سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع، ثمرات سے بھرپور لیکن خدشات سے گھرا ہوا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
گزشتہ روز پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی، اُس میں کہا گیا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا اقتصادی راہداری کے منصوبے میں افغانستان کو شامل کیا جائے گا۔
آج پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ سی پیک ٹو منصوبے کو افغانستان تک توسیع دی جائے گی۔
اس سلسلے میں ازبکستان پاکستان کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کے عمل کی دستاویزی تیاریاں مکمل ہو چُکی ہیں۔ یہ ریلوے لائن ازبکستان سے بذریعہ افغانستان خرلاچی بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہو گی اور چین نے اس منصوبے کو فنانس کرنے کا اُصولی فیصلہ کیا ہے۔
وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے یہ بھی بتایا کہ پشاور سے کابل ایک ہائی وے بھی تعمیر کی جائے گی اور اس طرح سے ان 2 منصوبوں کے ذریعے سے وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور گوادر اور کراچی کی بندرگاہیں جو اپنی صلاحیت سے بہت کم استعمال ہو رہی ہیں جب وہ مکمل صلاحیت کے ساتھ استعمال ہوں گی تو ملک میں معاشی انقلاب آئے گا۔
علاقائی مربوط نظاماسحاق ڈار نے بتایا کہ علاقائی مربوط نظام کے ذریعے سے ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر سارک ممالک چین کے ساتھ جُڑ جائیں تو بہت بڑا انقلاب آ سکتا ہے لیکن سارک ممالک میں بھارت کے روّیے کی وجہ سے یہ تنظیم چل نہیں سکی۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس سے اُس کا کوئی ہمسائیہ بھی خوش نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان کے راستے جب تمام وسط ایشیائی ممالک جڑ جائیں گے تو اس سے خطّے میں ترقی کی نئی منزلیں طے ہوں گی۔
سی پیک ٹو منصوبہ کیا ہے؟سی پیک ون منصوبے میں زیادہ تر توانائی کے پلانٹس لگائے گئے تھے اور اب سی پیک ٹو منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ سی پیک ٹو کے منصوبے میں کراچی تا پشاور ریلوے لائن منصوبہ ایم ایل ون شامل ہے جس کے بارے میں اسحاق ڈار نے بتایا کہ اس منصوبے کے بارے میں اُن کے چینی حکومت کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ سی پیک ٹو میں پشاور سے کابل ہائی وے کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ قراقرم ہائی وے جو پاکستان اور چین کو جوڑتی ہے اُس کی تعمیر نو یا ری الائنمنٹ بھی سی پیک ٹو میں کی جائے گی۔
اس کے علاوہ سی پیک ٹو میں دیگر ہائی ویز اور بندرگاہوں کی تعمیر و تکمیل کے منصوبے شامل ہیں۔ مانسہرہ سے چلاس 235 کلومیٹر روڈ اور گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن شامل ہے جس کے بعد یہ کراچی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ بھی تجارت کا اہم مرکز بن جائے گی۔
سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع کے اثراتپاکستانی وزارت خارجہ اور چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیانات کے روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سہ فریقی مذاکرات انتہائی کامیاب رہے اور اس میں افغانستان کی جانب سے خواہ وہ بیرونی مداخلت کے خلاف بند باندھنے کی بات ہو، سفارتی تعلقات کو وسعت دینے کی بات ہو، دہشتگردی کے خلاف جنگ یا تجارت بڑھانے کی بات ان تمام باتوں سے افغان حکام نے مکمل اتفاق کیا ہے اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
گزشتہ روز وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ اُن کے 19 اپریل کے دورے کے بعد جو اعلانات کئے گئے تھے اُن سب پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ ہم پر الزام لگتا ہے کہ ہم عمل درآمد میں سست ہیں لیکن ہم نے اب تک جو بھی وعدے کیے تھے وہ سب کے سب پورے کر دیے ہیں۔
افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے سی پیک ٹو کی افغانستان تک وسعت کا خیر مقدم کیا ہے۔ حالیہ پاک چین افغان مذاکرات کے دوران افغانستان نے یقین دہانی کروائی کہ افغانستان دہشتگرد تنظیموں جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان اور چین کے خلاف مشرقی ترکستان جیسی تنظیموں کو افغان سر زمین کے استعمال سے روک دے گا۔
افغانستان کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟سی پیک ٹو کی افغان وسعت کے ذریعے سے افغانستان کا تجارتی سامان گوادر بندرگارہ کے ذریعے عالمی منڈیوں تک پہنچ پائے گا۔ خاص طور پر افغانستان میں پائی جانے والی معدنیات دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ پائیں گی اور وسطی ایشیاء سے جُڑنے کے باعث افغانستان خطّے میں تجارت کا مرکز بن جائے گا۔ افغانستان کی چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ نے بھی سی پیک کی توسیع کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے معدنی وسائل جیسے لیتھیم اور نایاب زمینی عناصر کی کان کنی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، جو جنگ سے تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے
سی پیک ٹو افغان توسیع کے لیے چیلنجزبھارتی اثر و رسوخ میں کمی
سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع کو سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس سے افغانستان سے بھارت کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔ پہلگام واقعے کے بعد افغان طالبان حکومت پر الزامات لگے کہ وہ شاید خفیہ طور پر بھارت کا ساتھ دے رہے تھے لیکن سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کا نقطہ نظر واضح طور پر کھل کر سامنے آیا۔ افغانستان نے پاکستان اور چین کے ساتھ اقتصادی راہداری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ اس بات کو لے کر بھارت کی جانب سے واضح ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
بھارت شروع دن سے سی پیک کی مخالفت اس بناء پر کر رہا ہے کیونکہ اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ گلگت بلتستان کے علاقے سے گزرے گا جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت چین کے اس منصوبے میں دیگر ممالک کی شرکت کی بھی مخالفت کرتا رہا ہے۔ پہلگام واقعہ کی افغانستان نے نہ صرف واقعے کی مذمت کی بلکہ پاکستان کے اس دعوے کی نفی بھی کی کہ بھارت کی جانب سے افغانستان پر میزائل فائر کیا گیا ہے۔ اس بات کی وجہ سے بھارتی حکومت نے افغانستان کی تعریف کی لیکن اب بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کا پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ سرحدی تنازعہ ہے اور افغانستان کی سی پیک میں شمولیت بھارت کے لیے خطرہ ہے۔
سکیورٹی خدشات
گو کہ افغانستان نے دہشتگردی کے خلاف عزم ظاہر کیا ہے لیکن اس بات کو لے کر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ آیا افغانستان میں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے صلاحیت موجود ہے یا نہیں؟ اور کیا وہ افغانستان کے اندر موجود کئی دیگر دہشتگردی تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟
سیاسی عدم استحکام
اب تک دنیا کے بیشتر ممالک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ چیز سی پیک ٹو کی افغان توسیع کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔
افغان اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان حکومت بالکل نہیں چاہے گی کہ وہ تنہا ہو جائے جس سے اُس کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔ گزشتہ مہینوں میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کو بند کیا تو اُس سے دونوں ملکوں کا کافی تجارتی نقصان ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ چین اس خطّے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے اور استحکام کے لیے امن ضروری ہے۔ چین کو گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ پاکستان کے شمال سے خیبرپُختونخوا سے ہوتا ہوا بلوچستان سے گزرتا ہے اور یہ علاقہ امن و امان کے مسائل کا گڑھ ہے اور چین بطور ایک سہولت کار کام کر رہا ہے کیونکہ اُس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔ دوسرا یہ کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی راستے افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں تو چین اس خطّے میں امن امان کے لیے مخلص ہے۔
فخر کاکاخیل نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کو سمجھ آ چُکی ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اور اب ان 3 ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے حوالے سے بہتر سوجھ آ چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان تک توسیع خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستان اور چین افغانستان کی افغانستان نے پاکستان کے کی جانب سے کے درمیان سے افغان کہ افغان کے ذریعے جائے گی کے ساتھ کے خلاف جائے گا ہے اور کیا ہے کہا کہ اس بات کے بعد رہا ہے چین کے کے لیے
پڑھیں:
توسیع شدہ برکس کثیرالجہتی تعاون کے لیے نئے دور کا آغاز ہے، سی جی ٹی این سروے
بیجنگ:سی جی ٹی این کی جانب سے جاری کردہ انٹرنیشنل نیٹیزنز کے لیے ایک سروے کے مطابق، 91.2 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ برکس تعاون کا میکانزم ایک کثیرالجہتی دنیا کے حصول کے فروغ میں ایک اہم قوت بن چکا ہے ۔سروے میں، 94.7 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ برکس تعاون کے میکانزم نے نہ صرف رکن ممالک کے امریکی ڈالر پر انحصار کو کم کیا ہے بلکہ عالمی مالیاتی حکمرانی میں ان کی آواز کو بھی بڑھایا ہے۔ 89.1 فیصد نے عالمی معاشی ترقی کے فروغ اور ایک منصفانہ عالمی حکمرانی کے نظام کی تعمیر کے لیے اس کے میکانزم کی تعریف کی ۔ 91.2 فیصد جواب دہند گان کا خیال ہے کہ برکس ممالک موجودہ عالمی معاشی بحالی اور تجارتی ترقی کے لیے ایک “ایکسلریٹر” بننے کی توقع رکھتے ہیں۔ سروے میں شامل 93.3 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ برکس نے نہ صرف معاشی ڈھانچے کی بہتری اور اپ گریڈیشن کو فروغ دیا ہے بلکہ عالمی پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے عملی اور قابل عمل راستے بھی فراہم کیے ہیں۔ سروے میں 88.9 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ برکس کا اثر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 89.1 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ یہ عالمی حکمرانی کے نظام کی ترقی کو زیادہ جمہوری اور منصفانہ سمت میں آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ 91.7 فیصد جواب دہندگان اس بات سے متفق ہیں کہ برکس ممالک، کھلے پن، شمولیت اور باہمی تعاون کی روح پر کاربند رہتے ہوئے، ایک زیادہ منصفانہ، جمہوری اور مساوی بین الاقوامی نظم کی تعمیر کو فروغ دینے کے لیے اہم بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ 90.4 فیصد جواب دہندگان چین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ابھرتی ہوئی منڈیوں والے ممالک اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو جدیدیت کے حصول کے لیے مزید تجربات اور مواقع فراہم کرے گا۔ یہ سروے سی جی ٹی این کے انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی اور روسی پلیٹ فارمز پر کیا گیا جس میں 24 گھنٹوں میں 6,541 غیر ملکی انٹرنیٹ صارفین نے حصہ لیا اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔
Post Views: 4