سہ فریقی اجلاس اور تنخواہیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
کبھی سنا کرتے تھے کہ شاہراہ ریشم پر تجارتی قافلے چلا کرتے تھے۔ ان راہوں پر مال تجارت سے لدے ہوئے خچروں کی گھنٹیاں سنا کرتے تھے۔ تھوڑے فاصلوں پر ان کاررواں کے لیے سرائے، قدیم ہوٹل اور کہیں ایک تندور والی روٹیاں تازہ تازہ مسحور کن خوشبو سے رچی بسی جو بھوک کو بھی دور سے آواز دے کر قریب بلا لیتی تھی اور اپنی مٹی کی ہانڈی سے سالن نکال کر تاجر کو پیش کر دیتی اور پھر قریبی کنوئیں کا ٹھنڈا پانی پی کر تاجر سیر ہو کر اٹھتا اور یوں تجارتی قافلے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے یورپ کے ملک ملک، نگر نگر بھی مال تجارت فروخت کرتے تھے۔
یہ شاہراہ ریشم جو قدیم زمانے میں تین براعظموں کو ملاتا تھا، ایشیا سے یورپ، چین سے پاکستان و ایران، اور دوسری طرف مصر سے افریقہ تک۔ یعنی تین براعظموں کا GDP مرکز کے طور پر کام کر رہا تھا اور دنیا خوش حال تھی۔ برصغیر کا تعارف دنیا میں سونے کی چڑیا کے طور پر کرایا جاتا تھا، نہ آئی ایم ایف، نہ ڈبلیو ٹی او ۔ یہ جدید طریقے ایسے کیا نافذ ہوئے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اب مفلوک الحال بن کر رہ گئی ہے۔ اسی شاہراہ ریشم کی تقلید کرتے ہوئے پاک چائنا کوریڈور یعنی ’’سی پیک‘‘ بنایا گیا۔ اب چین کی میزبانی میں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ مل کر بیٹھے تھے اور اعلان یہ ہوا کہ سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق ہو گیاہے۔
اگر پاکستان کو کابل کے راستے سے وسط ایشیا تک امن و آشتی سے بھرپور تجارتی راہداری مل جاتی ہے تو درآمد و برآمد کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ چین ایک ریلوے ٹرین نیٹ ورک بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ خواب بھی مکمل ہو گیا تو آنے والے دنوں میں چینی مال ہو یا پاکستانی، افغانستان کو بھرپور فائدہ ہوگا۔ ٹرانزٹ فیس ملے گی، ان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم ہوگا، ریلوے اسٹیشن ہوں یا بسوں کے اڈے ان کے ارد گرد ہوٹلوں کی قطار ہوگی، ریسٹورنٹس آباد ہوں گے۔
بیجنگ میں سہ فریقی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اور چین کے وزیر خارجہ اور افغانستان کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سے تینوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پاک افغان تجارت پہلے کی طرح بحال ہو۔ کبھی افغانستان پاکستان کے برآمدی ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا۔ جو اب بتدریج کم ہو کر آٹھویں نویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
تجارتی حجم سکڑ کر رہ گیا ہے کیونکہ طالبان حکومت کی آمد کے بعد سے تجارتی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس صدی کے آغاز سے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، امن و امان کی بگڑتی صورتحال، گیس کی قلت، بیرونی سیاحوں کی آمد کا تقریباً خاتمہ، غیر ملکی تاجروں کی پاکستان آمد سے انکار، پاکستانی صنعتکاروں کو طرح طرح کے مسائل و مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث ملک کو صنعتی زوال اور معاشی و مالی عدم استحکام اور بدحالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے موقع پر پہلی ضرورت یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات زیادہ سے زیادہ بہتر ہوں۔ اب اس میں آیندہ چل کر افغانستان کا کیا رویہ ہوتا ہے یا ان کی کیا سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔
ادھر آئی ایم ایف سے بجٹ مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو گئے ہیں۔ نجکاری عمل تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ایسا معلوم دے رہا ہے کہ بجٹ سے متعلق حکومت کے اختیارات محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف درآمدی گاڑیوں پر ٹیرف میں کمی پر زور دے رہا ہے ایسے میں کس کا بھلا ہوگا، پاکستانی کار کمپنیاں خسارے میں جا کر ملازمین کی چھانٹی کر سکتی ہیں، اس سے ہزاروں پاکستانی ملازم بے روزگار ہو سکتے ہیں اور صنعتی ممالک کا فائدہ ہوگا۔
