Express News:
2025-08-14@00:06:07 GMT

قوم کے ہیرو

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

ڈاکٹر مہر افروز بہادری، برداشت، صبر اور قربانی کا استعارہ ہیں۔ عظیم قربانی کی بناء پر وہ ملک کے سب سے بڑے اعزاز کی مستحق ہیں۔ ڈاکٹر مہر افروز سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورو لوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T) میں بحیثیت نفرالوجسٹ فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر مہر کے اکلوتے بیٹے سلطان ظفر 23 سال کے تھے، وہ مقامی میڈیکل کالج کے طالب علم تھے۔

گزشتہ ماہ ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوئے، حادثے کے کچھ دیر بعد انھیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ سلطان ظفر کئی دن تک اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں زندگی کی جنگ لڑتے رہے۔ ڈاکٹروں کی انتھک کوششوں کے باوجود ان کے جسم سے زندگی کی رمق دور ہوتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر مہر افروز گردوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر بھی ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ نے خاموشی سے اپنے لخت جگر کو موت کے سائے میں جاتے دیکھا۔ ڈاکٹر مہر کے شوہر جو خود بھی ڈاکٹر تھے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر مہر پہلے اپنے شوہر کے آخری لمحات دیکھ چکی تھیں۔

اب اپنے بیٹے کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ رہی تھیں۔ ڈاکٹر مہر کو زندگی کے اس مشکل ترین لمحہ میں یاد تھا کہ سلطان ظفر نے مرنے کے بعد اپنے دونوں گردے کسی مستحق کو دینے کی وصیت کی تھی۔

ڈاکٹر مہر شاید پہلے سے اپنے اس ارادے کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہوں گی، انھوں نے آخر یہ مشکل فیصلہ کیا کہ سلطان ظفر کے جسد خاکی کو ایس آئی یو ٹی منتقل کیا جائے، یوں سلطان ظفر کے جسد خاکی کو اسپتال لے جایا گیا، جہاں کڈنی ٹرانسپلانٹ کے ماہر ڈاکٹروں نے سلطان ظفر کے دونوں گردے ان دو مریضوں کو لگائے جو گردے ختم ہونے کی بناء پر طویل عرصے سے ڈائیلسز پر تھے۔ 

یوں ڈاکٹر مہر افروز کے اس فیصلے کے ذریعے دو مریضوں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ سلطان ظفر ایک محنتی اور ملنسار نوجوان تھے جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے اور اپنی اس روایت کو انھوں نے مرنے کے بعد جلا بخشی۔

سلطان ظفر کے بارے میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن NSF کے رہنما حسن ایلیا ء نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ سلطان ظفر کے والد فرقان ظفر میڈیکل کالج کے طالب علم تھے۔ حسن ایلیا کی ڈاکٹر فرقان ظفر سے ملاقات 1985میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر فرقان ظفر میڈیکل کالج کے این ایس ایف یونٹ کے کارکن تھے۔

وہ ہمیشہ این ایس ایف کے کارکنوں کی اگلے صفوں میں موجود ہوتے۔ ڈاکٹر فرقان نے ہمیشہ دائیں بازو کے عناصر کے ہاتھوں این ایس ایف کے کارکنوں کو تشدد سے بچایا۔ اس وقت میڈیکل کالج کی انتظامیہ بائیں بازو کے کارکنوں کے ساتھ برا سلوک کرتی تھی مگر ڈاکٹر فرقان ان کارکنوں کے تحفظ کے لیے سب سے آگے ہوتے تھے۔

ڈاکٹر فرقان اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کی بناء پر کالج انتظامیہ کو ادارے سے نکالے جانے والے طالب علموں کا داخلہ بحال کرنا پڑا۔ پھر مخالف تنظیموں نے ڈاکٹر فرقان سمیت بہت سے ڈاکٹروں کو دھمکیاں دیں۔ ڈاکٹر فرقان ظفر مجبوراََِ بیرون ملک چلے گئے۔

ڈاکٹر فرقان ظفر کینسر کے موذی مرض کا شکار ہوئے۔ وہ پاکستان واپس آگئے تھے۔ بقول حسن ایلیا ڈاکٹر فرقان بار بار کہتے تھے کہ وہ مریں گے نہیں۔ ان کے بیٹے کی قربانی اور ان کی اہلیہ کی جرات نے ڈاکٹر فرقان حیدر کی بات کو سچ ثابت کیا۔ حسن ایلیا نے بتایا کہ سلطان ظفر کا نام ان کے دادا کے نام سے رکھا گیا ہے۔ معروف ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ڈاکٹر شیر شاہ کے والد نے سلطان ظفر کے دادا کی پرورش کی۔

 اس ساری کہانی کا ایک اہم کردار ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نوجوانی میں سوشل ازم کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد بائیں بازو کی سوچ کے حامل طلبہ نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن DSF بنائی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ڈی ایس ایف کے متحرک رہنماؤں میں شامل تھے۔

50 کی دہائی کے آغاز پر ڈی ایس ایف نے طلبہ یونینوں کے عہدیداروں پر مشتمل انٹرکالجیٹ باڈی (ICB) قائم کی۔ اے سی بی کے پلیٹ فارم سے طلبہ نے کراچی میں تعلیم کو عام کرنے، نئے کالجوں کے قیام، بسوں کے کرایوں میں رعایت وغیرہ کے لیے 8 جنوری 1953میں تحریک چلائی۔ حکومت وقت نے اس تحریک کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی مگر پھر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت طلبہ کے مطالبات ماننے پر تیار ہوئی۔

حکومت نے ڈی ایس ایف کے 12رہنماؤں کو گرفتار کر کے کراچی سینٹرل جیل میں مقید کیا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی مہینوں جیل میں بند رہے۔ بعد ازاں سندھ چیف کورٹ کے احکامات پر انھیں رہائی ملی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ ایک اسپتال کے سرجیکل وارڈ میں رجسٹرار ہوگئے۔

