غزل
وہ آ کے ہاتھ پہ جس وقت دل بناتی ہے
مرے بدن میں حرارت سی پھیل جاتی ہے
جو میرے لب پہ ہنسی ہے برائے دنیا ہے
جو میری آنکھ میں غم ہے وہ میرا ذاتی ہے
تمہارے شہر سے گزرا تو یہ کھلا مجھ پر
ہوا میں عود کی خوشبو کہاں سے آتی ہے
کبھی خیال میں آتی ہے جھولتی رسی
کبھی تو ریل کی پٹری مجھے بلاتی ہے
تمہارے آنے سے آیا ہے اب یقیں انجمؔ
یہ زندگی بھی بڑے معجزے دکھاتی ہے
(منیر انجم۔ ساہیوال ،سرگودھا)
.
غزل
اپنی خوشبو سے در و بام بدل دیتے ہیں
دل کا موسم وہ سرِ شام بدل دیتے ہیں
اور ہوتی ہے فزوں اُن کی محبت دل میں
جب وہ باتوں میں مرا نام بدل دیتے ہیں
اب یہ سوچا ہے کہ جب اُن کو نہیں کوئی ملال
ہم بھی اپنا دلِ نا کام بدل دیتے ہیں
میں تو لکھ لکھ کے محبت ہی اُنہیں بھیجتا ہوں
نامہ بر راہ میں پیغام بدل دیتے ہیں
وجد میں ہم کو کہاں اپنی خبر رہتی ہے
رقص میں گردشِ ایام بدل دیتے ہیں
ایک ہی شخص نشانے پہ سدا رہتا ہے
بس یہ کرتے ہیں کہ الزام بدل دیتے ہیں
اِن کی اِس اندھی عقیدت پہ نہ جانا اظہرؔ
جاں سے پیارے بھی یہاں جام بدل دیتے ہیں
(اظہر کمال خان۔ پاک پتن)
...
غزل
نالۂ نارسا سے گزرے ہیں
دردِ راحت فزا سے گزرے ہیں
ہم سے پوچھو کہ ماجرا کیا تھا
ہم بھی شہرِ سبا سے گزرے ہیں
تیرے لطف و کرم کے ہیں گھائل
تیری رنگیں ادا سے گزرے ہیں
دیکھ واجب نہیں ہے اتنا ستم
ہم تری بارگاہ سے گزرے ہیں
کیا بتائیں وصال کی خوشیاں
ہجر کی ابتلا سے گزرے ہیں
جس سے آگے نہیں مقام کوئی
ہاں اسی انتہا سے گزرے ہیں
ایک طوفانِ درد تھا ساجدؔ
ایک سیلِ بلا سے گزرے ہیں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور )
...
غزل
مجھے تو لگتا ہے آگے زوال ہے جاناں
ذرا بتا! کہ ترا کیا خیال ہے جاناں
زمانے بھر کو جو تم دسترس میں رکھتے ہو
تمہارے پاس یہ کیسا کمال ہے جاناں
بہت اُڑو! مگر اتنا دھیان میں رکھنا
ہر اِک عروج کو آخر زوال ہے جاناں
میں مانتا ہوں نمازیں بہت ضروری ہیں
ترا خیال تو تیرا خیال ہے جاناں
مرا یہ پھل بھی انہیں کا ہے میرا سایا بھی
اسی لیے تو مری دیکھ بھال ہے جاناں
جو چیز سب سے ضروری تھی مل نہیں پائی
ہمارے دل میں یہی اِک ملال ہے جاناں
جو دل سے جائے اسے لوٹنے نہیں دیتا
تمہارے واسطے رستہ بحال ہے جاناں
( زکریا نوریز۔ پاک پتن)
...
