فلسطینیوں کی لیبیا منتقلی کے منصوبے سے عرب اور یورپی ممالک کو خوفزدہ ہونا چاہیئے
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے مزید ظالمانہ منصوبے اب بھی بنائے جا رہے ہیں جیسا کہ امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی نے بتایا۔ اس سے پہلے کہ امریکی صدر کا طیارہ مشرقِ وسطیٰ سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوتا، این بی سی نے رپورٹ کیا کہ غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چار مختلف ذرائع نے این بی سی کو امریکی منصوبے کی تصدیق کی۔ اس منصوبے میں باراک اوباما، نکولس سرکوزی اور ڈیوڈ کیمرون کی نام نہاد ’قوم سازی‘ کی کوششوں کے بعد غیرمستحکم اور انتہائی لاقانونیت کا شکار ہونے والے ملک لیبیا کے لیے مراعات کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔ معاہدے کی صورت میں امریکا لیبیا کے اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو غیر منجمد کردے گا۔ تحریر: عباس ناصر
اسرائیلی قابض قوت نے اپنے فوجی ریزورسٹ کو بلا کر اب پہلے کے مقابلے میں کئی زیادہ فوجیوں کو مقبوضہ پٹی میں تعینات کردیا ہے۔ غزہ میں بھوک اور خوراک کی قلت کی صورت حال پر تمام بین الاقوامی اداروں کی جانب سے توجہ دلوائے جانے کے باوجود 6 ہفتے سے زائد عرصے سے خوراک کی امداد کے راستے بند ہیں جبکہ بمباری کی بڑھتی شدت نے ظاہر کیا ہے کہ نسل کشی کی مہم کو تیز کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے فوجی مقاصد انتہائی واضح ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کا آپریشن تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہے۔ تاہم بہت سے لوگ سچائی سے آگاہ ہیں اور ان میں سے ایک مارک سیڈن بھی ہیں جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نسل پرست حکومت کی غزہ میں جاری مہم کو وہی کہنے کی جرأت کر رہے ہیں جو حقیقت میں وہ ہے جیسے نسل کشی اور حالیہ تاریخ میں ظلم کی بدترین مثال وغیرہ۔
وہ کہتے ہیں، ’(ملٹری کارروائی کے ذریعے) اسرائیل صرف 8 یرغمالی رہا کروا سکا ہے، 33 انہیں کی فضائی بمباری میں مارے گئے جبکہ 148 کو مذاکرات کے ذریعے رہائی ملی۔ بات یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق نہیں بلکہ یہ فلسطینیوں کے خاتمے کے بارے میں ہے۔ لوگوں کو اس بات کو احساس کب ہوگا؟‘۔ غزہ میں تباہی کے مناظر ناقابلِ بیان ہیں۔ اردو لغت کی کوئی بھی صفت اس ظلم کو بیان نہیں کرسکتی۔ہولوکاسٹ میں لاکھوں یہودیوں کے بےرحمانہ قتل کے بعد دنیا نے اعادہ کیا تھا کہ ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہوگا۔ واضح طور پر کسی کے لیے بھی یہ وعدہ اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ جمہوری مغربی ممالک اور ان کا میڈیا واضح طور پر اس تنازع میں صرف ایک فریق کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ ایسا کرکے وہ انسانیت، ’معروضیت‘ اور ان ’اقدار‘ کے احساسات کو کھو چکے ہیں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
نسل پرست اسرائیلی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی فلسطینیوں کو بطور دشمن پیش کرنا اور غزہ میں ان کی نسل کشی کو معمول بنانا ہے۔ چاہے شہادتوں کی تعداد 50 ہزار ہو، 75 ہزار یا ایک لاکھ، یہ کسی کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ رہا یا ان لوگوں کو شہادتوں کی تعداد سے کوئی فرق نہیں پڑتا جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔ اگر کسی نے غزہ کے مناظر نہیں دیکھے تو ان کے لیے بیان کردیتا ہوں۔ مقتول بچوں کے خون آلود چہرے اور ہاتھ پاؤں کٹی لاشیں، شدید زخمی افراد، غم زدہ مائیں، ہسپتال کے بستروں پر لیٹے جلے ہوئے مریض جو بمباری کی زد میں آئے جبکہ ناامید صحت عامہ کا عملہ ان مریضوں کو خود اٹھا رہا ہے اور یہ عملہ خود ہاری ہوئی جنگ میں بنیادی صحت کی سہولیات اور ادویات کے بغیر زندگیاں بچانے کی کوشش کررہا ہے، وہ بھی اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر وہ خود ڈرونز کے حملوں میں زندہ بچ جائیں۔
شاید لوگوں کو شعور آجائے لیکن ان 18 ہزار شہید بچوں کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے جن کی عمر 10 سال سے بھی کم تھی۔ گھروں، ہسپتالوں، اسکولز، سول انفرااسٹرکچر کی تباہی اور امدادی تنظیموں پر پابندیوں کے علاوہ، غیر ملکی صحافیوں کو بھی کوریج سے روکا جارہا ہے کیونکہ غیرملکی صحافیوں کو غزہ کے مقامی صحافیوں کی طرح ’حماس‘ قرار دے کر مارنا آسان نہیں۔ غیر ملکی میڈیا کو اس لیے روکا جارہا ہے تاکہ غزہ سے باہر دنیا کو نسل کشی اور قتلِ عام کی خبر نہ ہوسکے کیونکہ اگر انہیں علم ہوگیا تو یہ عالمی حکومتوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ دے گا۔ جی، میں نے حکومتیں کہا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مغرب میں مقیم کوئی عام آدمی یا عورت ایسے گھناؤنے جرم کی توثیق نہیں دیں گے جس کی ان کی حکومت نے اسرائیل کا دفاع کا حق قرار دے کر حمایت کی ہے۔ نہ آمریت پسند عرب دنیا کے عوام اپنی حکومتوں کے ساتھ ہوں گے کہ جنہوں نے فلسطینیوں سے منہ موڑ لیا ہے۔
اگرچہ امریکا سے لے کر جرمنی، برطانیہ تک مظاہرین کو کچلنے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی طرف سے قوانین اور اختیارات کا سخت استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود غزہ سے سامنے آنے والی تصاویر مظاہرین کو اپنے ضمیر کی پکار کے جواب میں اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کردیتی ہیں۔ بیشتر عرب ممالک میں حکومتی دباؤ کی صورت حال زیادہ سنگین ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں سڑکیں خاموش ہیں۔ کئی ماہ سے بھوک سے لاغر، کمزور بچوں اور خون میں لت پت خاندانوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد، آزاد میڈیا رپورٹس کے مطابق شہادتوں کی تعداد لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس کے بعد مغربی رہنما بھی بے چینی محسوس کرنے لگے ہیں۔
ان کے بنائے ہوئے دہرے معیار ہی ان کے سامنے آرہے ہیں کیونکہ وہ ایک جانب مسلسل ’ہماری اقدار، انسانیت‘ کی بات کرتے ہیں لیکن جب بات نہتے فلسطینیوں کی آتی ہے تو یہ تمام اصول بےمعنی ہوجاتے ہیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ، کیئر اسٹارمر اور ایمانوئل میکرون ایسے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے غزہ میں غذائی امداد کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مسلم دنیا کے رہنماؤں کے بارے میں جتنی کم بات کی جائے اتنا بہتر ہے۔ بہت سے امیر ترین اور طاقتور رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے شاندار استقبال کے بعد ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن جیسا کہ توقع تھی، ان مسلم رہنماؤں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں کم بات کی۔ شاید امریکی صدر کے دورے سے پہلے امریکی اور اسرائیلی میڈیا میں لیکس کا مقصد میزبانوں کو بہتر محسوس کروانا تھا اور انہیں ٹرمپ کا پرتپاک استقبال کرنے کا جواز فراہم کرنا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ بنیامن نیتن یاہو سے ناراض ہیں۔ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے مزید ظالمانہ منصوبے اب بھی بنائے جا رہے ہیں جیسا کہ امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی نے بتایا۔ اس سے پہلے کہ امریکی صدر کا طیارہ مشرقِ وسطیٰ سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوتا، این بی سی نے رپورٹ کیا کہ غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چار مختلف ذرائع نے این بی سی کو امریکی منصوبے کی تصدیق کی۔ اس منصوبے میں باراک اوباما، نکولس سرکوزی اور ڈیوڈ کیمرون کی نام نہاد ’قوم سازی‘ کی کوششوں کے بعد غیرمستحکم اور انتہائی لاقانونیت کا شکار ہونے والے ملک لیبیا کے لیے مراعات کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔
معاہدے کی صورت میں امریکا لیبیا کے اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو غیر منجمد کردے گا۔ اس پیش کش سے یورپی اور عرب رہنماؤں کو خبردار ہوجانا چاہیئے۔ عرب ممالک کو نکبہ دوم کی صورت میں سڑکوں پر متوقع عوامی بھونچال سے خوفزدہ ہونا چاہیئے جنہیں ان کی مضبوط حکومتیں بھی قابو میں نہیں کرپائیں گی۔ لیبیا کے ساحلوں سے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے خدشے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کے عروج کی وجہ سے یورپی معاشرے پہلے ہی بےچینی کا شکار ہیں۔ انہیں فکر کرنی چاہیئے کہ اگر لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی ان کی زمین سے بےدخل کیا گیا تو کیا ہوگا۔
