پاک بھارت جنگ میں پارلیمنٹ نے مثبت اور توانا کردار ادا کیا: نوازشریف WhatsAppFacebookTwitter 0 17 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس)صدر مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے پاک بھارت جنگ میں مثبت اور توانا کردار ادا کیا، قومی سلامتی کیلئے ہر قسم کی سیاسی تقسیم بھلا کر ایک آواز ہونا خوش آئند ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی سے ملاقات میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ عوام کے نمائندوں نے عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے اپنی بہادر مسلح افواج کا حوصلہ بڑھایا، ہماری بہادر مسلح افواج نے انتہائی پیشہ وارانہ مہارت اور بھرپور عزم سے سرزمین وطن کا دفاع کیا۔

پاکستانی میڈیا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ اس فتح پر ہم اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس امتحان میں سرخرو کیا، پاکستانی میڈیا نے سچ پر مبنی بیانیہ دنیا کے سامنے رکھا اور دشمن کے جھوٹ کو پوری قوت سے بے نقاب کیا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے رائیونڈ میں صدر مسلم لیگ (ن) میاں محمد نوازشریف سے ملاقات کی اور انہیں پارلیمانی پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم سے شاہد آفریدی کی ملاقات، بنیان مرصوص کی کامیابی پر مبارکباد ’’پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ کسی بھی لمحے چھڑ سکتی تھی‘‘؛ ڈونلڈ ٹرمپ کا انکشاف پاک بھارت جنگ بندی کروانے پر زندگی میں سب سے زیادہ سراہا گیا، ٹرمپ بھارت کیساتھ مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کیلئے پرعزم ہیں: پاکستان ٹرمپ کو بڑا دھچکا، امریکی سپریم کورٹ نے تارکین وطن کی ملک بدری کا فیصلہ روک دیا بھارت پاکستان کو پانی کی سپلائی کم کرنے کیلئے نئے منصوبوں پر غور کر رہا ہے، رائٹرز میڈیا ہمارا فخر ہے، بھارتی میڈیا کو جو جواب دیا وہ یادگار ہے، آرمی چیف TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ

پڑھیں:

نسل پرستی کا بھیانک کردار

سیاسی بنیاد پر انسان کا درد اور اس کے جمہوری حق کو سمجھنے والے ہمارے جمہوریت پسند اور سوشلسٹ دوست شاہ محمد پیرزادو، صالح ھنگورو اور سجاد ظہیر سولنگی کا خیال ہے کہ سندھ میں انسانی بنیادوں پر تقسیم نہ سندھو ماتا کا چلن ہے اور نہ ہی سندھ کے عوام نے کبھی لسانی بنیاد پر انسانی تقسیم کا سوچا۔ 

شاہ محمدکا نکتہ نظر ہے کہ ’’ کمیونسٹ اور دیگر لیفٹ میں بھی کمزوریاں تھیں لیکن دونوں ری تھنک میں یقین رکھتے تھے اور درستگیاں بھی کرتے تھے، ایک کمزوری سندھ میں یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ ہمارے کافی کامریڈز، قوم پرست بیانیہ میں احساس کمتری میں چلے گئے ہیں اور اس کمزوری کی بنیاد پر اپنی صفوں میں دراڑ ڈال بیٹھے۔ 

لیکن مارکس ازم سائنسی سماجی فلسفہ ہے، اس لیے مارکسسٹ لوگ غلطی مان کر سدھارکر واپس بنیادی تضاد والے نکتے پر جمع ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ عوام کے درمیان نفرت کو دائمی نہیں رہنا چاہیے۔

صالح ھنگورو کا خیال ہے کہ ’’ سندھ/ سندھی اس دن اکیسویں صدی میں داخل ہوں گے جس دن بھوتاروں، سرداروں، پیروں، میروں سے ماورا کراچی بیسڈ سندھی سندھ کے حکمران ہوں گے‘‘۔

جب کہ سجاد ظہیر سولنگی کا ماننا ہے کہ سندھ میں جب تک حکمران طبقات کی جانب سے پھیلایا جانے والا ’’ نسل پرستی‘‘ کا زہر ختم نہیں ہوگا، اس وقت تک سندھ اپنی امن پروری، انسان دوستی اور اپنی کھوتی ہوئی ثقافت اور تہذیب پر روتا رہے گا اور کسی طور عوام کی جمہوری آزادی سندھ دوست عوام حاصل نہیں کر پائیں گے۔

ان کے بقول جب کراچی کے تعلیمی اداروں سے سرکاری سطح پر سندھی زبان کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو حسن ناصر(مرحوم) نے کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں سخت مؤقف اختیارکرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا تھا۔

انھوں نے پارٹی کے اندر بھی سندھی زبان کے نفاذ اور احترام کے لیے مضبوط اسٹینڈ لیا اور ان کے اس اصولی موقف نے پارٹی کو سندھی زبان کے دفاع کے فیصلے پر قائم رکھا۔

