WE News:
2025-11-03@01:00:37 GMT

مزاحمتی ہیرو  یا  چالاک منافق ؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

مزاحمتی ہیرو  یا  چالاک منافق ؟

عمران خان کو ایک طبقہ ایسا نجات دہندہ اور مزاحمتی ہیرو تصور کرتا ہے، جس نے ’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘ کی بات کی، اداروں کو للکارا، اور کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کیا۔

ان کے چاہنے والوں کا ماننا ہے کہ وہ ایک واحد سیاست دان ہے، جو اسٹیٹس کو کے خلاف کھڑا ہوا، نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا اور عالمی طاقتوں کے آگے جھکنے سے یکسرانکار کیا۔

اس بیانیے میں انہیں قائداعظم کا جانشین، اور پاکستان کو ’ریاست مدینہ‘ کی طرف لے جانے والا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران یہ بیانہ بھی سننے میں آیا کہ: ’اگر خان ہوتا تو بھارت پاکستان کو آنکھ نہ دکھا سکتا‘، اور بھارت کا واویلا: ’عمران خان کو رہا کیا جائے‘۔

اس کے برعکس دوسرا طبقہ اُن ناقدین کا ہے جو عمران خان کو ایک clever imposter  یعنی چالاک فریب کار قرار دیتا ہے، جو مذہب، حب الوطنی، اور تبدیلی جیسے پُرکشش نعروں کے پیچھے چھپ کر ذاتی اقتدار کی سیاست کرتا رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خا ن  نے:

۱۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا لیکن حکومت میں آکر سودی نظام، مہنگائی، اقربا پروری، اور عوامی مسائل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔

۲۔ کرپشن کے خلاف آواز بلند کی، لیکن ان کے اردگرد کرپشن میں ملوث افراد کا جھرمٹ رہا (فرح گوگی، پنکی پیرنی، توشہ خانہ اسکینڈل وغیرہ)۔

۳۔ انہوں نے اداروں کے خلاف صرف اس وقت بغاوت کی جب وہ ادارے ان کی مرضی پر نہیں چلے۔

۳۔ انہوں نے نوجوانوں کو نجات کے خواب دکھا کر انہیں سیاسی تشدد، جھوٹے پروپیگنڈے، اور جذباتی انتہا پسندی کی راہ پر ڈالا۔

۴۔ وہ جذباتی نعروں اور سادہ عوامی بیانیوں کے ماہر ہیں اور اگر جنگ کے دوران باہر ہوتے تو جنگی ماحول کو ممکنہ طور پر یوں استعمال کرتے:

 ’ہم غلام نہیں بنیں گے‘، ’میں کسی مودی یا بزدل دشمن کے سامنے جھکنے والا نہیں‘، ’ریاست مدینہ کبھی کمزور نہیں ہوتی‘ وغیرہ۔

وہ صرف نعرے اور جلسے جلوس کروا کر نوجوانوں کے جذبات بھڑکاتے اور جنگی صورت حال کے باوجود فوج، حکومت، اور عدلیہ پر تنقید جاری رکھتے، جس سے قومی اتحاد متاثر ہوتا اور قومی سلامتی کے اداروں کیلئے مشکلات پیدا ہوتیں۔

وہ دشمن کے سامنے قومی صف بندی کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو ”اصل غدار” قرار دیتے۔

سچ کیا ہے؟

سچ ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ الفاظ میں نہیں بلکہ عمل اور نتائج میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر عمران خان واقعی مزاحمتی ہیرو ہوتے تو ان کی ’ریاست  مدینہ‘ کا عملی نمونہ کہیں نہ کہیں نظر آتا۔

لیکن ان کے دور حکومت میں نہ عدل ملا، نہ انصاف، نہ کفایت شعاری، نہ اخلاقیات۔ صرف سیاسی انتقام، تضاد بیانی، جھوٹ اور جذباتی نعرے۔

حقیقت کی بنیاد پر نتیجہ:

بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے ماہرانہ سیاسی اداکار (clever political actor)  ثابت ہوئے، جنہوں نے ’ ہیرو‘ کا ماسک پہن کر عوامی جذبات کا استحصال کیا۔

انہوں نے حقیقی مزاحمت نہیں کی، بلکہ سیاسی مفادات کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا بیانیہ بدلتے رہے۔ لہٰذا وہ نہ تو مزاحمتی ہیرو ہیں، نہ مکمل ولن۔

بلکہ وہ ایک ایسا چالاک کردار ہیں جس نے نوجوان نسل کو خواب بیچ کر حقیقت سے دور رکھا، اور پاکستان کو مزید غیر یقینی صورت حال میں دھکیل دیا۔

اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو وہ قومی بحران کو ’ذاتی سیاسی جنگ‘ میں بدل دیتے، اور بھارت کے ساتھ ممکنہ کشیدگی کو اپنی مقبولیت بحال کرنے، اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے، اور اقتدار میں واپسی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے۔ وہ قومی اتحاد کی بجائے تقسیم پیدا کرتے اور یہی ان کے طرزِ سیاست کی اصل پہچان ہے۔

جنگ کے دوران بھارتی میڈیا نے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو اپنے سیاسی اور پراپیگنڈہ مفادات کیلئے استعمال کیا، کیونکہ عمران خان کی حکومت کے دوران بھارت کو اسٹریٹیجک سکون ملا تھا۔ کشمیر پر آرٹیکل 370 کی منسوخی پر عمران خان نے صرف زبانی احتجاج کیا تھا اور کسی عملی سفارتی یا عسکری دباؤ کی حکمت عملی سامنے نہیں لائی تھی۔

بھارتی میڈیا انہیں فوج مخالف اور جمہوریت کا ہیرو قرار دیتا ہے تاکہ وہ عمران خان کے ذریعے پاکستانی اداروں کو کمزور، متنازع اورغیر مقبول ظاہر کر سکے۔بھارت کسی کا سگا نہیں، عمران خان کا بھی نہیں۔ عمران خان کی رہائی کا لاگ الاپنا بھارت کی ایک سیاسی چال تھی۔

 ہیرو وہ ہوتا ہے جو قربانی دیتا ہے، موقع نہیں ڈھونڈتا۔

عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جذباتی نعروں، ریاست مدینہ کی اداکاری، اور ادارہ دشمنی کے پیچھے چھپے چہرے اصل میں نفس اور مفادات کے غلام اور اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ مزاحمتی ہیرو نہیں ہوسکتے کیونکہ مزاحمت تب معتبر ہوتی ہے جب خود پر لاگو ہو۔

پاکستان کو ایسے رہنما نہیں چاہئیں جو عوام کے کندھوں پر چڑھ کر صرف اپنی حفاظت چاہتے ہوں بلکہ ہمیں ایسی قیادت درکا ہے جو سچ،تدبر، حکمت، اتحاد اور قربانی کی مثال بنے نہ کہ نفرت، سازش اور خود نمائی کی علامت۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عباس سیال، سڈنی

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

ریاست مدینہ عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریاست مدینہ مزاحمتی ہیرو ریاست مدینہ پاکستان کو کے دوران کے خلاف

پڑھیں:

شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے تین سابق پارٹی رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش کو مسترد کر دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے لاہور کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد تین سابق پی ٹی آئی رہنماؤں نے اُن کے کمرے میں جا کر ملاقات کی، مبینہ طور پر انہیں ’عمران خان کی رہائی مہم‘ میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، تاہم شاہ محمود قریشی نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل رانا مدثر عمر کے مطابق سابق رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور مولوی محمود جمعرات کو اُس وقت شاہ محمود قریشی کے کمرے میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے جب وہ اکیلے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے اور فوراً ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار سے کہا کہ ان کے وکیل کو بلاؤ جو ابھی ایک منٹ پہلے ہی گیا ہے اور اسے بتاؤ کہ کچھ ’مہمان‘ آگئے ہیں۔

رانا مدثر نے مزید کہا کہ جب وہ واپس پہنچے تو سابق پی ٹی آئی رہنما جا چکے تھے، ملاقات تقریباً دس منٹ سے کچھ زیادہ جاری رہی اور اس دوران کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی۔

