WE News:
2025-09-18@21:31:42 GMT

مزاحمتی ہیرو  یا  چالاک منافق ؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

مزاحمتی ہیرو  یا  چالاک منافق ؟

عمران خان کو ایک طبقہ ایسا نجات دہندہ اور مزاحمتی ہیرو تصور کرتا ہے، جس نے ’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘ کی بات کی، اداروں کو للکارا، اور کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کیا۔

ان کے چاہنے والوں کا ماننا ہے کہ وہ ایک واحد سیاست دان ہے، جو اسٹیٹس کو کے خلاف کھڑا ہوا، نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا اور عالمی طاقتوں کے آگے جھکنے سے یکسرانکار کیا۔

اس بیانیے میں انہیں قائداعظم کا جانشین، اور پاکستان کو ’ریاست مدینہ‘ کی طرف لے جانے والا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران یہ بیانہ بھی سننے میں آیا کہ: ’اگر خان ہوتا تو بھارت پاکستان کو آنکھ نہ دکھا سکتا‘، اور بھارت کا واویلا: ’عمران خان کو رہا کیا جائے‘۔

اس کے برعکس دوسرا طبقہ اُن ناقدین کا ہے جو عمران خان کو ایک clever imposter  یعنی چالاک فریب کار قرار دیتا ہے، جو مذہب، حب الوطنی، اور تبدیلی جیسے پُرکشش نعروں کے پیچھے چھپ کر ذاتی اقتدار کی سیاست کرتا رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خا ن  نے:

۱۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا لیکن حکومت میں آکر سودی نظام، مہنگائی، اقربا پروری، اور عوامی مسائل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔

۲۔ کرپشن کے خلاف آواز بلند کی، لیکن ان کے اردگرد کرپشن میں ملوث افراد کا جھرمٹ رہا (فرح گوگی، پنکی پیرنی، توشہ خانہ اسکینڈل وغیرہ)۔

۳۔ انہوں نے اداروں کے خلاف صرف اس وقت بغاوت کی جب وہ ادارے ان کی مرضی پر نہیں چلے۔

۳۔ انہوں نے نوجوانوں کو نجات کے خواب دکھا کر انہیں سیاسی تشدد، جھوٹے پروپیگنڈے، اور جذباتی انتہا پسندی کی راہ پر ڈالا۔

۴۔ وہ جذباتی نعروں اور سادہ عوامی بیانیوں کے ماہر ہیں اور اگر جنگ کے دوران باہر ہوتے تو جنگی ماحول کو ممکنہ طور پر یوں استعمال کرتے:

 ’ہم غلام نہیں بنیں گے‘، ’میں کسی مودی یا بزدل دشمن کے سامنے جھکنے والا نہیں‘، ’ریاست مدینہ کبھی کمزور نہیں ہوتی‘ وغیرہ۔

وہ صرف نعرے اور جلسے جلوس کروا کر نوجوانوں کے جذبات بھڑکاتے اور جنگی صورت حال کے باوجود فوج، حکومت، اور عدلیہ پر تنقید جاری رکھتے، جس سے قومی اتحاد متاثر ہوتا اور قومی سلامتی کے اداروں کیلئے مشکلات پیدا ہوتیں۔

وہ دشمن کے سامنے قومی صف بندی کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو ”اصل غدار” قرار دیتے۔

سچ کیا ہے؟

سچ ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ الفاظ میں نہیں بلکہ عمل اور نتائج میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر عمران خان واقعی مزاحمتی ہیرو ہوتے تو ان کی ’ریاست  مدینہ‘ کا عملی نمونہ کہیں نہ کہیں نظر آتا۔

لیکن ان کے دور حکومت میں نہ عدل ملا، نہ انصاف، نہ کفایت شعاری، نہ اخلاقیات۔ صرف سیاسی انتقام، تضاد بیانی، جھوٹ اور جذباتی نعرے۔

