معلوم ہو کہ 17 سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی اور جب سے ہر سال میرے ہاں بچہ ہوتا ہے۔ سوائے ایک تو جب میرے میاں سال بھر کو ولایت گئے تھے اور دوسرے جب میری ان سے لڑائی ہو گئی تھی۔

‎اور یہ دانت جو آپ غائب دیکھ رہی ہیں یہ ڈاکٹر غیاث نے اکھاڑ ڈالے۔ ساری بات یہ تھی کہ ہمارے میاں جو ولایت سے آئے تو ان کو ہمارے منہ سے بو آتی تھی۔

‎ہر بچے کے بعد میں کتنی مصر ہوئی کہ میں خود دودھ پلاؤں گی لیکن سنتا کون ہے؟ دھمکی یہ ہے کہ دودھ پلاؤ گی تو میں اور بیاہ کر لوں گا۔ مجھے ہر وقت عورت چاہیے، میں اتنا صبر نہیں کر سکتا کہ تم بچوں کی ٹلے نویسی کرو……‘

‎(پردے کے پیچھے – انگارے)

‎کل رات سامنے کے میدان میں ایک مولوی صاحب وعظ فرما رہے تھے۔ ہر چیز پہ حملہ تھا، سکولوں،کالجوں، لڑکے لڑکیوں کی تعلیم، پردہ، میاں بیوی، ترقی، خوشی، مغرب، ایشیا، غرض کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جس پر انہوں نے رائے زنی نہ کی ہو۔ انگریزی تعلیم کی برائی اور میاں کے رتبے پر بہت دیر تک روشنی ڈالتے رہے۔

‎سب سے زیادہ انہوں نے ٹاکیز کی خبر لی، آپ لوگ ٹاکیز دیکھنے جاتے ہیں، وہاں کنجریاں ہوتی ہیں، آنکھیں مٹکاتی ہیں، اپنی برہنہ چھاتیاں آپ کو دکھاتی ہیں، ننگی آپ کے سامنے آ جاتی ہیں۔

‎یہ ہے ہمارے مولویوں کی دماغی تصویر، ان کی آنکھوں میں ہر وقت ننگی عورتیں ناچتی ہیں۔ خیالات ہر وقت عورتوں میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کے جسمانی حصوں کا نام لینے کے لیے وہ وعظ میں بھی جگہ نکال لیتے ہیں۔‘

‎(افسانہ -سڑک)

ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم آج کے ٹاکیز میں کام کرنے والی سارہ خان، ثروت گیلانی اور ان تمام اداکاراؤں جو خود کو فیمنسٹ کہتے ہوئے شرماتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ فیمنسٹ کسی بد بلا کا نام ہے، سے پوچھیں کہ کیا وہ جانتی ہیں کہ  برصغیر میں ایک ایسی فیمنسٹ گزری ہیں جنہوں نے ان اداکاراؤں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے حقوق کی جنگ لڑی۔

آج اگر وہ سکرین پر اپنے فن کے جوہر دکھاتی ہیں اور بالا خانے سے جھانکتے  ہوئے گولی  کھا کر نہیں مرتیں، آج اگر وہ ہر جگہ جانے کے لیے آزاد ہیں اور انہیں کھیرا لوکی سالم دیکھنے کی اجازت ہے تو اس کا سہرا بھی اس فیمنسٹ عورت کے سر بندھتا ہے جو آج سے 100 سال پہلے برصغیر کے سب مردوں اور خصوصا ملاؤں کے سامنے کھڑی ہو گئی اور عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔

یہ تھیں ڈاکٹر رشید جہاں، فیض احمد فیض کی استاد !

‎ کم عمری سے وہ ہندوستان کے سماجی اور معاشرتی مسائل سے متاثر ہوئیں۔

‎ننھیال کی حویلی دلی اندرون شہر’فراش خانہ‘ میں تھی۔ میڈیکل کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے حویلی آتیں تو چاروں طرف بہشتی زیور پڑھتی ہوئی، حویلیوں، شہ نشیوں، کوٹھڑیوں میں قید ان عورتوں کی کسمپرسی کا نظارہ کرتیں جنہیں ابھی تک انسان تو کیا، کسی جاندار مخلوق تک کا درجہ نہیں ملا تھا۔ ٹکے بندھے کپڑوں میں قید، زیوروں کے بوجھ تلے دبی، ایک بچہ گود میں، ایک پیٹ میں اور تین چار پلو سے لٹکے، نسوانی امراض کا شکار ان عورتوں کی زندگی کا مصرف استعمال میں لائی جانے والی کسی بھی بے مصرف چیز کا سا تھا جس سے دل بہلایا جا سکے۔ جب بوسیدہ ہو جائے تو بدل لی جائے اور ان فرسودہ روایات کا مذموم کھیل صدیوں سے مذہب کی آڑ میں جاری تھا۔

