سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع، ثمرات سے بھرپور لیکن خدشات سے گھرا ہوا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
گزشتہ روز پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی، اُس میں کہا گیا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا اقتصادی راہداری کے منصوبے میں افغانستان کو شامل کیا جائے گا۔
آج پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ سی پیک ٹو منصوبے کو افغانستان تک توسیع دی جائے گی۔
اس سلسلے میں ازبکستان پاکستان کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کے عمل کی دستاویزی تیاریاں مکمل ہو چُکی ہیں۔ یہ ریلوے لائن ازبکستان سے بذریعہ افغانستان خرلاچی بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہو گی اور چین نے اس منصوبے کو فنانس کرنے کا اُصولی فیصلہ کیا ہے۔
وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے یہ بھی بتایا کہ پشاور سے کابل ایک ہائی وے بھی تعمیر کی جائے گی اور اس طرح سے ان 2 منصوبوں کے ذریعے سے وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور گوادر اور کراچی کی بندرگاہیں جو اپنی صلاحیت سے بہت کم استعمال ہو رہی ہیں جب وہ مکمل صلاحیت کے ساتھ استعمال ہوں گی تو ملک میں معاشی انقلاب آئے گا۔
علاقائی مربوط نظاماسحاق ڈار نے بتایا کہ علاقائی مربوط نظام کے ذریعے سے ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر سارک ممالک چین کے ساتھ جُڑ جائیں تو بہت بڑا انقلاب آ سکتا ہے لیکن سارک ممالک میں بھارت کے روّیے کی وجہ سے یہ تنظیم چل نہیں سکی۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس سے اُس کا کوئی ہمسائیہ بھی خوش نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان کے راستے جب تمام وسط ایشیائی ممالک جڑ جائیں گے تو اس سے خطّے میں ترقی کی نئی منزلیں طے ہوں گی۔
سی پیک ٹو منصوبہ کیا ہے؟سی پیک ون منصوبے میں زیادہ تر توانائی کے پلانٹس لگائے گئے تھے اور اب سی پیک ٹو منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ سی پیک ٹو کے منصوبے میں کراچی تا پشاور ریلوے لائن منصوبہ ایم ایل ون شامل ہے جس کے بارے میں اسحاق ڈار نے بتایا کہ اس منصوبے کے بارے میں اُن کے چینی حکومت کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ سی پیک ٹو میں پشاور سے کابل ہائی وے کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ قراقرم ہائی وے جو پاکستان اور چین کو جوڑتی ہے اُس کی تعمیر نو یا ری الائنمنٹ بھی سی پیک ٹو میں کی جائے گی۔
اس کے علاوہ سی پیک ٹو میں دیگر ہائی ویز اور بندرگاہوں کی تعمیر و تکمیل کے منصوبے شامل ہیں۔ مانسہرہ سے چلاس 235 کلومیٹر روڈ اور گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن شامل ہے جس کے بعد یہ کراچی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ بھی تجارت کا اہم مرکز بن جائے گی۔
سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع کے اثراتپاکستانی وزارت خارجہ اور چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیانات کے روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سہ فریقی مذاکرات انتہائی کامیاب رہے اور اس میں افغانستان کی جانب سے خواہ وہ بیرونی مداخلت کے خلاف بند باندھنے کی بات ہو، سفارتی تعلقات کو وسعت دینے کی بات ہو، دہشتگردی کے خلاف جنگ یا تجارت بڑھانے کی بات ان تمام باتوں سے افغان حکام نے مکمل اتفاق کیا ہے اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
گزشتہ روز وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ اُن کے 19 اپریل کے دورے کے بعد جو اعلانات کئے گئے تھے اُن سب پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ ہم پر الزام لگتا ہے کہ ہم عمل درآمد میں سست ہیں لیکن ہم نے اب تک جو بھی وعدے کیے تھے وہ سب کے سب پورے کر دیے ہیں۔
افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے سی پیک ٹو کی افغانستان تک وسعت کا خیر مقدم کیا ہے۔ حالیہ پاک چین افغان مذاکرات کے دوران افغانستان نے یقین دہانی کروائی کہ افغانستان دہشتگرد تنظیموں جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان اور چین کے خلاف مشرقی ترکستان جیسی تنظیموں کو افغان سر زمین کے استعمال سے روک دے گا۔
افغانستان کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟سی پیک ٹو کی افغان وسعت کے ذریعے سے افغانستان کا تجارتی سامان گوادر بندرگارہ کے ذریعے عالمی منڈیوں تک پہنچ پائے گا۔ خاص طور پر افغانستان میں پائی جانے والی معدنیات دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ پائیں گی اور وسطی ایشیاء سے جُڑنے کے باعث افغانستان خطّے میں تجارت کا مرکز بن جائے گا۔ افغانستان کی چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ نے بھی سی پیک کی توسیع کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے معدنی وسائل جیسے لیتھیم اور نایاب زمینی عناصر کی کان کنی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، جو جنگ سے تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے
سی پیک ٹو افغان توسیع کے لیے چیلنجزبھارتی اثر و رسوخ میں کمی
سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع کو سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس سے افغانستان سے بھارت کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔ پہلگام واقعے کے بعد افغان طالبان حکومت پر الزامات لگے کہ وہ شاید خفیہ طور پر بھارت کا ساتھ دے رہے تھے لیکن سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کا نقطہ نظر واضح طور پر کھل کر سامنے آیا۔ افغانستان نے پاکستان اور چین کے ساتھ اقتصادی راہداری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ اس بات کو لے کر بھارت کی جانب سے واضح ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
بھارت شروع دن سے سی پیک کی مخالفت اس بناء پر کر رہا ہے کیونکہ اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ گلگت بلتستان کے علاقے سے گزرے گا جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت چین کے اس منصوبے میں دیگر ممالک کی شرکت کی بھی مخالفت کرتا رہا ہے۔ پہلگام واقعہ کی افغانستان نے نہ صرف واقعے کی مذمت کی بلکہ پاکستان کے اس دعوے کی نفی بھی کی کہ بھارت کی جانب سے افغانستان پر میزائل فائر کیا گیا ہے۔ اس بات کی وجہ سے بھارتی حکومت نے افغانستان کی تعریف کی لیکن اب بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کا پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ سرحدی تنازعہ ہے اور افغانستان کی سی پیک میں شمولیت بھارت کے لیے خطرہ ہے۔
سکیورٹی خدشات
گو کہ افغانستان نے دہشتگردی کے خلاف عزم ظاہر کیا ہے لیکن اس بات کو لے کر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ آیا افغانستان میں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے صلاحیت موجود ہے یا نہیں؟ اور کیا وہ افغانستان کے اندر موجود کئی دیگر دہشتگردی تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟
سیاسی عدم استحکام
اب تک دنیا کے بیشتر ممالک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ چیز سی پیک ٹو کی افغان توسیع کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔
افغان اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان حکومت بالکل نہیں چاہے گی کہ وہ تنہا ہو جائے جس سے اُس کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔ گزشتہ مہینوں میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کو بند کیا تو اُس سے دونوں ملکوں کا کافی تجارتی نقصان ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ چین اس خطّے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے اور استحکام کے لیے امن ضروری ہے۔ چین کو گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ پاکستان کے شمال سے خیبرپُختونخوا سے ہوتا ہوا بلوچستان سے گزرتا ہے اور یہ علاقہ امن و امان کے مسائل کا گڑھ ہے اور چین بطور ایک سہولت کار کام کر رہا ہے کیونکہ اُس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔ دوسرا یہ کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی راستے افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں تو چین اس خطّے میں امن امان کے لیے مخلص ہے۔
فخر کاکاخیل نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کو سمجھ آ چُکی ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اور اب ان 3 ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے حوالے سے بہتر سوجھ آ چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان تک توسیع خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستان اور چین افغانستان کی افغانستان نے پاکستان کے کی جانب سے کے درمیان سے افغان کہ افغان کے ذریعے جائے گی کے ساتھ کے خلاف جائے گا ہے اور کیا ہے کہا کہ اس بات کے بعد رہا ہے چین کے کے لیے
