UrduPoint:
2025-11-05@04:35:55 GMT

چین پاکستان اور افغانستان: سہ فریقی ملاقات کتنی اہم

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

چین پاکستان اور افغانستان: سہ فریقی ملاقات کتنی اہم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مئی 2025ء) پاکستان افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ اپنے سہ فریقی فورم کے پانچویں اجلاس کے لیے بیجنگ میں اکٹھے ہوئے اور ان کی ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ چین- پاکستان اقتصادی راہداری کو افغانستان تک توسیع دی جائے گی تاکہ سہ فریقی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہے اور پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی صورتحال بھی پیدا ہو گئی تھی۔

کئی تجزیہ کاروں کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب خطے میں طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے، چین- پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک توسیع دینے کے اعلان نے بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

(جاری ہے)

تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ بیجنگ میں ہوئی ایک حالیہ ملاقات میں اس اہم فیصلے تک پہنچے کہ سی پیک کو اب افغاستان میں بھی پھیلایا جائے گا۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ حالات میں اس ملاقات کا ہو جانا ہی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے مطابق اس ملاقات کا وقت بہت معنی خیز ہے، ''میرے خیال میں اس ملاقات میں ہونے والے فیصلوں کے ساتھ ساتھ ان فیصلوں کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں سگنلز بھجوائے گئے ہیں، وہ بھی بہت قابل غور ہیں۔

‘‘ سی پیک کا افغانستان تک پھیلاؤ

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ماضی قریب میں اچھے نہیں رہے ہیں۔ پاکستان مبینہ طور پر افغانستان کی سرزمین سے آنے والے حملہ آوروں کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا ہے جبکہ افغان طالبان کی حکومت ایسی دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔

چین نے سن 2013 میں پاکستان کے ساتھ سی پیک منصوبے کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد مغربی چین کوگوادر بندرگاہ سے جوڑ کر تجارتی راہیں ہموار کرنا ہے۔ نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر شاہد ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب افغانستان کے سی پیک میں شامل ہونے سے چین کے لیے اپنی مصنوعات کو وسطی ایشیا بلکہ یورپ کی مارکیٹس تک پہنچانا بھی ممکن ہو سکے گا۔

ان کے نزدیک یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ شاہد ملک کے مطابق نئے منصوبے کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ایکسپریس ہائی وے بھی بنائی جائے گی، جو تجارتی سامان کی تیز رفتار ترسیل کو ممکن بنا سکے گی۔ بھارت کے تحفظات کیا ہیں؟

کچھ بھارتی اخبارات نے جمعے کے روز اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ روڈ نیٹ ورک اصل میں بھارت کے خلاف بنایا جا رہا ہے اور یہ سڑکیں فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔

خورشید قصوری البتہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانا منصوبہ ہے جو پاکستان اور افغان حکومت کے مابین اختلافات کی وجہ سے سرد خانے میں چلا گیا تھا، ''آج کل گاڑیوں کی جنگ والا زمانہ نہیں رہا، اب تو جنگ میزائلوں، ڈرونز اور ائیر فائیٹرز اور جدید جنگی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس لیے اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

‘‘

کئی بھارتی مبصرین اس اقدام کو افغانستان کے معدنی ذخائر تک چینی رسائی، روڈ نیٹ ورک کے ممکنہ عسکری استعمال، بحری سکیورٹی، سفارتی تناؤ اوربھارت اور افغانستان کے تعلقات میں رکاوٹ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں ڈین آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ''بھارتی میڈیا کی ساکھ ہم سب حالیہ کشیدگی میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

‘‘

ڈاکٹر ارم خالد کے بقول، ''بھارت سمجھتا ہے کہ سی پیک چین کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ جنوبی ایشیا میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ فوجی و انفراسٹرکچر پارٹنرشپس قائم کر کے بھارت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ چین کی پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ بڑھتی شراکت داری بھی اسی حکمت عملی کا مظہر سمجھی جاتی ہےجبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

‘‘ ’دہشت گردی کا خاتمہ ضروری‘

ڈاکٹر ارم خالد کے مطابق پاکستان، چین اور افغانستان ہمسایہ ممالک ہیں، اس لیے ان تینوں کے درمیان کسی بھی قسم کی ہم آہنگی کو بھارت اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، ''میرے خیال میں عالمی اور علاقائی کشیدگی کے اس دور میں، ہمسایہ ممالک کو قریب لانے کی ہر کوشش خوش آئند ہے۔ ان سہ فریقی مذاکرات کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری لانے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنے اور پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے سفیروں کے تقرری پر بھی اتفاق کیا گیا۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''اگر سی پیک کو افغانستان تک توسیع دی جاتی ہے اور چین وہاں سرمایہ کاری میں اضافہ کرتا ہے تو یہ پیش رفت پورے خطے میں گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے یہاں خوشحالی آئے گی لیکن اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ یہاں امن ہو اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘

خورشید قصوری نے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سہ فریقی مذاکرات کی کامیابی سے یہ تاثر بھی ملا ہے کہ چین علاقائی اور عالمی سفارت کاری میں کامیابی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔

چین نے اس سے پہلے ایران اور سعودی عرب کے اختلافات کو حل کرانے میں بھی مدد کی تھی جبکہ اس حوالے سے ڈاکٹر ارم کا کہنا ہے کہ دنیا نے پہلے چین کی معاشی ترقی دیکھی تھی، حالیہ پاکستان اور بھارت کشیدگی میں چین کی دفاعی صلاحیت دنیا کے سامنے آئی اور اب چین سفارت کاری کی دنیا میں خاموشی سے آگے بڑھ رہا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور افغانستان اور افغانستان کے کو افغانستان افغانستان تک ڈاکٹر ارم بھارت کے کے مطابق کے ساتھ کے لیے رہا ہے سی پیک چین کی

پڑھیں:

ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)

پاکستان، افغانستان اور دوسرے مسلمان ممالک کے ہاتھوں روس کی شکست کا سہرا یونیورسٹی آف نبراسکا کے شعبہ ’’سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘ کے سر باندھنا ناانصافی اور حقائق کے خلاف ہے۔ کہا گیا کہ یونیورسٹی آف نبراسکا نے افغانوں کو بتایا کہ وہ بہادر، نڈر اور ناقابل تسخیر ہیں اور یہ ٹاسک ان کو سی آئی اے نے دیا تھا۔

بھائی کسی قوم کی بہادری، ناقابل تسخیری یا بزدلی کے لیے ان کا ماضی کافی ہوتا، اس کا یقین دلانے کے لیے کسی یونیورسٹی یا ایجنسی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہادر اور ناقابل تسخیر کہلوانے کے لیے اپنے سر کٹوانے اور دوسروں کے سر کاٹنے پڑتے ہیں، یہ سرویز کرنے اور سبق پڑھانے سے نہیں بنتے۔ نہ بہادری، ناقابل تسخیری اور غیرت کے انجکشن اور ویکسین ملتے ہیں یہ خصلتیں نسل در نسل ڈی این اے میں منتقل ہوتی ہیں۔

کہا گیا کہ سی آئی اے نے یونیورسٹی آف نبراسکا کو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے لیے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کا سلیبس بنانے کا ٹاسک دیا تو انھوں نے اس میں جہاد سے متعلق آیات‘ احادیث اور واقعات اکٹھے کر دیے ۔

میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ نبی رحمت العالمین، خاتم النبین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر حملہ آور کفار کے خلاف جہاد کا حکم متعدد بار دیا گیا ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارے لیے قرآن پاک کے بسم اللہ کے "ب" سے لے کر الناس کے "س" تک ایمان لانا لازم ہے، ایک بھی حرف کے انکار کرنے سے بندہ ایمان سے فارغ اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے پھر کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے اسکولوں میں اسلامیات کے نصاب میں جہاد سے متعلق آیات کو مسلمان طلبا کے نصاب میں شامل کرنے کو سی آئی اے کی فرمائش پر یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟

یہ بھی بتایا گیا کہ ’’امریکا نے پاک افغان سرحد پرسیکڑوں مدارس بنوائے‘ ان کے لیے نئے علماء کرام اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا۔ پاک افغان سرحد پر جو مدارس پہلے سے موجودتھے وہی رہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحد پر مجاہدین کے لیے پاک فوج کی سرپرستی میں ٹریننگ سینٹر قائم کیے گئے۔

یہ بھی کہا گیا مدارس کے سلیبس سے انسانیت، رواداری اور برداشت نکال کر جہاد‘ کفر سے مقابلہ اور توہین مذہب ڈال دیا گیا‘‘۔ میرا یقین ہے جو بندہ مدارس کے نصاب سے واقف نہ ہو وہ تو یہ بات بغیر تحقیق کے مان سکتا ہے مگر یہ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔ بغیر تحقیق اور زمینی حقایق کے خلاف قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کے اداروں کو اتنے منفی انداز میں  پیش نہیں کرنا چاہیے، اگر کسی کو شک ہو تو ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ وقت نکال کر مدارس میں کچھ وقت گزاریں، وہاں زیر تعلیم روکھی سوکھی کھانے والے غریب و مفلس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی انسانیت‘ رواداری اور برداشت کا موازنہ عصری علوم کے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبا سے کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ کردار، احترام انسانیت اور ادب و تعظیم کے علمبردار مدارس کے بوری نشین طلباء اپنی مثال آپ ہیں۔

جہاد سی آئی اے کی ہدایت پر یونیورسٹی آف نبراسکا نے مدارس کے نصاب میں شامل نہیں کیا، یہ اللہ رب العزت نے رسول مقبول حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر فرض کیا اور مدارس میں علوم شریعہ (قرآن و سنت) پڑھائے جاتے ہیں۔

میں 1994ء سے 1997ء تک جہاد افغانستان کی برکت سے آزادی حاصل کرنے والے وسطی ایشیا کے ممالک میں رہا ہوں، اپنے مشاہدے کے علاوہ وہاں کے ہزاروں مسلمانوں سے سن چکا ہوں کہ سویت دور میں مساجد و مدارس کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا تھا اور مسلمانوں کی مذہبی اقدار و روایات کو مسخ کرنے میں کس حد تک گئے تھے۔ مگر افسوس کہ سویت یونین کی اسلام دشمنی، دھریت کو بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش بنا کر پیش کردیا۔

سویت یونین9 ہزار 5 سو مربع کلو میٹر رقبہ ہڑپ کرنے کے بعد افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا تو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر عالم اسلام کے مقبول ترین آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق شہید اور مجاہد اعظم جنرل اختر عبدالرحمان شہید رحمہ اللہ جیسے ان کے رفقاء کی سرپرستی میں اگر ایک طرف روس کو سبق آموز شکست دی گئی تو دوسری طرف روس سے 9500 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل وسطی ایشیا کے 9 اسلامی ممالک کو آزاد کرایا اور یہ وہ کارنامے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ کو پاکستان اور افغانستان دونوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ اگر ہم سوویت یونین کو پھینٹا لگانے میں افغانستان کے مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے اور خدانخواستہ سوویت یونین افعانستان پر قبضہ کرلیتا تو یہ ہمارے لیے افغانستان پر سوویت یونین کے حلیف مشرک ریاست ہندوستان کے قبضے کے مترادف ہوتا اور ہماری 1640 کلومیٹر کی یہ سرحد سوویت یونین اور ہندوستان کے ساتھ ہوتی، ذرا سوچیں کہ مشرق و مغرب میں ہندوستان ہوتا تو کیا ہوتا؟

ریاست پاکستان کو دئے گئے تین مشوروں میں سے ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ’’پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ‘‘ بنانے والے مشورے سے سو فیصد متفق ہوں، ہارڈ اسٹیٹ بن کر ہر پاکستان دشمن کو نشان عبرت بنانا ہوگا مگر باقی مشورے مکمل طور پر سمجھ نہیں سکا۔ مثلًا ’’عبادت کی اجازت صرف مسجد اور گھر میں ہونی چاہیے‘ سڑک‘ سرراہ یا کسی عوامی مقام پر عبادت پر پابندی ہونی چاہیے، اگر وہ عبادات کی جگہ مذہبی رسومات (جلسے، جلوسوں) کی بات کرتے تو معقول بات ہوتی۔

اصولًا مساجد اور مدارس کا انتظام ریاست کے پاس ہونا چاہیے مگر اس کے لیے متعلقہ افراد کی اہلیت اور قرآن و حدیث پر عبور ضروری ہے، جب ریاست کے ذمے داران میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کا سردست فقدان ہے۔

اگر حکومتی سرپرستی میں چلنے والے عصری علوم کے اداروں اور خاص کر بہاولپور کی عظیم دینی درسگاہ کا حشر حکومتی تحویل میں جانے کے بعد دیکھا جائے تو انشاء اللہ کوئی بھی مدارس کو قومی تحویل میں دینے کا مشورہ نہیں دے گا۔ جاوید چوہدری صاحب نے ایک طرف تو عوام کو لڑائی سے ہٹانے اور کتابیں پڑھنے اسپورٹس اور ڈیبیٹس پر لگانے، شہروں میں جم اور جاگنگ ٹریکس بنانے کے معقول مشورے دیے اور دوسری طرف وہ نسل نو کو فلموں اور موسیقی اور بسنت جیسے خونی ہندو تہواروں سے پابندی اٹھانے کو قومی مسائل کا حل بتا رہے ہیں۔ مارنے اور دوسرے کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے معقول مشورے کے ساتھ انھوں نے "کڑاہی گوشت" کھانے کو بھی اچھا نہیں قرار دیا مگر پتہ نہیں مقبول زمانہ روایتی پکوان ’’افغانی پلاؤ‘‘ کیسے بھول گئے۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم: صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ اور کتنی کمی ہو سکتی ہے؟
  • سونے کی قیمت میں بڑی کمی، فی تولہ قیمت کتنی ہو گئی؟
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • لگتا ہے بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کریگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • چالان کی رقم 14 دن میں جمع کروانے پر کتنی رعایت؟ ٹریفک پولیس نے خوشخبری سنادی
  • بھارتی ویمنز ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ جیت لیا، جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو کتنی انعامی رقم ملی؟
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع