وی نیوز کے قارئین کے ساتھ پچھلی نشست میں بات ہوئی تھی کہ بچوں کو کتابیں کیسے پڑھائی جائیں اور کتابوں کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ بچوں کے لیے ادب لکھے جانے اور لائبریریاں بنانے کی اہمیت کا تذکرہ بھی ہوا۔
ایک سوال جو مجھے، آپ کو، ہم سب کو درپیش ہے کہ مطالعہ کی عادت کیسے ڈالی جائے؟ یہ اب صرف بچوں کا معاملہ نہیں بلکہ بڑوں کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دائیں بائیں کے بہت سے لوگ جو مطالعہ کے شائق تھے، باقاعدگی سے کتابیں پڑھا کرتے تھے، اب وہ شکوہ کرتے ہیں کہ کئی کئی ماہ کتاب کو ہاتھ نہیں لگا پارہے۔ ہمارے عزیزوں میں سے بھی وہ خواتین جو اپنے مطالعہ کا فخر سے ذکر کرتی تھیں، اب وہ کتاب سے دور ہوگئیں۔ وجہ یہی ہے کہ ان کے کئی گھنٹے اسکرین ٹائم کی نذر ہوجاتے ہیں۔
پہلے ٹی وی وقت لیا کرتا تھا، اب اکثر نے وہ وقت موبائل کو دے دیا ہے۔ نیٹ فلیکس وغیرہ پر کوئی فلم یا سیزن دیکھنا تو دور کی بات ہے، اس کا شاید کوئی تھوڑا بہت جواز بھی بن سکے، مگر زیادہ تر تو فیس بک ریلز، یوٹیوب شارٹس اور ٹک ٹاک ویڈیوز میں اپنا وقت برباد کررہے ہیں۔ سستی عامیانہ انٹرٹینمنٹ 3، 4 گھنٹے یوں اڑ گئے جیسے چند منٹ گزرے ہوں۔ پوچھا جائے تو کوئی بھی تاثر ذہن پر نہیں ہوتا۔ کچھ بھی یاد نہیں، سب کچھ مکس ہوجاتا ہے۔ الٹا میموری بُری طرح متاثر ہورہی۔
سب سے خطرناک یہ کہ توجہ اور ارتکاز کم ہوگیا ہے،انگریزی میں جسے اٹینشن اسپین کہتے ہیں وہ بہت کم رہ گیا ہے۔ چند منٹ سے زیادہ آپ فوکس نہیں کر پاتے۔ عادت ہوجاتی ہے ایک دو منٹ کی ویڈیو دیکھنے کی اور پھر کوئی بہت اچھی معلوماتی مگر قدرے طویل ویڈیو بھی نہیں دیکھی جاسکتی۔ میرے اپنے ساتھ یہ ہوا ہے کہ کئی فلمیں 10، 15 منٹ کے بعد چھوڑ دیں۔ حالانکہ پہلے اچھی خاصی سلو موویز بھی دیکھ لیتے تھے۔
اس فضول سے لایعنی چکر سے نکلنا چاہیے۔ طریقہ تو ایک ہی ہے، ضبط نفس۔ اپنے اوپر جبر کرکے اپنا فوکس اور ارتکاز بہتر کرنا۔ اگر ممکن ہو تو ٹک ٹاک اپنے موبائل فون سے ڈیلیٹ ہی کردیجیے۔ میرے موبائل میں یہ نہیں۔ پھر ہر روز نہ سہی تو کسی روز یہ طے کرلیں کہ آج فیس بک پر ریلز نہیں دیکھنی، یوٹیوب شارٹس نہیں دیکھنے۔ کچھ طویل اور زیادہ مفید دیکھیں۔ بے شک انٹرٹینمنٹ کے لیے فلم ہی دیکھیں، مگر چھان پھٹک کرکے کوئی اچھی معیاری فلم یا ڈرامے کا انتخاب کریں، جو آپ کے ذہن کو فریش کردے، اس پر کچھ مثبت نقوش بھی چھوڑے۔
اس سے بھی زیادہ اپنے آپ کو پھر سے کتاب کی طرف لائیں۔ اگر آپ کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے تو ابتدا کسی ہلکی پھلکی کتاب سے کریں۔ اپنے آپ سے عہد کریں کہ ایک گھنٹہ روزانہ پڑھنا ہے۔ کسی کتاب کو پڑھیں، بے شک ہارڈ کاپی ہو یا ڈیجیٹل کاپی۔ ای بک یا پی ڈی ایف پڑھنے کے لیے مگر فون کے بجائے لیپ ٹاپ کا انتخاب کریں اور نیٹ آف ہی رکھیں تاکہ توجہ ادھر ادھر نہ بھٹکے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ فیس بک پوسٹ یا واٹس ایپ اسٹیٹس پڑھنا اصل مطالعہ نہیں۔ اس کی بھی افادیت ہے، خاص کر اگر آپ نے فیس بک پر اچھے لکھنے والوں کو فالو کر رکھا ہے، مگر بہرحال کتاب کی اپنی اور مرکزی اہمیت ہے۔ اس میں زیادہ گہرائی، زیادہ معلومات ہے اور یہ آپ کے دماغ کو زیادہ کچھ فراہم کرسکتی ہے۔ فکشن پڑھیں یا نان فکشن، مجھے اس سے مسئلہ نہیں۔ مطالعے سے بس جڑے رہیں، یہ اہم ہے۔
