اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دنیا بھر میں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جس کے لیے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت اور اچھا جانور اللّٰہ کی راہ میں قربان کرے۔ پاکستان میں بھی ہر سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد جانور قربان کرتی ہے۔ جس کے لیے عید الاضحیٰ سے قبل ملک بھر میں مویشی منڈیاں لگتی ہیں تاکہ شہری اپنی گنجائش کے حساب سے مناسب جانور خرید سکیں۔

حالیہ برسوں میں پاکستان میں کمر توڑ مہنگائی کے باعث لوگوں کی قوت خرید جواب دے گئی جس کی وجہ سے مویشی منڈیوں میں جانوروں کے خریداروں کی کمی آئی ہے اور وہ منڈیوں کا رخ نہیں کرتے۔ کیونکہ عید الاضحیٰ قریب آتے ہی مویشی منڈیوں میں جانوروں کی قیمتیں دگنی ہو جاتی ہیں۔ مویشی منڈی جانے والے شہری مویشی مہنگے ہونے اور بیوپاری خریدار نہ ہونے کے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔

خریداروں کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جس قیمت میں گائے خریدتے تھے اس سال اس قیمت میں بکرے مل رہے ہیں، قیمتوں میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے۔ کئی صارفین تو مہنگائی کے پیشِ نظر مرغی کی قربانی کا فتوے مانگتے نظر آتے ہیں۔

سینئر اداکار نعمان اعجاز بھی جانوروں کی قیمت سے پریشان نظر آتے ہیں انہوں نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک اسٹوری شیئر کی جس میں لکھا کہ ’اس وقت اگر مویشی منڈی میں مرغی بھی کھڑی کر دو تو اس کے بھی ایک لاکھ مانگ لیں گے‘۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ قربانی ایک عاجزانہ عبادت تھی، پر اب انا کی نمائش بن چکی ہے۔ جتنا بڑا جانور، اتنا بڑا غرور۔

انہوں نے جانوروں کی قیمتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی پر جانوروں کی قیمتیں ایسے بتائی جاتی ہیں جیسے لگژری گاڑیوں کی نیلامی ہو۔ قربانی کی روح غرور کے نیچے دفن ہوتی جا رہی ہے۔ یہ عید نہیں، تماشہ ہے۔

قربانی، ایک عاجزانہ عبادت تھی، پر اب انا کی نمائش بن چکی ہے۔

جتنا بڑا جانور، اتنا بڑا غرور!

ٹی وی پر جانوروں کی قیمتیں ایسے بتائی جاتی ہیں جیسے لگژری گاڑیوں کی نیلامی ہو۔

قربانی کی روح غرور کے نیچے دفن ہوتی جا رہی ہے۔

یہ عید نہیں، تماشہ ہے۔

مومن کا وہ اندازِ باکمال کھو گیا…

— Ali Haider Zaidi (@AliHZaidiPTI) May 23, 2025


خیال رہے کہ عید الاضحیٰ کے پیش نظر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک بھر میں ’گو کیش لیس‘ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ مویشی منڈیوں میں نقد رقم کی بجائے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے فروغ کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔

اب بیوپاری اور خریدار دونوں ڈیجیٹل ادائیگی کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بیوپاری چارے، پانی، پارکنگ اور دیگر ادائیگیاں بھی ڈیجیٹل طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

اس مہم کے تحت مالیاتی لین دین میں سہولت اور اضافی حد کا اطلاق 20 مئی سے 16 جون تک ہوگا، اور یہ سہولت ملک بھر کی 54 مویشی منڈیوں میں دستیاب ہوگی۔
مزیدپڑھیں:ملک کے مختلف حصوں میں آندھی، گرج چمک کے ساتھ بارش اور ژالہ باری متوقع

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مویشی منڈیوں میں جانوروں کی عید الاضحی تے ہیں

پڑھیں:

رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں

صدیاں گزرگئیں ہزاروں موسم بیت چکے،کئی سماجی،تہذہبی اور سیاسی انقلابات آئے لیکن شاعر انسانیت حضرت عبدالرحمان بابا کے فکر کا جو سوتا سماجی حقیقت نگاری،تاریخی وتہذیبی شعور،ادراک،جذبات اور احساسات سے پھوٹا تھا وہ آج بھی اسی طرح صاف وشفاف شکل میں بہہ رہا ہے۔

اگر چہ اس طویل عرصے میں ہزارہا تاریخی،معاشرتی،سیاسی،ادبی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی لیکن کوئی انقلاب کوئی بھی تہذیب و سیاست رحمان بابا کے کلام کی اپنی جو خاصیت،انفرادیت،اہمیت اور ضرورت ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکی بلکہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے تو وقت و حالات کے ساتھ رحمان بابا ایک حقیقی اور سچے کلاسیک شاعر کے طور پر نئے نئے رنگ اور نئی نئی شکل میں سامنے مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔

ان کے افکار ہمیں محبت،امن،دوستی بھائی چارے،رواداری اور انصاف کی شاہراہوں پر برابر آگے کی طرف بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کی تحریک دیتے ہیں۔ رحمان بابا کی شاعری میں جو دل موہ لینے والی شاعرانہ کشش اور کیفیت پائی جاتی ہے اس نے آج ایک دنیا کو اپنا اسیر اور گرویدہ بنایا ہوا ہے۔اور یہی ان کے کلام کا سب سے بڑا اعجاز ہے جیسا کہ وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

چہ منکر پرے اعتراض کولے نہ شی

دا دے شعر رحمانہ کہ اعجاز

مفہوم۔جب کوئی منکر بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا، اے رحمان! آپ کا شعر ہے یا کہ اعجاز(معجزہ)۔اور یہ معجزہ وہ جو خون جگر سے نمود پاتا ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے بھی کیا ہے کہ’’معجزہ فن کی ہے، خون جگر سے نمود‘‘۔رحمان بابا جنہیں شاعر انسانیت اور پشتو کا حافظ شیرازی کہا جاتا ہ، اپنے مخلصانہ، عارفانہ اور عشقیہ کلام کی بدولت عام و خاص بچوں بوڑھوں اور خواتین میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے ہیں۔

جو عقیدت و حترام اور ادبی اعتبار کا رشتہ پختونوں کا رحمن بابا سے قائم ہے وہ رشتہ اور اعتماد اپنے کسی دوسرے شاعر سے نہیں رکھتے۔ رحمان بابا کے ساتھ پختونوں کی عقیدت ،دل و دماغ اور جذبات کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھی کوئی سبق آموز اور مقصدیت سے بھرا ہوا شعر انہیں کسی دوسرے نامعلوم شاعر کا ملتا ہے بالعموم اسے بھی رحمان بابا کا سمجھ لیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں رحمان بابا سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاعر اتنی سچائی اور حقیقت بیان نہیں کرسکتا جتنی سچائی اور حقیقت نگاری رحمان بابا کی شاعری میں موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عورتیں گھروں ،تندوروںکے کنارے کسان کھیتوں کلیانوں،صوفیا و درویش مزاروں اور خانقاہوں میں سیات دان اسٹیج پر مولوی، واعظ مسجد کے منبر سے اور گوئیے موسیقی اور محفل سماع میں رحمان بابا کے اشعار سے خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لطف پہنچاتے ہیں۔ان کی شاعرانہ عظمت،تخلیقیت،صداقت بیانی اور سبق آموزی کے حوالے سے سوات کے مشہور ولی اللہ اخون کہا کرتے تھے کہ قرآن و حدیث کے بعد پختونوں میں کوئی دوسری کتاب اتنی مقبول و معتبر نہیں جتنی مقبولیت،شہرت،قبولیت اور اعتبار رحمان بابا کے دیوان کو حاصل ہے۔ وہ خود بھی اپنے ایک شعر میں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ

دا چہ زہ ئے درتہ وایمہ کہ خدائے کڑہ

پہ قرآن او پہ حدیث کے بہ سرگند وی

یعنی میں جو کچھ کہتا ہوں اگر خدا نے چاہا تو قرآن اور حدیث میں بھی یہی باتیں آپ ملیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی پختونوں کے بیشتر گھرانوں میں رحمان بابا کا دیوان تبرک اور ایک مقدس کتاب کے طور پر رکھا جاتا ہے کوئی بھی ایسا پختون جوان ، بوڑھا یا عورت نہیں ہوگی جو اپنے محبوب شاعر انسانیت کے نام اور کام سے واقفیت نہ رکھتا ہو،یا انہیں رحمان بابا کے کچھ اشعار ازبر نہ ہوں۔بات بات پر رحمان بابا کے اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رحمان بابا وائی(رحمان بابا فرماتے ہیں)،رحمان بابا سہ خہ وئیلی دی(رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے)۔ان کے اشعار اس قدر سادہ،برجستہ،برمحل،تکلف اور پیچدگی سے پاک ہیں کہ پختون انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں ضرب المثل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

رحمان بابا کو پشتو کا حافط شیرازی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دونوں کے فکر و فن اور پیغام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔رحمان بابا نے بھی حافظ شیرازی ہی کی طرح زیادہ تر طبع آزمائی صنف غزل میں کی ہے۔ وہ بھی حافظ شیرازی کی طرح ایک باکمال فنکار،مصورانہ مزاج،غنائی انداز اور بلند تخئیل کے مالک ہیں۔ان کے کلام میں بھی ان کا اپنا ایک مخصوص لب ولہجہ(ڈکشن) ایک منفرد جداگانہ اسلوب،سادہ بیانی،لطافت اور شیرینی بدرجہ اتم موجود ہے۔ میر عبدالصمد خان اپنی کتاب’’رحمان بابا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ رحمان بابا اور حافظ میں ایک اور بات بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں ریاکاری اور منافقت کے سخت خلاف ہیں۔ زاہدان خشک کو دونوں ناپسند کرتے ہیں، حرص و ہوس،بخل ،حسد و بغض وکینہ بے غیرتی بے حیائی اور بے حمیتی کو دونوں ناپسند کرتے اور زندگی کے لیے مہلک گردانتے ہیں۔ زندگی کی اعلیٰ قدریں بھی دونوں نے یکساں لطافت کے ساتھ پیش کی ہیں۔ نکتہ آفرینی کا رنگ ڈھنگ بھی دونوں کا ایک سا ہے۔ خوشحال و اقبال کی طرح تندی وتیزی اور پرشور فعالیت دونوں کے ہاں زیادہ نمایاں نہیں، دونوں عاشق مزاج ہیں۔دونوں کے نزدیک حسن لاینفک اور ناقابل تقسیم ہے۔‘‘

اسی طرح انصار ناصری رحمان بابا کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’صدیاں گزرگئیں سینکڑوں انقلاب آئے پشتو کے صاحب دل صوفی رحمان بابا کی لگائی پھلواری آج تک ویسی کی ویسی سرسبز وشاداب اورا س کے بہار پھولوں کی تازگی اور مہک اسی طرح برقرار ہے جیسے اول تھی، بڑے آرٹ کو کبھی فنا نہیں، اس کی سادگی اور سچائی ہی بقاء کی ضامن ہے‘‘۔رحمان بابا کا کلام اس قدر صاف،سیدھا ،ا ٓسان اور ان کا پیام اس قدر سچا پرخلوص اور دل پزیر ہے کہ آرٹ کی تمام تصنع آمیز بلند وبانگ تعریفیں اور اس کے ادلتے بدلتے پُر پیچ معیارات بمشکل اس کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ یہی اس کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ہے۔

