22 مئی 2020، جب آسمان سے قیامت اتری، سانحہ پی کے 8303 کی پانچویں برسی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
کراچی:
آج 22 مئی 2025 کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) کی پرواز پی کے 8303 کے المناک حادثے کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں، لیکن اس سانحے کی تلخ یادیں آج بھی متاثرہ خاندانوں اور زندہ بچ جانے والوں کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔
یہ المناک واقعہ 22 مئی 2020 کو پیش آیا، جب لاہور سے کراچی آنے والی پرواز پی کے 8303، جس میں 91 مسافر اور 8 عملے کے ارکان سوار تھے، کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب جناح گارڈن کے رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی۔
اس حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ چند خوش نصیب افراد معجزانہ طور پر زندہ بچے۔
مزید پڑھیں: کراچی طیارہ حادثے کی رن وے پر پیٹ کے بل لینڈنگ کی ویڈیو سامنے آگئی
سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق طیارہ لینڈنگ کی پہلی کوشش میں ناکام ہوا کیونکہ اس وقت لینڈنگ گیئر نہیں کھلے تھے۔
جہاز کے دونوں انجن رن وے سے رگڑ کھاتے رہے اور چنگاریاں نکلتی رہیں۔ تاہم بیلی لینڈنگ (Belly Landing) کی بجائے، پائلٹ نے دوبارہ پرواز کا فیصلہ کیا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
فلائٹ ڈیٹا اور کاک پٹ ریکارڈنگز کے مطابق، پائلٹ اور عملے نے نواں شاہ اور مکلِی کے قریب لینڈنگ پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقررہ بلندی اور رفتار سے زیادہ پر پرواز جاری رکھی۔
مزید پڑھیں: نازش جہانگیر کراچی طیارہ حادثے میں کیسے بال بال بچ گئیں؟ حیران کن انکشاف
آخرکار، ایئر بس A320 طیارہ، جو تقریباً 80 ٹن وزنی تھا، کراچی کے جناح گارڈن کی رہائشی آبادی پر آ گرا، جس سے زمین لرز اٹھی اور ایک قیامت خیز منظر سامنے آیا۔
اس دن کی ہولناکی آج بھی محمد اصغر کے ذہن پر نقش ہے، جو حادثے کے وقت اپنے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھنے ہی والے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے بعد میں نے گاڑی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ ایک عجیب و غریب، دہلانے والی آواز سنائی دی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہو رہا ہے، میں گھبرا کر قریبی باغیچے میں کود گیا۔
مزید پڑھیں: کراچی طیارہ حادثہ فرانسیسی ٹیم تحقیقات مکمل کرکے روانہ
محمد اصغر نے بتایا کہ چند لمحوں بعد جلتے ہوئے ملبے، جہاز کے بھاری پرزوں اور کھولتے جیٹ فیول کی بارش شروع ہو گئی اور ہر طرف دھواں اور آگ تھی، میری آواز بھی شاید اس شور میں دب گئی تھی۔
دو نوجوان پڑوسیوں نے دھواں اور چیخوں کے درمیان اصغر کو دیکھا اور دوڑتے ہوئے اسے گھسیٹ کر اپنے گھر لے گئے۔ بعد ازاں ریسکیو ٹیموں نے اصغر کو اسپتال منتقل کیا، جہاں وہ تقریباً آٹھ ماہ تک زیرِ علاج رہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے بچے قتل
ہزاروںمحصور، شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا،عینی شاہدین کا انکشاف
سیٹلائٹ تصاویر سے الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں
سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا، اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن دسیوں ہزار اب بھی محصور ہیں۔جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو "قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