یہ غیر اعلانیہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب مبینہ طور پر تینوں میں سے ایک رہنما کو شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق سابق پی ٹی آئی رہنما یہ تاثر بھی دینا چاہتے تھے کہ اسد عمر بھی اُن کے عمران خان کی رہائی کے لیے رابطہ مہم شروع کرنے کے فیصلے سے متفق ہیں، تاہم اسد عمر نے وضاحت کی کہ وہ اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تینوں رہنماؤں کو ہسپتال جانے سے روکا تھا کیونکہ اس سے پارٹی میں تناؤ پیدا ہوگا اور شاہ محمود قریشی کے خاندان کے لیے بھی تکلیف دہ صورتحال بن سکتی ہے۔

انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مہم کا حصہ نہیں ہیں، کچھ سیاستدانوں کا ایک گروپ اسے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ مؤقف انہوں نے ٹوئٹ میں بھی واضح کیا۔

اسد عمر نے لکھا کہ اگرچہ عمران خان اور دیگر قید رہنماؤں کی رہائی کے لیے کوئی بھی کوشش خوش آئند ہے، مگر وہ ’ریلیز عمران خان‘ نامی نئی مہم کا حصہ نہیں ہیں، انہیں صرف اخبارات سے پتا چلا کہ چند سابق رہنماؤں کی سربراہی میں یہ مہم شروع کی گئی ہے۔

آج اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نظر آیا کہ میں کسی عمران خان رہائی تحریک کا حصہ ہوں، جو تحریک انصاف کے ماضی کے رہنما شروع کر رہے ہیں ۔ کوئی بھی کاوش جو عمران خان اور دوسرے اسیروں کی رہائی کے لئے ہو، اچھی بات ہے۔ لیکن میں جس تحریک کا زکر ہو رہا ہے، اس کا حصہ نہیں ہوں۔

— Asad Umar (@Asad_Umar) November 1, 2025


مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش
دوسری جانب سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانے اور سیاسی قیدیوں کے لیے ضمانت کے حق کو تسلیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اُن کا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہے جس میں مذاکرات ہو سکیں، ملک میں سیاسی درجہ حرارت اسی وقت کم ہو سکتا ہے جب پی ٹی آئی ایک قدم پیچھے ہٹے اور حکومت ایک قدم آگے بڑھے۔

فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اعجاز چوہدری اور دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقات کی اور خوشی ہے کہ وہ بھی سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر متفق ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اُن کا گروپ مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزیروں اور مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کرے گا۔

وکیل کا ردعمل
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے فواد چوہدری کے بیان کو گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ سابق پی ٹی آئی رہنما نے جمعرات یا جمعہ کو کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی قیادت سے کوئی ملاقات نہیں کی۔

انہوں نے بتایا کہ جیل میں ٹرائل صبح 10:30 سے شام 4:30 تک جاری رہا، اس لیے ہسپتال جانے کا مقصد مشکوک لگتا ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ متحد ہیں اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عمران خان کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور قانونی طریقے سے اپنے مقدمات لڑیں گے۔

علاج اور سہولیات کی صورتحال
ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی کو اگلے ہفتے پتھری کے آپریشن کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا ہے، عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید بھی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، بتایا جاتا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید رہنماؤں کو مناسب طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ عدالتیں گزشتہ چھ ہفتوں سے اُنہیں ہسپتال منتقل کرنے کے احکامات جاری کر رہی تھیں لیکن انتظامیہ عمل درآمد نہیں کر رہی تھی، بالآخر دو طبی معائنے کے بعد ڈاکٹرز نے انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کے مختلف لیب ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور اگلے ہفتے ان کا آپریشن متوقع ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی اُن کی صحت کے باوجود باقاعدہ فزیوتھراپی کی سہولت نہیں دی جا رہی۔

متعلقہ مضامین

  • سلمان اکرم راجا کی اسپتال میں زیرعلاج شاہ محمود قریشی سے ملاقات، اہم مشاورت کی
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
  • عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش ،سابق رہنماؤں نے اہم فیصلہ کرلیا ۔
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
  • محاذ آرائی ترک کیے بغیر پی ٹی آئی کے لیے موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں، فواد چوہدری
  • شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق
  • شاہ محمود قریشی سے پارٹی رہنماوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
  • ہماری کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی کا شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد بیان