کیا سیاسی جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
پاک بھارت سیز فائرکے بعد قومی سیاست میں جاری سیاسی کشمکش اور ٹکراؤ پر مبنی سیاست کا جو کھیل ہے، کیا اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ سیاسی اختلافات کے مقابلے میں سیاسی دشمنی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنے کی روش نے پہلے سے موجود جمہوری، سیاسی،آئینی اور قانونی نظام کو اور زیادہ کمزور کردیا ہے۔
اگرچہ پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کے مضمرات ہم نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران نہیں دیکھے اور سب فریقین نے اپنے تمام تراختلافات کو پس پشت ڈال کر ریاستی اور حکومتی نظام کے ساتھ جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ واقعی قابل دید ہے۔لیکن اس سے یہ خوش فہمی کہ پاکستان میں سیاسی تقسیم اب ختم ہوگئی ہے ، درست تجزیہ نہیں ہوگا۔
اس وقت پاکستان کے داخلی مسائل جن میں سیاسی عدم استحکام،معیشت سے جڑے مسائل، سیکیورٹی اور دہشت گردی کا چیلنج شامل ہیں۔دو برسوں سے حکومت کا پی ٹی آئی سے ٹکراؤ ہے یا پھر یہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔
اس کو محض سیاسی بحران تک محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مجموعی طور پر یہ ایک بڑا ریاستی سطح کا بحران ہے جہاں تمام اداروں کے درمیان بداعتمادی یا ٹکراؤ کا ماحول غالب ہے۔اس لیے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ایک ایسا مستقل علاج تلاش کرنا ہوگا جو ریاستی اور ادارہ جاتی نظام اور جمہوری نظام کو مضبوط کرے۔ایک ایسا نظام جو جمہوری بھی ہو اور جہاں آئین و قانون کی حکمرانی بھی ہو۔
جو علاقائی یا عالمی صف بندی کی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں یا جو بھارت کے پاکستان کے خلاف نئے جنگی عزائم ہیں ان میں ہمیں بطور پاکستان زیادہ ذمے داری اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان مسائل کا علاج جذباتیت سے ممکن نہیں بلکہ زیادہ ہوش مندی کے ساتھ اپنی حکمت عملیوں کو ترتیب دینے سے جڑا ہوا ہے۔ پہلی بنیادی شرط ملک کا داخلی استحکام ہے اور اس پر کسی بھی سطح پرسمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
سیاسی اختلافات کی جمہوری نظام میں اہمیت ہوتی ہے لیکن یہ عمل سیاسی اختلافات تک ہی محدود رہنا چاہیے نہ کہ اس کی شکل سیاسی دشمنی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود سے انکاری سے جوڑی جائے۔ پچھلے دو برسوں میں اس ملک میں جو کچھ سیاست اور جمہوریت کے نام پر ہوا ہے اس سے ہماری جمہوریت سمیت ریاستی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حالانکہ آج کی دنیا میں ہمارا ریاستی تصورجمہوری خطوط پرسمجھا جانا چاہیے۔لیکن ہمارے جمہوری نظام پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے داخلی سیاسی مسائل کا حل طاقت کے بجائے سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر تلاش کریں۔طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے پورے ریاستی نظام میں انتشار کی سیاست پیدا کی یا سب کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔یہ تاثر عام نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست کا نظام کسی ایک جماعت کا حامی اور کسی دوسری کا مخالف ہے۔
اس پالیسی سے گریز خود ریاست کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان تحفظات کو بات چیت کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ اگر سیاسی ڈیڈ لاک کو برقرار رکھ کر آگے بڑھنا ہے تو اس کا سب سے بڑا نقصان بھی جمہوری قوتوںکوہوگا۔ جمہوریت کی کامیابی کی بڑی کنجی ہی ڈائیلاگ اور مفاہمت کی سیاست ہے اور یہ ہی ہماری ترجیح بھی ہونی چاہیے۔
سیاسی مفاہمت مشکل عمل نہیںہوتا۔اہم شرط ایک دوسرے کی قبولیت اور لچک پیداکرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ہم مفاہمت کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہیں تو پھر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنا آسان ہوجاتا ہے۔مفاہمت کی سیاست میں ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہی سیاسی حکمت عملی کاحصہ ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک دوسرے کے وجود کو ختم کرنا ہی ہماری ترجیحات کا اہم حصہ بن جاتا ہے جو مزید سیاسی رکاوٹوں کو پیدا کرتا ہے۔
اس کھیل میں ہم سیاسی انتقام کو بطور سیاسی کارڈ کے استعمال کرتے ہیں جس سے سیاسی حالات میں کشیدگی یا دشمنی کا پیدا ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔ہم سیاسی مخالفین کے خلاف اس حد تک نیچے چلے جاتے ہیں جو مکمل طور پر جمہوریت اور قانونی اصول کے برعکس ہوتا ہے ۔
اس وقت ایک اچھا موقع ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد سیاسی ماحول میں تناؤ اور ٹکراؤ کم ہوا ہے ۔اس موقع سے حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہیے کہ ملک میں سیاسی تلخی کا ماحول کم ہو اور معاملات سیاسی افہام وتفہیم سے آگے بڑھیں۔ خود پی ٹی آئی کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھی اس عمل میں زیادہ سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرے اورخود کو ایک بڑی مفاہمت کی سیاست کے طور پر پیش کرے۔اس وقت سیاسی تلخیوں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اور اپنی توجہ حساسیت پر مبنی قومی معاملات پر ہونی چاہیے۔
