اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 مئی 2025ء) ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے دنیا کو مہلک بیماریوں کی آئندہ ممکنہ وباؤں سے بہتر طور پر تحفظ دینے کا تاریخی معاہدہ منظور کر لیا ہے جس کی بدولت تمام ممالک کے تمام لوگوں کو ہنگامی طبی حالات میں تشخیص، علاج معالجے اور ویکسین تک مساوی رسائی میسر آئے گی۔

اس معاہدے کی منظوری سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جاری اسمبلی کے دوسرے روز عمل میں آئی۔

اس موقع پر ہونے والی رائے شماری میں 124 ممالک نے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 11 غیرحاضر رہے جن میں پولینڈ، اسرائیل، اٹلی، روس، سلواکیہ اور ایران بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے پہلے ہی اس معاہدے کی تیاری کے عمل سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ Tweet URL

دنیا بھر کے ممالک اس معاہدے پر پہنچنے کے لیے تین سال سے گفت و شنید کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

کووڈ۔19 وبا سے ہونے والی تباہ کاری، اس دوران دنیا بھر کے نظام ہائے صحت میں آشکار ہونے والی خامیاں اور بیماری کی تشخیص، علاج اور اس کے خلاف ویکسین کی فراہمی کے معاملے میں بڑے پیمانے پر دیکھی جانے والی عدم مساوات اس معاہدے کے بنیادی محرکات ہیں۔کثیرالفریقی طریقہ کار کی فتح

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے معاہدے کو منظوری ملنے کے بعد کہا ہے کہ رکن ممالک کی قیادت، تعاون اور عزم کی بدولت آج دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔

یہ معاہدہ صحت عامہ، سائنس اور کثیرفریقی طریقہ کار کی فتح ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ معاہدے کی بدولت مستقبل کی ممکنہ وباؤں سے نمٹنے کی بہتر تیاری کے لیے اجتماعی اقدامات یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ عالمی برادری کی جانب سے اس عزم کا اظہار بھی ہے کہ آئندہ شہریوں، معاشروں اور معیشتوں کو ایسے حالات کا سامنا نہ ہو جو انہیں کووڈ۔19 وبا میں پیش آئے۔

معاہدے کی منظوری کے موقع پر فلپائن کے وزیر صحت اور رواں سال ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے صدر ڈاکٹر ٹیوڈورو ہربوسا نے کہا کہ معاہدے طے پانے کے بعد تمام ممالک کو اس پر عملدرآمد کے لیے بھی اسی تندہی اور لگن سے کام کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں وباؤں سے نمٹنے کے لیے درکار طبی سازوسامان تک مساوی رسائی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس طرح کووڈ ایک ایسا طبی بحران تھا جس کی ماضی میں طویل عرصہ تک کوئی مثال نہیں ملتی، اسی طرح یہ معاہدہ بھی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کا ایک غیرعمولی اقدام ہے۔

معاہدے کے اہم نکات

'ڈبلیو ایچ او' کے اس معاہدے میں وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کے خلاف اقدامات کے لیے عالمگیر طبی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے درکار اصول، طریقہ ہائے کار اور ذرائع تجویز کیے گئے ہیں۔

اس معاہدے کی رو سے رکن ممالک میں ادویہ ساز اداروں کو وباؤں سے متعلق 20 فیصد طبی سازوسامان بشمول ویکسین، علاج معالجے اور مرض تشخیص کے لیے درکار اشیا 'ڈبلیو ایچ او' کے لیے مخصوص رکھنا ہوں گی۔

یہ ادویات اور سامان ہنگامی طبی حالات میں کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔

اس میں ممالک کی قومی خودمختاری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ معاہدہ 'ڈبلیو ایچ او' کے سیکرٹریٹ، اس کے ڈائریکٹر جنرل یا دیگر حکام کو طبی معاملات اور ہنگامی طبی حالات میں کسی ملک کے قوانین یا پالیسیوں کو تبدیل کرنےکا اختیار نہیں دیتا۔

یہ معاہدے جرثوموں کے بارے میں معلومات کے تبادلے سے متعلق اس کے ذیلی حصے کی منظوری تک نافذ العمل نہیں ہو گا۔ 'ڈبلیو ایچ او' نے کہا ہے کہ اس بارے میں بات چیت جولائی میں شروع ہو گی اور اس حصے کو آئندہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