ڈاکٹر ادیب نے سرجری میں مہارت حاصل کرنے پر مکمل توجہ دی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سول اسپتال کراچی میں کام شروع کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے سول اسپتال میں گردوں کے امراض کا 10 بستروں پر مشتمل وارڈ بنایا۔ ڈاکٹر نقوی اس وقت ان کے ساتھ تھے۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اپنی زندگی کی ساری توجہ اس وارڈ کی ترقی پر صرف کردی، یوں سول اسپتال کراچی میں پہلا کڈنی ٹرانسپلانٹ ہوا، آگے چل کر یہ چھوٹا سا وارڈ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورو لوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کی شکل اختیار کرگیا۔ سول اسپتال کے اطراف میں کئی کئی منزلہ عمارتوں کا جال بچھ گیا۔

ایس آئی یو ٹی میں اس وقت 2 ہزار سے زیادہ بیڈ ہیں اور اسپتال میں دن کے بیشتر حصوں میں کسی نہ کسی مرض کی OPD کام کر رہی ہوتی ہے۔ ایک خام اندازے کے مطابق ایس آئی یو ٹی پر ہفتے میں 10 سے 12 ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں۔

اسی طرح اب گردہ کے مرض کے علاوہ اس مرض سے ملحقہ امراض کا علاج بھی ہونے لگا ہے۔ مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین کا کام صرف دعا کرنا ہوتا ہے۔ اب ایس آئی یو ٹی نے شاہراہ فیصل پر واقع ایک فائیو اسٹار ہوٹل کو خرید لیا ہے۔

اسپتال کے ذرایع کہتے ہیں کہ اب ایس آئی یو ٹی کے اسپتال حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں بھی قائم ہوچکے ہیں جہاں گردوں کے تمام امراض کا علاج مفت اور عزتِ نفس کے ساتھ ہوتا ہے، مگر اب بھی غریب علاج سے محروم ہیں۔ بہرحال جب ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنا شروع کیے تو فرسودہ سماجی روایات نے رکاوٹیں ڈالنا شروع کیں اور اسے ناجائز قرار دے دیا، مگر ڈاکٹر رضوی نے ملک کے معروف علماء سے رابطہ کیا اور انھیں مختلف اسلامی ممالک کے بارے میں وہاں کے تجربات سے آگاہ کیا۔

جماعت اسلامی کے رہنما مولانا جان محمد عباسی مرحوم نے سب سے پہلے کڈنی ٹرانسپلانٹ کو جائز قرار دیا تھا، پھر دیگر مکاتبِ فکر کے علماء بھی اس بات پر متفق ہوگئے اور ڈاکٹر رضوی کی کوششوں سے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔ مگر جب ملک کے مختلف شہروں میں کڈنی ٹرانسپلانٹ شروع ہوا تو بعض لالچی ڈاکٹروں نے گردے خریدنے کا کاروبار شروع کردیا۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ نے انسانی اعضاء کی تجارت کو فوجداری جرم قرار دے دیا۔ ڈاکٹر رضوی کی کوششوں سے متاثر ہو کر عبدالستار ایدھی اور سینئر صحافی زبیدہ مصطفی نے اپنی آنکھیں مرنے کے بعد عطیہ کی تھیں۔ زبیدہ مصطفی کی آنکھوں سے دو افراد کی آنکھوں میں روشنی آگئی۔ ڈاکٹر مہر افروز کا جرات مندانہ فیصلہ آزادی کے دن ایک نئی جہد کو دعوت دے رہا ہے۔ سلطان ظفر اور ڈاکٹر مہر افروز اس قوم کے ہیرو ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاکٹر فرقان ظفر ڈاکٹر مہر افروز ایس آئی یو ٹی سلطان ظفر کے کہ سلطان ظفر میڈیکل کالج سول اسپتال ایس ایف کے اسپتال کے کے ساتھ کے لیے کے بعد کی تھی

پڑھیں:

سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی پھیلانے پر ڈاکٹر عمر کیخلاف مقدمہ درج

لاہور: سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر پر ڈاکٹر عمرعادل کیخلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں درخواست دائر کردی گئی۔

این سی سی آئی اے نے ڈاکٹر عمر عادل کو 17 اگست کو طلب کرلیا جس کی طلبی کا نوٹی فکیشن سیکشن 160 کے تحت جاری کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے ڈاکٹرعمر عادل پر اشتعال انگیز مواد پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں فلسطینی سفیر ڈاکٹر زہیر زید کا پاکستان کے یوم آزادی پر تہنیتی پیغام
  • سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی پھیلانے پر ڈاکٹر عمر کیخلاف مقدمہ درج
  • عمران خان کا اڈیالہ جیل میں تفصیلی طبی معائنہ کیا گیا
  • بانی پی ٹی آئی کے طبی معائنے کیلئے ڈاکٹرز کی ٹیم اڈیالہ جیل پہنچ گئی
  • کراچی: کورنگی میں ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق
  • کراچی، لیاری میں ڈاکٹر لعل قتل کیس کا مقدمہ درج، رقم کے تنازع پر قتل کیے جانے کا انکشاف
  • ہیرو اوپن ملائیشیا انٹرنیشنل تائیکوانڈو چیمپیئن شپ میں پاکستان کے 4 میڈلز
  • ’’ٹرمپ آپ کا ابا ہوگا‘‘پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل ڈاکٹر فضہ خان کا پروگرام چھوڑ کر چلے گئے
  • ٹرمپ کو نوبل انعام، غزہ میں امن اور کشمیریوں کی آزادی سے مشروط : ڈاکٹر شوکت علی