حقیقت کی بنیاد پر نتیجہ:

بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے ماہرانہ سیاسی اداکار (clever political actor)  ثابت ہوئے، جنہوں نے ’ ہیرو‘ کا ماسک پہن کر عوامی جذبات کا استحصال کیا۔

انہوں نے حقیقی مزاحمت نہیں کی، بلکہ سیاسی مفادات کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا بیانیہ بدلتے رہے۔ لہٰذا وہ نہ تو مزاحمتی ہیرو ہیں، نہ مکمل ولن۔

بلکہ وہ ایک ایسا چالاک کردار ہیں جس نے نوجوان نسل کو خواب بیچ کر حقیقت سے دور رکھا، اور پاکستان کو مزید غیر یقینی صورت حال میں دھکیل دیا۔

اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو وہ قومی بحران کو ’ذاتی سیاسی جنگ‘ میں بدل دیتے، اور بھارت کے ساتھ ممکنہ کشیدگی کو اپنی مقبولیت بحال کرنے، اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے، اور اقتدار میں واپسی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے۔ وہ قومی اتحاد کی بجائے تقسیم پیدا کرتے اور یہی ان کے طرزِ سیاست کی اصل پہچان ہے۔

جنگ کے دوران بھارتی میڈیا نے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو اپنے سیاسی اور پراپیگنڈہ مفادات کیلئے استعمال کیا، کیونکہ عمران خان کی حکومت کے دوران بھارت کو اسٹریٹیجک سکون ملا تھا۔ کشمیر پر آرٹیکل 370 کی منسوخی پر عمران خان نے صرف زبانی احتجاج کیا تھا اور کسی عملی سفارتی یا عسکری دباؤ کی حکمت عملی سامنے نہیں لائی تھی۔

بھارتی میڈیا انہیں فوج مخالف اور جمہوریت کا ہیرو قرار دیتا ہے تاکہ وہ عمران خان کے ذریعے پاکستانی اداروں کو کمزور، متنازع اورغیر مقبول ظاہر کر سکے۔بھارت کسی کا سگا نہیں، عمران خان کا بھی نہیں۔ عمران خان کی رہائی کا لاگ الاپنا بھارت کی ایک سیاسی چال تھی۔

 ہیرو وہ ہوتا ہے جو قربانی دیتا ہے، موقع نہیں ڈھونڈتا۔

عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جذباتی نعروں، ریاست مدینہ کی اداکاری، اور ادارہ دشمنی کے پیچھے چھپے چہرے اصل میں نفس اور مفادات کے غلام اور اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ مزاحمتی ہیرو نہیں ہوسکتے کیونکہ مزاحمت تب معتبر ہوتی ہے جب خود پر لاگو ہو۔

پاکستان کو ایسے رہنما نہیں چاہئیں جو عوام کے کندھوں پر چڑھ کر صرف اپنی حفاظت چاہتے ہوں بلکہ ہمیں ایسی قیادت درکا ہے جو سچ،تدبر، حکمت، اتحاد اور قربانی کی مثال بنے نہ کہ نفرت، سازش اور خود نمائی کی علامت۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عباس سیال، سڈنی

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

ریاست مدینہ عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریاست مدینہ مزاحمتی ہیرو ریاست مدینہ پاکستان کو کے دوران کے خلاف

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق موجود ہیں، علی امین گنڈا پور
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • معرکۂ حق کی کامیابی کے بعد بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے: اے پی سی
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق موجود ہیں، پارٹی کی اندرونی تقسیم عمران خان سے ملاقاتوں میں رکاوٹ ہے، علی امین گنڈا پور
  • بانی سے ملاقات نہ ہونے کا غصہ ؛ علی امین گنڈا پور نے پارٹی رہنماؤں کو منافق قرار دے دیا
  • پی ٹی آئی میں منافق لوگ موجود، پارٹی کو کمزور کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین گنڈاپور
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں