Express News:
2025-09-17@23:57:03 GMT

سہ فریقی اجلاس اور تنخواہیں

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

کبھی سنا کرتے تھے کہ شاہراہ ریشم پر تجارتی قافلے چلا کرتے تھے۔ ان راہوں پر مال تجارت سے لدے ہوئے خچروں کی گھنٹیاں سنا کرتے تھے۔ تھوڑے فاصلوں پر ان کاررواں کے لیے سرائے، قدیم ہوٹل اور کہیں ایک تندور والی روٹیاں تازہ تازہ مسحور کن خوشبو سے رچی بسی جو بھوک کو بھی دور سے آواز دے کر قریب بلا لیتی تھی اور اپنی مٹی کی ہانڈی سے سالن نکال کر تاجر کو پیش کر دیتی اور پھر قریبی کنوئیں کا ٹھنڈا پانی پی کر تاجر سیر ہو کر اٹھتا اور یوں تجارتی قافلے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے یورپ کے ملک ملک، نگر نگر بھی مال تجارت فروخت کرتے تھے۔

یہ شاہراہ ریشم جو قدیم زمانے میں تین براعظموں کو ملاتا تھا، ایشیا سے یورپ، چین سے پاکستان و ایران، اور دوسری طرف مصر سے افریقہ تک۔ یعنی تین براعظموں کا GDP مرکز کے طور پر کام کر رہا تھا اور دنیا خوش حال تھی۔ برصغیر کا تعارف دنیا میں سونے کی چڑیا کے طور پر کرایا جاتا تھا، نہ آئی ایم ایف، نہ ڈبلیو ٹی او ۔ یہ جدید طریقے ایسے کیا نافذ ہوئے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اب مفلوک الحال بن کر رہ گئی ہے۔ اسی شاہراہ ریشم کی تقلید کرتے ہوئے پاک چائنا کوریڈور یعنی ’’سی پیک‘‘ بنایا گیا۔ اب چین کی میزبانی میں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ مل کر بیٹھے تھے اور اعلان یہ ہوا کہ سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق ہو گیاہے۔

اگر پاکستان کو کابل کے راستے سے وسط ایشیا تک امن و آشتی سے بھرپور تجارتی راہداری مل جاتی ہے تو درآمد و برآمد کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ چین ایک ریلوے ٹرین نیٹ ورک بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ خواب بھی مکمل ہو گیا تو آنے والے دنوں میں چینی مال ہو یا پاکستانی، افغانستان کو بھرپور فائدہ ہوگا۔ ٹرانزٹ فیس ملے گی، ان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم ہوگا، ریلوے اسٹیشن ہوں یا بسوں کے اڈے ان کے ارد گرد ہوٹلوں کی قطار ہوگی، ریسٹورنٹس آباد ہوں گے۔

 بیجنگ میں سہ فریقی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اور چین کے وزیر خارجہ اور افغانستان کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سے تینوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پاک افغان تجارت پہلے کی طرح بحال ہو۔ کبھی افغانستان پاکستان کے برآمدی ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا۔ جو اب بتدریج کم ہو کر آٹھویں نویں نمبر پر چلا گیا ہے۔

تجارتی حجم سکڑ کر رہ گیا ہے کیونکہ طالبان حکومت کی آمد کے بعد سے تجارتی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس صدی کے آغاز سے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، امن و امان کی بگڑتی صورتحال، گیس کی قلت، بیرونی سیاحوں کی آمد کا تقریباً خاتمہ، غیر ملکی تاجروں کی پاکستان آمد سے انکار، پاکستانی صنعتکاروں کو طرح طرح کے مسائل و مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث ملک کو صنعتی زوال اور معاشی و مالی عدم استحکام اور بدحالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے موقع پر پہلی ضرورت یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات زیادہ سے زیادہ بہتر ہوں۔ اب اس میں آیندہ چل کر افغانستان کا کیا رویہ ہوتا ہے یا ان کی کیا سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔

ادھر آئی ایم ایف سے بجٹ مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو گئے ہیں۔ نجکاری عمل تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ایسا معلوم دے رہا ہے کہ بجٹ سے متعلق حکومت کے اختیارات محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف درآمدی گاڑیوں پر ٹیرف میں کمی پر زور دے رہا ہے ایسے میں کس کا بھلا ہوگا، پاکستانی کار کمپنیاں خسارے میں جا کر ملازمین کی چھانٹی کر سکتی ہیں، اس سے ہزاروں پاکستانی ملازم بے روزگار ہو سکتے ہیں اور صنعتی ممالک کا فائدہ ہوگا۔

بجٹ کا اہم ترین تعلق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن یافتہ افراد کی ماہانہ پنشن اور ملک کے لیے کم ازکم تنخواہ کی حد کا مقرر کرنا بھی ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو یا نجی پرائیویٹ ملازمین ہوں یا پنشن یافتہ افراد ہوں ان کو جب رقوم ملتی ہیں تو یہ مجموعی رقم ملکی اشیا و مصنوعات کی خریداری، خوراک کی خریداری، پوشاک کی خریداری، جوتوں کی خریداری، ٹرانسپورٹ کرایوں میں پیسہ خرچ ہوتا ہے جس سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ ترقی کرتا ہے، ریلوے ٹکٹ خریدنے سے ریلوے کی آمدن بڑھ جاتی ہے۔

بہرحال ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوکر ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی تنخواہوں خاص طور پر پنشن یافتہ افراد کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ بوڑھے ریٹائرڈ ملازمین کی فلاح و بہبود سے متعلق کئی اسکیمیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

ملک میں صحت کے حوالے سے سخت بے یقینی پائی جاتی ہے۔ پرائیویٹ علاج کرانا، آپریشن کروانا اب اتنا مہنگا ترین ہو کر رہ گیا ہے کہ سوچ سے بھی زیادہ۔ لہٰذا حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرائے تاکہ ہر شہری کو اس بارے میں اطمینان حاصل ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی خریداری کرتے تھے ہوتا ہے گیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید

پاکستان اور افغانستان کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک اپنی خودمختاری کھو دیتے ہیں۔

مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ

امریکا نے 11 ستمبر کے بعد القاعدہ کو افغانستان میں اور اسامہ بن لادن کو پاکستان میں فراہم کی گئی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کی۔

یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی اجلاس: مسلم ممالک نے قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی اقدامات کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرادی

ان کے بقول امریکا نے افغانستان میں القاعدہ کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے جرات مندانہ کارروائی کی، اور پاکستان میں اسامہ بن لادن کو دی گئی پناہ گاہ کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جو ممالک آج اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں، انہوں نے اس وقت امریکا کی کارروائیوں پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، جب افغانستان اور پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 واضح طور پر کہتی ہے کہ کوئی ریاست دہشت گردوں کو مالی یا لاجسٹک سہولت فراہم نہیں کر سکتی، اور یہ اصول دنیا کے ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی قانون ہر ریاست کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر جا کر بھی ان ’دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنائے جو اس کے شہریوں پر اجتماعی حملے کرتے ہیں، اور یہی اصول اسرائیل کے موجودہ اقدامات کی بنیاد ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے قطر پر حملے کے جواز کے طور پر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر امریکی کارروائی کا حوالہ دیا ہو۔

نیتن یاہو حالیہ دنوں میں بارہا اس مثال کا ذکر کر چکے ہیں، جب کہ گزشتہ جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی مندوب ڈینی ڈینن نے بھی اپنے وزیر اعظم کا یہی موقف دہرایا تھا۔

مزید پڑھیں: موساد قطر میں اسرائیلی حملے کی مخالف اور فیصلے سے ناراض تھی، رپورٹ میں انکشاف

پاکستان نے اس پر سخت ردعمل دیا تھا، اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا تھا کہ پاکستان کا مؤقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔

’عالمی برادری پاکستان کی انسداد دہشت گردی میں قربانیوں اور کردار سے بخوبی آگاہ ہے۔ القاعدہ کو بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں سے ختم کیا گیا، اور دنیا ہمارے اس کردار کو تسلیم کرتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اصل ریاستی دہشت گرد وہ ہے جو غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں دہائیوں سے جارحیت کر رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسامہ بن لادن اسرائیلی وزیر اعظم افغانستان القاعدہ انسداد دہشت گردی پاکستان خودمختاری سیکریٹری خارجہ لاجسٹک مارکو روبیو نیتن یاہو

متعلقہ مضامین

  • ہونیاں اور انہونیاں
  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید
  • پاکستان کا افغانستان کو دوٹوک پیغام، ایشیا کپ میں بھارت کی گھٹیا حرکت