لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) تجزیہ کار عثمان شامی نے کہا ہےکہ  افغانستان کو سوچنا ہو گا کہ کیا وہ بھارت کے اعلیٰ کار تو نہیں بن رہے ،کیا افغان حکومت کو نظر نہیں آرہا کہ بھارتی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے ؟ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کی ایک پرانی ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں زیادہ پیسے دیں گے تو یہ ہمارے ساتھ ہو جائیں گے اور ہم انہیں دیو بند کے ذریعے کنٹرول کریں گے ، اب افغان وزیر خارجہ کا دیوبند کے مرکز میں تاریخی استقبال ہو ا تو انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا یہ بھارت کا اعلیٰ کار تو نہیں بن رہے۔افغان حکومت کوکیا یہ نظر نہیں آرہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے

لاہور میں جائیداد کے تنازعے پردو بھائیوں میں فائرنگ ، ایک جاں بحق جبکہ دوسرازخمی ہو گیا

دنیا نیوز کے پروگرام 'تھنک ٹینک ،میں گفتگو کرتے ہوئے عثمان شامی نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ کی بھارت میں پریس کانفرنس کے دوران خواتین کو داخل نہیں ہونے دیا گیا تو اس بات کو لے کر بھارت میں بہت ہنگامہ ہوا ، آج انہوں نے دوبارہ پریس کانفرنس کی تو اس میں خواتین کو بھی بلا یا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ افغان وزیرخارجہ کے مطابق پاکستان ہم سے لڑائی سے پہلے امریکہ اور سوویت یونین سے پوچھ لیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انہوں نے امریکہ اور سوویت یونین سے لڑائی  پاکستان کے ساتھ مل کر لڑی تھی۔ آج بھی بہت سے امریکی ہم سے ناراض ہیں کیونکہ جب ان سے پوچھاجاتا ہے کہ آپ  افغانستان میں ناکام کیوں ہوئے تو وہ کہتے ہیں کہ وجہ پاکستان تھی، اتنی احسان فراموشی اچھی  نہیں ہے ۔ تجزیہ کار نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ ہماراملک سپر پاورز کا قبرستا ن ہے تو انہوں نے اس ملک کو قبرستان ہی بنا یا ہے ، نہ انفراسٹرکچر میں ترقی نہ تعلیم اوردیگر میدانوں میں ترقی کی، اگر آپ کو دوسرے ممالک آکر 20,20سال پھینٹی لگاتے رہے ہیں تو کیا یہ قابل فخر بات ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہاں پر موجود جو عناصر ہمارے ملک کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں ، ہم ان کے خلاف ہیں۔ عثمان شامی نے بتا یا کہ  آج وزیر اعظم شہباز شریف سے مجھ سمیت کچھ صحافیوں نے سوال کیاکہ ان سے مذاکرات کیوں نہیں کیے جارہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اتنے عرصے سے بات چیت جاری ہے لیکن پھر وہ ہی صورتحال برقرار ہے تو اب یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ آپ کو کھلی چھوٹ حاصل نہیں ہے۔

افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس جانا ہوگا، خواجہ آصف

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: کہ بھارت انہوں نے کے ساتھ نے کہا

پڑھیں:

بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا حالیہ بیان، جس میں اس نے پاکستان کے صوبہ سندھ کے بارے میں غیر سنجیدہ، غیر حقیقت پسندانہ اور اشتعال انگیز دعویٰ کیا، خطرناک رویے کی تازہ مثال ہے ۔ انڈین وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کا صوبہ سندھ سے متعلق دیا گیا بیان غیر حقیقی، اشتعال انگیز اور خطرناک حد تک تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے ۔
انڈین وزیر دفاع کا یہ بیان اُس ہندوتوا سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بین الاقوامی قوانین، تسلیم شدہ سرحدوں کی حرمت اور ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان مئی میں ہونے والی فضائی جھڑپوں کے مہینوں بعد بھی سیاسی و عسکری رہنماؤں کی جانب سے سخت بیانات دینے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے اور انڈین وزیردفاع کا حالیہ بیان اس سلسلے کی تازہ کڑی ہے ۔سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین، تجزیہ کاروں نے اس بیان کو پاکستان کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیتے ہوئے اسے علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے ۔انڈین وزیر دفاع اتوار کو دہلی میں سندھی سماج سمیلن کے عنوان سے ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کر رہا تھا جس کی متعدد ویڈیوز اس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بھی شیئر کی ہیں۔انڈیا کے وزیر دفاع نے سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ سندھی ہندو،بالخصوص اُن کی نسل کے لوگ، آج تک سندھ کو انڈیا سے الگ کرنے کو قبول نہیں کر پائے ہیں۔راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ناصرف سندھ میں بلکہ پورے انڈیا میں ہندو، سندھو ندی (دریائے سندھ) کو مقدس سمجھتے تھے ۔ سندھ کے کئی مسلمان بھی مانتے تھے کہ دریائے سندھ کا پانی مکہ کے آبِ زمزم سے کسی طور کم متبرک نہیں۔ یہ اڈوانی نے کہا ہے ۔پاکستان نے بجا طور پر اس بیان کی سخت مذمت کی ہے اور اسے خیالی اور خطرناک تشدیدی رویہ قرار دیا ہے ، کیونکہ جب کسی ملک کے دفاع کے ذمہ دار شخص کا لب و لہجہ جنگی سیاست کی ہوا دے تو اس کا مطلب محض سفارتی تناؤ نہیں بلکہ سوچ کے اس زاویے کی جھلک ہوتی ہے جو حقیقت سے زیادہ خواہشات کے سہارے سیاست چلاتا ہے ۔پاکستان نے بالکل درست کہا کہ یہ بیان ایک ایسے وسعت پسند ہندو نوا ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو خطے کی تسلیم شدہ سرحدوں، تاریخی حقائق اور بین الاقوامی قانون کو چیلنج کرنے کا عادی بنتا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کی موجودہ سیاسی فضا اس ذہنیت کو نہ صرف قبول کر رہی ہے بلکہ اسے قومی بیانیے کی شکل دینے کی کوشش بھی کر رہی ہے ۔ اس بیانیے میں تاریخ کو نئی شکل دی جاتی ہے ، جغرافیہ کو خواہشات کے مطابق توڑا جاتا ہے ، اور سیاست کو اکثریتی جذبات کے تابع کر دیا جاتا ہے ۔ یہ وہی ماحول ہے جس میں ایسے بیانات پھلتے پھولتے ہیں، اور پھر خطے کا امن صرف چند لفظوں کی قیمت پر کمزور ہو جاتا ہے ۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں واضح کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے ایسی اشتعال انگیز گفتگو بین الاقوامی قانون اور ریاستی خودمختاری کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔ دنیا بھر میں سرحدیں بیانات سے تبدیل نہیں ہوتیں، جنگوں سے بھی کم، بلکہ وہ تاریخی حقائق، عالمی معاہدات اور بین الاقوامی تسلیم شدہ اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں۔ سندھ نہ صرف پاکستان کا باقاعدہ، مسلمہ اور آئینی صوبہ ہے بلکہ اس کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ایک منفرد تہذیبی سفر رکھتی ہے ۔ اس کا تعلق محض جغرافیے سے نہیں بلکہ شناخت، ثقافت اور ایک پوری قوم کے اجتماعی شعور سے ہے ۔ اس حقیقت کو محض سیاسی فائدے کے لیے نظرانداز کرنا نہ صرف ناسمجھی بلکہ خطرناک جنون ہے ۔
ناگزیر ہے کہ اس بیان کو بھارتی داخلی سیاست کے پس منظر میں سمجھا جائے ۔ بھارت میں پچھلی ایک دہائی سے جس نظریے کو سیاسی ترجیح حاصل ہوئی ہے ، اس کی بنیاد تاریخ کی نئی تعبیر، مذہب کی سیاسی تفہیم اور خطے میں بالادستی کے خواب پر رکھی گئی ہے ۔ ایسے میں پاکستان، چین، نیپال اور سری لنکا کے بارے میں جارحانہ لہجہ اختیار کرنا اس سیاسی سوچ کا حصہ سمجھا جاتا ہے ، جسے بھارتی ووٹ بینک کے ایک خاص طبقے کی تائید حاصل ہے ۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جب ایک ریاست اپنی داخلی شکستوں، اقلیتوں پر ظلم اور معاشرتی عدم توازن کو چھپانا چاہتی ہے تو وہ بیرونی دشمن تراشنے لگتی ہے ، اور بھارتی وزیر دفاع کا سندھ کے حوالے سے بیان اسی سفارتی حکمتِ عملی کی پیداوار ہے ۔ پاکستان نے بالکل بجا نشاندہی کی کہ بھارت کو سب سے پہلے اپنے ان شہریوں کی فکر کرنی چاہیے جو اس کی حدود کے اندر محفوظ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی رپورٹس مسلسل یہ گواہی دیتی ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر تشدد ایک معمول بن چکا ہے ، قانون کے رکھوالے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور نفرت انگیز گروہ کھلے عام دھمکیاں دے کر سیاست میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں حکومت کا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ داخلی عدم تحفظ کو کم کرے ، نہ کہ بیرونی سرحدوں کے بارے میں سیاسی اشتعال انگیزی پیدا کرے ۔
