عمران خان کو ایک طبقہ ایسا نجات دہندہ اور مزاحمتی ہیرو تصور کرتا ہے، جس نے ’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘ کی بات کی، اداروں کو للکارا، اور کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کیا۔
ان کے چاہنے والوں کا ماننا ہے کہ وہ ایک واحد سیاست دان ہے، جو اسٹیٹس کو کے خلاف کھڑا ہوا، نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا اور عالمی طاقتوں کے آگے جھکنے سے یکسرانکار کیا۔
اس بیانیے میں انہیں قائداعظم کا جانشین، اور پاکستان کو ’ریاست مدینہ‘ کی طرف لے جانے والا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران یہ بیانہ بھی سننے میں آیا کہ: ’اگر خان ہوتا تو بھارت پاکستان کو آنکھ نہ دکھا سکتا‘، اور بھارت کا واویلا: ’عمران خان کو رہا کیا جائے‘۔
اس کے برعکس دوسرا طبقہ اُن ناقدین کا ہے جو عمران خان کو ایک clever imposter یعنی چالاک فریب کار قرار دیتا ہے، جو مذہب، حب الوطنی، اور تبدیلی جیسے پُرکشش نعروں کے پیچھے چھپ کر ذاتی اقتدار کی سیاست کرتا رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ عمران خا ن نے:
۱۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا لیکن حکومت میں آکر سودی نظام، مہنگائی، اقربا پروری، اور عوامی مسائل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔
۲۔ کرپشن کے خلاف آواز بلند کی، لیکن ان کے اردگرد کرپشن میں ملوث افراد کا جھرمٹ رہا (فرح گوگی، پنکی پیرنی، توشہ خانہ اسکینڈل وغیرہ)۔
۳۔ انہوں نے اداروں کے خلاف صرف اس وقت بغاوت کی جب وہ ادارے ان کی مرضی پر نہیں چلے۔
۳۔ انہوں نے نوجوانوں کو نجات کے خواب دکھا کر انہیں سیاسی تشدد، جھوٹے پروپیگنڈے، اور جذباتی انتہا پسندی کی راہ پر ڈالا۔
۴۔ وہ جذباتی نعروں اور سادہ عوامی بیانیوں کے ماہر ہیں اور اگر جنگ کے دوران باہر ہوتے تو جنگی ماحول کو ممکنہ طور پر یوں استعمال کرتے:
’ہم غلام نہیں بنیں گے‘، ’میں کسی مودی یا بزدل دشمن کے سامنے جھکنے والا نہیں‘، ’ریاست مدینہ کبھی کمزور نہیں ہوتی‘ وغیرہ۔
وہ صرف نعرے اور جلسے جلوس کروا کر نوجوانوں کے جذبات بھڑکاتے اور جنگی صورت حال کے باوجود فوج، حکومت، اور عدلیہ پر تنقید جاری رکھتے، جس سے قومی اتحاد متاثر ہوتا اور قومی سلامتی کے اداروں کیلئے مشکلات پیدا ہوتیں۔
وہ دشمن کے سامنے قومی صف بندی کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو ”اصل غدار” قرار دیتے۔
سچ کیا ہے؟سچ ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ الفاظ میں نہیں بلکہ عمل اور نتائج میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر عمران خان واقعی مزاحمتی ہیرو ہوتے تو ان کی ’ریاست مدینہ‘ کا عملی نمونہ کہیں نہ کہیں نظر آتا۔
لیکن ان کے دور حکومت میں نہ عدل ملا، نہ انصاف، نہ کفایت شعاری، نہ اخلاقیات۔ صرف سیاسی انتقام، تضاد بیانی، جھوٹ اور جذباتی نعرے۔
حقیقت کی بنیاد پر نتیجہ:بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے ماہرانہ سیاسی اداکار (clever political actor) ثابت ہوئے، جنہوں نے ’ ہیرو‘ کا ماسک پہن کر عوامی جذبات کا استحصال کیا۔
انہوں نے حقیقی مزاحمت نہیں کی، بلکہ سیاسی مفادات کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا بیانیہ بدلتے رہے۔ لہٰذا وہ نہ تو مزاحمتی ہیرو ہیں، نہ مکمل ولن۔
بلکہ وہ ایک ایسا چالاک کردار ہیں جس نے نوجوان نسل کو خواب بیچ کر حقیقت سے دور رکھا، اور پاکستان کو مزید غیر یقینی صورت حال میں دھکیل دیا۔
اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو وہ قومی بحران کو ’ذاتی سیاسی جنگ‘ میں بدل دیتے، اور بھارت کے ساتھ ممکنہ کشیدگی کو اپنی مقبولیت بحال کرنے، اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے، اور اقتدار میں واپسی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے۔ وہ قومی اتحاد کی بجائے تقسیم پیدا کرتے اور یہی ان کے طرزِ سیاست کی اصل پہچان ہے۔
جنگ کے دوران بھارتی میڈیا نے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو اپنے سیاسی اور پراپیگنڈہ مفادات کیلئے استعمال کیا، کیونکہ عمران خان کی حکومت کے دوران بھارت کو اسٹریٹیجک سکون ملا تھا۔ کشمیر پر آرٹیکل 370 کی منسوخی پر عمران خان نے صرف زبانی احتجاج کیا تھا اور کسی عملی سفارتی یا عسکری دباؤ کی حکمت عملی سامنے نہیں لائی تھی۔
بھارتی میڈیا انہیں فوج مخالف اور جمہوریت کا ہیرو قرار دیتا ہے تاکہ وہ عمران خان کے ذریعے پاکستانی اداروں کو کمزور، متنازع اورغیر مقبول ظاہر کر سکے۔بھارت کسی کا سگا نہیں، عمران خان کا بھی نہیں۔ عمران خان کی رہائی کا لاگ الاپنا بھارت کی ایک سیاسی چال تھی۔