یہ دوسرا موقع ہے جب رکن ممالک نے 'ڈبلیو ایچ او' کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی ایسے معاہدے پر اتفاق رائے کیا ہے جس پر عملدرآمد قانوناً لازم ہو گا۔ اس سے قبل 2003 میں تمباکو نوشی کی عالمگیر وبا پر قابو پانے کے لیے فریم ورک کنونشن کی منظوری دی گئی تھی۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او اس معاہدے معاہدے کی کی منظوری کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے، رانا ثنا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور اور مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ کا نے کہا ہے کہ پاکستان کو ابراہیمی معاہدے سے متعلق عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے، ابھی تک اس معاملے پر پارٹی یا حکومت کی جانب سے کوئی رائے قائم نہیں کی گئی اور نہ ہی اس ایشو کو ابھی زیر بحث لایا گیا ہے.ایک انٹرویو میں ابراہیمی معاہدے پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے نون لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ نہیں ہونا
چاہیے، فلسطین میں بہت خون بہا ہے، وہاں پر بہت ظلم ہوا ہے اب وہاں پر امن قائم ہونا چاہیے اور وہاں پر بہنے والا خون بند ہونا چاہیے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے وہاں کوئی بھی یا کسی بھی قسم کا معاہدہ ہوتا ہے، ابرہیم معاہدہ ہو چاہے کوئی اور یا وہاں پر براہ راست ملوث قوتوں کے درمیان کوئی معاہدہ یا فلسطین کے ساتھ موجود عرب ممالک چاہیں یا اس پر متفق ہیں تو میں سمجھتا ہوں کو پاکستان کو، سعودی عرب کو، ترکیہ کو اور اس کے ساتھ اگر ایران کو بھی شامل کرلیا جائے یہ بڑے ممالک ہیں، ملائیشیا بھی ہے تو ان کو مشترکہ طور پر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے اور پاکستان کو مسلم ورلڈ کے ساتھ جانا چاہیے،ان کا کہنا تھا کہ اگر سعودی عرب، ایران، ترکیہ اور عرب ممالک کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو پاکستان کو ان کے ساتھ جانا چاہیے ،پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور ایران کو ابراہیمی معاہدے سے متعلق مشترکہ فیصلہ کرنا چاہیے، پاکستان کو ابراہیمی معاہدے سے متعلق عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے. یادرہے کہ ابراہیمی معاہدے 2020 میں طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور کئی عرب ممالک، بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے سفارتی تعلقات قائم کیے یہ معاہدے امریکہ کی ثالثی میں طے پائے اور ان کا نام ابراہیمی مذاہب (یہودیت، اسلام اور عیسائیت ) کے مشترکہ جد اعلی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے رکھا گیا یہ معاہدہ امریکا کی سربراہی میں اسرائیل کے ساتھ مسلمان خصوصا عرب ممالک کے درمیان ’’نارملائزیشن‘‘ کے لیے شروع کیا گیا تھا پاکستان سمیت متعددمسلمان ملکوں نے2020میں اس معاہدے کو قبول نہیں کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ بندی معاہدہ آئندہ ہفتے ہونے کا امکان، حماس کی جانب سے مثبت پیشرفت
  • پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے، رانا ثنا
  • بلوچستان اور آزاد کشمیر میں دانش اسکولوں کا قیام: 19ارب25کروڑروپے منظور
  • امریکا ویتنام تجارتی معاہدہ، چین کو نشانہ بنایا گیا
  • دنیا کے صرف دو ممالک آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ نیوکلیئرجنگ میں محفوظ رہیں گے ،انکشاف
  • وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان سے رشین وزیر ٹرانسپورٹ کی ملاقات، گرم پانیوں تک رسائی، سینٹرل ایشیا اور روس تک پاکستان سے ریل وروڈ نیٹ ورک پر اتفاق
  • ایئر چیف کا تاریخی دورہ امریکا، عسکری اور سیاسی قیادتوں سے ملاقاتیں، دفاعی تعاون پر اتفاق
  • ایئرچیف کا تاریخی دورۂ امریکا، ٹیکنالوجی اور مشترکہ تربیت پر اتفاق کا تاریخی دورۂ امریکا، ٹیکنالوجی اور مشترکہ تربیت پر اتفاق
  • ایئرچیف کا تاریخی دورۂ امریکا، ٹیکنالوجی اور متشترکہ تربیت پر اتفاق
  • انڈیا اورامریکہ کے درمیان اربوں ڈالر کا تجارتی معاہدہ مشکلات کا شکار