لاہور(نیوز ڈیسک)لاہور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ سال عید میلاد النبیؐ کے موقع پر صوبائی دارالحکومت کے اہم مقامات پر چراغاں کرنے کے لیے 34 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کیے جانے نے شفافیت اور عوامی فنڈز کے ممکنہ غلط استعمال سے متعلق سنگین خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ مختلف محکمے، مذہبی تنظیمیں اور تاجر برادری دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنے طور پر اور بغیر کسی سرکاری امداد کے لائٹنگ کے انتظامات کیے تھے۔

دستیاب دستاویزات میں سرکاری دعووں اور زمینی حقائق کے درمیان واضح تضادات سامنے آئے ہیں۔

دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ ابتدائی طور پر منظور شدہ بجٹ 10 کروڑ روپے تھا، تاہم حتمی ادائیگی بڑھ کر 34 کروڑ روپے تک جا پہنچی — یعنی 240 فیصد اضافہ۔

ضلعی انتظامیہ نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ابتدائی تخمینہ 10 کروڑ روپے کیوں رکھا گیا؟ 24 کروڑ روپے کا اضافہ کیوں ہوا؟ اور بجٹ میں اضافے کی منظوری کے لیے کمیٹی کی سفارشات کہاں ہیں؟

بجٹ میں 240 فیصد اضافہ؛ محکمے اور تاجر تنظیمیں خود مختار دعوے کرتی رہیں

ایم سی ایل (میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور) نے دعویٰ کیا کہ اس نے گریٹر اقبال پارک میں 1,756 لاری لائٹس، 2,616 سنو لائٹس، 18 جنریٹرز (150 کے وی اے) اور 15 جنریٹرز (200 کے وی اے) نصب کیے، جس کا بل 1 کروڑ 25 لاکھ روپے بنا۔

تاہم منہاج القرآن، جس نے اس پارک میں تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی، نے واضح کیا کہ تمام انتظامات، بشمول روشنی، صفائی اور باڑ کی مرمت، انہوں نے خود کیے۔ پارک انتظامیہ نے بھی ان کے دعوے کی تصدیق کی۔

ضلعی انتظامیہ نے بارہا درخواستوں کے باوجود لائٹنگ کی تصدیق یا تصاویر فراہم نہیں کیں۔

لاہور میوزیم (43.

6 لاکھ روپے)، اورنج لائن/ہائی کورٹ (35.1 لاکھ روپے) اور سول سیکرٹریٹ (51.8 لاکھ روپے) کے لیے بلز منظور کیے گئے، حالانکہ ان مقامات کے افسران نے تصدیق کی کہ کوئی ایم سی ایل انتظامات نہیں کیے گئے۔

لاہور میوزیم کے ترجمان نے کہا کہ وہاں مستقل لائٹنگ سسٹم نصب ہے، جو روزانہ رات 10 بجے تک روشن رہتا ہے، اور انہوں نے عید میلاد النبی کے موقع پر خود اپنے انتظامات کیے۔

لاہور ہائی کورٹ نے بھی اپنے بلڈنگ کی سجاوٹ خود کی، ضلعی انتظامیہ کی مدد کے بغیر۔

ٹاؤن ہال میں جہاں ایم سی ایل کا براہ راست کنٹرول ہے، صرف معمولی لائٹنگ کی گئی، لیکن 30 لاکھ روپے کا بل پیش کیا گیا۔

سول سیکرٹریٹ، جس نے اپنے طور پر لائٹنگ کی، پھر بھی ٹھیکیدار کے بل میں شامل کیا گیا۔

ٹولنٹن مارکیٹ کے تاجروں نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنی سجاوٹ خود کی، لیکن ان پر 39.5 لاکھ روپے کا بل چارج کیا گیا۔

زون وائز دعوے:

نشتر زون: 42 لاکھ

شالیمار زون: 45 لاکھ

گلبرگ زون: 42 لاکھ

راوی زون: 64 لاکھ

داتا گنج بخش زون: 87 لاکھ

سمن آباد: 64 لاکھ

علامہ اقبال ٹاؤن: 81 لاکھ

واہگہ زون: 69 لاکھ

عزیز بھٹی زون: 64 لاکھ

سڑکوں کی لائٹنگ کے بلز میں بھی بڑے دعوے شامل:

میکلوڈ روڈ: 1.8 کروڑ

استنبول چوک سے گورنر ہاؤس: 2.14 کروڑ

فیروزپور تا جیل روڈ: 2.23 کروڑ (حالانکہ یہاں مستقل PHA لائٹنگ نصب ہے)

جناح انڈرپاس تا فیروزپور روڈ: 1.49 کروڑ

اللہ ہو چوک تا شوکت خانم: 1.45 کروڑ

بٹاپور تا گریٹر اقبال پارک: 10 لاکھ

یعقوب گیٹ تا سرکلر روڈ پر 2.91 کروڑ روپے کے کام کا دعویٰ کیا گیا، جسے مقامی تاجروں اور رہائشیوں نے مسترد کر دیا۔

فیروزپور روڈ تا جیل روڈ کے لیے بھی 2.23 کروڑ روپے خرچ ہونے کا دعویٰ کیا گیا، حالانکہ وہاں PHA کی مستقل روشنی پہلے سے موجود ہے۔

جنریٹر کے لیے فیول کی مد میں 16.27 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، حالانکہ 2 ستمبر 2024 کو ہونے والی ایک میٹنگ میں لیسکو کو بلا تعطل بجلی فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

ڈی سی اور کمشنر کی رہائشگاہوں پر نئے جنریٹرز (100 تا 150 KVA) نصب کیے گئے، حالانکہ پہلے سے ہائی کیپیسٹی جنریٹر موجود تھے۔ اس پر کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔

منہاج القرآن کے ترجمان نوراللہ نے بتایا کہ انہوں نے گریٹر اقبال پارک میں میلاد کانفرنس کا مکمل انتظام خود کیا، تمام روشنی، صفائی اور یہاں تک کہ باڑ کی مرمت بھی خود کی۔

لاہور میوزیم کے ترجمان نے کہا کہ ان کے پاس مستقل لائٹس نصب ہیں، اور انہوں نے عید میلاد النبی کے موقع پر کوئی ضلعی امداد نہیں لی۔

لاہور ہائی کورٹ کے ترجمان نے بھی کہا کہ عمارت کی سجاوٹ خود کی گئی، نہ کہ ایم سی ایل نے۔

ایک ایم سی ایل اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مبینہ طور پر فنڈز کو جعلی کنٹریکٹس اور مبالغہ آمیز بلز کے ذریعے خردبرد کیا گیا، اور ویری فیکیشن کمیٹی نے مقامات کا خود معائنہ ہی نہیں کیا۔

ڈپٹی کمشنر لاہور سید موسیٰ رضا نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ خرچ میں اضافہ جائز تھا، ابتدائی تخمینہ کم تھا، اور خرچ پچھلے دو سالوں سے کم ہے۔

انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ویری فیکیشن کمیٹی کیوں تحلیل کی گئی یا ایک دن میں منظوری کیسے حاصل کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اے سیز کو مانیٹرنگ کی اضافی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا کیونکہ وہ دیگر انتظامی امور میں مصروف تھے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اضافی روشنی لگائی گئی اور جنریٹرز کا انتظام ضروری تھا۔

لیکن وہ اضافی جنریٹرز کی ضرورت یا غلط ابتدائی تخمینے پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی وضاحت نہ کر سکے۔

Post Views: 2

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عید میلاد النبی ضلعی انتظامیہ ایم سی ایل کے ترجمان کروڑ روپے لاکھ روپے نے کہا کہ انہوں نے کیا گیا کیے گئے کی گئی کے لیے خود کی

پڑھیں:

تربت میں نجی کیش وین پر ڈکیتی، 22 کروڑ روپے لوٹ لیے گئے

کوئٹہ:

بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہر تربت کے نواحی علاقے دشت کھڈان کراس پر ایم-8 شاہراہ پر نجی سیکیورٹی کمپنی کی کیش وین پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے 22 کروڑ روپے سے زائد رقم لوٹ لی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ ہائی پروفائل ڈکیتی کا واقعہ منگل کے روز پیش آیا جب کیش وین تربت سے گوادر کی جانب دو نجی بینکوں کی نقدی منتقل کر رہی تھی۔ لیویز ذرائع کے مطابق، لوٹی گئی رقم میں میزان بینک تربت برانچ کے 14 کروڑ 55 لاکھ روپے اور بینک الفلاح کے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے شامل تھے۔

واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق تین سے پانچ مسلح ڈاکو جو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے انہوں نے شاہراہ پر کیش وین کو روکنے کے لیے پہلے فائرنگ کی اور پھر ہتھیاروں کے زور پر سیکیورٹی گارڈز اور ڈرائیور ہر غمال بنا کر وین میں موجود کیش لے اُڑے۔خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ڈاکو کیش باکس سے پوری رقم لوٹ کر تیزی سے فرار ہو گئے۔

لیویز حکام نے بتایا کہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا اور ڈاکوؤں کو وین کی نقل و حرکت کی پیشگی معلومات تھیں جو اندرونی سازش کا امکان ظاہر کرتی ہیں واقعے کے فوراً بعد لیویز فورس اور پولیس نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی اور سرچ آپریشن شروع کیا لیکن ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

تحقیقات کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج، عینی شاہدین کے بیانات اور قریبی علاقوں سے موبائل ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے جن سے ملزمان تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوگا البتہ بلوچستان میں حالیہ مہینوں میں ڈکیتیوں اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

رواں سال مئی میں تربت کے مرکزی بازار میں ایک نجی بینک سے 25 ملین روپے لوٹے گئے تھے جس کی تحقیقات ابھی تک جاری ہیں، مقامی تاجروں اور شہریوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہائی ویز پر سیکیورٹی کو بہتر بنایا جائے اور جدید نگرانی کے نظام نصب کیے جائیں۔

ڈاکوؤں کو پکڑنے  کیلئے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل

بلوچستان پولیس کے اعلیٰ حکام نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے سرگرم ہے۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس نیوز کو بتایا ہے کہ یہ واردات مقامی جرائم پیشہ گروہوں یا علیحدگی پسند عناصر کی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن کسی گروہ نے ابھی تک ذمہ داری قبول نہیں کی۔

بینک حکام نے اپنے ملازمین کی حفاظت اور نقدی کی منتقلی کے عمل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے اضافی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب یہ واقعہ گوادر پورٹ کی معاشی سرگرمیوں کے لیے اہم شاہراہ پر پیش آیا جو خطے کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہے۔ مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی وارداتیں علاقے میں سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔

لیویز حکام نے بتایا کہ تحقیقات مکمل ہونے پر مزید تفصیلات سامنے آئیں گی اور شہریوں سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری دیں۔

متعلقہ مضامین

  • مارخور کا غیر قانونی شکار، 5 کروڑ 7 لاکھ جرمانہ، ایک سال قید
  • خیبر پختونخوا کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ میں کروڑوں کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
  • تربت میں نجی کیش وین پر ڈکیتی، 22 کروڑ روپے لوٹ لیے گئے
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • اے پی پی میگا کرپشن کیس، 13 ملزمان کی ضمانت خارج، 7 ملزمان احاطہ عدالت سے گرفتار
  • محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبر پختونخوا میں کروڑوں کی بےقاعدگیوں کا انکشاف
  • ’ کیا میں ایسی عورت لگتی ہوں؟‘ تنوشری دتہ نے 1 کروڑ 65 لاکھ روپے کی بگ باس آفر فوراً  ٹھکرا دی
  •  خیبر پی کے میں45 کروڑ 19 لاکھ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • تنقید کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، وزیراعلیٰ مریم نواز
  • بارہمولہ کشمیر میں عید میلاد النبی (ص) کی عظیم الشان ریلی