ہیرو وہ ہوتا ہے جو قربانی دیتا ہے، موقع نہیں ڈھونڈتا۔عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جذباتی نعروں، ریاست مدینہ کی اداکاری، اور ادارہ دشمنی کے پیچھے چھپے چہرے اصل میں نفس اور مفادات کے غلام اور اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ مزاحمتی ہیرو نہیں ہوسکتے کیونکہ مزاحمت تب معتبر ہوتی ہے جب خود پر لاگو ہو۔
پاکستان کو ایسے رہنما نہیں چاہئیں جو عوام کے کندھوں پر چڑھ کر صرف اپنی حفاظت چاہتے ہوں بلکہ ہمیں ایسی قیادت درکا ہے جو سچ،تدبر، حکمت، اتحاد اور قربانی کی مثال بنے نہ کہ نفرت، سازش اور خود نمائی کی علامت۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔
ریاست مدینہ عمران خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ریاست مدینہ مزاحمتی ہیرو ریاست مدینہ پاکستان کو کے دوران کے خلاف
پڑھیں:
عمران خان نے احتجاجی تحریک کے لیے مجھے دوبارہ ذمہ داری دے دی ہے، وزیراعلی کے پی
عمران خان نے احتجاجی تحریک کے لیے مجھے دوبارہ ذمہ داری دے دی ہے، وزیراعلی کے پی WhatsAppFacebookTwitter 0 22 May, 2025 سب نیوز
راولپنڈی (آئی پی ایس )وزیراعلی کے پی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو بانی پی ٹی آئی تیار ہیں، ہماری جنگ جاری ہے ہم ہر صورت میں اپنے بانی کو رہا کرائیں گے، بانی پی ٹی ںے احتجاجی تحریک کے لیے مجھے دوبارہ ذمہ داری دے دی ہے۔یہ بات انہوں نے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
وزیراعلی کے پی علی امین گنڈاپور نے کہا کہ مجھے دو ماہ کے بعد ملاقات کرنے کا موقع دیا گیا ہے حالاں کہ کورٹ کا آرڈر موجود ہے، عمران خان سے احتجاجی تحریک اور بجٹ کے معاملے پر بات ہوئی میں نے خیبرپختونخوا کے بجٹ کے معاملے میں عمران خان کو بریف کیا، میرا لیڈر مجھے ہدایات دے گا تو میں آگے عمل درآمد کراوں گا جبکہ بجٹ بھی آرہا ہے اگر یہ میری ملاقات نہیں کراتے تو ہم آئی ایم ایف سے شرائط کے معاملات میں حکومت کے ساتھ ہرگز نہیں بیٹھیں گے، یہ واحد صوبہ ہے جس نے آئی ایم ایف کے تمام اہداف پورے کیے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے بتائے گئے لوگوں سے ملاقات ہونی چاہیے، ہماری تحریک جاری رہے گی، عمران خان نے کہا ہے کہ اندھیرا جب زیادہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے سویرا ہونے والا ہے، ڈنڈے کے زور پر ریاست نہیں چلاسکتے، اگر پاکستان کی سوچ نہیں ہے تو ہمارے لیڈر اور ہمیں پاکستان کی سوچ ہے، ہم جلد خان کو رہا کرائیں گے،ملک میں آئین کی بالادستی ہونی چاہیے، ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا اس کی واپسی ہماری نہیں ملک کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق تقاضے پورے کیے جائیں جس کا جو کام ہے وہ اپنا کام کرے، عمران خان جب کوئی بات کہہ دیں تو وہی بیان پارٹی کا اور ہمارا بیان ہے ہم اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور اسی پر عمل کرنے کے پابند ہیں، عدالت میں لگے ہمارے کیسز سنے جائیں، عمران خان پر بنائے گئے مقدمات جھوٹے ہیں انہیں سنا جائے کیسز عدالتوں میں لگائے جائیں اور عمران خان کو بری کیا جائے۔
انہوں ںے کہا کہ مائیک اٹھا کر لوگوں پر تنقید کرنا آسان اور کام کرنا بہت مشکل ہے ہم سے پوچھیں، ہم نے احتجاج کیے مگر ہمیں روکا گیا اور آخر میں ہمیں گولیاں ماری گئیں، ہمارا مقصد اپنے کارکنوں کو شہید کرانا نہیں ہے ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ وزیراعلی کے پی نے کہا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو بانی پی ٹی آئی تیار ہیں، ہماری بات چیت اور ڈیمانڈ آئین کے لیے ہے، ہماری جنگ جاری ہے ہم ہر صورت میں اپنے بانی کو رہا کرائیں گے، بانی پی ٹی آئی ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں ںے احتجاجی تحریک کے لیے مجھے دوبارہ ذمہ داری دے دی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ ہمارا جواب منہ توڑ، مودی سرکار پاکستان پر دوبارہ حملے کے لیے سو بار سوچے گی، وزیراعظم چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس ،پبلک لائبریری کے قیام پر تبادلہ خیال وزیراعظم سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات، جاری اصلاحات پر اطمینان کا اظہار بانی پی ٹی آئی پولی گرافک ٹیسٹ کرنے والی ٹیم سے چھپ رہے ہیں، عظمی بخاری میرے خلاف سیاسی سطح پر جاری مہم محض ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، چیئرمین پی ٹی اے کی وضاحت برطانوی سفارتی اہلکار کی اڈیالہ جیل آمد، اسیر شہری علی حسن سے ملاقاتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم