جو قوم سر پر کفن باندھ کر گھر سے نکلتی ہو، اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، عطاء اللہ تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
سٹی 42: ٹاؤن شپ :یوم تشکر کی مناسبت سے این اے 127 میں مرکزی تقریب ہوئی ، عطااللہ تارڑ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ کا اظہار تشکر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا وطن عزیز کے دفاع کیلئے افواج پاکستان نے جو کردار ادا کیا، آج اس عزم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، پوری قوم، سوشل میڈیا یوزرز، میڈیا اور اینکرز کا تہہ دل سے مشکور ہوں، اظہار تشکر ریلی میں بھرپور شرکت پر عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، عوام افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہیں، ہماری مسلح افواج نے دشمن کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز اڑائے جس کے بعد دشمن سفید جھنڈا لہرانے پر مجبور ہوا، پاک فصائیہ نے دشمن کے جنگی طیارے مار گرائے، ملک کے دفاع کے لئے جانوں کے نظرانے پیش کرنے والے شہداء کے خاندانوں کو سلام پیش کرتے ہیں،
آئندہ 3 سے 6 گھنٹوں میں بارش کا امکان، الرٹ جاری
جو قوم سر پر کفن باندھ کر گھر سے نکلتی ہو، اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، ہماری بری، فضائی اور بحری فوج کا کردار ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، ہم نے دشمن سے 1971ء کا بدلہ لیا، ہماری بہادر افواج نے اور سپہ سالار نے بہادری اور دلیری سے دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا،آج وزیراعظم شہباز شریف کی ولولہ انگیز قیادت کو سلام پیش کرنے کا دن ہے، وزیراعطم شہباز شریف اور آرمی چیف کی قیادت میں ملکی دفاع کو یقینی بنایا گیا، الحمد اللہ ثابت ہو گیا کہ پاک فوج کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی دشمن کو ناکامی سے دوچار کیا،وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ہم نے انفارمیشں وار فیئر میں بھی دن رات ایک کر کے بھارتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا، پاکستان میں فتح کا جشن اور بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی، بھارتی عوام اپنے حکمرانوں سے سوال کر رہی تھی کہ جھوٹا پروپیگنڈا کیوں کیا گیا،
پی ایس ایل 10: ملتان سلطانز کا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 186 رنز کا ہدف
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڈ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ، سینئر لیگی رہنما ساجدہ فاروق تارڑ بھی شریک ہوئیں ، این اے 127 کی یونین کونسل کے سابق بلدیاتی نمائندوں نے بھرپور شرکت کی ،شرکاء نے پاک فوج کے حق میں نعرے لگائے ،عطااللہ تارڑ نے شاہینوں کے کامیاب آپریشن بنیان المرصوص پر روشنی ڈالی
عطااللہ تارڑ نے پاک فوج ،وزیر اعظم شہباز شریف اور سیاسی قیادت کو جراج تحسین پیش کیا،غلام حسین بھٹی، عباس بھٹی، اویس بھٹی، چودھری تنویر نثار گجر ،سرور سلہری، ملک شوکت علی کھوکھر، ملک احمد حسن ،چودھری بشارت میاں عبدالعفار، چودھری آصف خان میو ،چودھری شہباز چدھڑ، عدنان خالد بٹ، رانا وقاص چودھری رمضان گجر،مرزا اخلاق بیگ، عبدالحمید سروہی،فواد مہر ،حمزہ ملک،سلمان کھوکھر، مہر شہباز نے شرکتی کی
یوم تشکر کی تقریب میں خواتین ورکرز کی کثیر تعداد میں شرکت کی
کشمیر کے لوگ پیار، محبت اور امن والے ہیں؛ شاہد آفریدی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: شہباز شریف اللہ تارڑ
پڑھیں:
خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا
اونچ نیچ
آفتا ب احمد خانزادہ
”
ژاں پال سارتر کا ایک فلسفیانہ ناول ہے، جو 1938 میں شائع ہوا(La Nausee اصل عنوان ) "Nausea” تھا۔ یہ
سارتر کے پہلے ناول کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ وجودیت کا ایک بنیادی متن ہے۔ کہانی بوویل نامی ایک افسانوی قصبے میں ترتیب
دی گئی ہے، جو اس سے ملتی جلتی ہے۔ فرانسیسی بندرگاہی شہر لی ہاورے۔ یہ بیانیہ ایک فرانسیسی مصنف انٹوئن روکینٹن کی پیروی کرتا
ہے جو ایک گہرے وجودی بحران کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اجنبیت اور مضحکہ خیزی کے جذبات سے دوچار ہوتا ہے، روکینٹن
خود وجود کی نوعیت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ وہ متلی کے اپنے احساسات کو بیان کرتا ہے، جو زندگی کی بے معنی اور من مانی نوعیت کے
بارے میں اس کے شعور کی علامت ہے۔ یہ احساس اپنے آس پاس کی دنیا کے ساتھ اس کے مقابلوں سے پیدا ہوتا ہے، جس سے
وہ حقیقت کے جوہر اور اس کے اندر اس کی جگہ پر سوال اٹھاتا ہے۔
سارتر نے Roquentinکے تجربات کو آزادی، ذمہ داری،اور بظاہر لاتعلق کائنات میں معنی کی تلاش جیسے موضوعات کو
تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ناول میں اس خیال کو شامل کیا گیا ہے کہ افراد کو اپنی اقدار اور زندگی کا مقصد خود بنانا چاہیے، کیونکہ روایتی ڈھانچے اور عقائد تسلی بخش جوابات فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔سو لہویں اور ستر ہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں پر الحاد اور بغا وت کے الزام لگا کر انہیں زندہ جلاد یا جاتا تھا اور کبھی انہیں جیل کے
تنگ و تاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے
بجھانے کی کو شش ناکام رہی ،برونو کوروم میں زندہ جلادیاگیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا۔ اگر علم و دانش کے یہ علم بردار کلیسا کی تلواروں سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا ۔یورپ کا احتسا ب عالموں کو زندہ
جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غور و فکر کو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غور کیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزائوں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا۔ اس عہد میں انسانی ذہن کو قید کر نے کی کو شش میں انسانی
جسم کو زندہ جلایاگیا جسم جل گیا لیکن ذہن زندہ رہا جرم وسزا کے اس دور کے بعد خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹا یاجاسکتا ۔
خیالات کو قید نہیں کیاجاسکتا خیال آزاد ہے فوج کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے
نہیں رو کا جاسکتا۔ وحشت اور بربریت سے تہذیب و تمد ن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہواانسان کو یہ سفر طے کر نے
میں صدیا ں لگیں قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کر دی کہ انسان عظیم ہے
اور عوام سپر یم ہیں دنیاکی تاریخ میں خدا کے بعد کر شمے عوام نے ہی کرکے دکھائے ہیں یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے آمروں ، بادشاہوں کے تاج و تخت اچھا ل کر پھینک دئیے جنہوں نے اپنے خالی ہاتھوں سے بڑے بڑے ٹینک الٹ کر رکھ دئیے بڑے بڑے ظالم ، جابر بادشاہ اور آمران ہی عوام کے ڈر و خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔
دنیا بھر کے عوام نے خو شحالی اور ترقی کی منزلیں ، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں پاکستان کا قیام ایک عوامی جدو جہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکر ی جدو جہدکااوریہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعد ہ ان کے آبائو اجداد سے کیا گیا تھا ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہر شہر ی بلاکسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے جہاں آزادانہ اور منصفا نہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو با اختیار ہوتی ہے پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے پارلیمنٹ کی منظورکر دہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے، قائداعظم نے نئی دہلی میں رائٹر کے نمائندے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہو گی ”۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین سازاسمبلی کے صدر کی حیثیت سے کئے گئے اپنے تاریخی خطاب میں انہوں نے انسانوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخا طب کیا۔ روسو کہتا ہے ”میں کیسا آدمی ہوں ، اس کا فیصلہ کو ئی شخص یا چند اشخاص نہیں کرسکتے ۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنے کا حق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں ”۔ تو جناب ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پر کیسے چھوڑ ے جاسکتے ہیں ۔شخص یا چند اشخاص غلط ہو سکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کر تے ۔ ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند کوئی بھی نہیں ہوسکتا ۔ ریاست ایک منفر د کلیت ہوتی ہے آپ اس میں جانبدار ی تلاش نہیں کرسکتے ، کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتاہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمائند گی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے ۔
آئین میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورت حال کی نمود ہے۔ ہیگل کہتا ہے ”ہرآئین اپنے دور کا غماز ہوتاہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔ وہ کہتا ہے
” اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین ، اس کی انتظامیہ شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصو صیات اس کے پہا ڑ ، آ ب و ہوا ، ملک ، شہریوں کی جائیداد ، تاریخ ، ریاست ، اسلاف کے کار نا مے ، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہر ی اس کا نما ئند ہ ہے اوراس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے ” ۔ آخری اورقطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا ” نہ ” کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیار کا سنگ بنیاد ہے۔ سارتر کہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ”نہ ” کہے ۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنا ن ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا رو ک ٹوک انتخاب کر سکتا ہے۔ جے جی فریزر کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتاہے ” کسی قوم یا فرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کر دے یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کر دار مستحکم ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کر دیتا ہے تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اور صداقت کی بر کات میسر آسکیں ۔ یہ ہی انسان کی عظمت ہے ۔ سقرا ط، برو نو ، وکلف، شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائدے کے حصو ل کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد و اصول کی پاسبانی کرتے ہوئے مو ت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا ”ہم محا فظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کو شش کررہے ہیں ”۔ سقراط نے بھا گنے سے انکار کر دیا اور کہا ”میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیاد ہ عزیز رکھ سکتاہے ۔ سقراط ، برونو،و کلف نے ” نہ ” کہا اور اپنی جان دے دی ۔اور صرف ”نہ” کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زند ہ ہیں ۔ لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے ۔ عوام طاقت کا اصل سر چشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کر نے کا محو ر شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں پاکستان کے عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کو ششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ عقل اور شعور کے مالک ہیں۔ مثالی معا شر ہ قائم کرنے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پریقین ہے کیونکہ ان پر حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ صرف مثالی معا شرہ قائم کرنے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے ۔
٭٭٭