‎ڈاکٹر رشید جہاں نے ان تمام مظالم کو دیکھا، سنا اور سوچا، ایسا کیوں؟ کب تک؟ اس کا حل؟

‎اور پھر انہوں نے اپنے قلم کی کاٹ سے ان روایات میں شگاف ڈال دیا۔ یاد رکھیے، دبنگ ادیب کا قلم اور لفظ آہنی دیواروں کو کاٹنا سکھا کے نئے رستے تراشنے کے خواب دکھا سکتا ہے۔

‎ڈاکٹر رشید جہاں کے لہو میں تو انصاف کی بجلی کوندتی تھی سو قلم کے جہاد کے حوالے سے ان کی ملاقات سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی۔ معاشرے کی روایات کو ضرب لگاتے ہوئے 1932 میں ان چاروں کے افسانوں کا مجموعہ ’انگارے‘ شائع ہوا۔

‎رشیدجہاں کا ڈرامہ ’پردے کے پیچھے‘ انگارے میں چھپنے کی دیر تھی کہ ہنگامہ برپا ہو گیا۔ چھٹکی سی مسلمان لڑکی اور عمامہ و دستار کو للکارے، کٹھ ملا برافروختہ ہوئے۔ منبر سے ’رشید جہاں انگارے والی‘ کے خلاف وعظ ہوئے، جہنم کی وعید سنائی گئی اور کتاب ’انگارے‘ بحق سرکار ضبط ہوئی۔

رشید جہاں کا نام تاریخ میں پہلی فیمنسٹ عورت کے حوالے سے رقم ہوا۔ زمانے نے عورت کا ایک مختلف روپ دیکھا جو عورت کو انسان تسلیم کروانے پہ مصر تھی۔

ڈاکٹر رشید جہاں اور جوش ملیح آبادی ہم عصر تھے، دونوں نے اپنے زمانے کی تصویر کھینچی مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ جوش نے ان حالات کے بارے میں جو کچھ لکھا اس پہ کہیں بھی تاسف کی کیفیت نہیں۔ مگر ڈاکٹر رشید جہاں نے جو کچھ لکھا اس کے ہر لفظ سے دکھ ٹپکتا ہے۔ یہ ہیں دو ہم عصر مگر ایک مرد ہے اور ایک عورت۔

‎جو خواتین وحضرات آج پاکستانی فیمنسٹس کے نقطہ نظر، جدوجہد، نعروں اور جلوسوں کو تنقید کانشانہ بناتے ہیں، اور لفظ فیمنسٹ کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں،  انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج جہاں وہ کھڑے ہیں اس میں بیشتر حصہ برصغیر کی فیمنسٹ عورتوں  کا ہے۔

جنہوں نے متبادل بیانیہ برصغیر کے پدرسری نظام کے سامنے رکھا، میرا جسم میری مرضی آج کی بات نہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ڈاکٹر رشید جہاں کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ڈاکٹر رشید جہاں کیا جاتا تھا بالا خانے انہوں نے کے سامنے عورت کی کے لیے تھی کہ تھا کہ اور ان

پڑھیں:

افسانوں کا مجموعہ کیکٹساور لوحِ ادب

اردو کے ممتاز ادیب شکیل احمد خان بہترین افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ مدیرانہ صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں وہ 1998 سے کتابی سلسلہ ’’لوحِ ادب‘‘ کو بنا سنوارکر قارئین کی ذہنی آسودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے شایع کر رہے ہیں۔ سال 2025 کے اوائل میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ بعنوان ’’ کیکٹس‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ ’’خواب اور طرح کے‘‘ یہ شکیل صاحب کی تخلیقات پر مبنی پہلی کتاب ہے۔

