اسلام ٹائمز: مختار عادل اعلیٰ پائے کے نوجوان شاعر و محقق ہیں، انگریزی ادب کے معلم ہیں، اس کے علاوہ مذہبیات، سماجیات جیسے علوم میں بھی تخصص رکھتے ہیں اور ان موضوعات بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ آپ نے علامہ شیخ محمد جواد مُغنیہ تالیف "تفسیر الکاشف" پہ اپنی حاصل مطالعہ تحریر قلمبند کی ہے، احباب کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔ تحریر: عادل مختار
میں ایک عرصے سے لبنان کے عظیم فقیہ، علامہ شیخ محمد جواد مغنیہ (1979-1904ء) کی معرکۃ الآراء تفسیر "الکاشف" کے مطالعہ کا متمنی تھا۔ اب خدا کی عنایت کردہ توفیق سے اپریل 2025ء کے وسط میں مذکورہ تفسیر کے مطالعہ کا آغاز کرنے بعد 12 نومبر 2025ء کو اس سات جلدوں پر مبنی تفسیر (اردو ترجمہ مطبوعہ مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور) کے مطالعے کو مکمل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس تفسیر کا اردو ترجمہ ہمارے تفسیری ادب میں اہم اضافہ ہے کہ جس کے لیے ادارہ مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور اور اس تفسیر کے مترجمین مولانا الطاف حسین کلاچی(جلد 1،2) مولانا محمد کاظم شہیدی (جلد 3) اور مولانا عبد اللہ عترتی (جلد 4،5،6،7) خصوصی طور پر داد اور دعا کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس تفسیر کے حوالے سے وجہ تشویق سب سے پہلے تو علامہ شیخ محمد جواد مغنیہ کی علمی اور عملی حیثیت تھی کہ میں جس کا معتقد ان کی کتاب "الشیعہ والحاکمون" کے مطالعے ہی سے تھا۔ صاحب تفسیر الکاشف شیخ محمد جواد وہی شیخ مغنیہ ہیں کہ جن کی تحریروں نے بیروت میں امریکی حکام میں زبردست تشویش پیدا کردی تھی۔
امریکی نمائندوں نے شیخ صاحب قبلہ سے اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ سے ملاقات اور بات چیت کرنے کی درخواست کی۔ جواب میں انہوں نے کہا: "امریکہ اسلام اور عرب قوم کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ امریکہ، اسرائیلی حکومت کو وجود میں لایا اور اس طرح اس کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے داغدار ہیں۔ ہمارے اپنے بھائی امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دیئے گئے ہتھیاروں سے مارے جا رہے ہیں۔ ان سب واقعات کے ہوتے ہوئے، آپ مجھے Sixth Fleet کا دورہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔؟"
اس جراءت مندانہ، بے باک اور باعزت اقدام پر لوگوں میں اس حد تک بحث ہوئی کہ اس وقت کے بائیں بازو اور عرب نیشنلسٹ اخبار "محرر" نے ان کے عمل کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: "یہ عزت دار عرب ہے" (www.
Al-Islam.org)
تفسیر الکاشف کا ہدف نہ تو لغت ہے، نہ روایات ہیں اور نہ ہی مناظرہ و مناقشہ ہے، بلکہ اس تفسیر کے مخاطب عوام اور جمہور ہیں، جو عالمی استکبار کے تحت معیشت ضنک سے دوچار ہیں۔ میری نظر میں تفسیر الکاشف سماجی، معاشی، نفسیاتی، سیاسی اور مذہبی مسائل اور مشکلات سے دوچار جمہور کے لیے قرآنی آیات کے سائے میں مستضعفین کی فکری تربیت کا نصاب اور ان کی مسئولیت کو واضح کرنے کی ایک سعی مشکور ہے۔ ایک عالم کئی نظریات اور آراء کا جاننے والا ہوتا ہے، سو علامہ مغنیہ جدید دور کے نظریات پر گہری نگاہ رکھنے کے باوصف انسانی مسائل اور مشکلات کا واحد حل دین قیم کی طرف مراجعت کو قرار دیتے ہیں۔ اس شے کا اظہار سورہ بقرہ آیت 60 کے تحت ان کے مندرجہ ذیل تنقیدی نکات سے ہوتا ہے:
"سوشلسٹ کہتے ہیں امپیریلزم مکمل طور پر رذالت اور بدبختی ہے اور سوشلزم فضائل و سعادت کا مصدر ہے۔ امپیریئرزم والے کہتے ہیں، اصل قومیت ہے، عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے اور روح بھی۔ ہٹن نے کہا تھا کہ کوئی چیز مختلف نہیں ہے، صرف جن سے عاریہ ہی مطلق ہے، لیکن ہٹلر کے اکثر دشمن اسی کی طرح عاریہ تھے، انہوں نے اس نظریئے کو اس کی زندگی میں ٹھکرا دیا تھا۔ جرمنی کو شکست ہوئی، بہت سی اقوام کے لوگ مارے گئے، بہت سی تہذیبیں برباد ہوئیں اور ان کی جگہ دوسری تہذیبوں نے جنم لیا۔ ایک زمانے تک امپیریلزم کسی حد تک چھایا رہا، لیکن ماسکو اور ان کے درمیان اتفاق نہ ہوسکا اور وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف رہے۔ جی ہاں انسان عجیب و غریب کنواں رکھتا ہے، جن کا شمار ممکن نہیں ہے۔
انسانی حالات کا احاطہ بھی مشکل ہے، جنہوں نے انہیں شمار کرنا چاہا تو انہوں نے امر مخال کو طلب کیا۔ ان حالات و ظروف کا اپنا اپنا اثر اور عمل ہے۔ انسان ان تمام کے ساتھ مد و جزر میں ہے۔ ان تمام احوال و ظروف کو مادہ کے موثرات میں محصول کرنا باطل ہے۔ جی ہاں فقر و افلاس ہے، جو انسان کو رسالت اور گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ بہت ہی موثر ہو جاتا ہے۔ حضرت امیر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ قریب ہے، فقر کفر میں بدل جائے، یہ حقیقت ہے کہ انسان کی تمام ضروریات پوری ہو جائیں، اس کے پاس مال و متاع حیات کی فراوانی ہو جائے، لیکن پھر بھی سکون و استقرار سے دور رہتا ہے۔ اسے اس وقت سکون ملتا ہے، جب اس میں انسانیت آتی ہے اور جب وہ دین قیم کی طرف آتا ہے تو وہ اسے خطا یا اور گناہوں سے بچا لیتا ہے۔"
الکاشف کے مقدمے میں علامہ شیخ جواد مغنیہ نسل نو کی دین اور اس کے اہداف سے ناآشنائی کی وجوہ بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد "قرآن کی حکومت" کو اس مرض کا علاج بتاتے ہوئے رقمطراز ہیں: "لوگوں کی ذہنی تربیت اس طرح کی جائے کہ جس طرح اسباب طبیعیہ عالم طبیعت میں عمل کرتے ہیں۔ اس طرح جدوجہد کی جائے کہ جس طرح رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محنت فرمائی تھی۔ انہوں نے جاہلیت اور جاہلی رسم و رواج کے خلاف بھرپور جدوجہد کی تھی کہ ہر طرف اسلامی انقلاب کے پرچم لہرانے لگے تھے۔ جس طرح حدیث میں آیا ہے "بدا الاسلام غریبا وسیعود غریبا کما بدا" (اسلام کا آغاز غربت سے ہوا اور پھر یہ عنقریب غربت کی طرف پلٹ جائے گا) لیکن وہ جدوجہد چاہیئے، جو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت و اصحاب نے کی تھی۔ خود بخود قران مجید کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم بھرپور کوشش و کاوش کریں، کسی آسمانی معجزے کا انتظار نہ کریں۔"
اس ضابطے کے تحت شیخ کسی ایک مقام پر بھی اپنے قاری کو روشن مستقبل کے حوالے سے مایوس نہیں ہونے دیتے، بلکہ ایک یقینی فلاح کے انتظار میں عمل پیہم کا پیغام دیتے ہیں۔ سورہ الانبیاء آیت 105 کے ذیل میں حدیث ذکر کرتے ہیں کہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دنیا کے باقی رہنے کا صرف ایک دن رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو بھی اتنا طویل کر دے گا کہ ایک مرد میری اہل بیت میں سے مبعوث ہوگا اور اس کا نام میرے نام جیسا ہوگا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام جیسا ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا، جیسے وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی اور اس کے فوراً بعد اس حدیث پر تاریخی شعور، منطق اور سائنسی طرز پر سوچتے ہوئے لکھتے ہیں: "اور زندگی کا قانون اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کی تاکید و اقرار کرتا ہے، اگرچہ ابھی قوت و طاقت بے رحم درندوں کے ہاتھ میں ہے اور وہی لوگ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل وغیرہ پر قابض ہیں، کیونکہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جو کسی وقت قوت و طاقت ان سرکشوں اور گمراہ لوگوں سے چھین کر اہل حق و عدل کے ہاتھ میں دے بلکہ بقا و آزادی کی محبت اور وہ اصول جو کہتا ہے: زمین پر جو کچھ ہے، وہ زمین کی طرح حرکت میں ہے، نیز حال کا باقی رہنا محال، یہ سب حتمی نتیجے بتاتے ہیں کہ بالآخر قوت و طاقت باصلاحیت اور اہل شخص کے پاس منتقل ہوگی۔"
مسئولیت کا احساس، امید اور عمل مسلسل کا بیان الکاشف کے مزاج کو واضح بھی کرتا ہے اور اس کے اول تا آخر اسلوب کے لیے ایک مضبوط فکری بنیاد فراہم کرتا ہے۔ "مفسر" کی تعریف کرتے ہوئے اور تفسیر کے محرک بیان کرتے ہوئے شیخ مغنیہ نے لکھتے ہیں: "قرآن کریم کے معنی و مفاہیم کا حقیقی ادراک اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ان کی گہرائی میں نہ اترا جائے اور ان میں دل و دماغ کی طاقتوں کو استعمال نہ کیا جائے اور جب تک انسان کا ایمان اس کے خون اور گوشت میں مخلوط نہ ہو جائے، اس وقت تک قرآن کریم سمجھ میں نہیں آسکتا۔ یہی بات حضرت امام علی علیہ السلام کے اس فرمان میں دیکھی جا سکتی ہے "ذاک القرآن الصامت وانا القرآن الناطق"(یہ قرآن صامت ہے اور میں قرآن ناطق ہوں) مزید لکھتے ہیں: "میں نے اللہ سبحانہ کے ان کلمات میں خوب تدبر کیا اور اس کا حاصل یہ ہے کہ تقویٰ کے بغیر کوئی ایمان نہیں۔ جنت اس کے لیے ہے کہ جس نے جنت کے حصول کے لیے کاوش کی ہو اور راہ حق کی خاطر قربانیاں دی ہوں۔ اصول اسلام اور فروعات ایمان میں سے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جو شریعت اسلامی میں موجود نہ ہو۔ شریعت کا ہر مسئلہ انسانی حیات سے مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے۔"