رحمان بابا کے کلام کی مقبولیت اور ان کے سچے پیغام کا یہ عالم ہے کہ پشتو کے علاوہ اسے دیگر زبانوں اردو،فارسی اور انگریزی زبان کے ہزاروں لوگ پڑھنا پسند کرتے ہیں،جس کے لیے ان کے مکمل دیوان کے ان زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں ۔ان کی شاعری کا اصل پیغام جملہ انسانیت سے پیار،امن و اشتی،قومی اور مذہبی رواداری اور باہمی اتفاق و یکجہتی پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ ناانصافی،غیرمساوی تقسیم اور ظلم و جبر کے سخت ناقد ہیں اور ان قوتوں کے شیدید مخالف ہیں۔لہذا بغیر کسی تردید کے کہا جاسکتا ہے کہ رحمان بابا ہمارے ماضی کا امین اور مستقبل کے ایک سچے رہبر و رہنما ہیں۔ذیل میں ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے

۔آدمی سے تمام تر مدعا آدمیت ہے نہ یہ کہ اس کے سر پر طرہ ہو۔آدم زاد معنوی طور پر سب ایک صورت کی مانند ہیں جو دوسرے کو آزار پہنچاتا ہے وہ خود بھی آزار ہوجاتا ہے۔

۔تم جن لوگوں کے برابر زور اور قوت نہیں رکھتے ان کے پہلو میں دلیر ہوکر نہ بیٹھ۔زورآور لوگ آگ اور پانی کی مانند ہوا کرتے ہیں یہ بات سمجھ لیں اور دھیان رکھیں کہ کہیں ڈوب یا جل بھن کر کباب نہ ہو جائیں۔

۔میری قناعت میرے خرقے کے اندر پنہاں اطلس ہے۔ میں باطن میں سارے جہاں کا بادشاہ لیکن بظاہر گدا نظر آرہا ہوں۔

۔وہ دل طوفان اور بادوباران سے محفوط رہے گا جو کشتی کی طرح لوگوں کا بار اٹھائے گا۔اپنا پیٹ رسی سے مضبوط باندھ لے مگر فلک سے روٹی کی امید اور توقع نہ رکھ۔

۔اپنی زندہ جان بیچ کی طرح زمین میں دفن کردے اگر تو عظمت چاہتا ہو تو خاکساری اختیار کر۔

۔ سارے وسوسے اور واہمے اختیاط سے پیدا ہوتے ہیں، میں بہت زیادہ ہوشیاری کے سبب دیوانہ ہوگیا ہوں۔

۔ظالم حاکموں کے سبب شہر پشاور آگ اور گورستان تینوں ایک جیسے ہیں۔

۔جو پرندہ صیاد کے پنجرے میں اسیر ہو اس میں اچھے اچھے کھانے پینے سے خون کب بنتا ہے۔

۔سارا وجود ایک ناخن کے درد سے درمند ہوجاتا ہے۔پورا شہر ایک آدمی کے الزام میں ویران ہوجاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • روس اور چین بھی ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کا انکشاف
  • تاریخی خشک سالی، تہران میں پینے کے پانی کا ذخیرہ 2 ہفتوں میں ختم ہوجائے گا
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں
  • کراچی، گلستان جوہر میں 200 سے زائد جھگیاں آگ لگنے کے باعث جل گئیں، مویشی بھی ہلاک
  • سندھ لائیو اسٹاک کے تحت 65 موبائل ایمبولینسز خریدنے کا فیصلہ
  • جب شادی قسمت میں لکھی ہوگی ہوجائے گی: صبا قمر
  • جب شادی قسمت میں لکھی ہوگی جس کیساتھ لکھی ہوگی ہوجائے گی، صبا قمر
  • ٹکٹ ہولڈرز کا کالعدم ٹی ایل پی سے لاتعلقی کا اعلان
  • یہ تاثر درست نہیں کہ وظیفہ دے کر حکومت مسلط ہوجائے گی، طاہر اشرفی