ناراض اور مایوس فلسطینی لیبیا میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ جانا چاہیں گے اور چند پناہ گزینوں کے پہنچنے سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یورپ میں انتہائی دائیں بازو اسے مزید خوف اور بےامنی پھیلانے کے لیے استعمال کریں گے۔ حال ہی میں القاعدہ سے منسلک ایک گروپ کی قیادت کرنے والے شامی صدر احمد الشرع جن کے سر پر ایک کروڑ ڈالرز کا انعام تھا، ڈونلڈ ٹرمپ اور کئی یورپی رہنماؤں کے ان سے مصافحے نے سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کا مسئلہ حماس نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کا عزم ہے۔ مغرب اور دیگر ممالک کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انہیں ایسے عزائم کی حمایت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟
اصل تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1911740/nakba-ii-to-rock-europe-me
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کہ امریکی کہ غزہ سے لیبیا کے کی صورت رہے ہیں اس بات کے لیے کے بعد اور ان
پڑھیں:
فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)
اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ
سب برانڈ اس جرم میں شریک ہیں:
رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیاں نہ صرف قابض صیہونی رجیم کے مظالم کے تسلسل کو ہوا دینے کا سبب ہیں بلکہ جنگوں اور محاصرے میں شدت آنے سے یہ عمل ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، جسے ساختیاتی بنیادوں پر فلسطینیوں کی نسل کشی کہا جا سکتا ہے۔ قابض اسرائیل کے سابقہ ہتھیار، جیسے فوجی سازوسامان، ٹیکنالوجی، پانی اور توانائی وغیرہ اب قتل کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور فلسطینی عوام پر ناقابل رہائش حالات مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ البانیز اس منظم کام کو ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" قرار دیتے ہیں، جس میں کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں۔ فلسطین پر قبضے کی غیر قانونی نوعیت اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کے 2024 کے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے، کمپنیوں کیطرف سے قابض اسرائیل کیساتھ کسی بھی قسم کا تعاون بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کی مثال بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کمپنیوں کے لیے ذمہ داری کے 3 درجات کی وضاحت کی گئی ہے، یعنی کس طرح ان کمپنیوں نے 3 شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، اور ہر شعبے میں انہیں فوری طور پر اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور قابض حکومت کے ساتھ تعاون کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کا خیال ہے کہ کمپنیاں یا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تخلیق میں براہ راست ملوث رہی ہیں، ایسی صورت میں وہ اپنی سرگرمیاں روکنے اور نقصان کی تلافی کرنے کی پابند ہیں، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، جن میں ایسے معاملات بھی شامل ہیں جہاں کمپنیوں نے خلاف ورزیوں کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں، یا آخر کار، ان کا انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بالواسطہ تعلق ہے۔
کمپنیوں کیخلاف قانونی کاروائی ممکن ہے:
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کی نسل کشی میں ملوث کمپنیوں پر بھی بین الاقوامی اداروں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟۔ رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
یہ ذمہ داری نہ صرف جرم میں براہ راست شرکت کے لیے پیدا ہوتی ہے، بلکہ مدد کرنے، اُبھارنے، اور اکسانے کے لیے بھی (جیسے لاجسٹک، مالی، یا آپریشنل سپورٹ فراہم کرنا) بھی اس میں شامل ہے۔ اس ذمہ داری کو ثابت کرنے کے لیے، جرم کے بارے میں کمپنی کا علم اور آگاہی کافی ہے اور مخصوص ارادے کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی کمپنیاں "ڈومیسٹک قانون کی تعمیل" یا "مستعدی کے اصول" کو استعمال کرنے جیسے عذر کے ساتھ خود کو ذمہ داری سے بری کر سکتی ہیں۔ اہم معیار ان کے اعمال کے حقیقی اثرات ہیں۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی قانون کے تحت، بین الاقوامی جرائم سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