بجٹ کا اہم ترین تعلق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن یافتہ افراد کی ماہانہ پنشن اور ملک کے لیے کم ازکم تنخواہ کی حد کا مقرر کرنا بھی ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو یا نجی پرائیویٹ ملازمین ہوں یا پنشن یافتہ افراد ہوں ان کو جب رقوم ملتی ہیں تو یہ مجموعی رقم ملکی اشیا و مصنوعات کی خریداری، خوراک کی خریداری، پوشاک کی خریداری، جوتوں کی خریداری، ٹرانسپورٹ کرایوں میں پیسہ خرچ ہوتا ہے جس سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ ترقی کرتا ہے، ریلوے ٹکٹ خریدنے سے ریلوے کی آمدن بڑھ جاتی ہے۔
بہرحال ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوکر ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی تنخواہوں خاص طور پر پنشن یافتہ افراد کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ بوڑھے ریٹائرڈ ملازمین کی فلاح و بہبود سے متعلق کئی اسکیمیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں صحت کے حوالے سے سخت بے یقینی پائی جاتی ہے۔ پرائیویٹ علاج کرانا، آپریشن کروانا اب اتنا مہنگا ترین ہو کر رہ گیا ہے کہ سوچ سے بھی زیادہ۔ لہٰذا حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرائے تاکہ ہر شہری کو اس بارے میں اطمینان حاصل ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی خریداری کرتے تھے ہوتا ہے گیا ہے رہا ہے
پڑھیں:
جہادِ افغانستان کے اثرات
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1988 کے جنیوا معاہدے کے تحت جب 15 فروری 1989 کو روسی فوجیں گورباچوف کے پراسترائیکا اورگلاسنوسٹ فلسفے کے تحت افغانستان کو چھوڑکر واپس چلی گئیں تو جنرل ضیاء کی موت کے بعد، افغان جہاد امریکا نے پاکستان کی مدد سے جاری رکھا۔
بعد ازاں پیپلزپارٹی حکومت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے پاکستان ہی میں طالبان کی تشکیل کا اعلان کیا اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے طالبان کی تشکیل کو درست عمل قرار دیا، اس عمل کے دوران امریکا اور نیٹو کی فوجی قیادت کا خیال تھا کہ پاکستان کی مدد و تعاون سے روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد روس کی افواج کی جگہ طالبان کی گوریلا فوج امریکی ایما پر افغانستان میں امریکی من مرضی کے تحت پالیسیوں پر عمل کرے گی۔
یاد رہے کہ امریکی ڈالرزکی خطیر رقم اور فلاحی پلاٹ دینے کی پالیسیوں کے تحت بعض مدارس طالبان کی تربیت کے لیے قائم کیے گئے جہاں طلبہ کو جہادی لٹریچر پڑھایا گیا بلکہ یہی جہادی لٹریچر عسکری تربیت کے لیے بھی لازم قرار دیا گیا، تاکہ طالبان جہادیوں کی حمایت جاری رہے اور امریکی ڈالرز آنے کا سلسلہ کسی طور نہ رک سکے۔
افغانستان سے روس کے انخلا کو جہاد افغانستان کی فتح قرار دیا گیا تھا، جب کہ یہ نہ جہاد افغان کی فتح تھی اور نہ ہی روس کی پسپائی تھی، بلکہ یہ وہ جال تھا کہ جس جال سے روس نے نکل کر امریکا سمیت تمام افغان جہادیوں کو افغانوں سے نمٹنے کا ایک چیلنج دیا تھا، یہ اُس وقت کے روس کی وہ سیاسی یا فوجی حکمت عملی تھی جو بظاہر شکست نظر آرہی تھی مگر دوسرے لمحے ہی روسی فوج کا انخلا روس کا وہ دور رس قدم تھا جو کہ مستقبل میں امریکی سازش اور ان کے حمایتی افغان جہادیوں کے لیے ایک ایسا امتحان تھا، جس کو آج تک حکومتیں حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔
افغان اور پاکستان کے اس نظریاتی جنگ کے تضادات کا اندازہ اس وقت سے ہونا شروع ہو گیا تھا جب دیر اور سوات میں نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد افغانستان کے ہزاروں جہادیوں سمیت لوٹے اور انھوں نے ملک میں شریعت محمدی نافذ کرنے کی تحریک کا آغازکیا۔
ابتدا میں یہ تحریک ایک مذہبی مقاصد کے لیے سمجھی گئی مگر بعد میں صوفی محمد کی یہ تحریک متشدد ہوتی چلی گئی،جس پر خیبر پختونخوا میں امن کی خاطر تحریک شریعت محمدی اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے مابین 6 نکاتی ’’امن فارمولا‘‘ طے پایا، جس کے مطابق شریعت محمدی تحریک نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے یا کسی بھی متشدد کارروائی سے خود کو الگ رکھنے کا وعدہ تحریر میں کیا۔
جب اس 6 نکاتی فارمولے کا اعلان صوفی محمد نے ایک جلسے میں کیا تو اعلان طے شدہ فارمولے کے بالکل برعکس تھا۔ اس سلسلے میں جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ مولانا صوفی محمد نے دستخط شدہ معاہدے کو جلسہ عام میں خود پیش کرنے اور پڑھنے پر اصرارکیا۔
لیکن ہوا یہ کہ انھوں نے معاہدے کی شرائط پڑھنے کے بجائے عوامی اجتماع میں جمہوریت کو غیر اسلامی اور حکومت کے خلاف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مسلح مزاحمت کو جائز قرار دے دیا، جب کہ تحریری معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ دونوں کالعدم تنظیموں کا شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ تسلیم کیے جانے کے بعد اب ہر قسم کی مسلح مزاحمت کے خاتمے اور ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر میاں افتخار حسین نے انکشاف کیا تھا کہ بعد میں مولانا صوفی محمد نے بتایا کہ جلسہ عام میں معاہدے کی شرائط پڑھنے کی صورت میں انھیں دو خودکش بمباروں کے ذریعے ہلاک کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
2009 کے اوائل میں صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ کے سوات میں پرتشدد حامیوں کے خلاف آپریشن کیا گیا تو تحریک طالبان کا فضل اللہ گروپ افغانستان چلا گیا، اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہوگئے اور بعد میں انھوں نے بی بی سی کو ٹیلی فون کر کے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی اور ان کی پاکستان کے کسی علاقے میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
اسی دوران فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے تھے اور وہ وہیں سے پاکستانی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے، جن میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا حملہ بھی شامل ہے جس میں 148 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جن میں سے بیشتر بچے تھے۔
2021 میں جب امریکی فوجوں کو افغانستان سے نکال کر طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو کابل یا افغانستان کی قبضہ کی گئی حکومت کے تین فریق اس وقت افغانستان کا نظم و نسق اپنے اپنے مضبوط علاقوں کی بنیاد پر چلا رہے ہیں، جن میں جنوب مغربی افغانستان کو مرکزی دھارے میں شامل طالبان کنٹرول کرتے ہیں، ان کا اصل مرکز قندھار میں ہے۔
حقانی نیٹ ورک جنوب مشرقی افغانستان پر قابض ہے اور شمالی افغانستان میں غیر پشتون افغان طالبان اور وسط ایشیائی جنگجوؤں پر مشتمل گروہ ہے جس کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان کی مذکورہ حکومت کی تثلیث میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد کو کس نے افغانستان میں حکومت کی موجودہ تثلیث بنانے کا فارمولا دیا؟ اور وہ کونسے عوامل تھے کہ کچھ قوتیں افغانستان کی موجودہ حکومت کے قیام کے لیے متحرک ہوئی تھیں، افغانستان کی موجودہ قیادت کے معاملے میں یہ رازکب تک سر بستہ رہے گا، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
مگر قرائن اور بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کا تحریک طالبان کی جانب نرم رویہ یہ ضرور بتاتا ہے کہ ابھی تک بانی پی ٹی آئی کو بچانے میں وہ طاقت بہت مستعدی کے ساتھ ان کی پشت پر ہے۔
جنگ زدہ ماحول کے اس پیچیدہ دوراہے اور طالبان کی جانب سے مسلسل دہشت گرد کارروائیوں کے نتیجے میں سب سے اہم سوال ریاستی اداروں کی کارکردگی اور بقا کا ہے،اسی لیے موجودہ حکومت ریاستی بیانیے کے حوالے سے ’’افغانستان کی طالبان حکومت‘‘ کی پالیسیوں اور در اندازی پر سخت موقف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کے تین، چار دورکے بعد بھی افغانستان میں طالبان حکومت کے نمایندے کسی بھی طرح کی تحریرکی صورت میں پاکستان کے اندر ٹی ٹی بی کی دراندازی روکنے کی کوئی ٹھوس ضمانت فراہم نہیں کر پائے جس کے نتیجے میں یہ مذاکرات بے نتیجہ یا ناکام رہے، گوکہ اب دوبارہ میزبان ممالک کے اصرار پر مذاکرات شروع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔
تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو واپس لانے کی پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی کے ضمن میں خطے میں تحریک طالبان کی دہشت گردی نہ صرف پاکستان بلکہ روس اور چین کی اقتصادی ترقی میں بھی وہ اہم رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی ہے جس پر پاکستانی حکومت کی جانب سے خطے کی دہشت گردی سے نمٹنے کا سخت موقف ایک حوصلہ افزا بات ہے۔