ایک بڑے فریم ورک میں قومی مسائل اور ان کے حل کا احاطہ کرنا چاہیے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم جوش یا جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں تو ہم دوراندیشی کے پہلوؤں پر کم توجہ دیتے ہیں۔حالانکہ یہ ہی وقت ہوتا ہے جب فیصلے کی طاقت رکھنے والوں کو زیادہ بردباری کے ساتھ معالات سے نمٹنا چاہیے اور خاص طور پر ریاست اور حکومت کے اداروں کی یہ ذمے داری زیادہ بنتی ہے اور ان ہی کو گنجائش پیدا کرنا ہوتی ہے تاکہ معاملات بہتر طور پر آگے بڑھ سکیں۔
پی ٹی آئی کے پاس بھی یہ اچھا موقع ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنے سیاسی کارڈ کھیلے اور ایسا راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کرے جو اس کے لیے دوبارہ قومی سیاست میں واپسی کا بند دروازہ کھول سکے۔یہ فتح اور شکست کا محاذ نہیں بلکہ حالات کے مطابق اپنے کارڈ درست طور پر کھیلنے سے جڑا عمل ہے۔لیکن اگر اس کے برعکس ہم نے ایک دوسرے کے لیے دروازے بند رکھے تو اس کا نقصان جہاں ریاست کے مفادات کو پہنچے گا وہیں ہمارا دشمن بھی اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔اس لیے ہماری اپنی قیادت کا امتحان ختم نہیں ہوا ہے بلکہ امتحان اب شروع ہوا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ اس موجودہ امتحان میں کس طرح سے خود کو سرخرو کرتے ہیں ۔
اس طرز کے موقع بار بار نہیں ملتے اور نہ ہی ایسے بڑے امکانات بار بار پیدا ہوتے ہیں۔بحرانوں میں ہمیشہ جہاں مسائل کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے وہیں نئے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اصل بات ان نئے امکانات سے فائدہ اٹھانے سے جڑا ہوتا ہے اور ہم سب کو اس نئے امکانات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔کیونکہ اگر پاکستان نے سیاسی ،معاشی ،ادارہ جاتی اور سیکیورٹی کے استحکام کی طرف بڑھنا ہے تو اس کو پرانی سیاسی حکمت عملیوں سے باہر نکل کر ایک بڑی قومی مفاہمت کی سیاست کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو پرانے خیالات سے باہر نکالیںاور ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی اپنی حکمت عملیوں کو وضع کریں۔
ہمارے سامنے ایک دوسرے کے ذاتی یا جماعتی مفادات کے مقابلے میں ریاست اور شہریوں کے مفادات اہم ہونے چاہیے۔اس وقت کا بڑا تقاضہ قومی سیاست میں محاذآرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کا خاتمہ اور قومی ترجیحات کے درست تعین کا ہے ۔درست ترجیحات اور تعین ہی ہمیں مسائل کی درست نشاندہی اور عملدرآمد کی طرف لے جانے میں مدد دے گا،لیکن پہلے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی سیز فائر کو ختم کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مفاہمت کی سیاست ایک دوسرے کے حکمت عملی میں سیاسی سیاست میں پی ٹی آئی ہوتا ہے ہے لیکن ہوا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
بھارت اپنے بیانیے کی وجہ سے آگ سے کھیل رہا ہے، اگر جنگ چاہیے تو جنگ سہی:ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت اپنے بیانیے کی وجہ سے آگ سے کھیل رہا ہے. پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن اگر بھارت کو جنگ چاہیے، تو پھر جنگ ہی سہی اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے (بی سی سی) کو انٹریو دیتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ بیوقوفی ہوگی، یہ ایک ایسا راستہ ہے جو دونوں ممالک کے لیے باہمی تباہی کا باعث بن سکتا ہے. لہذا جوہری جنگ ’ناقابل تصور اور نامعقول خیال‘ ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور ہم امن کو ترجیح دیتے ہیں، اس وقت بھی پاکستان میں امن کا جشن منا رہے ہیں، تاہم اگر بھارت جنگ چاہتا ہے تو پھر جنگ ہی سہی، اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو پاکستان ہر وقت اس کے لیے تیار ہے۔جنگ کے آپشن سے متعلق سوال پر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اصل تنازع اب بھی موجود ہے کیوں کہ 10 مئی کے بعد سے بھارت اب تک جس بیانیے کو فروغ دے رہا ہے. دراصل وہ آگ سے کھیل رہا ہے جس میں ’چنگاری کسی بھی وقت ڈالی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ درحقیقت ہندوستان جس انداز میں یہ بیانیہ چلارہا ہے اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی داخلی سیاست کو بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی ریاستیں ہیں، ان کے درمیان فوجی تصادم ایک انتہائی بیوقوفانہ بات ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے بھارت ایک ایسی صورتحال بنانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں فوجی تصادم کے لیے گنجائش پیدا کی جاسکے، اور بھارت کی جانب سے کچھ سالوں بعد ایک جھوٹا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ بیانیہ اور طریقہ اب پرانا ہوچکا ہے، دنیا اب جان چکی ہے کہ بھارت کا پہلے دن سے موقف بے بنیاد تھا۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ حالات پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکا، بھارتی دعویٰ سے متعلق انہوں نے کہا کہ اگر شدت پسندی کے کسی واقعے میں کسی پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو ’ہمیں ثبوت دیے جائیں، ہم خود اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت میں پہلگام واقعے سے متعلق کوئی بھی سخت سوالات نہیں کررہا، کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کررہا ہے کہ آخر اتنا بڑا سکیورٹی لیپس کیسے ہوا اور نہ وہ ان آوازوں کو سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ظلم وزیادتی کی بات کررہے ہیں، یہ واقعات اسی ناانصافی کا نتیجہ ہیں جو وہ خود انجام دے رہے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈور رابطوں سے متعلق ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب وزارت خارجہ دے سکتی ہے کیوں کہ سیاست اور سفارتکاری کے معاملات ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس تنازع میں بہت محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا. 6 اور 7 مئی کی رات ہم نے اپنا بھرپور دفاع کیا اور بھارت کے 6 طیارے گرائے، ہم زیادہ بھی گراسکتے تھے .لیکن قیادت نے بہت ذمہ داری سے فیصلے کیے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک چھوٹا لیکن نہایت مؤثر رد عمل دیا جس کے نتیجے میں بھارت پیچھے ہٹنا شروع کیا اور اچانک وہ کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگا۔سیز فائر سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 6 اور 7 مئی کی رات حملوں کے بعد ہندوستان کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہم سے رابطہ کیا اور بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا. لیکن ہم نے واضح کر دیا کہ ہم صرف اسی وقت بات کریں گے جب اپنا جواب دے چکے ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا جواب 10 مئی کی صبح آیا جس کے بعد سب نے دیکھا کہ بھارتی فوج کا ترجمان آن ریکارڈ یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ وہ جنگ کو مزید بڑھانا نہیں چاہتے بشرطیکہ پاکستان مزید حملے نہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کریڈٹ دینا چاہیے، اس میں جو بیرونی قوتیں ملوث تھیں وہ بھی یہی چاہتی تھیں اور پھر بھارتی فریق نے بھی عوامی سطح پر کہا کہ وہ مزید کشیدگی نہیں چاہتے. جس پر ہم نے کہا ’کیوں نہیں‘۔
خیال رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی جانب سے چند روز قبل ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے پاکستان میں میزائل حملوں سے قبل پاکستانی حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے ڈی جی آئی ایس پی آر سے جب یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے واضح کیا ’یہ بھارتی میڈیا کا ایک مزاحیہ بیانیہ ہے، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج اپنی انٹیلیجنس کے لیے انڈین ذرائع پر انحصار نہیں کرتے. ہم میڈیا کو پہلے ہی دکھا چکے ہیں جب بھی ان کا کراس سیکشن ریڈار ڈرون داخل ہوتا ہے. ہمیں فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آ رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دراصل بھارت حد سے زیادہ خود اعتماد ہے، وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے لہذا وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں .لیکن ہم نے ان کے اس تکبر کو توڑ دیا ہے جب کہ میں انہیں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہمیں بھارت کی طرف سے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں، ہمیں معلوم ہے آپ کس قسم کے حریف ہیں اور آپ کی صلاحیتیں کیا ہیں. ہم ہمیشہ چوکنا اور تیار رہتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور ہماری نظر میں دہشتگردوں کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوتا جب کہ کوئی بھی کسی پاکستانی شہری کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا ثبوت دیتا ہے، تو ہم خود کارروائی کریں گے۔بھارتی حملوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہندوستان پاکستان میں کسی بھی جگہ بم گرائے اور پھر یہ دعوی کرے کہ وہاں جیش محمد کے لوگ تھے، ایسا نہیں ہوسکتا، اس کے لیے بھارت ہمیں کوئی ثبوت دے اور ثابت کریں کہ بہاولپور میں دہشت گردوں کا کوئی تربیتی کیمپ موجود ہے۔
واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی محاذ آرائی کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔
بعد ازاں 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب نئی دہلی نے پاکستان پر فضائی حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا۔
10 مئی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے۔