پڑھیں:
جنگ میں اسرائیل نے انڈیا کی بھرپور مدد کی، وزیراعظم: بچوں پر حملہ بھارتی سرپرستی میں ہوا، فیلڈ مارشل، کوئٹہ میں زخمیوں کی عیادت
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آگئے۔ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز میں اتفاق ہوگیا ہے۔ بھارت سے جب بھی مذاکرات ہوئے کشمیر، پانی، دہشتگردی اور تجارت پر بات ہوگی۔ سینئر صحافیوں سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کسی بھی تیسرے ملک کی مذاکرات میں شرکت پر آمادہ نہیں۔ جب بھی مذاکرات ہوں گے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم او بات کریں گے۔ جنگ مستقل حل نہیں دیرپا امن ہی محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے 4 اہم نکات شامل ہوں گے۔ بھارت سے کشمیر، پانی، دہشتگردی اور تجارت پر بات ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ مکمل حکومت کا ہے، فوج کا نہیں۔ میرا فیصلہ تھا۔ نواز شریف سے مشاورت کرتا ہوں۔ سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کے فیصلے میں نواز شریف کی مشاورت شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے دوران اسرائیل نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ اسرائیل کے ہتھیار اور فوجی ایڈوائزر بھارت کی مدد کر رہے تھے۔ جنگ سے قبل اسرائیل کے ڈیڑھ سو تربیت یافتہ لوگ بھارت پہنچے۔ سری نگر اور دیگر مقامات پر بھارت نے اسرائیلی ہتھیار استعمال کئے۔ اور اس کے شواہد موجود ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کالعدم بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ بھارتی دہشتگردی کے ثبوت پوری دنیا کے سامنے رکھیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ چین، ترکیہ اور دیگر دوست ممالک نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے لئے سعودی عرب اور یو اے ای میں سے کسی ایک مقام کا تعین کریں گے۔ مذاکرات کے دوران امریکہ کا دباؤ بنیادی کردار ادا کرے گا۔ اسرائیل نے جنگ کے دوران بھارت کی بھرپور مدد کی لیکن ہم نے فتح پائی۔ مذاکرات میں مشیر قومی سلامتی و ڈی جی آئی ایس آئی پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ بھارت خود کو علاقے کا ایس ایچ او سمجھتا تھا، ہم نے اس کا غرور توڑا۔ ہم علاقے میں امن چاہتے تھے اور اس جنگ کی آگ کو بڑھانا نہیں چاہتے تھے جس کی وجہ سے ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ ہم ان کے پرخچے اڑا سکتے تھے۔ آج بھی ہم نے چینی ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہم دنیا بھر میں چین کی مارکیٹنگ کنٹری بن گئے ہیں۔ چین ہمارے ساتھ مکمل طور پر کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے کچھ لوگوں نے بھارتی چینلز پر بیٹھ کر جو گفتگو کی ہے، اس کے بعد کیا ہم یہ رسک لے سکتے ہیں کہ ان کو ایسے مذاکرات میں لے جا کر بٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، یہ اللہ جانتا ہے۔ ہم صرف اپناکام کرتے ہیں۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے خضدار سکول میں بس پر بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشتگردوں کے بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے سکول بس پر حملہ کرکے درندگی کی تمام حدیں پار کیں۔ بھارتی سرپرستی میں پلنے والے ان دہشتگردوں کو ان کے انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے دہشتگرد حملے میں معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کی شہادت پر رنج و ملال کا اظہار کیا اور بچوں کے والدین کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے ذمہ داران کے فوری تعین اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا بھارت کے 6 طیارے، متعدد ڈرونز گرائے۔ یہ ہمارا ماسٹر سٹروک تھا۔ چاہتے ہیں خوشحالی اور دفاع ساتھ ساتھ چلیں۔ صحافیوں نے سوال کیا آپ کیا بنے ہوئے ہیں۔ ہنستے جواب دیا مجھے پولیٹیکل فیلڈ مارشل کہہ لیں۔ پی ٹی آئی کو مذاکرات میں بٹھا کر رسک نہیں لے سکتے۔ جب بھی دہشتگردی سے متعلق مذاکرات ہوئے قومی سلامتی کے مشیر کریں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ یہ خام خیالی ہوگی کہ ہم معاملات دوطرفہ مذاکرات میں حل کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای دباؤ ڈال سکتے ہیں اور امریکا سب سے زیادہ دباؤڈال سکتا ہے۔ ایجنڈا لایا جائے، باقاعدہ پلان کرکے بات چیت کریں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر، پانی، تجارت اور دہشتگردی پر بات ہونی چاہئے۔ ہم ان کی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو یہاں ہمار ی حراست میں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری پالیسی بالکل واضح ہے۔ ہم کسی قسم کی دہشتگردی میں ملوث نہیں ہیں اور نہ ہوں گے، ہم خطے کے امن واقتصادی خوشحالی کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ صحافیوں نے سوال کیا کہ مسلم لیگ ن ماضی میں آرمی چیف کو ایکسٹیشن نہیں دیتی تھی اب کیا ہوگا۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ آرمی چیف نے عزت کمائی ہے، پرانی سکور سیٹنگ چھوڑ دیں، ہم آج کے حالات میں چل رہے ہیں۔ ہم بالکل کلیئر ہیں کہ ہم نے ماضی کے جھروکوں میں نہیں جانا، آج مقام شکر ہے پوری قوم کی خوشی ہے اس کو قبول کرنا چاہئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایئر مارشل ظہیر بابر اور نیول چیف نے بھی بہترین کام کیا، ایئر مارشل ظہیر بابر نے بہترین منصوبہ بندی کی۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ ہم ان کو ایکسٹیشن دیں گے۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے ساتھ ہم کھڑے ہیں اورکھڑے رہیں گے، سیز فائر کے بعد بھارت نے بلاری ایئر بیس پر میزائل داغا جو کہ زیادتی تھی۔ لیکن ہم نے بھرپور جواب دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امن وامان قائم رکھنا صوبائی مسئلہ ہے، خیبرپی کے کیلئے 800ارب روپے کا بجٹ مختص تھا جس میں سے 600ارب روپے انہیں جاری بھی کئے گئے، کے پی حکومت نے خطیر رقم ملنے کے باوجود انسداد دہشتگردی کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا اور یہاں تک کہ کاؤنٹر ٹیررازم کے دفاتر بھی قائم نہیں کئے۔ وزیراعظم کو جنگ جیتنے پر سینئر صحافیوں نے مبارک باد دی۔ دریں اثناء وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کی پائیدار ترقی کیلئے تعمیراتی شعبے کی ترقی کلیدی اہمیت کی حامل ہے، کم لاگت رہائشی منصوبوں کی فنانسنگ کی سفارشات کو بجٹ تجاویز کا حصہ بنایا جائے۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت گزشتہ روز کم لاگت رہائشی منصوبوں کیلئے قائم کردہ ٹاسک فورس کا جائزہ اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کم لاگت ہاؤسنگ منصوبوں سے گھروں کے حصول میں آسانی پیدا کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ٹاسک فورس وزارت خزانہ اور بینکوں کے ساتھ مل کر کم لاگت رہائشی منصوبوں کی فنانسنگ کے حوالے سے سفارشات جلد پیش کرے جسے بجٹ تجاویز کا حصہ بنایا جائے۔ ادھر وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور خضدار دھماکے میں زخمی ہونے والے سکول کے بچوں کی عیادت کی۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے وزیر اعظم، آرمی چیف نے زخمیوں کی عیادت کی۔ اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر اطلاعات عطاء تارڑ اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی ہمراہ تھے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بچوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سکول جانے والے بچوں پر یہ دہشت گردانہ حملہ انتہائی شرم ناک ہے، بھارت نے شکست کے بعد یہ بزدلانہ شرم ناک حملہ کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری سکول کے بچوں پر کئے جانے والے بزدلانہ حملہ کا نوٹس لے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پوری قوم دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایسے بزدلانہ حملوں سے بلوچوں اور پٹھانوں کے حوصلے پست نہیں کئے جاسکتے۔ کور کمانڈر بلوچستان نے وزیراعظم، آرمی چیف اور وفد کو بزدلانہ حملہ کے بارے میں مفصل بریفنگ دی۔ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارتی دہشت گردی تنظیم فتح الہندوستان بھارت سرکار کی حمایت یافتہ نے بزدلانہ دہشت گرد حملہ کیا۔ جس میں تین معصوم طلباء اور دو جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ دہشتگرد حملے میں 39بچوں سمیت 53 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 8 کی حالت تشویشناک ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلوچ و پشتون عوام نے دہشتگردی کو مسترد کر دیا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ دہشتگردوں کو جلد انجام تک پہنچایا جائے گا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ بچوں پر حملہ بھارتی سرپرستی میں کیا گیا۔ بھارت کی ریاستی پالیسی کے تحت پراکسیز کا استعمال قابل مذمت ہے۔ اس موقع پر موجود وفاقی وزراء نے کہا کہ بھارت خطے میں عدم استحکام کا مرکز بن چکا ہے اور اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ وفاقی وزراء نے کہا کہ دہشتگردی کے سہولت کاروں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قوم فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پوری قوت سے کھڑی ہے۔ قوم دہشتگردی کے خاتمے، ملکی خود مختاری و سلامتی کے تحفظ کیلئے متحد ہے۔ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ وقت آ گیا ہے قوم وہی پختہ عزم دکھائے جو بھارتی جارحیت کیخلاف دکھایا گیا۔ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل نے عزم کا اظہار کیا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کو منطقی اور فیصلہ کن انجام تک پہنچایا جائے گا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پوری قوم دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لئے اپنی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پرعزم انداز میں شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات اور چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے خضدار میں ہولناک حملے میں زخمی ہونے والے بچوں اور دیگر متاثرین کی عیادت کے لئے کوئٹہ کا دورہ کیا۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق دہشت گردی کی ایک قابل مذمت اور بزدلانہ کارروائی میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں معصوم بچوں کو لے جانے والی سکول بس کو بھارت کے ریاستی سرپرستوں (فتنہ الہندوستان) نے نشانہ بنایا جسے دنیا بڑی حد تک خطے میں عدم استحکام کے مرکز کے طور پر جان چکی ہے۔ فوجی ذرائع سے پاکستان کو مرعوب کرنے میں صریح ناکامی کے بعد دہشت گردی کے گھناؤنے واقعات کو ان کی پراکسیز کے ذریعے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر منظم کیا جا رہا ہے، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام کوشش میں جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور کمانڈر کوئٹہ نے ان کو اس اندوہناک واقعہ کے بارے میں بتایا جس میں تین معصوم بچے اور دو فوجی جوان شہید اور 39 معصوم بچوں سمیت 53 زخمی ہوئے جن میں سے 8 کی حالت نازک ہے۔ وزیراعظم، وفاقی وزراء اور فیلڈ مارشل نے معصوم جانوں کے ضیاع اور سکول جانے والے معصوم بچوں کے زخمی ہونے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے شدید زخمی بچوں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ ان بھارتی حمایت یافتہ پراکسیز کے ذریعے دہشت گردی کی ایسی شیطانی کارروائی شرمناک اور قابل نفرت ہے۔ نسلی بنیادوں کی آڑ میں چھپے ہوئے ان دہشت گرد گروہوں کو بھارت کی طرف سے نہ صرف ریاستی پالیسی کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ یہ بلوچ اور پشتون عوام کی عزت اور اقدار پر بھی دھبہ ہیں، ایسے اخلاقی طور پر ناقابل دفاع ہتھکنڈوں پر ہندوستان کا انحصار خاص طور پر بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا، بین الاقوامی برادری سے فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی دوٹوک الفاظ میں مذمت اور اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وحشیانہ فعل میں ملوث تمام افراد کا آخری حد تک پیچھا کریں گے۔ اس جرم کے منصوبہ سازوں، اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ہندوستان کے مکار کردار جو دہشت گردی کا ایک حقیقی مرتکب ہے لیکن خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس بات کو اجاگر کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ قوم غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی اور فیصلہ کن انجام تک پہنچانے کے لئے ہندوستان کی جارحیت کے خلاف حال ہی میں ظاہر کئے گئے مضبوط عزم کا مظاہرہ کرے۔