WE News:
2025-05-21@13:58:52 GMT

نکاح یا جنسی تعلق کےلیے رضامندی کی عمر؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

قومی اسمبلی نے ’تمام قواعد معطل کرکے‘ قانون سازی کا ایک مسودہ ’متفقہ طور پر‘ منظور کیا ہے جس کی رو سے وفاقی دارالحکومت کی حد تک نکاح کےلیے عمر کی کم سے کم حد 18 سال رکھ دی گئی ہے اور اس سے کم عمر کے لڑکے یا لڑکی کی شادی کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ ابھی اس مسودے نے قانون کی صورت اختیار نہیں کی ہے کیونکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد اب اس پر صدرِ مملکت کے دستخط بھی درکار ہوں گے۔ یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجائے گی جو وفاقی دارالحکومت کی حد تک نافذ ہوگا۔ واضح رہے کہ اسی نوعیت کی قانون سازی سندھ میں پہلے ہی کی جاچکی ہے۔

اتنی جلد بازی کیوں؟

جس جلد بازی میں اور قواعد معطل کرکے اس مسودے کی منظوری دی گئی، اس کی کوئی تُک بنتی نہیں تھی۔ کیا مناسب نہیں تھا کہ اس مسودے پر پارلیمان میں تفصیلی مباحثہ ہوتا اور اس کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا جاتا جس کے بعد ہی اس کی منظوری یا اس میں ترمیم یا اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا؟ جو مباحثہ پارلیمان میں ہونا تھا، وہ اب گلی محلے میں، چوک چوراہوں میں اور میڈیا پر ہورہا ہے۔ ایک حلقہ اس قانون سازی کو انسانی حقوق اور آزادی کے تصورات کے ساتھ ہم آہنگ قرار دے کر اس کی تحسین کررہا ہے، تو دوسرا طبقہ اسے اسلامی احکام سے متصادم قرار دے رہا ہے، اور حسبِ معمول کچھ لوگوں کے نزدیک اسلامی احکام کا مفہوم ہی غلط لیا گیا ہے۔ زیادہ تر بحث نکاح کے وقت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر ہورہی ہے، حالانکہ قبل از بلوغت نکاح کی کئی دیگر مثالیں بھی عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں ملتی ہیں۔ مسئلے کے اس پہلو پر پہلے ہی اچھی خاصی بحث ہوچکی ہے اور ہورہی ہے، اس لیے اس سوال کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جس پر بوجوہ مناسب بحث نہیں ہورہی۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا نکاح کی عمر اور جنسی تعلق کےلیے رضامندی کی عمر میں کوئی فرق ہے؟ بہ الفاظِ دیگر، کیا نکاح کےلیے جو کم سے کم عمر کی حد قانون کے ذریعے طے کی جائے، اس سے قبل کسی لڑکے یا لڑکی کو کسی اور کے ساتھ جنسی تعلق اپنی آزادانہ مرضی سے قائم کرنے کا اختیار ہوگا یا نہیں؟ مغربی ممالک میں، جہاں سے انسانی حقوق اور آزادی کے نعرے ہمارے ہاں برآمد کیے جارہے ہیں، شادی کی عمر اور جنسی تعلق کےلیے رضامندی کی عمر میں عموماً فرق کیا جاتا ہے، لیکن ہم پہلے اپنے پڑوسی بھارت کے قانون پر نظر ڈالنا چاہیں گے۔

بھارت میں جنس سے متعلق جرم و سزا کا قانون

بھارت میں پچھلے کچھ عرصے میں اس موضوع پر قانون میں کئی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ مثلاً:

• جنسی تشدد جسے ریپ کہا جاتا ہے (اور جس کےلیے ڈپٹی نذیر احمد و دیگر نے ’مجموعہ تعزیراتِ ہند 1860‘ کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے ’زنا بالجبر‘ کی ترکیب گھڑی تھی)، کی تعریف تبدیل کی گئی اور اس کے علاوہ اس کی کئی ذیلی قسمیں بنائی گئیں۔

• شادی شدہ خاتون کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے ساتھ اپنی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنا، جسے adultery کہا جاتا تھا (اور جس کا ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد و دیگر نے ’زنا بہ زنِ غیر‘ کیا تھا)، جرم تھا لیکن جس قانون نے اسے جرم قرار دیا تھا، بھارت کی سپریم کورٹ نے اس قانون کو ہی بھارت کے آئین میں موجود شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دے کر ختم کردیا اور یوں یہ فعل اب بھارت کے قانون میں جرم نہیں ہے۔

• ہم جنس پرستی کو بھی جسے unnatural lust یا غیر فطری لذت حاصل کرنے کا عنوان دیا گیا تھا، اسی بنیاد پر جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا اور یہ کام ’ماورائے صنف اشخاص‘ (transgender persons) کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیم ’ناز‘ کی کوششوں سے ہوا۔

• اس کے علاوہ بھارت کی عدلیہ نے مختلف فیصلوں کے ذریعے قانون کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ شادی کو ایک ’شہری معاہدہ‘ (civil contract) مانا گیا اور ساتھ ہی ایک لازمی نتیجے کے طور پر تسلیم کیا گیا کہ دیگر معاہدات (contracts) کی طرح اس معاہدے میں شامل ہونے کےلیے بھی فریقین کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے۔ تاہم یہاں تک پہنچ کر ایک مسئلہ پیدا ہوا۔

18 سال سے قبل جنسی تعلق کا جواز

بھارت میں اب 18 سال کی عمر سے پہلے شادی نہیں ہوسکتی، لیکن 18 سال کی عمر سے قبل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میں نہ صرف آزادانہ میل جول رکھ سکتے ہیں بلکہ باہمی رضامندی سے رہ بھی سکتے ہیں جسے ‘live in’ کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ اکٹھے رہ سکتے ہیں، تو کیا جنسی تعلق قائم نہیں کریں گے؟ اس کا نفی میں جواب تو کوئی پرلے درجے کا احمق ہی دے سکتا ہے۔ پھر اگر جنسی تعلق قائم کرلیا، تو اسے کیا کہا جائے گا؟ شادی تو ہے نہیں، نہ قانون کی رو سے وہ شادی کرسکتے ہیں۔ تو کیا اسے جنسی تشدد یا ریپ کہا جائے گا؟ یہ بھی عجیب لگتا ہے کیونکہ یہ تعلق تو باہمی رضامندی سے قائم ہوتا ہے جبکہ ریپ میں ایک فریق کی رضامندی نہیں ہوتی۔ یہاں سے بحث ’رضامندی کی عمر‘ (age of consent) کی طرف مڑ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ رضامندی کی عمر اور شادی کی عمر میں فرق ہونا چاہیے۔

چنانچہ آرا تو بہت سی ہیں لیکن عام رائے یہ ہے کہ رضامندی کی عمر 16 سال ہونی چاہیے، خواہ شادی کی عمر 18 سال ہو، یعنی 16 سال کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنسی تعلق تو باہمی رضامندی سے قائم کریں لیکن باہمی رضامندی سے شادی نہ کریں، یہ ہے وہ مخمصہ جس میں اس وقت بھارتی معاشرہ پھنسا ہوا ہے!

اب ذرا پاکستان کے قانون کی طرف آجائیں۔

پاکستان کے قانون میں تبدیلیاں

پاکستان میں 2006 میں جنسی تشدد/ریپ کی تعریف میں شوہر کی جانب سے بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی تعلق کو بھی شامل کیا گیا اور یوں ’ازدواجی زنا بالجبر‘ یعنی ‘marital rape’ کا جرم وضع کرلیا گیا۔

پھر 2016 میں کی گئی ترامیم کے نتیجے میں جنسی تشدد کی تعریف تبدیل کرکے اس کو بہت زیادہ وسعت دی گئی۔

اس کے بعد 2021 میں اس جرم کی تعریف کو مزید وسعت دے کر اس میں مزید بہت کچھ شامل کرلیا گیا۔