کہتے ہیں ناں کہ نقش اول نقشِ ثانی سے زیادہ معتبر اور دل کش ہوتا ہے، اس کی وجہ تجربات و مشاہدات کی دھیمی دھیمی آنچ پر پکی ہوئی توانا تحریریں ہوتی ہیں۔ افسانے ہوں یا ناول بغیرکرداروں کو جانے اور ان کے ماحول سے آشنا ہوئے بنا ہرگز نہیں لکھے جا سکتے ہیں جب تک کہ کسی کا درد دل میں نہ اتر جائے، بھیانک اور ہوش ربا منظر نگاہوں کو حیرت کدہ حالات کے سپرد نہ کر دے اور ادیب صفحہ قرطاس پر دل پر بیتی کہانیوں کو الفاظ کے قالب میں نہ ڈھال دے، تب تک افسانہ تخلیق ہوتا ہے اور نہ دل سکون کی وادیوں میں اترتا ہے، یہ عمل مصنف کو آبشار کے ٹھنڈے اور صاف و شفاف پانی کے سپرد کردیتا ہے۔

مصنف بھی تخلیق کے کرب اور آگہی کی اذیت سے بار بارگزرتا ہے، تب کہیں یہ لُو دیتی اور تپتی ہوئی کہانیوں کا ظہور ہوتا ہے۔ شکیل احمد کے افسانے معاشرے کے کرداروں کی عکاسی بے حد نفاست اور سچائی کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں وہ ان کے ظاہر و باطن کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی تخلیق کرتے ہیں، افسانے کیا لکھتے ہیں جیتے جی انسانوں کا پوسٹ مارٹم قلم کی نوک سے اس طرح کرتے ہیں کہ مریض کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہو پاتی ہے کہ کسی تخلیق کار نے باطن کی آنکھ کو نشتر بنا کر ان کے قلب و جگر کا آپریشن کر ڈالا ہے اور جوکچھ پوشیدہ تھا۔

الفاظ کی سوغات میں سامنے آگیا ہے وہ سماج کے ان کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو لہو رنگ ہیں اور جن کے ابدان سے خون کے قطرے گر رہے ہیں اور روح زخمی اور جسم چھلنی ہے اپنی روداد کسی دوسرے شخص سے بیان کرنا گویا اپنے آپ کو ذلت کے آئینے میں ڈھالنے اور چوراہے پر رکھنے کے مترادف ہے۔کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو موت و زیست کے دوراہے پرکھڑے برزخ کا نظارہ کررہے ہیں، وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انھیں دفنا کر کہانی کو انجام تک پہنچا دیا جائے اور نہ ہی ان کی حالت زار پرکوئی رحم کھانے اور زخموں کا مداوا کرنے والا ہے کہ یہ عبرتناک حالات دل کی زنبیل میں بہت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے ہیں۔

’’بلیدان، میلی عورت، کیکٹس، خمیازہ، معصومانہ خواہش اور اسی قبیل کے کئی افسانے قاری کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ غربت اور جہالت کے باعث پاتال تک پہنچ گیا ہے، اس سماج کے لوگوں کو محنت کرنے کے بجائے عزت کا سودا کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے، ایک کا علاج کرانے کے لیے دوسرے بچوں خصوصاً بیٹیوں اور بیوی کی زندگیوں کو گٹر میں دھکا دے کر بیمار کو ایک نئی زندگی کی خوشی انھیں زیادہ کارگر نظر آتی ہے، اس کی وجہ تعلیم اور شعور کا فقدان ہے جس نے ان سے شرافت بھری زندگی کا فلسفہ چھین لیا ہے اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔

مصنف کے تمام ہی افسانے کمزور معاشرتی ڈھانچے کے گرد گھومتے ہیں۔ کئی افسانے ایسے بھی تخلیق کے مرحلے سے گزرے ہیں جو نیکی اور سچائی کی داستان رقم کرتے ہیں۔ انھی میں وفاداری بہ شرط استواری بھی شامل ہے، اس افسانے کا مرکزی کردار صنوبر کا ہے جو شوہرکی وفادار ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جمیل اپنے اصولوں اور محبت کی اس گہری جھیل کو جہاں چودھویں کا چاند اترتا تھا اور پریاں گیت سناتی تھیں، اس حسین وادی کو چھوڑکر جس میں وہ اپنی منکوحہ صنوبرکے ساتھ خوش و خرم زندگی بسرکر رہا تھا۔ 

یہ بھی صنوبر کے شوہر جمیل کی محبت کی انتہا تھی کہ وہ محض اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی چہیتی بیوی سے دور چلا جاتا ہے، کچھ شرائط کے ساتھ کہ اگر وہ دوسری شادی کر لے تو وہ طلاق نامہ بھیج دیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک وقت ایسا بھی آیا، جب وہ ایک حادثے کی صورت میں اپنے ہی گھر آگئے۔ جہاں بیوی کے ساتھ جوان بیٹا رافع بھی ملا، ان کے جانے کے چند دن بعد ہی ڈاکٹر نے انھیں اولاد کی خوش خبری سنا دی تھی۔

بہرحال یہ ایک اچھا افسانہ ہے کبھی تقدیر مہربان ہو جاتی ہے تو کبھی مقدر کا لکھا انسان کو ساحل سے اٹھا کر بھنور کی نذر کر دیتا ہے۔

اردو کے مشہور ناقد پروفیسر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری (میرٹھ انڈیا) کا بھی ایک بھرپور مضمون کتاب میں شامل ہے، اگرکوئی قاری مختصر وقت میں مصنف کے افسانے پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے پروفیسر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا مضمون ملاحظہ فرمائے، ڈاکٹر صاحب نے کیکٹس پر نہ صرف یہ کہ بھرپور تبصرہ کیا ہے بلکہ تعارف اور تجزیے کے ساتھ افسانوں سے ایسے اقتباسات کو شامل مضمون کیا ہے جن کے پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مکمل طور پر افسانے پڑھ لیے ہیں اور مزید پڑھنے کی جستجو بھی بیدار ہوتی ہے۔

افسانوں کے بارے میں چند سطور۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’سبھی افسانے ہمیں غور و فکرکی دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی سماج میں انقلابی تبدیلی کے لیے اکساتے بھی ہیں، اب تخلیق کاروں کو قلم کے ساتھ میدان میں آنا پڑے گا، یہ سراسر ظلم ہے نیا رجحان، جدید ترقی پسندی ہمیں ظلم کے خلاف عملی طور پر بیدار ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘

’’لوحِ ادب‘‘ کا تازہ شمارہ اشاعت کے مرحلے سے گزر چکا ہے،گزشتہ اور موجودہ شماروں کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ مدیر اعلیٰ شکیل احمد خان نے پرچے کی تیاری اور اس کی انفرادیت میں بہت محنت کی ہے۔ فکشن اور شاعری کے ساتھ قابل ذکر مضامین بھی معلومات میں اضافے کا باعث ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم نے پروفیسر غازی علم الدین کے حوالے سے بھرپور مضمون تحریرکیا ہے۔ ان کی تحریر کے ذریعے پروفیسر علم الدین کی زندگی اور ان کی تحریروں کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح منشا یاد کی افسانہ نگاری، تخلیقی تجزیہ ڈاکٹر ریاض توحیدی (مقبوضہ کشمیر)، ڈاکٹر صاحب نے منشا یاد کے کئی افسانوں کو گہری نگاہ سے دیکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’منشا یاد کے افسانوں کا معیار کافی بلند ہے، ان کی کرافٹنگ عمدہ ہنرمندی کی عکاسی کرتی ہے جوکہ ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے، خاکہ، یاد داشتیں (نیلم احمد بشیر)

تبصرے، یہ ایسی بلند پرواز انشا پردازی ہے، جو ادب کے شایقین کے لیے دلچسپی اور معلومات کے در روشن کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نادیہ خان محلے کی عورت بن کر نہ چیخیں، وقار سے بات کریں: ثروت گیلانی
  • اسپتال میں مبینہ غفلت سے 6 سالہ زونیشہ کی موت، والدین انصاف کے خواہاں
  • بھارت میں کروڑوں کے جہیز کے باوجود سسرالیوں کے مظالم کی شکار بہو نے خودکشی کرلی
  • برطانیہ کا جادوئی گاؤں، جہاں خوبصورتی کے ساتھ مفت رہائش بھی مفت ملتی ہے
  • پاکستان کا نظام صحت خود بیمار ہے، وزیر صحت مصطفیٰ کمال
  • عدالتی حکم کے باوجود ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی کو چارج لینے سے روک دیا گیا
  • پاکستان کا نظام صحت خود بیمار ہے اور ہر سال آبادی میں 61 لاکھ کا اضافہ ہو جاتا ہے، وزیر صحت
  • پاکستان کا نظام صحت خود بیمار ہے اور ہر سال آبادی میں 61 لاکھ کا اضافہ ہو جاتا ہے، وفاقی وزیر صحت
  • اجرک کی بنی نمبرپلیٹ عوام تسلیم نہیں کرینگے، ڈاکٹر سلیم حیدر
  • افسانوں کا مجموعہ کیکٹساور لوحِ ادب