علاقائی تناظر میں یہ معاملہ محض پاکستان اور بھارت کا نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے ۔ یہ خطہ پہلے ہی جوہری ہتھیاروں سے مسلح دو بڑے ممالک کی وجہ سے حساس ہے ۔ یہاں ایک غلط فہمی، ایک غلط بیان یا ایک سیاسی جنون کسی بڑے بحران کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے نہایت دانشمندی سے اس بیان کا جواب سفارتی اصولوں کے تحت دیا، تاکہ کشیدگی مزید نہ بڑھے ۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ بھارتی قیادت ایسے بیانات سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ؟ کیا یہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ؟ کیا یہ اکثریتی ووٹ کے جذبات کو بھڑکانے کی حکمت عملی ہے ؟ یا پھر یہ خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کا ابتداء ہے ؟ ان سوالات کا جواب وہی دے سکتا ہے جس کے پاس بھارت کی سیاسی حرکات کے پیچھے چھپے محرکات تک رسائی ہو، لیکن خطہ ضرور اس کے نتائج بھگت سکتا ہے ۔
پاکستان کا ردعمل نہ صرف سفارتی زبان میں متوازن تھا بلکہ خطے کے امن کی ترجمانی بھی کرتا ہے ۔ پاکستان نے یہ بھی یاد دلایا کہ سرحدی نقشوں سے کھیلنے والے ممالک دراصل اپنی ہی زمین پر موجود خوف کو چھپاتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو اندر سے کمزور ہو، جہاں اقلیتیں خوفزدہ ہوں، جہاں تاریخ مسخ کی جاتی ہو، جہاں تعلیم سیاسی بیانیے کا آلہ کار بن جائے ، وہ ہمیشہ بیرونی دشمنوں کا تصور پیدا کرتا ہے تاکہ اندرونی بگاڑ سے توجہ ہٹائی جا سکے ۔ اس وقت بھارت اسی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہے ، اور یہی کیفیت خطرے کی گھنٹی ہے ۔
پاکستان نے یہ بھی درست کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ ان عناصر کا احتساب کرے جو نہ صرف اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے ہیں بلکہ اسے عملی طور پر انجام بھی دیتے ہیں۔ اگر بھارتی ریاست واقعی ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے تو اسے اپنی اقلیتوں کو وہی حقوق دینے ہوں گے جن کا ذکر وہ بیرونی دنیا میں کرتا ہے ۔ بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت کے بیانات، پالیسیاں اور طرزِ حکمرانی اس کے جمہوری تشخص کو نہ صرف کمزور کر رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ بھی کم ہوتی جا رہی ہے ۔پاکستان ہمیشہ اس اصول پر قائم رہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن، باہمی احترام، سرحدوں کی حرمت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابندی سے ہی ممکن ہے ۔ پاکستان نے اپنی طرف سے کبھی بھی توسیع پسند بیانیے کو فروغ نہیں دیا، نہ ہی کسی کے جغرافیے پر دعویٰ کیا۔ اس کی توجہ ہمیشہ خودمختاری، امن، تعاون اور علاقائی ترقی پر رہی ہے ۔ اس کے برعکس بھارت کی جانب سے ایسے بیانات خطے میں بے چینی بڑھاتے ہیں، اور یہ بے چینی مستقبل کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے ۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ امن صرف الفاظ سے نہیں بلکہ رویوں سے قائم ہوتا ہے ۔ بھارت اگر واقعی خود کو ایک ذمہ دار ریاست سمجھتا ہے تو اسے اپنے وزرا کے بیانات میں سنجیدگی لانی ہوگی، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا، سرحدوں کے احترام کو تسلیم کرنا ہوگا، اور خطے کے پڑوسی ممالک کے بارے میں سیاسی اشتعال انگیزی چھوڑنی ہوگی۔ یہی راستہ ہے جو جنوبی ایشیا کو جنگی نفسیات سے نکال سکتا ہے ، عوام کو امن کی طرف لے جا سکتا ہے ، اور مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے ۔ اگر بھارت یہ راستہ اختیار کرے تو خطہ خود بخود استحکام کی طرف جائے گا؛ لیکن اگر اس نے توسیع پسندانہ ذہنیت کو اپنا سیاسی ہتھیار بنائے رکھا تو یہ آگ صرف سرحد پار نہیں بلکہ بھارت کے اپنے اندر بھی پھیلتی چلی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • دھرمیندر کے انتقال کے بعد ہیما مالنی کا پہلا جذباتی ردعمل سامنے آگیا
  • سہیل آفریدی کا الزام: وفاقی حکومت کرپشن کے پیسے سے بیرون ملک جزیرے خرید رہی ہے
  • بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ
  • فیض  حمید  کا کورٹ  مارشل  قانونی  معاملہ  ‘ قیاس  آرائی  نہ کی جائے : افغانستان  بلڈاور  بزنس  ساتھ  نہیں  چل  سکتے : ڈی جی آئی ایس  پی آر 
  • بابری مسجد کی جگہ تعمیر مندر پر جھنڈا لہرانے پر گہری تشویش ہے، پاکستان
  • بھارت میں اسلاموفوبیا اور تاریخی اسلامی ورثے کی توہین، پاکستان کی عالمی برادری سے نوٹس لینے کی اپیل
  • بھارت میں اسلاموفوبیا اور تاریخی اسلامی ورثے کی توہین، عالمی برادری نوٹس لے
  • آمرانہ قوتوں کا اتحادی بھارت اسٹریٹجک فوائد کے لیے عوامی مفاد اور جمہوری اقدار کو کس طرح فراموش کرتا ہے؟
  • افغانستان پرحملہ نہیں کیا، پاکستان کارروائی کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے: آئی ایس پی آر
  • کیا بھارت افغانستان کے وسائل پر قبضہ جما لے گا؟ نئی سرمایہ کاری پیشکش نے سوالات کھڑے کر دیے