دو اور باتیں بھی یاد رکھیں۔ پہلی یہ کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف جسمانی مسلز کمزور پڑتے ہیں بلکہ اگر دماغ کو متحرک، فعال اور تیز نہ بنایا جائے تو یہاں بھی بہت کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بہتر مطالعے کی عادت ہے۔ کتابیں آپ کو نئے جہانوں کی سیر کراتی ہیں، نئی معلومات، چیزوں کو دیکھنے کے نئے زاویے ملتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو اپنے روایتی موضوعات میں نئے کا اضافہ کریں۔ اپنی دلچسپیاں بڑھائیں۔ نئے شعبے کا رخ کریں۔ کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔
دوسرا یہ کہ اپنی یادداشت کو بھی بہتر کرتے رہیں۔ اسکرین ٹائم اور کم دورانیے کی ریلز، شارٹس وغیرہ کی بمباری کا سب سے زیادہ نقصان ہماری میموری کو پہنچا ہے۔ اوپر سے موبائل فون کی وجہ سے ہم نے فون نمبرز تک یاد رکھنے چھوڑ دیے ہیں۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو اپنے بیشتر دوستوں کے فون نمبرز یاد نہیں ہوں گے، ایسا کرنے کی اب کوئی زحمت ہی نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ تجربے کے طور پر اپنے قریبی عزیزوں اور احباب کے 10 فون نمبرز تو یاد کرلیں۔ طے کرلیں کہ آئندہ انہیں کانٹیکٹس سے دیکھ کر سلیکٹ کرنے کے بجائے زبانی نمبر ملائیں گے۔ آپ کے دماغ کے یادداشت سیلز میں کچھ تو نیا جائے۔
میں اپنی فیس بک وال پر مسنون دعائیں شیئر کرتا رہتا ہوں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ کچھ اچھی دعائیں دوسروں تک پہنچیں اور یہ بھی کہ میرے ریکارڈ میں آجائے تاکہ وقت ضرورت میں اسے پھر سے پڑھ سکوں۔ اب میں نے سوچا ہے کہ بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان دعاؤں کو یاد کیا جائے۔ کورونا کے دنوں میں 4، 5 دعائیں یاد کی تھیں، حفاظت اور بیماریوں سے بچاؤ وغیرہ کی دعائیں۔ صبح شام پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرز پر کئی اور عمدہ دعائیں یاد کی جاسکتی ہیں۔ کوشش کریں تو نئی سورتیں بھی یاد کرلیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ تھوڑی سی محنت سے لوگ سورۃ یٰسین، رحمان، ملک وغیرہ یاد کرلیتے ہیں۔ یہ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن فہمی بہت ضروری ہے، قرآن کو سمجھیں، اس پر غور کریں، لیکن اگر اس کے ساتھ اللہ کا نور آپ کے سینے میں محفوظ ہوجائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔
بات کتابوں سے شروع ہوئی تھی۔ اپنے بچوں کو بھی کتابوں کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھا کریں۔ ایک کیلنڈر سا بنا لیں کہ ہفتے میں اتنا وقت پڑھنا ہے، فلاں کتاب ایک ہفتے یا 10 دن یا بے شک ایک مہینے میں پڑھنی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول انہوں نے اپنے گھر میں کچھ وقت مختص کیا ہوا ہے کہ یہ ہمارا ریڈنگ ٹائم ہے۔ عام طور سے ایسا رات ہی کو ہوپاتا ہے، اس وقت میاں بیوی اور ان کے تمام بچے بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پڑھیں گے۔ بچے اپنی اسکول کی پڑھائی کریں یا کوئی فکشن کی کتاب پڑھیں، ماں باپ جو چاہے پڑھیں، مگر اس وقت کچھ اور نہیں ہوگا۔
یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ اپنے حالات کے مطابق اسے ترمیم و اضافے کے ساتھ لاگو کرکے دیکھیں۔ ہم تو خود سوچتے رہتے ہیں کہ چھوٹے بیٹے کو کتابوں کی طرف کیسے لایا جائے۔ آج صبح میری اہلیہ نے اطلاع دی کہ وہ ’دراز‘ سے عبداللہ کے فیورٹ مصنف رولڈ ڈاہل کی 3 کتابیں منگوا رہی ہیں۔ عبداللہ نے ہی وہ کتابیں پسند کی ہیں۔ یہ طے ہوچکا ہے کہ ہفتے کے بعض دن ’سکرین لیس‘ ہوں گے جن میں اسے ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ یا اپنے ٹیبلٹ تک رسائی نہیں ہوگی بلکہ ایک یا 2 دن تو ایسے ہوں گے کہ ٹی وی پر کارٹون بھی نہیں۔ اسے جو بھی انٹرٹینمنٹ حاصل کرنا ہے وہ کتاب کے ذریعے کرے۔ اہلیہ نے تو ویسے یہ بھی فیصلہ کیا کہ انڈور گیمز کا رجحان بھی ختم ہورہا ہے اور بہن بھائیوں کو آپس میں مل کر کیرم بورڈ، چیس وغیرہ کھیلنا چاہیے۔ لڈو بھی ایک فیملی گیم بن جاتی ہے جب اماں کے ساتھ بچے کھیلتے اور انہیں ہرانے کے لیے نت نئی چالیں بلکہ ہوشیاریاں سوچتے ہیں۔
سب باتوں کا نچوڑ پھر وہی ہے کہ کتابوں کی طرف لوٹیں۔ بے شک کتاب خرید کر پڑھیں یا کسی ڈیجیٹل لائبریری سے استفادہ کریں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ سب باتیں اوور ریٹڈ لگتی ہیں کہ کتاب کا لمس ہوتا ہے، اس کی خوشبو ہوتی ہے، ویسے مزا نہیں آتا، وغیرہ وغیرہ۔ ہوتا ہوگا بھئی، جسے ایسا رومانس ہے وہ کتاب کی ہارڈ کاپی استعمال کرے۔ میں تو ڈیجیٹل کتابیں بھی آرام سے پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے ریختہ سے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ اشرف شاد کے 2، 3 ناول (وزیراعظم، جج صآحب، صدر محترم وغیرہ) وہاں سے پڑھے اور بھی بہت کچھ۔ ایک بار کہیں سے سید سلمان ندوی کی پرانی کتابوں کی پی ڈی ایف مل گئیں، میں نے کئی کتابیں وہاں سے پڑھیں۔ میں کئی واٹس ایپ گروپوں کا رکن ہوں جہاں ایسی پی ڈی ایف مل جاتی ہیں۔ نئی کتابوں کی پی ڈی ایف کا میں مخالف ہوں، مگر پرانی، خاص کر جو آؤٹ آف پرنٹ کتابیں ہیں یا پھر باہر سے چھپنی والی جو پاکستان کئی برسوں بعد پہنچتی ہیں، انہیں پڑھنے کے لیےای بک بہترین آپشن ہے۔
میں ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ پر پڑھتا ہوں، البتہ اب سوچ رہا ہوں کہ اس کے لیے ٹیبلٹ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بک ریڈر بھی استعمال کرسکتے ہیں، پاکستان میں معلوم نہیں کتنے کا ملتا ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تو یہ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ بہترین قسم کے بک ریڈرز گیجٹ مل جاتے ہیں۔ وہ کتاب کی شکل کے ہیں، صفحہ پلٹاؤ تو ویسا تاثر بھی ملتا ہے، پڑھنا بھی آسان ہے، لیٹ کر بھی پڑھ سکتے ہیں۔
یکم جولائی میری سالگرہ تھی، اس دن یہ عہد کیا کہ ان شااللہ زندگی کے اس نئے سال میں کتابیں زیادہ پڑھنی ہیں۔ ہفتہ وار، ماہانہ، سہہ ماہی کے اہداف رکھے ہیں۔ آپ لوگ اپنی ترجیحات، پسند ناپسند، مزاج کے مطابق ایسے اہداف بنا کر دوبارہ سے کتاب کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ آپ گھر میں کتاب پڑھیں گے تو بچے بھی اس جانب راغب ہوں گے۔
بچوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دیں، گیجٹس پر پابندی لگائیں، جرمانے لگائیں اور کسی نہ کسی طرح کتاب پڑھوائیں۔ اپنی زندگیوں کو بہتر کرنے اور فکری ارتقا کا کتاب سے بہتر نسخہ تاریخ انسانی میں ابھی تک نہیں ملا۔ اسے آزمائیے۔ ہر دور میں ایسا کرنے والے فائدے میں رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کتابوں کی پی ڈی ایف کے ساتھ وہ کتاب بھی یاد کتاب کی کی عادت کے لیے فیس بک کی طرف ہوں گے
پڑھیں:
کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
اسلام ٹائمز: محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔ واقعہ نگار: آغا زمانی
سکردو کی روح پرور فضا میں اس دن ایک علمی و روحانی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ جامعۃ النجف کے وسیع و پرنور ہال میں اہلِ علم و دانش، طلاب، اساتذہ، ادبا اور محققین کا ایک خوبصورت اجتماع برپا تھا۔ ہر چہرے پر تجسس اور خوشی کی جھلک تھی، کیونکہ آج یہاں اس کتاب کی رونمائی ہونی تھی، جس نے دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں اپنا پیغام پھیلایا۔ اس کتاب کا نام ہے ''غدیر کا قرآنی تصور، تفاسیر اہلسنت کی روشنی میں۔'' یہ کتاب جو حجۃ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی فکری و قرآنی جستجو کا نچوڑ ہے، اپنی معنویت اور عالمگیر پیغام کی بدولت ایک تاریخی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کا سلیس اردو ترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے انجام دیا ہے، جس نے اسے اردو داں طبقے کے لیے ایک فکری ضیافت بنا دیا ہے۔
تقریب کا آغاز جامعۃ النجف کے گروہِ تلاوت نے نہایت خوش الحانی سے کلامِ ربانی کی تلاوت سے کیا۔ تلاوت کے بعد مشہور نعت خواں، فرزندِ قائد بلتستان (علامہ شیخ غلام محمد غروی رح) مولوی غلام رضا نے اپنی پراثر آواز میں بارگاہِ رسالت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے تو فضا درود و صلوات سے گونج اٹھی۔ پھر بلتستان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صابر نے کتاب پر اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ ان کے لہجے میں ایک محقق کا شعور اور مومن کا یقین جھلک رہا تھا۔ کہنے لگے: یہ کتاب محض ایک علمی تصنیف نہیں بلکہ انسانِ مومن کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ غدیر سے دوری دراصل نظامِ حیات سے دوری ہے اور پاکیزہ زندگی کا راز غدیر سے تمسک میں پوشیدہ ہے۔
اس کے بعد حجۃ الاسلام سید سجاد اطہر موسوی نے نہایت خوبصورت منظوم کلام کے ذریعے کتاب کے موضوع پر اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ ان کے اشعار نے فضا کو وجد و کیف سے بھر دیا۔ سابق سینیئر وزیر حاجی محمد اکبر تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی کی علمی کاوش قوم کے فکری سرمایہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کے بعد معروف ادیب اور تاریخ دان محمد حسن حسرت نے کتاب کے فکری پہلوؤں پر مدلل تبصرہ کیا اور اس کی تحقیقی گہرائی کو سراہا۔
اسی سلسلے میں معروف محقق محمد یوسف حسین آبادی نے واقعۂ غدیر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: غدیر کسی مخصوص دور کا پیغام نہیں بلکہ ہر زمانے کے انسان کے لیے ہدایت کا منشور ہے۔ تقریب کے روحانی اوج پر حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید محمد علی شاہ الموسوی فلسفی نے کتاب پر عالمانہ اور فلسفیانہ نقد پیش کیا۔ ان کی گفتگو علم و عرفان کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوئی۔
جامعۃ النجف کے استاد، برجستہ محقق اور معروف عالم دین شیخ سجاد حسین مفتی نے کتاب پر نہایت دقیق، عمیق اور فکری تجزیہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو نے سامعین کو مسحور کر دیا اور ہال درود سے گونج اٹھا۔ یہ تقریب نہ صرف ایک کتاب کی رونمائی تھی بلکہ غدیر کے ابدی پیغام کی تجدیدِ عہد بھی تھی۔ علم و عشق کے سنگم پر سجی یہ محفل اس بات کا اعلان تھی کہ غدیر کی روشنی آج بھی انسانیت کو راستہ دکھا رہی ہے۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نمائندے محمد کاظم سلیم نے نہایت جامع اور مدلل انداز میں مختصر مگر پراثر خطاب کیا۔ ان کے چند الفاظ نے گویا محفل کے فکری رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا۔ اس کے بعد محفل کے صدر، نائب امام جمعہ مرکزی جامع مسجد سکردو اور صدر انجمنِ امامیہ بلتستان، حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید باقر الحسینی نے خطبۂ صدارت پیش کیا۔ ان کا لہجہ محبت، علم اور تقدیس سے لبریز تھا۔ انہوں نے فرمایا: علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی یہ تصنیف ایک علمی معجزہ ہے، جو قرآن اور ولایت کے رشتے کو واضح کرتی ہے۔ مترجم علامہ شیخ محمد علی توحیدی نے اسے جس فصاحت اور وضاحت سے پیش کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ آغا باقر الحسینی نے مؤلف، مترجم، تمام مبصرین اور شرکائے محفل کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ ان کی دعا کے ساتھ فضا میں سکون اور نورانیت کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
پھر اس علمی جشن کے مرکزی کردار، کتاب کے مصنف علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی ڈائس پر آئے۔ ان کے چہرے پر عاجزی اور شکر گزاری کی جھلک نمایاں تھی۔ مدبرانہ اور پرعزم لہجے میں فرمایا: اس کتاب کا مقصد صرف ایک علمی خدمت نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی ذمہ داری کا اعلان ہے۔ آٹھ ارب انسانوں تک پیغامِ غدیر پہنچانا ہم سب کا فریضہ ہے۔ یہ کتاب اسی مشن کا ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ انہوں نے تمام حاضرینِ محفل، علماء، دانشوروں اور منتظمین کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ پیغام جلد پوری دنیا میں عام ہوگا۔
اس کے بعد مترجمِ کتاب حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے پرشوق اور بصیرت افروز انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ ان کی گفتگو میں علم کا وقار اور ایمان کا جوش ایک ساتھ جھلک رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن اعلانِ ولایت کے فوراً بعد فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں، وہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچائیں۔ افسوس کہ ہم اس ذمہ داری میں کوتاہی کرتے آئے ہیں۔ اگر ہر غدیری فرد صرف تین افراد تک یہ پیغام پہنچاتا تو آج پوری دنیا غدیری ہوتی۔ ان کا یہ جملہ ہال میں گونجتا رہا۔ حاضرین نے تائید میں سر ہلائے۔ انہوں نے مزید کہا: آج میڈیا کے دور میں پیغامِ غدیر کی ترویج نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہے۔ اس کتاب کو کروڑوں کی تعداد میں شائع ہونا چاہیئے، تاکہ دنیا کے ہر کونے تک یہ نور پہنچے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے شیخ محمد اشرف مظہر نے انجام دیئے۔ ان کی سنجیدہ آواز اور متوازن گفتگو نے پورے پروگرام کو حسنِ ترتیب بخشا۔ محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