یہی وہ بنیاد فکر ہے کہ جس کے سبب کتنے ہی عالمی مسائل ہیں، جنھیں وہ شرعی اور اصولی نظر سے حل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علمی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ "بھوک " کا مسئلہ ہے۔ حم السجدہ کی آیت 10 کے تحت شیخ اس پر مستقل عنوان قائم کرتے ہیں "بھوک کے مسئلے کا حل کیا ہے؟" اور اس کے تحت لکھتے ہیں:
"بھوک کا سب سے پہلا سبب شیطانی طاقتوں کا زمین کے وسائل پر جھگڑا اور اس کے ذرائع کی ذخیرہ اندوزی کرنے نیز کچھ لوگوں کا بہت زیادہ لوگوں کے وسائل پر عیش کرنے اور زرعی آمدنی کو جلا کر اس کی قیمت کو بڑھانے، نیز ہزاروں ٹن زہریلے کیمیائی مواد کو ویتنام وغیرہ کے دیہاتوں اور کھیتوں میں ڈال لیں، نیز جدید علم و جدید تحقیق کو جنگی اور عسکری سامان تیار کرنے پر صرف کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اگر علم کو پرامن صناعت پر صرف کیا جائے تو زمین کے وسائل اس کے رہنے والوں سے زیادہ ہو جاتے، نیز خوراک مٹی کی طرح ہو جاتی ہے۔
یونس کو مجلہ نے ایک مقالہ شائع کیا، جس میں تھا کہ ایک بڑے میزائل کے خرچے سے ایک سو بیڈ والے تمام سامان کے ساتھ 75 ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں یا اس سے 50 ہزار ٹریکٹر خریدے جا سکتے ہیں، جس سے بہت زراعت کی جا سکتی ہے اور امریکہ نے ویتنام کی جنگ میں 400 بلین خرچ کیے، جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی۔ کیا یہ 400 بلین زمین کے کچھ وسائل اور اس کی برکات میں سے نہیں ہیں، اگر یہ خرچہ زراعت پر کیا جاتا تو یہ تمام صحرا اور سمندروں نیز بعض ستاروں کو بھی آباد کرنے کے لیے کافی تھا، اہل زمین اور ان کے ساتھ ان جیسی دیگر مخلوقات سکون کی زندگی گزارتے۔" نہج فکری کو وسیع کرتے ہوئے مقدمے میں شیخ جواد مغنیہ نے "مفسر" کی تعریف کرنے کے بعد لکھا: "بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک مفسر اپنے فہم و ادراک سے تفسیر کرتا ہے یا جو کچھ اس کے ذہن میں ہوتا ہے، وہی تحریر کرتا ہے۔ نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ ایک مفسر دوران تفسیر وہ بات کرتا ہے، جو واقعی ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایک فقیہ مجتہد کی سی ہے۔ اگر وہ صحیح استنباط کرتا ہے تو اسے اجر دیا جاتا ہے، اگر وہ خطا کرتا ہے تو وہ اس امر میں معذور سمجھا جاتا ہے، کیونکہ دارومدار نیت پر ہے۔"
اس طرح منہاج تفسیر کو بیان کرتے ہوئے علامہ شیخ جواد مغنیہ نے چار ضوابط کا ذکر کیا ہے۔ پہلا یہ کہ قرآن کریم کے خوب مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کتاب کا پہلا ہدف یہ ہے کہ ہر فرد انسانی کو وہ حقیقی زندگی حاصل ہو جائے کہ جس کی بنیاد سلامتی اور امن ہو۔ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور اسی سبب سے انسان اس جنت ارضی میں آسودہ رہے۔ دوسرا یہ کہ جس زمانے میں وہ تفسیر کر رہے ہیں، اسی زمانے میں لوگ دین سے نہ صرف برگشتہ ہیں، بلکہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے تفسیر قرآن میں ان ضروری باتوں کو ذکر کیا ہے، جو فوراً ہدف تک پہنچنے والی ہوں۔ نسل نو کے تقاضوں کو اس حوالے سے بطور خاص ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ جبر و اختیار، ہدایت اور ضلالت، امامت اور عصمت اور شفاعت وغیرہ ایسی فلسفیانہ بحثوں کو بقدر ضرورت تفصیل سے بیان کیا۔ یہ تفسیر الکاشف کا ایک بہت بڑا امتیاز ان بحثوں اور مطالب سے پہلو بچانا ہے کہ جن کے لیے ہم مکلف نہیں ہیں۔ تفسیر میں ایسے بیسیوں مقامات آتے ہیں، جہاں مفسر نے گذشتہ مفسرین کی روش سے ہٹ کر اپنی تفسیر کو مقصد کو کھو دینے والی ضخامت غیر مفید بحثوں سے بچایا ہے اور ہدف پر نظر رکھی ہے۔
مثال کے طور سورہ بقرہ آیت 34 پر جہاں قرآن میں پہلی مرتبہ ابلیس کا ذکر ہوا، وہاں ابلیس کی حقیقت کا عنوان سے بحث کو یہ لکھ کر سمیٹتے ہیں کہ ابلیس شیاطین اور جنوں کی پہچان کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ وحی ربانی ہے، اس موضوع پر مفسرین کی لمبی چوڑی بحثیں موجود ہیں، ہم نے صرف آیات کے ظواہر پر بحث کی ہے، طول طویل بحثوں سے بچنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ یہ وہ بحثیں ہیں، جو فائدے سے خالی ہیں اور سوفسطہ اور شعوذہ پر مبنی ہیں۔" تیسرا ضابطہ یہ بیان کیا کہ انھوں نے، محض خرافات ہونے کے باعث، اسرائیلیات کا سایہ بھی الکاشف پر نہیں پڑنے دیا۔ اسی طرح اسباب نزول والی روایتوں کو بھی بہت کم نقل کیا۔ چوتھا ضابطہ یہ بیان کیا کہ انھوں نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش نظر رکھا کہ حدیث قرآن کی ترجمان ہے۔ اس لیے وہ آیات کے حوالے سے اپنے اپنے منہج کے اعتبار سے جس قدر احادیث لانا چاہتے، وہ لے کر آئے۔ مگر ان کے ہاں ایک احتیاط یہ ملتی ہے کہ وہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ جہاں تک ہوسکے، وہ تمام مکاتب کے لیے قابل قبول روایات کو شامل تفسیر کریں۔ اس کے علاوہ نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔
علامہ مغنیہ کے علمی اور عملی آثار جبر، استبداد، استعمار اور استثمار کے خلاف ایک باقاعدہ معرکے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی تفسیر کا بھی ایک بڑا حصہ دور جدید کے پیچیدہ ترین شکوک و شبہات اور ان کے ازالے، جبر کے خلاف مزاحمت، حق کے دفاع، قوت عمل اور ظلم پر ردعمل کی نوعیت کی وضاحت پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے تفسیر الکاشف شاید بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی اب تک کی لکھی گئی تفاسیر میں ممتاز ترین مقام رکھتی ہے۔ تاریخ یہود و صیہونیت اور ان کے ماضی اور حال میں انسانی تاریخ اور نظام عالم پر ان کے اثرات کو جس سطح پر تفسیر الکاشف میں پیش کیا گیا ہے، اس کی نظیر الکاشف سے پہلے کی تفسیروں میں نظر نہیں آتی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صیہونیت کے نقاب الٹنے، اس کے تجزیہ اور تحلیل کی دعوت عام دینے اور اس کے رد کے لیے امت کو ابھارنے کے حوالے سے تفسیر الکاشف ایک فکری محاذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
سورہ ابراہیم آیت 26 "وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِ" کے تحت لکھتے ہیں کہ ہر وہ کلام جو انسانیت کے لیے مضر و نقصان دہ ہو اور کلمہ خبیثہ ہے، اس کے اوپر لعنت ہے، خواہ وہ کسی مسلمان کے منہ سے نکلے یا کسی غیر مسلم کے منہ سے، خواہ کتنا ہی بڑا انسان ہو یا حقیر بلکہ باطل کی مقاومت سے خاموشی اور حق کی مدد نہ کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حق بات سے خاموشی اختیار کرنے والا گونگا شیطان ہے. گاندھی نے ٹیگور کو خط میں لکھا "تم بہت بڑے شاعر ہو، لیکن جب گھر جل رہا ہے، تب تم کھیل کود میں لگے ہوئے ہو، خوبصورت گانا کسی بھوکے کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی مریض کو شفا دیتا ہے۔" آج دنیا اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی چکی ہے اور اس پر سراپا احتجاج بھی ہے، مگر تفسیر الکاشف 1967-1969ء کے دوران اسرائیل کے شرمناک جرائم کو دستاویز کی صورت دے رہی تھی کہ جب مغرب کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا تھا۔
اس حوالے سے سورہ طہ کی آیات 90-98 کی تفسیر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "میری بہت بڑی خواہش تھی کہ میں ان آیات کی تفسیر کروں، جو بنی اسرائیل کے متعلق نازل ہوئی ہیں اور ان کی عجیب چیزوں اور بے قاعدگیوں کی حکایت کرتی ہیں۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں ایک کمیٹی بناؤں، جس میں انسان کے جبلت شناس لوگ ہوں اور وہ بنی اسرائیل کی جبلت اور طبیعت پر تحقیق کریں، ان کی قدیم و جدید سیرت و تاریخ کی روشنی میں، تاکہ ہم جان سکیں کہ آیا یہ لوگ صرف ظاہراً انسان ہیں یا واقعی حقیقت میں بھی انسان ہیں۔؟ یا یہ کہ ان کی انسانوں کے ساتھ صرف شکل و صورت میں شباہت ہے۔؟ جس طرح اس مطلب کی طرف قرآن کریم کی متعدد آیتیں اشارہ کرتی ہیں، اسی طرح میڈیا کس طرح استعمار کے کارندے کے طور پر آج سرگرم نظر آتا ہے، وہ بھی مفسر کے پیش نظر ہے اور اپنے مقام پر اس کی طرف بھی آیت اور اس تفسیر کرتی ہوئی روایت کے ذریعے توجہ دلائی گئی ہے۔
سورہ لقمان کی آیت "وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡن" کے تحت لکھتے ہیں: مجمع البیان کے مصنف فرماتے ہیں کہ "اکثر المفسرین علی ان" المراد بلھو الحدیث الغناء" یعنی زیادہ تر مفسرین کا قول ہے کہ لھو الحدیث سے مراد غنا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے "انہ الطعن بالحق والاستھزاء بہ" یعنی یہ حق بات پر طعنہ زنی کرنا اور اس کا مذاق اڑانا ہے، حالانکہ یہ تفسیر حقیقت کے زیادہ قریب ہے اور سیاق کلام سے مناسب تر ہے، کیونکہ حق سبحانہ و تعالی نے جب کامیاب مومنین کا تذکرہ فرمایا تو ان مجرموں کا بھی ذکر کیا، جو دین فروشوں سے عہد و پیمان کر لیتے ہیں اور ان کے ضمیر خریدتے ہیں، تاکہ لوگوں کو حق بات سے گمراہ کیا جائے اور ان کو وہم و گمان میں اس باطل کے اندھیروں میں دھکیلا جائے۔
اس بات کی واضح ترین مثال ہمارے دور میں وہ چیز ہے، جس کی طرف شیطانی قوتیں رخ کرتی ہیں، تاکہ وہ اپنی جگہ مضبوط بنائیں اور اپنے دعویٰ کو ثابت کریں، تب وہ بکی ہوئی صحافت پر کئی ملین خرچ کرتے ہیں، تاکہ اس سے جھوٹ اور افترا پردازی کو دنیا میں پھیلا سکیں، خیانت کار اور پیسے کے پجاریوں کا رواج ڈالا جائے، مخلص بندوں کو شک و توہم میں ڈالا جائے، اس سے بڑھ کر یہ بات کہ وہ شیطانی چینل نیز ان کا عملہ اسلامی لباس زیب تن کیا ہوا ہوتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے بدعتوں کو پروان چڑھائیں اور دین کی تفسیر اہل باطل کی منشا کے مطابق کریں، اہل دین کے درمیان ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑائیں۔ (تفسیر الکاشف از شیخ جواد مغنیہ، ترجمہ ج 6، ص 200-199)
