اشیا کی طلب بڑھنے کے باعث حالیہ دنوں میں ان کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ان اشیا کی قیمتیں ہزار روپے سے لے کر 2500 روپے یا اس سے زائد تک بڑھ گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد میں گرمی اور مختلف علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسائل کی وجہ سے یہاں کے مکین اذیت سے دوچار ہیں، متوسط اور غریب آبادیوں میں رہائشی پورشنز کی کثرت کے باعث کئی چھوٹے فلیٹوں میں ہوا کا گزرنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ گرمی اور بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگوں کیلئے اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہوگیا ہے، لوگ ان مسائل سے بچنے کیلئے متبادل ذرائع توانائی پر جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جو لوگ سولر یا جنریٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، وہ بیٹری پر چلنے والے پنکھے اور ایل ای ڈی بلب خرید کر اپنا گزارہ کر رہے ہیں۔ ان اشیا کی طلب بڑھنے کے باعث حالیہ دنوں میں ان کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ان اشیا کی قیمتیں ہزار روپے سے لے کر 2500 روپے یا اس سے زائد تک بڑھ گئی ہیں۔ اربن پلانر محمد توحید نے بتایا کہ کراچی کی متوسط اور غریب آبادیوں میں اب سنگل اسٹوری مکانات رہائشی فلیٹوں اور پورشنز میں تبدیل ہو رہے ہیں، جبکہ بعض پورشنز میں ہوا دان موجود نہیں ہے، بیشتر مکانات اور پورشنز سمیت چھوٹے فلیٹ میں دن کے اوقات میں اگر روشنی نہ ہو تو وہاں اندھیرے اور گھٹن کا ماحول ہوتا ہے۔

اربن پلانر نے بتایا کہ اس وقت گرمی کا موسم ہے، چھوٹے سیمنٹ یا ٹین کی چھتوں پر مشتمل گھر ہوں یا پورشنز یا چھوٹے فلیٹ گرمی کی وجہ سے ان کے رہائشی بہت مشکلات کا شکار ہیں، سب سے بڑا مسئلہ مختلف علاقوں میں ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی کافی پریشان ہوتے ہیں، ان علاقوں میں لائنز ایریا، لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، کیماڑی اور لیاری سمیت دیگر شامل ہیں، یہاں مختلف اوقات میں طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ محمد توحید کا کہنا تھا کہ ایک جانب بجلی مہنگی اور دوسری جانب لوڈشیڈنگ کے مسائل لوگوں کیلئے کسی اذیت سے کم نہیں ہیں۔ اسی لیے جو لوگ سولر یا جنریٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے وہ توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرکے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

مقامی دفتر میں کام کرنے والے سی ون ایریا کے رہائشی شہری نے بتایا کہ وہ ایک 40 گز کے پورشن میں رہتے ہیں، ان کے علاقے میں کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ پورشن ہوادار نہ ہونے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے انہیں اور گھر والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ہم سولر یا جنریٹر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے میں نے 12 واٹ والا ایک پنکھا، بیٹری اور دو ایل ای ڈی بلب خریدے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تمام اشیا میں نے تقریباً 15 ہزار روپے میں خریدیں، تاہم جب دوسرے کمرے کیلئے یہ نظام خریدنے کیلئے کئی دنوں بعد الیکٹرک مارکیٹ گیا تو یہی سسٹم مجھے 18 ہزار روپے میں ملا۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس متبادل ذرائع کی قیمتوں میں 3 ہزار روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اور شہری نے بتایا کہ ان کے علاقے میں لوڈشیڈنگ کے مسائل ہیں جبکہ بجلی کے بل میں اضافے کی وجہ سے وہ پریشان ہیں، اس لیے انہوں نے 15 دن قبل ایک بریکٹ فین لیا تھا، جو 12 ولٹ کا تھا، اس کی قیمت 2500 روپے تھی، جو 15 دن میں بڑھ کر 3000 روپے ہوگئی۔

رہائشی شہری نے بتایا کہ یہ فین مجھے دوبارہ اضافی قیمت میں خریدنا پڑا، کیونکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ان متبادل ذرائع توانائی کی اشیا کی قیمتوں میں طلب بڑھنے کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت متبادل ذرائع والی اشیا کی قیمتوں میں کمی لائے اور اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائی جائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ صدر بازار میں متبادل ذرائع توانائی کی اشیا فروخت کرنے والے ایک ہول سیل ڈیلر نے بتایا کہ کراچی میں گرمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ بہت پریشان ہے، محدود آمدنی والے لوگ سولر یا جنریٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اسی لیے وہ لوڈشیڈنگ اور گرمی سے بچنے کیلئے سستے متبادل ذرائع توانائی خرید رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متبادل ذرائع توانائی میں 12 واٹ والے مختلف اقسام کے اسٹینڈ، دیوار اور چھت پر لگانے والے پنکھے شامل ہیں، یہ مختلف سائز اور معیار کے مطابق مارکیٹ میں موجود ہیں۔ یہ کراچی، گجرانوالہ اور دیگر شہروں میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان پنکھوں میں تیز رفتار چھوٹی موٹر لگتی ہے، یہ پنکھے بیٹری کے علاوہ بجلی پر بھی چلائے جاتے ہیں۔ ہول سیل ڈیلر نے کہا کہ ان پنکھوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے، یہ مختلف معیار کے لحاظ سے تیار کیے جا رہے ہیں اور ان پنکھوں کی 15 سے زیادہ اقسام مارکیٹ میں موجود ہیں، ان پنکھوں کی قیمت 850 روپے سے لے کر 6500 روپے سے زائد ہے، معیاری پنکھوں کی قیمتیں 8 ہزار سے لے کر 15 ہزار یا اس سے زائد ہیں۔

ہول سیلر نے بتایا کہ ان پنکھوں کی قیمتوں میں تقریباً 200 روپے سے لے کر 1500 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ بیٹری سے چلنے والے مختلف اقسام کےچھوٹے متبادل ذرائع توانائی والے سسٹم بھی موجود ہیں، جس میں 5 پلیٹ والی 50 ایمپیئر کی بیٹری، چارجر، 12 واٹ والا چھوٹا فین، ایک 12 واٹ والا ایل ای ڈی بلب اور اڈاپٹر شامل ہے۔ یہ پورا نظام 15 ہزار یا 25 ہزار اس سے زائد قیمت میں دستیاب ہے۔ اس نظام کو ضرورت کے مطابق بیٹری اور دیگر الیکٹرک اشیاء کے مطابق بنایا جاتا ہے، اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور لوگ ضرورت کے مطابق اس کو خرید رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بیٹریاں بجلی سے چارج ہوتی ہیں، اس کے علاوہ مختلف اقسام کے روم کولر بھی فروخت ہو رہے ہیں، جو ہوا کے رخ پر لگانے سے مذکورہ مقام پر گرمی کے احساس کو کم کرتا ہے، یہ روم کولر بیٹری اور بجلی پر چلائے جا سکتے ہیں۔ یہ مختلف سائز کے ہوتے ہیں، جو مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی قیمتوں میں بھی ایک ہزار سے 2 ہزار تک کے درمیان اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ان کی قیمتیں 6 ہزار سے 10 ہزار کے درمیان ہوگئی ہیں۔ ہر دکاندار اپنے سامان کی قیمت اپنے حساب سے وصول کر رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سولر یا جنریٹر خریدنے متبادل ذرائع توانائی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی قیمتوں میں روپے سے لے کر ان پنکھوں کی نے بتایا کہ کی قیمتیں ہزار روپے کی وجہ سے گرمی اور اور بجلی انہوں نے کے مطابق اشیا کی رہے ہیں کی قیمت

پڑھیں:

شمسی توانائی یورپی یونین میں بجلی کا مرکزی ذریعہ بن گئی: رپورٹ

ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار رواں برس جون میں یورپی یونین میں سب سے زیادہ بجلی شمسی توانائی سے بنائی گئی ہے۔

توانائی کے قابلِ تجدید ذریعے سے یورپی یونین میں مجموعی بجلی کا 22 فی صد حصہ پیدا کیا گیا، جو کہ نیوکلیئر توانائی سے پیدا کی گئی 21.6 فی صد بجلی سے زیادہ تھی۔

یورو اسٹیٹ (یورپی یونین کا شماریاتی ادارہ) کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2025 کے دوسرے سہ ماہی میں یورپی یونین کی بجلی کی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کیا گیا۔

یورپ کے تین ممالک نے اپنی 90 فی صد سے زیادہ بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا کی جبکہ 15 ممالک نے گزشتہ برس اس دورانیے کے مقابلے میں اپنی قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار کی صلاحیت میں اضافہ کیا۔

یورو اسٹیٹ رپورٹ کے مطابق بجلی کی پیداوار میں سب سے زیادہ حصہ ڈنمارک (94.7 فی صد) کا رہا۔ دوسرے نمبر پر لیٹویا (93.4 فی صد) اور تیسرے نمبر پر آسٹریا (91.8 فی صد) رہا۔

متعلقہ مضامین

  • سوناایک ہفتے میں فی تولہ 12 ہزار روپے سے زائد مہنگا
  • اب عمارتیں خود بجلی بنائیں گی، ایم آئی ٹی کا انقلابی کنکریٹ متعارف
  • تیل کی بڑھتی قیمتیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری شمسی توانائی پر منتقل
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 0.56 فیصد اضافہ، سالانہ شرح 4.07 فیصد ریکارڈ
  • کراچی سمیت سندھ ‘ آٹے کی فی کلو قیمت میں3روپے کا اضافہ
  • گندم کے وافر ذخائر کے باوجود کراچی سمیت سندھ میں آٹے کی قیمت میں اضافہ
  • شمسی توانائی یورپی یونین میں بجلی کا مرکزی ذریعہ بن گئی: رپورٹ
  • سندھ میں گندم وافر ذخائر کے باوجود آٹے کی قیمتوں میں اضافہ
  • گندم کے وافر ذخائر کے باوجود کراچی سمیت سندھ میں آٹے کی فی کلو قیمت میں اضافہ
  • سستی بجلی، کوٹو پن بجلی منصوبے کی کامیاب تکمیل