کراچی میں شدید گرمی، توانائی کے متبادل ذرائع کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
اشیا کی طلب بڑھنے کے باعث حالیہ دنوں میں ان کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ان اشیا کی قیمتیں ہزار روپے سے لے کر 2500 روپے یا اس سے زائد تک بڑھ گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد میں گرمی اور مختلف علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسائل کی وجہ سے یہاں کے مکین اذیت سے دوچار ہیں، متوسط اور غریب آبادیوں میں رہائشی پورشنز کی کثرت کے باعث کئی چھوٹے فلیٹوں میں ہوا کا گزرنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ گرمی اور بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگوں کیلئے اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہوگیا ہے، لوگ ان مسائل سے بچنے کیلئے متبادل ذرائع توانائی پر جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جو لوگ سولر یا جنریٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، وہ بیٹری پر چلنے والے پنکھے اور ایل ای ڈی بلب خرید کر اپنا گزارہ کر رہے ہیں۔ ان اشیا کی طلب بڑھنے کے باعث حالیہ دنوں میں ان کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ان اشیا کی قیمتیں ہزار روپے سے لے کر 2500 روپے یا اس سے زائد تک بڑھ گئی ہیں۔ اربن پلانر محمد توحید نے بتایا کہ کراچی کی متوسط اور غریب آبادیوں میں اب سنگل اسٹوری مکانات رہائشی فلیٹوں اور پورشنز میں تبدیل ہو رہے ہیں، جبکہ بعض پورشنز میں ہوا دان موجود نہیں ہے، بیشتر مکانات اور پورشنز سمیت چھوٹے فلیٹ میں دن کے اوقات میں اگر روشنی نہ ہو تو وہاں اندھیرے اور گھٹن کا ماحول ہوتا ہے۔
اربن پلانر نے بتایا کہ اس وقت گرمی کا موسم ہے، چھوٹے سیمنٹ یا ٹین کی چھتوں پر مشتمل گھر ہوں یا پورشنز یا چھوٹے فلیٹ گرمی کی وجہ سے ان کے رہائشی بہت مشکلات کا شکار ہیں، سب سے بڑا مسئلہ مختلف علاقوں میں ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی کافی پریشان ہوتے ہیں، ان علاقوں میں لائنز ایریا، لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، کیماڑی اور لیاری سمیت دیگر شامل ہیں، یہاں مختلف اوقات میں طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ محمد توحید کا کہنا تھا کہ ایک جانب بجلی مہنگی اور دوسری جانب لوڈشیڈنگ کے مسائل لوگوں کیلئے کسی اذیت سے کم نہیں ہیں۔ اسی لیے جو لوگ سولر یا جنریٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے وہ توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرکے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
مقامی دفتر میں کام کرنے والے سی ون ایریا کے رہائشی شہری نے بتایا کہ وہ ایک 40 گز کے پورشن میں رہتے ہیں، ان کے علاقے میں کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ پورشن ہوادار نہ ہونے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے انہیں اور گھر والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ہم سولر یا جنریٹر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے میں نے 12 واٹ والا ایک پنکھا، بیٹری اور دو ایل ای ڈی بلب خریدے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تمام اشیا میں نے تقریباً 15 ہزار روپے میں خریدیں، تاہم جب دوسرے کمرے کیلئے یہ نظام خریدنے کیلئے کئی دنوں بعد الیکٹرک مارکیٹ گیا تو یہی سسٹم مجھے 18 ہزار روپے میں ملا۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس متبادل ذرائع کی قیمتوں میں 3 ہزار روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اور شہری نے بتایا کہ ان کے علاقے میں لوڈشیڈنگ کے مسائل ہیں جبکہ بجلی کے بل میں اضافے کی وجہ سے وہ پریشان ہیں، اس لیے انہوں نے 15 دن قبل ایک بریکٹ فین لیا تھا، جو 12 ولٹ کا تھا، اس کی قیمت 2500 روپے تھی، جو 15 دن میں بڑھ کر 3000 روپے ہوگئی۔
رہائشی شہری نے بتایا کہ یہ فین مجھے دوبارہ اضافی قیمت میں خریدنا پڑا، کیونکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ان متبادل ذرائع توانائی کی اشیا کی قیمتوں میں طلب بڑھنے کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت متبادل ذرائع والی اشیا کی قیمتوں میں کمی لائے اور اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائی جائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ صدر بازار میں متبادل ذرائع توانائی کی اشیا فروخت کرنے والے ایک ہول سیل ڈیلر نے بتایا کہ کراچی میں گرمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ بہت پریشان ہے، محدود آمدنی والے لوگ سولر یا جنریٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اسی لیے وہ لوڈشیڈنگ اور گرمی سے بچنے کیلئے سستے متبادل ذرائع توانائی خرید رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متبادل ذرائع توانائی میں 12 واٹ والے مختلف اقسام کے اسٹینڈ، دیوار اور چھت پر لگانے والے پنکھے شامل ہیں، یہ مختلف سائز اور معیار کے مطابق مارکیٹ میں موجود ہیں۔ یہ کراچی، گجرانوالہ اور دیگر شہروں میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان پنکھوں میں تیز رفتار چھوٹی موٹر لگتی ہے، یہ پنکھے بیٹری کے علاوہ بجلی پر بھی چلائے جاتے ہیں۔ ہول سیل ڈیلر نے کہا کہ ان پنکھوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے، یہ مختلف معیار کے لحاظ سے تیار کیے جا رہے ہیں اور ان پنکھوں کی 15 سے زیادہ اقسام مارکیٹ میں موجود ہیں، ان پنکھوں کی قیمت 850 روپے سے لے کر 6500 روپے سے زائد ہے، معیاری پنکھوں کی قیمتیں 8 ہزار سے لے کر 15 ہزار یا اس سے زائد ہیں۔
ہول سیلر نے بتایا کہ ان پنکھوں کی قیمتوں میں تقریباً 200 روپے سے لے کر 1500 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ بیٹری سے چلنے والے مختلف اقسام کےچھوٹے متبادل ذرائع توانائی والے سسٹم بھی موجود ہیں، جس میں 5 پلیٹ والی 50 ایمپیئر کی بیٹری، چارجر، 12 واٹ والا چھوٹا فین، ایک 12 واٹ والا ایل ای ڈی بلب اور اڈاپٹر شامل ہے۔ یہ پورا نظام 15 ہزار یا 25 ہزار اس سے زائد قیمت میں دستیاب ہے۔ اس نظام کو ضرورت کے مطابق بیٹری اور دیگر الیکٹرک اشیاء کے مطابق بنایا جاتا ہے، اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور لوگ ضرورت کے مطابق اس کو خرید رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بیٹریاں بجلی سے چارج ہوتی ہیں، اس کے علاوہ مختلف اقسام کے روم کولر بھی فروخت ہو رہے ہیں، جو ہوا کے رخ پر لگانے سے مذکورہ مقام پر گرمی کے احساس کو کم کرتا ہے، یہ روم کولر بیٹری اور بجلی پر چلائے جا سکتے ہیں۔ یہ مختلف سائز کے ہوتے ہیں، جو مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی قیمتوں میں بھی ایک ہزار سے 2 ہزار تک کے درمیان اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ان کی قیمتیں 6 ہزار سے 10 ہزار کے درمیان ہوگئی ہیں۔ ہر دکاندار اپنے سامان کی قیمت اپنے حساب سے وصول کر رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سولر یا جنریٹر خریدنے متبادل ذرائع توانائی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی قیمتوں میں روپے سے لے کر ان پنکھوں کی نے بتایا کہ کی قیمتیں ہزار روپے کی وجہ سے گرمی اور اور بجلی انہوں نے کے مطابق اشیا کی رہے ہیں کی قیمت
پڑھیں:
بلوچستان کا ایک ہزار 28ارب کا سرپلس بجٹ پیش( تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ)
غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمیہ640 روپے جبکہ کل اخراجات تخمینہ 986 روپے لگایا گیا ہے
اسکول ایجوکیشن کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 19 ارب 85 کروڑ مختص،صوبائی وزیر خزانہ
بلوچستان کا 1020ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا، تنخواہوں میں 10اور پنشن میں 7فیصد اضافہ کیا گیا ہے،غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمیہ640 روپے ہے جبکہ کل اخراجات تخمینہ 986 روپے لگایا گیا ہے، بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سپیکر عبدالخالق اچکزئی نے کی،صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے بجٹ پیش کیا۔صوبائی وزیر خزانہ شعیب نوشیروانی نے بجٹ تقریر میں کہا کہ بلوچستان کی حکومت نے ہر معاملے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنایا ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔میر شعیب نوشیروانی نے کہا کہ سکول ایجوکیشن کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 19 ارب 85 کروڑ مختص کئے گئے ہیں جبکہ ہائر ایجوکیشن کیلئے ترقیاتی بجٹ 4 ارب 99 کروڑ رکھے گئے ہیں۔اسی طرح صحت کے شعبہ کی ترقیاتی منصوبوں کیلئے 16 ارب 15 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ 12 ارب 66 کروڑ مختص جبکہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے محکہ کے ترقیاتی بجٹ کے لئے 17 ارب 16 کروڑ مختص رکھے گئے ہیں۔وزیر خزانہ بلوچستان نے کہا کہ ترقیاتی شعبہ میں محکمہ مواصلات و تعمیرات کو پہلی ترجیح دی گئی ہے محکمہ مواصلات کیلئے ترقیاتی بجٹ کا 19 فصید مختص کیا گیا جس کیلئے 55 ارب 21 کروڑ سے زائد کی رقم رکھی گئی۔محکمہ ایریگیشن کیلئے 42 ارب 78 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