سوات(نیوزڈیسک)خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں پیش آنے والے سانحے کی ممکنہ وجہ اور غفلت سامنے آگئی ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق سوات کے علاقے فضا گٹ کے مقام پر پیش آنے والے حادثے اور 13 افراد کی ہلاکت کی ممکنہ وجہ مافیا کی جانب سے مٹی اور پتھروں کی مدد سے بند بناکر دریا کا رخ موڑنا ہے۔

دریا کنارے کرشنگ اور تجاوزات

ذرائع کے مطابق کرشنگ اور ہوٹل مالکان کی ایما پر یہ کام کیا گیا تھا اور وقوعہ کے روز پانی کے تیز بھاؤ نے اس بند کو توڑ دیا۔ واقعے سے قبل پانی نہیں تھا جس کی وجہ سے سیاح کم پانی کو دیکھتے ہوئے ٹیلے کے پاس گئے اور پھر یکدم تیز بھاؤ کی وجہ سے مٹی کا بند ٹوٹ گیا۔

پانی کے بھاؤ کی وجہ سے پنجاب کے علاقے ڈسکہ کی فیملی سمیت خیبرپختونخوا کے سیاح بھی اس میں پھنس گئے تھے اور پھر وہ ایک گھنٹے تک مدد کیلیے پکارتے رہے تاہم اس دوران اتنظامیہ کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور 12 سیاح دریا میں بہہ گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بند بنانے پر مقامی افراد نے شدید احتجاج کیا تھا مگر مافیا نے انہیں اپنے تعلقات کی بنیاد پر خاموش کروادیا اور انتظامیہ نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔

حادثے کی بنیادی وجوہات

سوات میں مینگورہ سے لے کر کالام، اتروڑ اور دیگر مقامات پر ہوٹل مالکان کی جانب سے تجاوزات قائم کر کے دریا کا رخ موڑنے گزر گاہ کو کم کرنے کے علاوہ اب وہاں پر دریا کے کنارے تیزی سے کرشنگ کا غیر قانونی کام چل رہا ہے۔

کرشنگ کے کام کے دوران دریا میں کھدائی کر کے مٹی و پتھر نکال کر ان کا کرش بنا کر اس کو تعمیراتی کام کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ کام صرف رات کے وقت ہوتا تھا تاہم گزشتہ چند سالوں سے بھاری مشینری اور گاڑیاں دن دہاڑے بھی دریا کنارے نظر آتی ہیں اور ایک چھوٹی گاڑی 5 سے 10 ہزار میں فروخت ہوتی ہے۔

نشاندہی پر دھمکیاں اور شکایت پر ادارے بے بسی ظاہر کرتے ہیں

سوات سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی کارکن و رضاکار ہارون سراج نے بتایا کہ اس حوالے سے علاقہ مکین، سول سوسائٹی کے نمائندے کئی بار شکایات کر چکے ہیں جبکہ میڈیا نے بھی اس خرابی کی نشاندہی کی تھی تاہم انتطامیہ غفلت کی چادر اوڑھ کر سوتی رہی۔

انہوں نے بتایا کہ جب کوئی اس معاملے پر زیادہ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے سنگین دھمکیاں موصول ہوتی ہیں اور پھر شکایت درج کرانے پر ادارے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہیں۔

ریسکیو 1122 کے ذرائع نے بتایا کہ سوات کیلیے کئی غوطہ خور بھرتی کیے ہوئے ہیں تاہم وہ سیاسی بنیاد پر اپنی ڈیوٹیوں پر آنے کے بجائے پارٹی قائدین اور وزرا کے ساتھ وقت گزار کر سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی سوات واقعے کے حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ واقعے کے وقت سوات میں ہیلی کاپٹر موجود تھا مگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث تاخیر ہوئی۔

دوسری جانب وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے بنائی گئی انسپکشن ٹیم کا تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، جس نے معطل کیے گئے 6 افسران کا بیان بھی قلمبند کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق ڈپٹی کمشنر سوات ، سابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ، دو اسسٹنٹ کمشنرز ، ضلعی ریسکیو آفیسر سمیت ٹی ایم او کا بیان قلمبند کر لیا گیا۔

صوبائی انسپکشن ٹیم کے سربراہ خیام حسن و دیگر ارکان نے بروقت امدادی ٹیمیں نہ پہنچنے کے سوالات کیے جبکہ معطل کیے گئے ضلعی ریسکیو آفیسر سوات نے شواہد کے ساتھ کمیٹی کو تفصیلی سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق ریسکیو افسر نے موصول ہونے والی کالز کی تفصیلات کی رپورٹ بھی جمع کرائی جس میں بتایا گیا ہے کہ پہلی کال موصول ہونے کے 19 منٹ بعد عملہ پہنچا۔

اس کے علاوہ معطل ڈی سی سوات  ، دو اسسٹنٹ کمشنرز نے بھی ملنے والی اطلاعات پر  ریسپانس سے تفصیلی آگاہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایم او کی جانب سے غفلت برتنے پر سرزنش کی گئی۔

صوبائی انسپکشن ٹیم نے جائے حادثہ پر موجود عام شہریوں کے بیانات بھی قلمبند کئے اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز شواہد کا بھی جائزہ لیا۔

صوبائی انسپکشن ٹیم وزیراعلی علی امین گنڈاپور کو آج شام رپورٹ پیش کرے گی جبکہ 7 روز میں ورکنگ مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو پیش کی جائے گی۔
مزیدپڑھیں:مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس فیصلہ: پی ٹی آئی کا رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انسپکشن ٹیم کی جانب سے کے مطابق

پڑھیں:

ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251005-03-7

 

شاہنواز فاروقی

ایک زمانہ تھا کہ مسلم دنیا ’’دیوقامت‘‘ لوگوں کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں بڑے مفسرین تھے، بڑے محدثین تھے، بڑے متکلمین تھے، بڑے مفکر تھے، بڑے دانش ور تھے، بڑے شاعر تھے، بڑے ادیب تھے، بڑے سیاست دان تھے، بڑے اساتذہ تھے، بڑے ماں باپ تھے، بڑے دوست احباب تھے۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ ہم لوگوں نے ’’بونے‘‘ پیدا کرنے شروع کیے۔ مذہب کے دائرے میں بھی بونے تھے، شعر و ادب کے دائرے میں بھی بونے تھے، سیاست میں بھی بونے تھے، مگر ہمارا زمانہ ’’بالشتیوں‘‘ اور ’’حشرات الارض‘‘ کا زمانہ ہے۔ اب نہ ہمارے پاس بڑے مفسرین ہیں، نہ بڑے سیرت نگار ہیں، نہ بڑے محدثین ہیں، نہ بڑے متکلمین ہیں، نہ بڑے شاعر ہیں، نہ بڑے ادیب ہیں، نہ بڑے دانش ور ہیں، نہ بڑے سیاست دان ہیں، نہ بڑے اساتذہ ہیں، نہ بڑے ماں باپ، نہ بڑی اولادیں ہیں، نہ بڑے دوست احباب ہیں، اس حوالے سے صورت حال اتنی ہولناک ہے کہ اس کی اطلاع عطا الحق قاسمی کے فرزند یاسر پیرزادہ تک کو ہوگئی ہے۔ چنانچہ یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک کالم میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے سائنس دان، دانش ور اور فلسفی کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’یونیورسٹیاں محض اس لیے نہیں بنائی جاتیں کہ وہاں نو سے پانچ بجے تک دفتر آیا جائے، حاضری لگائی جائے، کلاس پڑھائی جائے اور تنخواہ وصول کی جائے، جامعات کا کام سائنس دان، فلسفی اور دانشور پیدا کرنا ہوتا ہے، نوکری پیشہ مزدور تو گورنمنٹ ڈگری کالج ساہیوال بھی پیدا کرلے گا (اہالیان ساہیوال سے معذرت کے ساتھ)۔ مجھے اکثر یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے جہاں میں ایسی ہی جلی کٹی باتیں سناتا ہوں، جواب میں کچھ وی سی صاحبان اپنی غزل بھی سناتے ہیں جس میں مطلع سے لے کر مقطع تک وہ محبوب کے بجائے اپنی ذات کی تعریفیں یوں بیان کرتے ہیں کہ غالب بھی شرما جائے۔ میرا ایک ہی مدعا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی یونیورسٹیاں اور ان کے وی سی خواتین و حضرات ایسا ہی عمدہ کام کررہے ہیں تو ہماری جامعات سائنس دان، دانشور اور فلسفی پیدا کرنے کے بجائے نوکری کے متلاشی روبوٹ کیوں پیدا کررہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مسئلے کی جڑ موجود ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، 28 ستمبر 2025ء)

یاسر پیرزادہ نے یونیورسٹیوں کی ناکارکردگی تو بیان کردی مگر انہوں نے اپنے پورے کالم میں اس سوال کا کوئی جواب فراہم نہیں کیا کہ ہم فلسفی، دانش ور اور سائنس دان کیوں پیدا نہیں کرپا رہے؟ لکھنے والوں کا فرض صرف یہ نہیں کہ مسئلے کی نشاندہی کریں بلکہ ان کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اپنے اٹھائے ہوئے سوال کا کوئی جواب بھی مہیا کریں۔

انسانی تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ اس سفر کے سب سے بڑے لوگ تین ہیں۔ انبیا، اولیا اور مجدّدین۔ اتفاق سے انسانوں کی یہ تینوں اقسام مامور من اللہ ہوتی ہیں اور ان کا مقصد حیات بھٹکے ہوئے انسانوں کو صحیح راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ ان عظیم ترین انسانوں کا مقصد حیات حق کا دفاع اور اس کا فروغ اور باطل کی مزاحمت ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انسان کی نفوس کا ’’تزکیہ‘‘ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کے سامنے کلمہ حق بیان کیا اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کافروں اور مشرکوں کے سامنے حق کو پیش کیا اور ان کے باطل کی مزاحمت کی۔ یہی کام بعدازاں اولیا اور مجددین ِ وقت نے کیا۔ برصغیر میں اگر مجدد الف ثانیؒ نہ ہوتے تو بادشاہت کا پورا ادارہ اسلام دشمن بن جاتا اور ہندو ازم میں جذب ہوجاتا۔ شاہ ولی اللہ کے وقت میں برصغیر سے قرآن اور حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندوں نے برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کیا۔ مولانا مودودیؒ بھی مجدد وقت تھے۔ وہ نہ ہوتے تو پوری امت مسلمہ یہ بات بھول جاتی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور مغرب اس دور کا سب سے بڑا باطل ہے۔ ہمیں اس بارے میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ مجدد الف ثانی بھی مامور من اللہ تھے۔ شاہ ولی اللہ بھی مامور من اللہ تھے اور مولانا مودودی بھی مامور من اللہ تھے۔ یہ ہماری تاریخ میں بڑے انسانوں کے ظہور کا سب سے اہم اسلوب ہے۔

مسلم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں بڑی آرزو نے بھی بڑے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ برصغیر میں اقبال اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ اقبال اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ایک قوم پرست شاعر تھے۔ وہ ہمالے کی شان میں نظم لکھ رہے تھے۔ وہ ایک ہندو کی طرح کہہ رہے تھے۔

پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے

لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو بدل ڈالی پہلے ان کی آرزو صرف ہندوستان کا جغرافیہ تھا پھر ان کی آرزو ایک سطح پر عالمگیر اور دوسری سطح پر آفاقی ہوگئی اور وہ کہنے لگے

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

٭٭

پرے ہے چرخِ نیلی خام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہیں وہ کارواں تُو ہے

آرزو کی اس تبدیلی نے اقبال کو اوسط درجے کے شاعر سے ایک عظیم شاعر میں ڈھال دیا۔ ایسے شاعر میں کہ جب تک فارسی اور اردو زندہ رہیں گی اقبال اس وقت تک زندہ رہیں گے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس اقبال تھے مگر اب ہمارے پاس اقبال کا سایہ بھی نہیں ہے۔

انسانی شخصیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بسا اوقات زندگی میں ہونے والا کوئی بڑا تجربہ بھی انسان کو دیوقامت بنا دیتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی سب سے بڑی مثال میر تقی میر ہیں۔ انہیں عشق کے تجربے نے ’’معمولی‘‘ سے ’’غیر معمولی‘‘ بنادیا۔ چنانچہ انہوں نے محبت کے تجربے سے عظیم الشان شاعری تخلیق کرکے دکھائی۔ انہوں نے کہا ؎

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور

نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

٭٭

محبت مسبّب، محبت سبب

محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب

٭٭

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

تاریخ کا علم بتاتا ہے کہ تاریخ کی بڑی کروٹ بھی بڑے انسان پیدا کرتی ہے۔ تاریخ کی کروٹ ایک چیلنج ہوتی ہے اور چیلنج کے بارے میں ٹوائن بی نے بنیادی بات کہی ہے۔ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے بوجھ بنالیتے ہیں اور وہ بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چیلنج کو ایک ’’قوتِ محرکہ‘‘ یا Motivation میں ڈھال لیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال قائداعظم ہیں۔ انہوں نے قیام پاکستان کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح سے ’’قائداعظم‘‘ بن گئے۔ کبھی وہ صرف ’’افراد‘‘ کے وکیل تھے مگر چیلنج نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا ’’وکیل‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ 20 ویں صدی میں لینن اور مائو بھی تاریخ کی کروٹ کا حاصل تھے۔ چنانچہ لینن نے روس میں اور مائو نے چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔

انسانی شخصیت کی تفہیم بتاتی ہے کہ بڑی ذہانت اور بڑا علم بھی انسان کو عظیم بنا کر کھڑا کردیتا ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں غالب اور محمد حسن عسکری اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ بلاشبہ غالب اردو کے چار عظیم شاعروں میں سے ایک ہے۔ اس کی پشت پر نہ مذہب کی قوت تھی نہ اس کے پاس کوئی بڑا اور گہرا تجربہ تھا مگر اس کی ذہانت اور علم بے مثال تھا وہ فارسی کی پوری روایت کو جذب کیے بیٹھا تھا۔

محمد حسن عسکری کا مطالعہ قاموسی یا Encyclopedic تھا۔ برصغیر میں ان کی سطح کا مطالعہ صرف اقبال کے پاس تھا۔ چنانچہ عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد بن گئے۔ ان کے جیسا نقاد نہ ان سے پہلے کوئی تھا۔ نہ ان کے زمانے میں کوئی تھا اور نہ کسی دوسرے عسکری کی پیدائش کا امکان دور دور تک نظر آتا ہے۔

ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنے تہذیبی اور تاریخی تجربے سے کئی گئی اور فرد پرستی نے انسان کے اندر موجود اجتماعیت پرستی کو مار دیا ہے۔ اس کا اظہار سلیم احمد نے اپنے ایک قطعے میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔

ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے

کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی

میں سمٹتا جارہا ہوں ایک نقطے کی طرح

میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی

ہمارے اندر اجتماعی آدمی کی موت نے ہمارے چاروں طرف بالشتیوں کے ڈھیر لگادیے ہیں۔

ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اعلیٰ درجے کے ادارے وجود میں لانے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ہماری ذہانتیں اور ہمارا علم ادارتی نہیں بن پا رہا یعنی Institutionalize نہیں ہوپا رہا۔ ہماری جامعات میں جو تحقیق ہورہی ہے اس کی سطح پست اور اس کا مقصد صرف عہدے اور تنخواہ کی ’’ترقی‘‘ ہے۔ چنانچہ جامعات ہوں یا مدارس ہم ہر جگہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہو تو کیسے؟

 

شاہنواز فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
  • پاکستان دشمنی میں بھارتی فوج نے سرحدی علاقے میں بکریوں کو ہلاک و زخمی کر دیا
  • اسلام آباد پریس کلب میں پولیس تشدد، وزیر داخلہ کا نوٹس، آئی جی سے رپورٹ طلب
  • کراچی، گلشن اقبال میں اسپیشل بچوں کے اسکول میں بچے پر تشدد
  • بھارت: آسمانی بجلی گرنے سے باپ بیٹے سمیت 7 افراد ہلاک
  • باجوڑ میں خوارج کیجانب سے گھروں کے اندر کھودی گئی خفیہ سرنگوں کا انکشاف
  • اسلام آباد پریس کلب میں پولیس گردی  واقعہ: وزیر مملکت کی غیر مشروط معافی
  • بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں بدامنی پیدا کرنے کا انکشاف
  • ’بلیک میل کرکے شادی پر مجبور کیا‘، فیروز خان کی انسٹاگرام اسٹوری نے تہلکہ مچا دیا
  • باجوڑ میں خوارج کی جانب سے گھروں کے اندر کھودی گئی خفیہ سرنگوں کا انکشاف