مقدمات کی تاریخی مثالیں:
اقوام متحدہ کا نمائندہ واضح طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور قومی عدالتوں سے اس میں ملوث ڈائریکٹرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس حوالے سے تاریخی مثالوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اس طرح کے مقدمات کی فزیبلٹی ثابت ہو سکے۔ پہلی مثال میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلز کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں کمپنیاں جیسے آئی جی فاربن اور کروپ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرائم میں حصہ لینے پر مقدمہ چلایا گیا۔ جنوبی افریقی سچائی اور انکوائری کمیشن نے نسل پرستی کے نظام میں کمپنیوں کے کردار کا بھی جائزہ لیا۔ یہ ریکارڈز بتاتے ہیں کہ اسی طرح کے حالات میں کمپنیوں اور ان کے ڈائریکٹرز پر مقدمہ چلانا ممکن ہے۔
اسپیشل رپورٹر کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے اور موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون کا مطلب بین الاقوامی جرائم میں جان بوجھ کر حصہ لینا ہے۔ لہذا، "معمول کے مطابق کاروبار" اب قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ طویل مدتی قبضہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کا منافع تشدد اور کسی قوم کی تباہی پر مبنی ہے، لہٰذا اس صورت حال کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قبضے اور نسل کشی کی حمایت کرنے والے معاشی میکانزم کو منظم طریقے سے بند کیا جائے۔
خصوصی نمائندے کی سفارشات:
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے البانیز نے بھی اس سلسلے میں متعدد فوری اقدامات کی سفارش کی ہے، جس میں صیہونی حکومت اور غزہ میں نسل کشی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف ریاستی پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے سفارش کی ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان کمپنیوں پر پابندیاں عائد کریں، تجارتی معاہدوں کی معطلی، ہتھیاروں کی مکمل پابندی، اور اپنے ایجنڈے میں شامل کمپنیوں کے اثاثے منجمد کریں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیاں فوری طور پر اسرائیل سے تعاون بند کریں، یہودی بستیوں میں سرگرمیاں بند کر دیں، اور فلسطینی عوام کو معاوضہ ادا کریں (بشمول ایک منصوبے کے ذریعے جس کا نام "اپارتھائیڈ ویلتھ ٹیکس" ہے)۔
البانیز نے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مینیجرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا بھی مطالبہ کیا ہے اور سول سوسائٹی کو ایک سفارش میں کہا ہے کہ قابض صیہونیوں کے معاشی ڈھانچے پر دباؤ ڈالنے کے لیے بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیاں (BDS) مہموں کو جاری رکھنے پر غور کیا جانا چاہیے۔
کاروبار یا جرائم کی پشت پناہی کا ایک منافع بخش منصوبہ:
اس رپورٹ میں پیش کی گئی مجموعی تصویر، اسرائیلی معیشت کی نہ صرف فلسطین پر فوجی قبضے کی بنیاد پر، بلکہ عالمی سرمایہ داری کے ستونوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی ملی بھگت کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس ظالمانہ معاشی کاروباری ڈھانچے نے فلسطین پر صیہونی قبضے کو ایک منافع بخش منصوبے میں بدل دیا ہے، جو سرمائے، ٹیکنالوجی اور سائنس کے عالمی نیٹ ورک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ البانیز کے الفاظ میں، غزہ اور مغربی کنارے میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" ہے۔ یعنی فلسطینیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ۔ اسرائیلی حکومت کے لیے جوابدہ ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ان کمپنیوں، بینکوں، یونیورسٹیوں اور ان کے منتظمین کو بھی بین الاقوامی عدالتوں اور عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اس قانونی عمل کا حتمی مقصد کارپوریٹ احتساب، نسل کشی کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی ہے۔