Daily Ausaf:
2025-09-17@23:26:24 GMT

کیا پی ٹی آئی بکھر جائے گی ؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

تحریک انصاف پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا نام ہے جو دو دہائیوں کی سیاسی جدو جہد ، ایک کرکٹ کے ہیرو کی طلسماتی قیادت ، تبدیلی اور سستے انصاف کے نعرے پر وجود میں آئی ۔تاہم 9 مئی 2023 ء کے واقعات اور ان کے بعد کے سیاسی حالات کے حوالے سے ریاستی ردعمل نے اس جماعت کی یکجہتی ،بقا اور سیاسی مستقبل پر متعدد سوالات کھڑے کر دیئے ۔تب سے اب تک واقفان سیاست کے اذہان میں ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ ’’کیا پی ٹی آئی بکھر پائے گی ؟‘‘
پی ٹی آئی کا نظریاتی اثاثہ اورسیاسی بیانیہ فقط بد عنوانی کی سیاست، اسٹیٹس کو ‘ کو ریزہ ریزہ کرنے اور ادارہ جاتی شفافیت کا قیام تھا ۔عمران خان کی شخصیت اس بیانیئے کا مرکز و محور تھی۔مگر جب ریاستی اداروں کا اس پر سے اعتماد اٹھ گیا اور مقتدرہ نے اس کی پیٹھ پر سے ہاتھ اٹھا لیااور اس پر قومی املاک پر حملوں کا الزام عائد ہوا تو وہی قوتیں جو اس کے سیاسی عروج میں ممد تھیں اس کے زوال کے اسباب کا پیش خیمہ بن گئیں ۔پاکستان میں نظریاتی جماعتیں شخصیات کے کرشماتی تاثر کی اسیر رہی ہیں ۔پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ تاثر اور رجحان اور بھی زیادہ نمایاں رہا۔
عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا سیاسی وجود محض ایک ’’ برینڈ نیم‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔9 مئی کے بعد پارٹی کے اندر تنظیمی ڈھانچے کے حوالے سے انحرافات پیدا ہو گئے ،قیادت کے اندر پھوٹ پڑگئی۔صف اول کے رہنما قید و بند کی صعوبتوں کا شکار ہوئے ،ان میں سے کئی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ،کچھ نے نئے سیاسی دھڑے بنا لئے (استحکام پاکستان پارٹی) وغیرہ اور بعض نے خاموشی اوڑھ لی‘پارٹی تنظیم کا شیرازہ بکھر گیا۔
آج 2024ء اور 2025 ء کی سیاسی صورت حال میں پی ٹی آئی کے لئے میڈیا کھلی سپورٹ سے عاجز ہے ،الیکشن کمیشن کا رویہ بھی جارحانہ ہے ان سب پر مستزاد پارٹی کی اندرونی سازشوں نے پارٹی کی بقا کو سوالیہ نشان بنایا ہوا ہے۔بانی پارٹی پر درجنوں مقدمات چل رہے ہیں جن میں سے متعددمیں سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ وہ طویل عرصے سے پابند سلاسل ہیں ۔قانونی شکنجے نے پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کو عملًا محدود رکھاہوا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو نااہل قرار دے دیا گیا ،یا ان پر سیاست سے مستقل دست برداری نافذ کر دی گئی تو پارٹی اپنی اصل روح سے محروم ہوجائے گی۔
اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی آج بھی ایک بڑی عوامی حمایت کی حامل ہے ،خصوصاً نوجوانوں، مستورات ،شہری طبقات اور سوشل میڈیا صارفین میں بہت گہری جڑیں رکھتی ہے ۔2024-25 ء کے تمام سروے میں واشگاف الفاظ میں اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ’’ عمران خان اب بھی مقبول ترین عوامی لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘‘ ۔اور یہی عوامی طاقت ہی ہے جس نے پی ٹی آئی کو مکمل طور پر بکھر جانے سے بچایا ہوا ہے ۔
مستقبل کے متوقع امکانات کا جائزہ لیا جائے تو تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔اول عدالتوں کے ذریعے بحالی کا راستہ ہموار ہوجائے ۔بانی پارٹی کسی سیاسی مفاہمت کے ذریعے باہر آئیں اور پارٹی کے شیرازے کو پھر سے سمیٹ لیں۔دوم ۔پارٹی متعدد دھڑوں میں تقسیم ہوجائے’’ نئی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی ‘‘ نظریاتی گروپ ٹھہرے اورسوئم ۔یہ کہ پارٹی کو قانونی طور پر کا لعدم قرار دے دیا جائے(کسی امکانی صورت حال کے پیش نظر اور کارکن کسی اور پرچم تلے یک جا ہو جائیں) جس کا امکان کم ہے ۔9 مئی کے واقعے کے بعد تنظیمی اعتبار سے پی ٹی آئی منتشر ہوچکی ہے ۔فواد چوہدری، اسد عمر،علیم خان اورجہانگیر ترین تو راستے تبدیل کر چکے۔ان میں سے کچھ نے مصلحت اوڑھ لی ہے تو کوئی خود ساختہ جلاوطنی کے وبال سے دوچار ہے اور شاہ محمود قریشی جیسا معتدل مزاج سیاستدان اپنے پورے خاندان سمیت پارٹی قیادت کے ساتھ حکومت کے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کی زد میں ہے۔
ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو 1971 ء کے بعد مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں ریزہ ریزہ ہوکر دفن ہوگئی،اور پیپلز پارٹی 2008 ء کے بعد کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی،ایسے میں پی ٹی آئی کا بکھرائو یا ریزگی خارج از امکان یا انہونی بات نہیں ہوگی۔قانونی دبائو کا عالم یہ ہے کہ پارٹی کو یکے بعد دیگرے بہت سارے مقدمات کا سامنا ہے ۔سائفر کیس،توشہ خانہ ،غیر قانونی نکاح اور ریاستی راز افشا کر نے جیسے الزامات نے نہ صرف کپتان کو بلکہ پوری پارٹی کی نقل وحرکت کو محدود اور دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہوا ہے۔
سیاسی موئرخ عارف وقار لکھتے ہیں ’’قانونی گرفت ،سیاسی طور پر موثر ہونے کا یہی مہذب راستہ ہے ،پاکستان میں طاقت کا کھیل عدالتوں کے پردے میں کھیلا جاتا رہا ہے‘‘۔ جون 2024 ء کے گیلپ سروے ،آئی آر آئی اور پلس کنسلٹنٹ کی رپورٹس گواہیاں دے رہی ہیں کہ ’’بانی پی ٹی آئی کانام عوامی حافظے سے مٹانا آسان نہیں ہے‘‘۔روایتی میڈیا کا بلیک آئوٹ سوشل میڈیا نے بے اثر کردیا ہے اور ورچوئل مزاحمت نے اس امرپر مہر تصدیق کردی ہے کہ نسل نو کا پلیٹ فارم پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔نامور امریکی دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار نوم چومسکی کا قول ہے کہ ’’ جب طاقتور میڈیا چپ سادھ لے تو عوام سوشل میڈیا کو ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں ‘‘۔سیاسی مفاہمت کا راستہ عمران کے ریلیف کا آخری راستہ ہے جس سے اس کی تحریک پھر سے زور پکڑ سکتی ہے ،بحال ہوسکتی ہے ۔
بصورت دیگر پارٹی اسٹیبلشمنٹ دوست ،وفادار اور نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔بہر حال اگر بانی پی ٹی آئی کو سیاست سے مستقل الگ کردیا جاتا ہے ،تب بھی وہ ایک نئی سیاسی قوت کے علامتی مرکز بن سکتے ہیں مطلب یہ کہ پی ٹی آئی بکھر سکتی ہے مگر بانی کے اثر سے جدا نہیں ہو سکتی ،پارٹی کانام ، تنظیم اور عہدے سب کے سب وقتی ہوسکتے ہیں مگر ’’جذباتی بیانیہ‘‘ جو عام پاکستانی کے دل و دماغ میں پیوست ہوچکا ہے اس کا زائل

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کا پارٹی کی ہوا ہے کے بعد

پڑھیں:

سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری

وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں اس لیے پیپلزپارٹی کو اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، اتحادی ہونے کا یہ مطلب نہیں اب آپ کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنتے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردعمل آگیا۔ صوبائی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی۔؟ انہوں نے کہا کہ ہم سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں اس لیے اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، اتحادی ہونے کا یہ مطلب نہیں اب آپ کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنتے جائیں، عظمیٰ بخاری نے کہا کہ منظور چودھری اور حسن مرتضیٰ اپنے فلسفے اور دکھ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ریلیف دینے میں مصروف ہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الحمدللہ پنجاب حکومت سیلاب متاثرین کی ہر قسم کی مدد اپنے وسائل سے کر رہی ہے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سندھ میں ابھی سیلاب سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک سے امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ سیلاب متاثرین کی طرف موڑ دیا ہے، مریم نواز نے وفاق سمیت کسی بھی تنظیم کی طرف مدد کے لئے نہیں دیکھا۔ صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے لوگوں کو سندھ کے لوگوں کی فکر کرنی چاہئے، 2022ء کے سندھ کے سیلاب متاثرین آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • بانی سے ملاقات نہ ہونے کا غصہ ؛ علی امین گنڈا پور نے پارٹی رہنماؤں کو منافق قرار دے دیا
  • پی ٹی آئی میں منافق لوگ موجود، پارٹی کو کمزور کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • بھارتی جنرل یا سیاسی ترجمان؟ عسکری وقار مودی سرکار کی سیاست کی نذر