غزل
اس عالم میں دیکھنے والے تونے دیکھا کیا کیا کچھ
منظر منظر ایک تحیر اس میں بہتا ہوگا کچھ
وہ آنکھیں وہ جھیل سی آنکھیں ان میں ڈوب کے جانا ہے
اور پھر سب کو دیکھنا ہوگا اس میں منظر جیسا کچھ
اول اول اس کے جسم کی خوشبو سے دل شاد ہوا
اور پھر بھیڑ میں یکدم کھوگیا پھولوں جیسا چہرہ کچھ
ہر منظر کے عین مطابق نقش بنے تھے کوزے پر
ہر منظر کے عین مطابق چاک پہ آیا کیا کیا کچھ
دل کے ہر اک کونے سے آوازیں آئیں رات گئے
تو نے بھی آہوں کو سنا تھا تو نے بھی تھا دیکھا کچھ؟
مانا دونوں ساتھ نہیں ہیں پھر بھی میرے ساتھ ہے وہ
کاش! اس دل کی ویرانی میں پہلے جیسا رہتا کچھ
عشق کا ہر اک کھیل تو اس نے کھیل لیا ہے مجھ سے ندیمؔ
اور بھلا اب ہونا کیا ہے ہونا ہو تو ہوگا کچھ
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)
...
غزل
اپنے ہونے سے جو انکار کیا ہے میں نے
اصل میں عشق کا اظہار کیا ہے میں نے
مجھ سے اب میرے سوا کوئی نہیں مل سکتا
خود کو ایسے در و دیوار کیا ہے میں نے
عمر بھر پیار کیا دشت نوردی کی ہے
کام جو بھی کیا بیکار کیا ہے میں نے
میرے اقرار کو تم ڈر سے نہ تعبیر کرو
راستہ دار کا ہموار کیا ہے میں نے
ایک درویش نے ماتھے کو مرے چوما تھا
ہجر کا دشت تبھی پار کیا ہے میں نے
عشق تو ہو چکا اب کچھ نہیں ہونے والا
سانپ کو خود ہی تو بیدار کیا ہے میں نے
روشنی کس لیے مجھ سے ہے گریزاں آصفؔ
کب بھلا اِس کو گرفتار کیا ہے میں نے
(یاسررضاآصفؔ۔ پاک پتن)
...
غزل
مرے لئے یہ گراں ہے تجھے نہیں معلوم
چراغ نوحہ کناں ہے تجھے نہیں معلوم
ادھیڑ کر تری راہوں میں خود کو رکھا ہے
سلیس مصرعۂ جاں ہے تجھے نہیں معلوم
سمندروں سے ملاقات کیسے کرتے ہیں
یہ بھید مجھ پہ عیاں ہے تجھے نہیں معلوم
بہار صدیوں کے ادوار سے ہوئی رخصت
یہ اب جو دورِ خزاں ہے تجھے نہیں معلوم
لڑائی سے مجھے انکار تو نہ تھا لیکن
ّمری شکستہ کماں ہے تجھے نہیں معلوم؟
ہزار طرز کے پیہم ہیں مسئلے صاحب!
سفر میں کون کہاں ہے؟ تجھے نہیں معلوم
(مستحسن جامی ۔خوشاب)
...
غزل
شعوری کوششوں سے ہم یہ تجربہ کریں گے
تمہارے حسن کا بھرپور تجزیہ کریں گے
جو منطقی ہیں جنہیں فلسفوں کی عادت ہے
بروزِ حشر بھی بحث و مباحثہ کریں گے؟
فلک بہ رنگِ دگر روشنی بکھیرے گا
حسین لوگ زمینوں کا فیصلہ کریں گے
طلسمِ وقت بکھر کر فنا پذیر ہوا
کلون ساز کوئی اور سلسلہ کریں گے
فزکس اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر اے حسن
ترے وجود سے محروم لوگ کیا کریں گے
یہ شہر، شہر ہے مطلب پرست لوگوں کا
اُسے بتاؤ کہ یہ پھول مسئلہ کریں گے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)
...
غزل
چلتے چلتے مسائل کے حل کی طرف کوئی بڑھنے لگا
رات ڈھلنے لگی تو غزل کی طرف کوئی بڑھنے لگا
روشنی سے بھرے شہر میں اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے
ہم نے دیکھا کہ دشت و جبل کی طرف کوئی بڑھنے لگا
تم نے چھوڑا تو کچھ دن یہاں پر اداسی کے ڈیرے رہے
اور پھر تیرے نعم البدل کی طرف کوئی بڑھنے لگا
میں نے دیکھا کہ وادی کے دامن میں کچھ قیمتی پھول ہیں
وہ سبھی چھوڑ کر اک کنول کی طرف کوئی بڑھنے لگا
رات بھر بیٹھ کر سارے ایماں کا نقشہ بناتے رہے
فرصتِ شب ہوئی تو ہُبَل کی طرف کوئی بڑھنے لگا
کوئی اظہار کے واسطے دن کے تڑکے میں مصرعے پکاتا رہا
رات ڈھلنے لگی تو اجل کی طرف کوئی بڑھنے لگا
(حسن فاروق۔ فتح جنگ)
...
غزل
اک ایسی بھی صورت ہے
پھولوں جیسی صورت ہے
ہم ہیں غم کے کھنڈر اور وہ
تاج محل سی صورت ہے
میٹھا میٹھا لہجہ اور
پیاری پیاری صورت ہے
میرے دل کے آئنے میں
جچتی ایک ہی صورت ہے
شبنم پنک گلابوں پر
بالکل ایسی صورت ہے
دیکھ کے جس کو جیتا ہوں
یار وہ تیری صورت ہے
(فرید عشق زادہ۔ بنگلہ گوگیرہ، اوکاڑہ)
...
غزل
دو چار ہی ٹوٹے ہیں ابھی خواب ہمارے
بیکار سمجھ بیٹھے ہیں احباب ہمارے
مہتاب سے سیکھا ہے بھٹکنے کا سلیقہ
یہ رات بتا سکتی ہے آداب ہمارے
جس شوق سے پڑھتا ہے سلیبس کی کتابیں
کھل جائیں گے اْس دل پہ کبھی باب ہمارے
پہلے ہی کہا تھا کہ نہ ساحل سے پکارو
خشکی پہ نکل آئے ہیں گرداب ہمارے
اس طرح بکھرتے ہیں سبھی چاہنے والے
پھولوں سے بھرے رہتے ہیں تالاب ہمارے
مہتاب کہاں جائے گا دریا سے نکل کر
بن جائیں اگر نقش سرِ آب ہمارے
زائر کوئی پڑھ پاتا نہیں ٹھیک سے ہم کو
یہ کون بدل جاتا ہے اعراب ہمارے
(ریحان زائر۔فیصل آباد)
...
غزل
رات کا پچھلا پہر اور چائے
نیند میں سارا شہر اور چائے
نصرت کی آواز میں رقصاں
غزل کی چھوٹی بحر اور چائے
وصل کی دستاویز پے اس نے
حق میں لکھا مہر اور چائے
دو پریوں کا سایہ مجھ پہ
ایک تمہارا سحر اور چائے
ان ہونٹوں کے لمس میں پاگل
کپ میں اٹھتی لہر اور چائے
ان تینوں میں کون ہے گہرا
اس کی آنکھیں نہر اور چائے
سب کچھ اس کے ہاتھ ہے فیصل ؔ
بیشک دے دے زہر اور چائے
(فیصل عزیز اعوان۔ دوحہ، قطر)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا ہے میں نے بدل دیتے ہیں سے گزرے ہیں اور چائے ہے جاناں صورت ہے کریں گے ا نکھیں
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ: نو مئی کیس میں سزا پانے والے پی ٹی آئی کے 4 کارکنان بری
اسلام آباد( صغیر چوہدری) اسلام آباد ہائی کورٹ سے سانحہ نو مئی میں سزا پانے والے پی ٹی آئی کے چار کارکنوں کو بڑا ریلیف مل گیا ۔عدالت نے 9 مئی مقدمات میں سزا پانے والے چار مجرمان کو بری کر دیا۔انسداد دہشت گری نے پی ٹی آئی کے چار کارکنان کو 10۔10 سال قید کی سزا سنائی تھی ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس خادم سومرو اور جسٹس اعظم خان نے مجرمان کی اپیلوں پر سماعت کی دوران سماعت عدالت نے نو مئی کے کیس میں سزا پانے والے مجرم سہیل خان ، شاہزیب ، اکرم اور میرا خان کو بری کر دیا ،سہیل خان اور شاہزیب کی جانب سے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے ایڈوکیٹ بابر اعوان نے دلائل میں موقف اپنایا کہ ایف آئی آر میں الزام ہے کہ مشتعل ہجوم نعرے بازی کرتا ہوا آرہا تھا ۔جبکہ سزاپانے والے سہیل خان اور شاہزیب ایف آئی آر میں کہیں بھی نامزد ملزم نہیں جبکی شناخت پریڈ کرنے والے نے اپنے بیان میں سہیل خان کا نام ہی نہیں لیا۔شناخت پریڈ کرنے والے نے اپنے بیان میں محمد عامر کا نام لیا جسے کیس سے ڈسچارج کیا جا چکا ہے بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ تیسرا گواہ عطا اللہ کانسٹیبل ہے اس نے بھی محمد عامر کو شناخت کیا نہ کہ سہیل خان کو ۔ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہےکہ جیل جاکر شناخت نہیں کیا گیا ۔پراسیکوشن کے 9 گواہان میں سے صرف ایک گواہ محمد شریف اے ایس آئی نے شناخت کیا ۔الزام لگایا گیا کہ فائرنگ کی گئی مگر کوئی زخمی نہیں ہے ۔ بابر اعوان نے کہا کہ جرم کی سزا ضرور دیں مگر نظام کو مذاق نہ بنایا جائے ۔۔۔۔۔۔سپیشل پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ عدالت اپیل نہیں بلکہ سزا معطلی کی حد تک سماعت کر رہی تھی،جسٹس خادم سومرو نے استفسار کیا کہ آپ نے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اب تو ہم پوری اپیل سن چکے ہیں، بابر اعوان نے کہا کہ سزا پانے والوں میں سے کسی کی بھی گواہوں نے شناخت نہیں کی،جو لوگ گواہ لکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے شناخت کی ایف آئی آر میں تو اُنکا نام ہی موجود نہیں،اپیل کرنے والے مجرمان نے کہا کہ کوئی ایک زخمی نہیں کوئی ایک ایم ایل آر بھی نہیں، 185 پتھر ریکور کیے گئے، یہ نہیں لکھا گیا کس نے کس کو پتھر مارا اور کون زخمی ہوا، بچوں کو دس دس سال سزا دے کر بہت ظلم کیا گیا، پراسیکیوشن کے مطابق اکرم سے پی ٹی آئی کا جھنڈا اور ڈنڈا برآمد کیا گیا،مِیرا خان سے پی ٹی آئی کی ٹوپی برآمد کی گئی اس کے علاوہ کوئی برآمدگی نہیں، اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ پولیس اسٹیشن پر حملہ اور اندھا دھند فائرنگ کی گئی،جسٹس خادم سومرو نے استفسار کیا کہ پہلے مجرمان کی موقع پر موجودگی تو ثابت کریں پھر آگے بات ہو گی، کسی سے برآمدگی نہیں ہے، کوئی زخمی نہیں ہے، ایم ایل سی نہیں ہے، جسٹس خادم سومرو نے کہا کہ صرف شناخت پریڈ کی بنیاد پر انکو ہم سزا سنا دیں؟کوئی ثبوت تو لے آئیں کچھ تو لے آئیں پھر ہم کہیں، سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ پولیس اسٹیشن ریاست کا ایک ادارہ ہے اس پر حملہ دہشت گردی ہے، عدالت نے دلائل سننے کے بعد چاروں مجرمان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں