حیا اور بہادر؛ پنجاب میں بچوں کے تحفظ کیلیے ’گڈ ٹچ بیڈ ٹچ‘ آگاہی مہم کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
لاہور:
بچے محفوظ پنجاب محفوظ کے نعرے کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر صوبائی محکمہ داخلہ نے کم سن بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر اور جامع آگاہی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
اس مہم کا بنیادی مقصد بچوں کو جنسی بدسلوکی جیسے حساس اور اہم مسئلے سے آگاہ کرنا اور انہیں خود حفاظتی طریقے سکھانا ہے۔
محکمہ داخلہ نے اس سلسلے میں ایک خصوصی اینیمیشن سیریز کی پہلی قسط جاری کر دی ہے، جس کا مرکزی موضوع ’’گڈ ٹچ‘‘اور ’’بیڈ ٹچ‘‘ سے متعلق بچوں کی تربیت ہے۔ اس سیریز میں دو مرکزی کردار ’’حیاء’’ اور ’’بہادر‘‘متعارف کروائے گئے ہیں، جو بچوں کو آسان اور دلچسپ انداز میں ذاتی حفاظت اور درست و غلط جسمانی رویے کے درمیان فرق سمجھاتے ہیں۔
سیریز میں بچوں کے لیے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ بیڈ ٹچ کرنے والوں سے گھبرائیں گے نہیں، ٹکرائیں گے۔ یہ نعرہ بچوں میں اعتماد پیدا کرنے اور انہیں کسی بھی نامناسب رویے کو پہچان کر اس کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔
مہم میں بچوں کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ وہ نامناسب جسمانی رویے کو کس طرح پہچانیں اور فوری طور پر اپنے والدین، اساتذہ یا کسی قابل اعتماد فرد کو اطلاع دیں۔ اس کا مقصد بچوں کو بچپن سے ہی ایسی تعلیم دینا ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں اور کسی ممکنہ استحصال سے بچ سکیں۔
والدین اور اساتذہ سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ کھل کر بات کریں اور انہیں گھر یا باہر کسی بھی جنسی استحصال کو رپورٹ کرنے کے طریقے سکھائیں۔ ماہرین کے مطابق جنسی استحصال کا شکار بچے زندگی بھر شدید ذہنی دباؤ اور ٹراما کا سامنا کر سکتے ہیں، جس کی روک تھام صرف بروقت آگاہی سے ہی ممکن ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے اس سے قبل بھی ’’گڈ ٹچ بیڈ ٹچ‘‘آگاہی کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے محکمہ اسکول ایجوکیشن کو باضابطہ مراسلہ ارسال کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد بچوں کی حفاظت کو تعلیمی عمل کا حصہ بنانا ہے تاکہ وہ محض نصابی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی محفوظ رہ سکیں۔
سیکرٹری داخلہ پنجاب نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کو بھی اس آگاہی مہم میں بھرپور کردار ادا کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ یہ پیغام ہر گھر، ہر اسکول اور ہر بچے تک پہنچ سکے۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق یہ مہم آنے والی نسلوں کو جنسی استحصال جیسے خطرناک مسئلے سے محفوظ رکھنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ ہر والدین اور استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مہم کا حصہ بنیں اور بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محکمہ داخلہ ہے کہ وہ بچوں کے بچوں کو مہم کا بیڈ ٹچ
پڑھیں:
ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کوئی تحقیقی منصوبہ شامل نہ ہونے کے باعث عملی طور پر ’غیر فعال‘
پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پارک) عملی طور پر غیر فعال ہو چکی ہے، کیونکہ 26-2025 کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں ایک بھی تحقیقی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی، زراعت کو اولین ترجیح دینے کے بار بار حکومتی دعوؤں کے باوجود نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر (نارک) میں تحقیقی کام اب ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
پارک مالی سال 2026 میں جنوبی کوریا کے تعاون سے آلو کے تصدیق شدہ بیج کی پیداوار کے صرف ایک پروجیکٹ پر کام کرے گی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے دو جاری منصوبوں کو معطل کر دیا ہے جن میں ایک دالوں کی پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا اور دوسرا گلگت بلتستان میں ماؤنٹین ریسرچ سینٹر کو اپ گریڈ کرنا شامل ہیں۔
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ایک سینئر عہدیدار کی جانب سے شیئر کی گئی معلومات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وزارت کے تحت پانچ نئی اسکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی پارک سے متعلق نہیں ہے۔
رابطہ کرنے پر پارک کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے تصدیق کی کہ منظور شدہ اسکیموں میں 26-2025 کے دوران نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر میں تحقیقی سرگرمیاں شامل نہیں ہیں۔
ان پانچ منصوبوں میں سے ایک وزیر غذائی تحفظ رانا تنویر حسین کا حلقہ شیخوپورہ میں ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے متعلق ہے۔ وزارت نے گندم کی پٹی اور باسمتی چاول کے برآمدی زون میں واقع کثیر الضابطہ زرعی تحقیقی ادارے کے لیے پانچ سال کے لیے 380 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
وزارت غذائی تحفظ کے سیکریٹری وسیم اجمل چوہدری نے جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو اپنی ذمہ داریوں کے تحت عائد کردہ مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے وزارت کا ترقیاتی بجٹ 24 ارب روپے سے کم کر کے 4.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف منصوبہ بند پروجیکٹس میں کمی واقع ہوئی ہے۔
کمیٹی نے وزارت کے ساتھ پہلے سے زیر بحث اور سفارش کردہ متعدد اسکیموں کے اخراج پر تشویش کا اظہار کیا، خاص طور پر خیرپور میں مجوزہ ڈیٹس ریسرچ سینٹر کے اخراج پر۔
شیخوپورہ پروجیکٹ کے علاوہ، وزارت نے پاکستان نیشنل شوگر اینڈ شوگر کین مانیٹرنگ سسٹم، پائیدار زرعی کاروبار اور آبی زراعت کی ترقی کے لیے مالی ترغیبی پروگرام، پاکستان میں کپاس کی بحالی اور پاک سرزمین کارڈ پروجیکٹ کی منظوری دی تھی۔
پارک کا قیام 1981 میں دیگر وفاقی اور صوبائی اداروں کے ساتھ مل کر تحقیق کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا جبکہ نارک اس کے اہم تحقیقی بازو کے طور پر کام کرتا ہے۔
سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارک انتظامیہ نے 26-2025 کے لیے پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کے لیے 15 منصوبوں کو حتمی شکل دی تھی۔ تاہم وزارت غذائی تحفظ نے ابتدائی طور پر ان میں سے 7 کو شارٹ لسٹ کیا، لیکن آخر کار ان سب کو چھوڑ دیا، جن کی لاگت کا تخمینہ 24 ارب روپے سے زیادہ تھا۔
وزارت غذائی تحفظ نے زرعی تحقیق کے فروغ کے لیے 10 ارب روپے کی سیڈ منی کے ساتھ انڈوومنٹ فنڈ بنانے کی تجویز کو مسترد دیا۔
زراعت میں تحقیق و ترقی کو مالی وسائل کی کمی اور بے ترتیب فنڈنگ کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
Post Views: 5