آج اگر کراچی میں کوئی بھی اردو بولنے والا سندھ کی وحدت کا بھرپور دفاع کرتا ہے تو اس کے پیچھے شہید حسن ناصر جیسے ایک اردو بولنے والے انسان کا تاریخی اور اصولی کردار نظر آتا ہے۔

ان کی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ نسل پرستی کے نام پر نہیں بلکہ انصاف، برابری اور انسانیت کے لیے کھڑا ہونا اصل ورثہ ہے۔ ہمیں ان روایات کو دہرانے کی ضرورت ہے۔

آج بھی ہزاروں اردو بولنے والے ایسے ہیں جو تعصب اور نسل پرستی کے بیانیے کو مسترد کرتے ہیں اور سندھ کی تقسیم کے سخت خلاف ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر آج معاشرے میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے حکمران طبقات ہیں، جنھوں نے 18ویں ترمیم توکردی لیکن لوکل باڈیزکا نظام مضبوط بنانے میں ناکام رہے۔

اسی کے نتیجے میں سندھ کے اہم شہر کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ، انتظامی اور بنیادی سہولتوں کے شدید مسائل کا شکار ہیں۔

 لہٰذا آج اصل ضرورت یہ ہے کہ لڑائی وسائل کی منصفانہ تقسیم پر لڑی جائے نہ کہ نسل پرستی کی بنیاد پر۔ نسل پرستی ہمیشہ اصل مسائل کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔ ہمیں اس کے خلاف سخت موقف اپنانا ہوگا۔

ان تینوں سوشلسٹ خیالات کے دوستوں کی رائے کو ہم جب آج کی سیاست کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاں اکثر و بیشتر سیاست کے تجزیہ نگار اور انسانی حقوق کے دانشور انسان کی جمہوری آزادی کا حل جمہوری نظام یا جمہوریت کو قرار دیتے ہیں۔ 

جو انسانی خواہشات اور آزادی پسند ہونے کے ناتے، سننے اور دیکھنے میں بہت اچھا لگتا ہے، مگر جمہوری نظام اپنی بنیادی ضرورت یعنی رائے کی مکمل آزادی اور مد مقابل کے اختلافی نکتہ نظرکو سننے پر اب تک مستحکم نظر نہیں آتا۔

جب کہ دنیا کے جدید ترقی یافتہ ممالک میں بھی جمہوریت اپنے اصل جوہرکے ساتھ آج تک نافذ نہیں ہو سکی ہے، جب کہ آج کے عالمی حالات میں مزید الجھ گیا ہے، عوام کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے موجودہ دنیا کا رائج جمہوری نظام کا نفاذ کس طرح کیا جائے گا یا وہ کونسی قوت ہو گی جو اس جمہوریت کے وہ تمام تقاضے بروئے کار لے آئے گی جو عوام کو مکمل جمہوری سوچ اپنانے کا حق دیں گے اور عوام کو نہ صرف جمہوری آزادی دلائیں گے۔

بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی طرح عوام کے جمہوری و انسانی حقوق سلب نہیں ہونگے اور اگر کوئی طالع آزما عوام کی جمہوری آزادیوں کو ختم کرنے کی طرف جائے گا تو جمہوری نظام کس طرح اس طالع آزما کے عوام دشمن اور جمہوریت دشمن ارادوں کو ناکام بنائے گا؟

اس گھمبیرتا کا سادہ سا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ عوام جمہوری آزادی کی دفاع کے لیے سیاسی جدوجہد کرے اورکسی بھی طالع آزما سے لڑ کر اپنے جمہوری حقوق لے یا چھینے لے۔

جمہوری آزادی کی سلامتی کے لیے اس سیاسی جدوجہد کی دلیل کو اگر مکمل مان لیا جائے اور اس پر عوام کو متحرک بھی کردیا جائے تو سوال پھر یہ ہے کہ جمہوری حقوق کی جدوجہد میں کتنے فیصد عوام حصہ لے رہے ہیں اورکتنے فیصد عوام اس جمہوری جدوجہد سے پرے ہیں لاعلم ہیں یا سیاسی شعور سے بے بہرہ ہے؟

اس جمہوری جدوجہد کے سارے گورکھ دھندے میں جمہوری حقوق مانگنے والے قلیل تعداد میں ہوں تو وہ کس کا نقصان ہے، اور یہ نقصان کیوں ہو رہا ہے یا اس پر ’’ جمہوریت پسند‘‘ متحرک دوست کیونکر توجہ نہیں دے رہے یا عوام کے بڑے طبقے کو جمہوری حقوق حاصل کرنے پر کیوں نہیں جوڑ پا رہے۔