تاہم ان تبدیلیوں کے باوجود شادی شدہ عورت کو شوہر کے علاوہ دیگر مردوں سے اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت تا حال پاکستان کے قانون میں نہیں دی جاسکی، یعنی adultery یا ’زنا بہ زنِ غیر‘ یہاں تاحال جرم ہے۔ اسی طرح ہم جنس پرستی بھی پاکستان میں بدستور جرم ہے، اگرچہ 2018 میں ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ کی منظوری سے اس جرم کے خاتمے کی طرف پہلا قدم اٹھایا جاچکا ہے اور اس مقصد کےلیے دیگر تنظیموں کے علاوہ ’ناز‘ بھی سرگرم ہے۔ اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت 2023 میں اسلامی احکام سے متصادم قرار دے چکی ہے، لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں معلق ہیں اور اس وجہ سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ تاحال غیر مؤثر ہے اور یہ قانون بدستور نافذ ہے۔

بعض لبرل ججوں اور وکیلوں کی دلچسپی

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی شادی کی عمر کی ایسی تحدید کےلیے کوششیں جاری ہیں کہ 18 سال کی عمر سے قبل شادی کو سرے سے ناجائز قرار دیا جائے اور اس کام میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعض جج صاحبان خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اس وقت وفاقی دارالحکومت میں جو قانون رائج ہے وہ 1929 میں وضع کیا گیا تھا اور اس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ شادی کے وقت اگر لڑکی کی عمر 16 سال سے اور لڑکے کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو یہ قابلِ سزا جرم ہوگا۔ تاہم اس قانون نے ایسی شادی کو ناجائز نہیں کہا اور یہی کچھ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 1970 کے ایک فیصلے میں بھی کہا تھا۔

اس کے باوجود 2022 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے 18 سال سے کم عمر کی شادی کو سرے سے غیر قانونی قرار دے کر حکومت کو اس موضوع پر باقاعدہ قانون بنانے کا حکم دیا۔

اسی سال اسلام آباد ہائیکورٹ ہی کے ایک اور جج جسٹس عامر فاروق نے، جو ابھی اس عدالت کے چیف جسٹس نہیں بنے تھے، ایسی شادی کو ناجائز تو نہیں قرار دیا لیکن حکومت کو انہوں نے بھی اس موضوع پر قانون سازی کا حکم دیا۔ ان کو عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ شادی کے قانونی ہونے کےلیے ضروری ہے کہ خاتون قانوناً عاقل بالغ ہو۔ عدالتی معاون کی یہ بات یکسر غلط تھی کیونکہ سپریم کورٹ نے اصل میں یہ کہا تھا کہ خاتون قانوناً عاقل بالغ ہو تو اس کا اپنی جانب سے کیا جانے والا نکاح قانوناً درست ہوگا، خواہ اس کے ولی کی اجازت اس میں شامل نہ ہو۔ اس بات کو عدالتی معاون نے یکسر تبدیل کرکے عدالت کے سامنے ایک بالکل ہی مختلف بات رکھ دی اور جسٹس عامر فاروق نے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھے بغیر عدالتی معاون کی بات جوں کی توں نقل کرلی۔

ایک اور مقدمے میں اسلام آباد ہائیکورٹ ہی کے ایک تیسرے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی اس امر پر شدید ناراضی کا اظہار کیاکہ شناختی کارڈ کے بغیر شادیاں کیسے ہورہی ہیں!

شادی کی عمر کی تحدید کے بعد

اگر موجودہ مسودہ قانون کی صورت اختیار کرلے اور شادی کےلیے 18 سال کی عمر کی تحدید ہوجائے، تو اس کے بعد ہمارے ہاں بھی یہ سوال اٹھایا جانے لگے گا کہ شادی کی عمر بے شک 18 سال ہو لیکن جنسی تعلق قائم کرنے کےلیے رضامندی کی عمر 16 سال ہونی چاہیے۔ دیکھیے کہ پہلے آپ جنسی تشدد، یعنی ریپ کے قانون میں 16 سال کی عمر کی تحدید کرچکے ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر جسٹس بابر ستار 16 سال کی عمر میں شادی کو ریپ کے ساتھ جوڑ چکے ہیں، خواہ یہ شادی لڑکی کی رضامندی سے ہوئی ہو!