تفسیر الکاشف میں بہت سے مقامات پر میدان عمل میں مصروف نوجوانوں کی آیات کے تناظر میں بطور خاص حمایت کی گئی ہے۔ یہ چیز تفسیر الکاشف کو متفکر، انقلابی اور عمل پسند نوجوانوں کے لیے ہے۔ اس حوالے جلد سوم سورہ انفال آیت 45-49 کے ذیل میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں "کیا صیہونیوں پر خودکش حملے کرنے والے تخریب کار ہیں۔؟" قائم کرتے ہیں اور اس کے تحت لکھتے ہیں: فدائی حملوں کے ردعمل میں ہم پر جو مصائب و الام آتے ہیں، وہ بسد خوشی ہمیں قبول ہے، لیکن اس سے کم از کم اسرائیل تو اپنے منصوبوں میں ناکام ہوگا، ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، ان حالات میں دشمن کے مقابلے میں فدائیوں کی پرعزم کارروائیاں ضروری ہیں، یہ مصائب ہم برداشت کریں گے، تاکہ اس سے بڑے مصائب سے نجات مل جائے۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متواتر حدیث ہے، جس میں سرکار نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہوگا۔ ایک شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے، لیکن جو دین، وطن اور انسانیت کے دفاع کی خاطر اسرائیل کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا جائے اسے آپ کیا کہیں گے۔؟"
اس تفسیر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں شیخ جواد مغنیہ اگرچہ شیعی روایات اور نظریات کو پیش کرتے ہیں، مگر ان کی روش مناظرانہ نہیں ہے، بلکہ مجاہدانہ ہے۔ ایک مجتہد ہونے کی بنا پر وہ فقہ اہل بیت پر عبور رکھنے کے باوصف علمی بنیادوں پر امامیہ فتاویٰ و موقف بیان کرتے ہیں، مگر دیگر فقہوں کو فراموش نہیں کرتے بلکہ انتہائی احترام کے ساتھ دیگر مسالک کے فقہاء و علماء کا فتویٰ یا نظریہ بھی پیش کرتے ہیںم بلکہ جہاں ان سے موافقت ہو، کھل کر موافقت کا اظہار کرتے ہیں اور جہاں مخالفت ہو، وہاں عموماً صرف اختلاف فتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ علامہ جواد مغنیہ نے بطور خاص کئی مقامات پر اختلاف کے ساتھ ساتھ علامہ فخر الدین رازی، ابن عربی، شیخ محمد عبدہ اور صاحب تفسیر المنار کو داد تحقیق دی ہے۔ وسعت نظر اور وسعت مطالعہ کی بات کی جائے تو علامہ شیخ جواد مغنیہ صرف مسلم علماء ہی نہیں بلکہ غیر مسلم علماء، فلاسفہ اور سیاست مداروں کے نظریات کو بھی بلاتکلف اپنی تفسیر کا حصہ بناتے ہیں، بلکہ جہاں ان سے موافقت ہوسکے، اس مقام کی طرف بے محابہ نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ خود اہل تشیع کے حلقوں میں جہاں کہیں کوئی قابل اعتراض بات دیکھتے ہیں یا مخالفین کی طرف سے کوئی بے بنیاد الزام دیکھتے ہیں تو نہایت مدلل اور دو ٹوک موقف کے ساتھ وارد بحث ہوتے ہیں۔ سورہ الرحمن آیت 21 اور 22 کے تحت لکھتے ہیں: "شیعہ امامیہ کی طرف یہ منسوب کیا گیا ہے، وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ "البحرین" سے مراد علی اور فاطمہ، "البرزخ " سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور "اللو لو والمرجان" سے مراد حسن و حسین ہیں اور میں امامی شیعہ ہونے کے باوصف بالجزم مطلق طور پر امامی شیعوں کی طرف سے اس عقیدے کی نفی کرتا ہوں اور یہ بھی کہ وہ کتاب اللہ کی باطنی تفسیر کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی یہ کہتا ہوا پایا جائے کہ "البحرین" سے مراد علی اور فاطمہ۔۔۔۔ الخ ہیں تو یقیناً وہ اپنے خاص موقف کو بیان کر رہا ہوگا اور بعض اوقات اسی طرح کی باتیں سنی تفسیروں میں بھی آئی ہیں، جیسا کہ سیوطی شافعی (مسلکا) کی تفسیر الدرالمنثور میں آیا ہے: ابن مردویہ نے سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ البحرین علی و فاطمہ البرزخ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور اللولو والمرجان حسن و حسین ہیں اور ایسی ہی روایت اس نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی بیان کی ہے۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اسماعیل حقی نے اپنی تفسیر "روح البیان" میں بعض علماء سے نقل کیا ہے، یقیناً ان آٹھ کا نصف (چار) جن کی طرف اللہ نے اپنے فرمان میں اشارہ کیا ہے: ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمنیتہ "وہ ابو حنیفہ، شافعی، مالک اور احمد بن حنبل ہیں۔" صاحب تفسیر الکاشف ایک فرقے کے لیے قرآن کی تفسیر ہرگز نہیں کرتے، بلکہ خود شیعہ فقیہ ہونے کے باوجود ان کی نظر میں دیگر مسالک کے لیے بھی خاص احترام ظاہر ہوتا ہے۔ ان کی نظر بطور خاص ان جوانوں پر ہے کہ جو مذہب اور ملت کے حوالے سے بدگمان ہو رہے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مسلک سے ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ تفسیر الکاشف کا بنیادی مقصد اسی بے راہ روی کا سدباب کرنا تھا تو یہ کہنا بجا ہے۔ شیخ جواد مغنیہ مادیت کی یلغار نہ صرف مذہب پر دیکھ رہے تھے، بلکہ وطنیت اور قومی وقار کے لیے بھی اسے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر میں جابجا قومی وقار کی حفاظت کے لیے بھی بہت سی آیات کے سائے میں سفارش موجود ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ جب تک امت کی مختلف اقوام اپنے آپ کو اپنے وطن کی حد تک مضبوط نہیں کرتیں تو مجموعی قوت حاصل ہونا مشکل ہے۔
شیخ مغنیہ سورہ آل عمران کی آیت 92 "لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون" کے ذیل میں فرماتے ہیں: "ہم سمجھتے ہیں کہ دولت کی پوجا زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ دولت خواہشات کا منبع ہے اور اکثر مقامات پر فساد کی جڑ ہے۔ تاریخ میں بہت سے وطن فروش خائن دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں نے دولت کے حصول کے لیے پہلے مادر وطن کو فروخت کیا تھا۔ اسی طرح سے جن لوگوں نے انبیاء و مرسلین اور صالحین سے جنگ کی تھی، اس کے پس منظر میں بھی مال و دولت کا حصول کار فرما تھا۔ اسی طرح سے جن لوگوں نے دین کو بدلا اور سید المرسلین کی شریعت کو بدلا ان کا مقصد بھی دنیا کا حصول تھا۔ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ جن بت پرستوں نے اپنی مادر وطن سے وفا کی اور وطن فروشی سے اجتناب کیا، وہ ان نام نہاد غازیوں سے بہتر ہیں، جنہوں نے وطن کو اغیار کے ہاتھوں فروخت کیا۔ اس لیے ہمیں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہے کہ خداوند عالم نے نیکی کے مقام کے حصول کو مال خرچ کرنے سے مربوط کیا۔ انفاق فی سبیل اللہ سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص حق کو باطل پر ترجیح دیتا ہے اور "باقی" کو "فانی" پر فوقیت دیتا ہے۔"
ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس کا سب سے غالب رجحان شدت پسندی ہے اور اس روش کی، عمومی رویئے کے ساتھ ساتھ افسوس ناک حد تک، علاقہء تفسیر میں بھی مثالیں جا بجا ملتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ مفسرین اپنے مذہب کے دفاع میں آیات و روایت کا سہارا لے کر اپنے ذاتی موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں خواہ مخواہ کا طول تفسیر کے مزاج کے خلاف ہو جاتا ہے، بلکہ بعض دفعہ زیر تفسیر آیات منقول و معقول کے انبار میں کہیں کھو جاتی ہیں، مگر تفسیر الکاشف میں اول تا آخر افراط و تفریط سے دامن کو بچایا گیا ہے، بلکہ اعتدال کو نصب العین کے طور پر سامنے رکھا گیا ہے۔ مفاہمت، قبولیت، اتحاد اور مکالمے کی جاں فزا فضا کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مثال ضروری ہے کہ ذکر کی جائے، جس سے واضح ہوگا کہ مکالمے کی فضا کا برقرار رکھنا علامہ کے نزدیک کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ سورہ بقرہ کی آیات 30 -34 کہ جس میں خدا اعلان کرتا ہے کہ وہ زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہے اور فرشتے اس پر معترض ہوتے ہیں کہ وہ زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔
ان آیات کے ذیل میں "خلیفہ" کی تعریف اور ان آیات کی کچھ تفسیر کرنے بعد لکھتے ہیں: "لمحہ فکریہ ان احباب کے لیے ہے، جو اپنے آپ کو ہر قسم کے اعتراضات سے مافوق سمجھتے ہیں، انہیں مندرجہ بالا مکالموں کا مطالعہ کرنا چاہیئے، جو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کے درمیان یا اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان ہوئے تھے۔ ان الہیٰ مکالموں میں غور فرمائیے، یقیناً آپ عظیم ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ سے عظیم نہیں ہیں، جب وہ مالک حقیقی ہو کر اپنی مخلوق کے اعتراضات سن سکتا ہے تو آپ کون ہیں۔؟" علامہ مغنیہ کئی مقامات پر ایک مسئلے میں مختلف نظریات ذکر کرنے کے بعد راہ اعتدال اور حل مشکلات پیش کرتے ہیں کہ جس سے نہ صرف مسلکی بلکہ قومی و نسلی اختلاف کے باوجود کہیں نہ کہیں اتحاد کا جواز حاصل ہوتا ہوا نظر آتا ہے، جس سے شدت پسندی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اعتدال پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ الم نشرح کی آیت 7 "فاذا فرغت فانصب" کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"یعنی کہ(اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دنیاوی کاموں سے فارغ ہو جایا کریں تو پھر آپ آخرت کے لیے اپنی ذات مبارکہ کو تھکایا کریں، یہاں ایک اشارہ ضروری ہے کہ بعض شرپسند عناصر جو کہ تشیع کا دعویٰ کرتے ہیں، اس آیت میں وارد "فانصب" کی تفسیر امام علی علیہ السلام کے منصب خلافت پر فائز کرنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔
ان کے اس قول کے رد میں مجمع البیان کے مصنف جو کہ شیعہ امامیہ کے یہاں شیخ التفسیر کا درجہ رکھتے ہیں، کا یہ فرمان کافی ہے کہ "فانصب" کا معنی تھکن ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کی راہ میں راحت کے ساتھ نہیں بلکہ جدوجہد کے ساتھ کوشش فرمائیں۔" تفسیر کے دوران بہت سے اخبار اور رسائل سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ تمام حوالے اب اپنی جگہ پر انتہائی اہم دستاویزات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ ابراہیم آیت 27 کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: "جب میں اس آیت کریمہ کی تفسیر لکھ رہا تھا، تب میں نے "الاھرام" مصری اخبار عدد 21 فروری 1969ء میں پڑھا، عنوان تھا کیا انسانیت ایٹم کی جنگ کی انتہاء اور جراثیم کی جنگ کی ابتدا دیکھ سکتا ہے۔؟ اس عنوان کے تحت لکھا تھا (دنیا میں جدید اسلحہ نمودار ہوا ہے، جو کہ بہت ہی خطرناک ہے، نیز ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ ہے جراثیم فورس اور وبائی امراض کا پھیلاؤ، اس اصل ہے کہ اثار میں سے ہے کہ انسان جیسے ہی اس ایٹم کو مس کرے گا تو اس کے اعضاء سکڑنا شروع ہو جائیں گے، اس کی آنکھیں باہر آجائیں گی اور اسی وقت سے وہ شخص مر جائے گا، امریکہ و برطانیہ کے پاس کئی ایسی فیکٹریاں اور کارخانے ہیں، جن میں اس طرح کا اسلحہ بن رہا ہے۔
اپنی ضرورت کے لیے اس کو تیار کر رہے ہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ آئندہ زمانے میں عالمی وباؤں کے باعث ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ پر پابندی عائد ہو جائے تو یہ دونوں ملک ایٹم بم کی جگہ پر اس تباہی اور بربادی پھیلانے والے اسلحے کا استعمال کریں گے) جو لوگ اس طرح کی نیت رکھنے والوں کا ساتھ دے رہے ہوں، کیا ان کی نمازیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔؟" ایک اور مثال اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہے۔ سورہ حم السجدہ آیت 37 کے تحت عنوان قائم کیا گیا ہے "چاند کا سفر" جس کے تحت لکھتے ہیں: "۔۔۔میں نے مصری اخبار عدد 1970-2-6 میں علوم طبیعی کے دو بڑے عالموں "م واسین اور" اشر باکوف" کا ایک مقالہ پڑھا، جسے سوفییتی جریدے برافدا سے ترجمہ کیا گیا تھا، وہ دونوں سائنسدان امریکی سائنسدانوں کی چاند پر موجود مٹی اور معادن پر کی گئی تحقیق کے نتائج کے اعلان سے مطلع ہوئے اور کہا یہ تحقیق تمام ان نظریات کو رد کر دیتی ہے، جو چاند کے بارے میں مشہور ہیں اور اس کی ایک ہی تفسیر ہوسکتی ہے کہ چاند کو ایک دقیق اور مضبوط طریقے سے بنایا گیا ہے، نیز جس نے اسے خلق کیا ہے، وہ حیران کن قوت کا مالک ہے، جو کائنات میں کسی کے پاس نہیں ہے۔"
اخبار اور رسائل کے کئی مقامات پر حوالے ثابت کرتے ہیں کہ علامہ شیخ جواد مغنیہ نہ صرف خود بھی علاقائی اور عالمی طور پر ایک آگاہ عالم تھے، بلکہ وہ قرآن سے جڑے ہوئے لوگوں کو بھی تشویق دلاتے ہیں کہ وہ عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی "ڈویلپمینٹس" پر گہری نظر رکھیں۔ تفسیر الکاشف کا ایک نہایت دلچسپ پہلو مفسر کی اپنے مخاطب سے بے تکلفی ہے۔ اس میں مفسر کسی بھی مقام پر قاری سے کٹا ہوا معلوم نہیں ہوتا اور یہ وصف بذات خود ایک بہترین تحریر کے جملہ فضائل میں سے ایک فضیلت ہے۔ یہاں تک کہ ایسے بہت سے امور جو شیخ کی اپنی زندگی سے متعلق ہیں، وہ بھی بطور مثال کئی مواقع پر ذکر کیے گئے ہیں، جس سے قاری خود کو مفسر کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس کے مزاج کی گہرائی کو محسوس کرتا ہے۔ ایسے تمام موارد میں سے سب سے دلچسپ سورہ شوریٰ آیت 22 کے ذیل میں کیا گیا اعتراف ہے۔
لکھتے ہیں: "پہلے میں دو حدیثوں کے بارے میں شک میں تھا، جنہیں بہت سنتا تھا، ان میں سے پہلی یہ حدیث قدسی تھی "یا عبدی اطعنی تکن مثلی تقل للشئ کن فیکون" (اے میرے عبد میری اطاعت کر مجھ جیسا ہو جا، کسی چیز کو کہو ہو جا تو وہ ہو جائے) اور دوسری حدیث نبوی ہے "ان عباد اللہ اذا ارادوا اراد" (خداوند عالم کے کچھ ایسے بندے ہیں، جو وہ ارادہ کرتے ہیں، خداوند عالم بھی وہی ارادہ کرتا ہے) میں ان دونوں حدیثوں کی سند میں شک کرتا تھا، کیونکہ میں نے ان کا کوئی اثر اس دنیا میں نہیں دیکھا اور پھر میں نے اسے درک کر لیا، جب میں ذکر حکیم کی تفسیر کر رہا ہوں کہ ان دونوں کا موضوع دنیا نہیں، آخرت ہے۔ میرا شک ختم ہوگیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ دونوں، حدیث قدسی نیز حدیث نبوی، خداوند عالم کے اس قول "والذین آمنوا وعملوا الصلحت فی روضت الجنت لھم ما یشاون عند ربھم" اور اس جیسی دوسری آیات کی تفسیر کر رہی ہیں۔"
مذکورہ بالا مثالوں اور نکات سے الکاشف کا مزاج، نہج اور وسعت نظری کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تفسیر عقل انسانی کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، فرقہ پرستی کی جڑ کو اکھاڑتی ہے، انسانی معاشرے کو ظلم کے خلاف مستعد کرتی ہے، جبابرہ اور استعمار کے خلاف ایک قرآنی محاذ کو ترتیب دیتی ہے اور کس طرح مذہب اہل بیت اصل اسلام کے طور پر قرآن کے آئینے میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تفسیر نہ صرف امت کے بیدار مغز نوجوانوں کے لیے ایک قرآنی اور انسانی نصاب ہے، بلکہ وہ لوگ جو قرآن اور اسلام کے حوالے سے شبہات کا شکار ہیں، ان کے لیے بھی دعوت فکر و نظر ہے۔ ایسی بہت سی باتیں جو اسلام اور قرآن سے غلط فہمی کی بنیاد پر منسوب ہیں، وہ تفسیر الکاشف کے مطالعے کے بعد حیثیت کھو سکتی ہیں اور اس کی بحثیں اطمینان کا باعث بن سکتی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ شیخ جواد مغنیہ شیخ محمد جواد کرتے ہیں اور علیہ السلام خداوند عالم کی تفسیر کر اس حوالے سے کے حوالے سے اسرائیل کے اللہ تعالی کے ذیل میں کیا گیا ہے کے لیے بھی ہیں اور اس ہیں اور ان کرتے ہوئے مقامات پر رکھتے ہیں کے درمیان اور ان کی کے طور پر اور ان کے ہے اور اس اور اس کے تفسیر کے تفسیر کا یہ تفسیر مغنیہ نے اس تفسیر پیش کرتے انہوں نے دیتے ہیں ہوگا اور یہ ہے کہ وہ زمین جائے تو کرتا ہے ہوتا ہے کے خلاف جائے کہ ہو جائے اہل بیت کی جائے سکتی ہے اور عمل کے ساتھ میں بھی آیات کے کرنے کی رہے ہیں آتے ہیں جاتا ہے حاصل ہو نہیں ہے کرنے کے میں ایک کہ ایک کو بھی بہت سی اور وہ کے بعد میں ہے گا اور ذکر کی کی طرف کی آیت اور یہ کیا ہے تھی کہ کہ میں ہیں کہ کے پاس سے ایک سے بھی کا ایک بہت سے
پڑھیں:
ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے، آپ کو بھی جینے نہیں دیں گے,اسد قیصر
سٹی42: پی ٹی آئی کے سینئیر لیڈر نے پاکستان کی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے، ہمیں جینے نہیں دیں گے تو آپ کو بھی جینے نہیں دیں گے۔
پی ٹی آئی کے سینئیر رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے، ہمیں جینے نہیں دیں گے تو آپ کو بھی جینے نہیں دیں گے۔
صوابی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اسدقیصرنے کہا، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرناہمارا حق ہے۔ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کو دھمکی دی،" ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے، اگر ہمیں جینے نہیں دیں گے تو آپ کو بھی جینے نہیں دیں گے۔"
طیاروں کے سافٹ ویئر میں سنگین خرابی، عالمی پروازیں معطل
اسدقیصر نے کہا کہ خیبرپختونخوا ہمیشہ سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ ہم نے افغان جنگ کے بہت نقصانات اُٹھائے اور ابھی تک افغان جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
اسد قیصر نے الزام لگایا کہ وفاق نے کبھی ہماری قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا، وفاق نے ہمیشہ ہمارے صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔
پاکستان کی افغانستان سے کی جا رہی دہشتگردی کو روکنے کی حالیہ کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے اس قیصر نے کہا کہ اگرا فغانستان اور پاکستان سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر گزارا کرسکتے ہیں تو یہ دونوں ملکوں کی غلط فہمی ہے۔ ہمیں اپنے معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ قطر، ترکیہ اور دیگر ممالک امن کےلیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ہمارا پڑوسی ملک کے ساتھ جو تنازعہ ہے تو اس کو ختم کرنے اور امن لانے میں سعودی عرب اور چین بھی اپنا کرادار ادا کریں۔
اقرار الحسن وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں؟ شاید میں سیکنڈ لیڈی بن جاؤں: فراح اقرار
اسد قیصر نے اپنی تقریر میں افغانستان کے ساتھ بنیادی مسئلہ؛ افغانستان سے پاکستان مین دہشتگرد بھیجنے اور دہشتگردوں کے گروہوں کو افغانستان میں سرکاری سطح پر پناہ دینے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
Waseem Azmet