مذکورہ اور اس سے متصل اور بہت سے سوالات کا جب تشفی بخش جواب نہیں ملتا تو عوام جمہوریت پسند ہونے کے بجائے صرف جینے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں اور وہ کسی بھی نظام میں دلچسپی کے بجائے جوں کی توں صورتحال میں خود کو زندہ رکھنے کے انتہائی کم قیمت سمجھوتے پر راضی ہو جاتے ہیں جو انتہائی خطرناک رجحان اور تشویش ناک صورتحال ہوتی ہے۔

نسل پرستی کے پھر سے سر ابھارنے کے عوام دشمن رجحان کو تاریخی و سماجی طور سے سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے، جس پر صدیوں سے غور و فکر ہوتا رہا ہے اور ’’ نسل پرستی‘‘ کے خاتمے کے لیے دنیا میں سرمایہ دار قوتیں اربوں ڈالر کے فنڈز مختلف اداروں اور این جی اوز میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔

مگر دنیا میں نہ ہی انسانی حقوق مستحکم ہو پا رہے ہیں اور نہ ہی کسی بھی خطے میں عوام کو ان کی جمہوری و سیاسی آزادی مل پا رہی ہے، بلکہ نسل پرستی کے زہر کو تنگ نظر قوم پرستی کے خوش کن نعرے کی سیاست کے کپڑے پہنا کر نہ صرف جمہوریت کو کمزور اور بے وقعت کیا جا رہا ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اب تک نسل پرستی کے عذاب سے نہیں نکل سکے ہیں۔

جس کی سب سے بڑی مثال امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ، مودی، دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں سب سے کمزور شکل نسل پرست قوم پرستی کا وہ انداز ہے جو بنیادی طور سے نسل پرست تو ہے مگر اس نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے قوم پرستی کی سیاست شروع کر رکھی ہے۔

پاکستان میں نسل پرستی کا کھیل بنیادی طور پر اقتدار پر قابض ان طاقتور قوتوں کے حق میں جاتا ہے جو جمہوری حقوق عوام کو نہیں دینا چاہتیں، پاکستان کی سیاست میں یہ قوتیں سر عام نسل پرستی کی مخالفت کرتی نظر آئیں گی۔

مگر دوسری جانب یہی اقتداری قوتیں عوام کو جمہوری حقوق نہ دینے کے لیے عوام کو مذہبی، لسانی، فرقہ واریت پر تقسیم کر کے کہیں اسے لسان کی بنیاد پر قوم پرستی کا نام دیتی ہیں تو کہیں یہ طاقتور قوتیں عوام میں مذہبی شدت پسندی کے گروہ تیار کر کے نسل پرستی کی ایسی بھیانک شکل عوام کے سامنے لاتے ہیں کہ عام فرد اپنی بقا و سلامتی کی فکر میں گرفتار ہو کر جمہوری حقوق اور جمہوری سیاست سے بھی دور ہو جاتا ہے ۔

 سماج میں منفرد اور طاقتور ہونے کا خیال ہی دراصل نسل پرستی کا وہ بنیادی جرثومہ ہے جو آج تک انسانوں کی نسل کشی، برادری، زبان، زمین، مذہبی برتری اور طاقتور ہونے کی بنیاد پر دنیا بھر میں کی جا رہی ہے جب کہ جس کو روکنے یا ختم کرنے کا کوئی مربوط طریقہ آج بھی جدید و ترقی یافتہ ممالک دریافت نہیں کر پائے ہیں جس سے طاقتور حکمران مسلسل دنیا کی محکوم عوام کے جمہوری، سیاسی اور انسانی حق کو ’’ جمہوریت‘‘ کا نام لے کر چبا رہے ہیں۔ 

لٰہذا جب تک نظریاتی سیاست کی جڑیں دوبارہ سے پاکستانی سماج میں نہ اگائی جائیں گی، ملک میں حکمران قوتیں نسل پرستی کا زہر اپنے پالے ہوئے تنگ نظر قوم پرستوں کے ذریعے نسل میں منتقل کرکے انھیں جمہوریت اور سیاست دونوں سے دور کر کے حکمران طبقے کا تر نوالہ بنا دیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان
  • بھارت جموں و کشمیر کے تئیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے، محبوبہ مفتی
  • بچوں میں مثبت رویہ کیسے اجاگر کریں
  • عمران خان ایک ذہنی مریض ہے خان نہیں تو کچھ نہیں والی سوچ پر لعنت بھیجتے ہیں، وزیر اطلاعات
  • ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھارت شدید عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے, پرواین ساہنی
  • پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک نے فلسطینی عوام کی جبری بے دخل مسترد کردی
  • نسل پرستی کا بھیانک کردار
  • غزہ میں حکومت کرنا نہیں چاہتے، ٹیکنوکریٹک انتظام کی حمایت کرتے ہیں، حماس
  • یوکرین کے علاقے دونباس پر قبضہ کرکے رہیں گے: روسی صدر کی دھمکی
  • اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان برقرار، انڈیکس میں 892 پوائنٹس کا اضافہ