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے ’سماجی ساخت کی تبدیلی‘ (social engineering) کرکے پورے ’لا مذہبی جوش و خروش سے‘ معاشرے کو لبرلزم کے اندھے کنویں میں دھکیلا جارہا ہے اور ہمارے بعض دانشور اپنی سادگی میں یہ فرض کیے ہوئے ہیں کہ live in relationship چونکہ اب رائج ہے تو مذہبی طبقہ اور علما کسی طرح ’نکاحِ متعہ‘ یا ’نکاح مسیار‘ یا کوئی اور چٹ پٹا نسخہ تجویز کرلیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے اور وہ تہذیبی اقدار کی سطح پر ہے۔

پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے، ایک طرف اس کا اسلامی آئین ہے اور دوسری طرف اس کے اسلامی تشخص کو مسخ کردینے کی بھرپور کوشش کرنے والی لابی، وسیم بریلوی نے کہا تھا:

دریچوں تک چلے آئے تمہارے دور کے خطرے

ہم اپنی کھڑکیوں سے جھانکنے کا حق بھی کھو بیٹھے!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

wenews بھارت پاکستان جنسی تعلق سینیٹ قومی اسمبلی کم عمری شادی لبرل ازم وی نیوز یورپ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستان سینیٹ قومی اسمبلی وی نیوز یورپ کےلیے رضامندی کی عمر اسلام آباد ہائیکورٹ باہمی رضامندی سے عدالتی معاون کے قانون میں شادی کی عمر سپریم کورٹ پاکستان کے کی عمر میں سال کی عمر میں اسلام کی عمر کی قانون کی قرار دیا کے علاوہ کی تعریف کہا جاتا یہ ہے کہ کہ شادی کورٹ کے جاتا ہے دیا گیا شادی کو کے ساتھ سال ہو بھی اس سال سے ہے اور کے بعد اور اس

پڑھیں:

دنیا کی قدیم ترین چیونٹی کی باقیات دریافت

حال ہی میں سائنسدانوں نے دنیا کی قدیم ترین چیونٹی کی باقیات دریافت کی ہیں۔

یہ چیونٹی تقریباً 10 کروڑ 13 لاکھ سال پہلے کی ہے۔ یہ دریافت شمال مشرقی برازیل کے علاقے Ceará میں سے ہوئی ہے۔ اس نئی دریافت شدہ چیونٹی کو Vulcanidris cratensis کا نام دیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ چیونٹی ایک معدوم ذیلی خاندان Haidomyrmecinae (جنہیں "ہیل چیونٹیاں" کہا جاتا ہے) سے تعلق رکھتی ہے۔ 

خصوصیات: 

اس چیونٹی کا تعلق کریٹیشیئس دور سے ہے جس کی لمبائی تقریباً 1.35 سینٹی میٹر ہے۔ اس کے جبڑے اوپر کی طرف کھلنے والے درانتی نما جبڑے ہیں جو شکار کو چیرنے یا چھیدنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

یہ چیونٹی پروں والی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پرواز کر سکتی تھی. اس کے علاوہ چیونٹی میں ڈنک بھی موجود تھا جو اسے شکار کرنے میں مدد دیتا تھا۔

یہ دریافت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ پہلی بار ہے جب "ہیل چیونٹی" کی باقیات چٹان میں محفوظ ملی ہیں؛ اس سے قبل ایسی باقیات صرف عنبر (amber) میں پائی گئی تھیں جو تقریباً 99 ملین سال پرانی تھیں۔ یہ دریافت چیونٹیوں کی ارتقائی تاریخ کو کم از کم 13 ملین سال مزید پیچھے لے جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شادی کے بعد بہو پر نہیں بیٹے پر چیل کی طرح نظر ہوگی، نادیہ جمیل 
  • پاکستان میںٹرانسفر پر جج کی رضامندی آئینی تقاضا، بھارت میںایسا نہیں ہوتا: جسٹس علی مظہر
  • نکاح خواں ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا جہاں ایک یا دونوں فریق 18 سال سے کم عمر ہو، سینیٹ میں بل منظور
  • کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل سینیٹ سے منظور، جے یو آئی کا بائیکاٹ
  • کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل سینیٹ سے منظور
  • دنیا کی قدیم ترین چیونٹی کی باقیات دریافت
  • ایزدی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی، جرمنی میں مقدمہ شروع
  • سینیٹ کمیٹی نے تعلیمی اداروں میں ڈرگز ٹیسٹنگ بل پر ووٹنگ کا بل مسترد کردیا
  • ہمایوں اشرف نے شادی نہ کرنے کی وجہ بتا دی