سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے کہا کہ نظرثانی کیس چھوٹا بنچ بھی سن سکتا ہے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے اس اہم آئینی معاملے کی سماعت کی، سماعت کے دوران سینئر وکلاء حامد خان اور فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر حامد خان نے کہا کہ انہوں نے متفرق درخواستیں دائر کی ہیں، جس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست ہمیں ابھی نہیں ملی اور انہیں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سے پتہ کرنے کا مشورہ دیا۔اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان کی تین متفرق درخواستیں بینچ کے سامنے موجود ہیں،فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے اس بنچ کی تشکیل پر آئینی بنیادوں پر اعتراض اٹھایا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی سے متعلق ایک آئینی اصول طے شدہ ہے کہ جتنے رکنی بنچ نے فیصلہ دیا ہو، اتنے ہی ارکان پر مشتمل بنچ کو نظرثانی کیس سننا چاہیے۔جسٹس امین الدین نے اس موقع پر کہا کہ یہاں دو ارکان نے درخواستیں خارج کہہ کر خود بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے اور وہ عدالت کی معاونت کریں گے۔اس موقع پر فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ ان کا اعتراض کسی جج کی ذات پر نہیں بلکہ یہ ایک خالصتاً آئینی اعتراض ہے۔جسٹس امین الدین نے مزید کہا کہ تیرہ رکنی بینچ میں سے دو ججز نے خود کو علیحدہ کر لیا، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ دونوں ججوں نے نوٹس نہ دینے کا خود فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ججز کے اپنے اعتراض کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وہ دونوں جج اپنا فیصلہ دے چکے ہیں، اب بیٹھ کر کیا کریں گے؟فیصل صدیقی نے کہا کہ نظرثانی ہمیشہ مرکزی کیس سننے والا بینچ ہی سنتا ہے اور چونکہ مرکزی کیس تیرہ رکنی بینچ نے سنا تھا، لہٰذا نظرثانی بھی اسی بینچ کو سننا چاہیے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس اب چھوٹا بنچ بھی سن سکتا ہے،ترمیم کے بعد 13 رکنی بنچ کا فیصلہ اب 8 یا 9 رکنی آئینی بنچ بھی سن سکتا ہے۔سماعت کے دوران آئینی نکات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر آئینی بینچ کی تشکیل سے متعلق آرٹیکل 3 پڑھا جائے تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کا دائرہ اختیار کیسز کی حد تک طے شدہ ہے۔جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اعتراضات پر تفصیل سے دلائل دوں گا،کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں ایک سماعت اور لے لوں گا،میں کل بھی یہاں ہوں گا، کل دلائل دے دوں گا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ اعتراضات پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے لیے یہ کیس ضروری نہیں اور میرا موکل بھی ضروری نہیں ہے، میرے لیے عدالت کا نظرثانی دائرہ سماعت ضروری ہے، ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بینچ سنے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ میں جو ججز میسر تھے سب اس بینچ میں شامل تھے،2ججز نے مرضی سے خود کو بینچ سے الگ کر لیا،اس کے بعد جو ججز میسرتھے وہ سب اب اس بینچ میں شامل ہیں،

پریکٹس اینڈ پروسیجر جب چیلنج ہوا تھا اس میں فل کورٹ بیٹھی تھی، اس وقت سوال تھا کہ اگر یہ سب ججز سن رہے ہیں تو ان کیخلاف اپیل کون سنے گا،تو اس سے متعلق سب ججز نے اپنی اپنی رائے دی تھی،فرض کریں اگر آئینی بینچ میں 2 ججز مزید شامل ہو جائیں تو ٹوٹل آئینی بینچ ججز 15 اور اس بینچ میں 13 ججز ہو جائیں گےاگر دوبارہ ان 13 میں سے 2 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تو پھر باقی 11 ججز بچ جائیں گے پھر کیا کریں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ 11رکنی بینچ ان2 الگ ہونے والے ججز کی مرضی سے بنایا گیا ہے، آپ ہمیں صرف اعتراض نہیں اس کا حل بھی بتائیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس سماعت ملتوی کر کے کیس کو دوبارہ سے جوڈیشل کمیشن کو بھیج دیں،جوڈیشل کمیشن 2 ججز کو مزید آئینی بینچ میں شامل کر دے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو 2ججز اس درخواست کو ڈس مس کر چکے ہیں ان کا کیاا سٹیٹس ہوگا، کیا وہ ججز دوبارہ سے پھر بیٹھیں گے،اگر وہ2 ججز بیٹھیں گے تو کیا وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ نظرثانی کرسکیں گے۔ وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل، اگر وہ 2 ججز دوبارہ سے بیٹھیں گے تو وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس امین الدین نے نے ریمارکس دیے کہ بھی سن سکتا ہے نظرثانی کیس کہ نظرثانی انہوں نے سماعت کے نے فیصل کے بعد

پڑھیں:

توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(صباح نیوز) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سرکاری ملازمین کی بحالی کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملے پردائرتوہین عدالت کی درخواستوں کے دوران بینچ کے رکن جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد ہائی کورٹ کیسے جائیں گے، درخواست گزار ایف پی ایس سی کے ٹیسٹ سے کترارہے ہیں، ٹیسٹ پاس کرلیں، 59سال عمر والاتوزیادہ تجربہ کارہوگا۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ہوتی ، اگر ایف پی ایس سی سے کوئی نوٹس آیا توکیوں ٹیسٹ میں نہیں بیٹھے۔ جبکہ بینچ نے وفاقی حکومت سے عدالت عظمیٰ کے حکم پرمن و عن عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے عدالت عظمیٰ کے 2021کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پردائر توہین عدالت کی درخواستوں اور برطرف ملازمین ایکٹ 2010کے قانون کوچیلنج کرنے کے معاملے پر دائر 25درخواستوں پرسماعت کی۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  • سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ کے فریقین کو نوٹسز جاری
  • کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