WE News:
2025-07-08@15:37:59 GMT

مطالعے کی عادت کیسے ڈالی جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

وی نیوز کے قارئین کے ساتھ پچھلی نشست میں بات ہوئی تھی کہ بچوں کو کتابیں کیسے پڑھائی جائیں اور کتابوں کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ بچوں کے لیے ادب لکھے جانے اور لائبریریاں بنانے کی اہمیت کا تذکرہ بھی ہوا۔

ایک سوال جو مجھے، آپ کو، ہم سب کو درپیش ہے کہ مطالعہ کی عادت کیسے ڈالی جائے؟ یہ اب صرف بچوں کا معاملہ نہیں بلکہ بڑوں کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دائیں بائیں کے بہت سے لوگ جو مطالعہ کے شائق تھے، باقاعدگی سے کتابیں پڑھا کرتے تھے، اب وہ شکوہ کرتے ہیں کہ کئی کئی ماہ کتاب کو ہاتھ نہیں لگا پارہے۔ ہمارے عزیزوں میں سے بھی وہ خواتین جو اپنے مطالعہ کا فخر سے ذکر کرتی تھیں، اب وہ کتاب سے دور ہوگئیں۔ وجہ یہی ہے کہ ان کے کئی گھنٹے اسکرین ٹائم کی نذر ہوجاتے ہیں۔

پہلے ٹی وی وقت لیا کرتا تھا، اب اکثر نے وہ وقت موبائل کو دے دیا ہے۔  نیٹ فلیکس وغیرہ پر کوئی فلم یا سیزن دیکھنا تو دور کی بات ہے، اس کا شاید کوئی تھوڑا بہت جواز بھی بن سکے، مگر زیادہ تر تو فیس بک ریلز، یوٹیوب شارٹس اور ٹک ٹاک ویڈیوز میں اپنا وقت برباد کررہے ہیں۔ سستی عامیانہ انٹرٹینمنٹ 3، 4 گھنٹے یوں اڑ گئے جیسے چند منٹ گزرے ہوں۔ پوچھا جائے تو کوئی بھی تاثر ذہن پر نہیں ہوتا۔ کچھ بھی یاد نہیں، سب کچھ مکس ہوجاتا ہے۔ الٹا میموری بُری طرح متاثر ہورہی۔

سب سے خطرناک یہ کہ توجہ اور ارتکاز کم ہوگیا ہے،انگریزی میں جسے اٹینشن اسپین کہتے ہیں وہ بہت کم رہ گیا ہے۔ چند منٹ سے زیادہ آپ فوکس نہیں کر پاتے۔ عادت ہوجاتی ہے ایک دو منٹ کی ویڈیو دیکھنے کی اور پھر کوئی بہت اچھی معلوماتی مگر قدرے طویل ویڈیو بھی نہیں دیکھی جاسکتی۔ میرے اپنے ساتھ یہ ہوا ہے کہ کئی فلمیں 10، 15 منٹ کے بعد چھوڑ دیں۔ حالانکہ پہلے اچھی خاصی سلو موویز بھی دیکھ لیتے تھے۔

اس فضول سے لایعنی چکر سے نکلنا چاہیے۔ طریقہ تو ایک ہی ہے، ضبط نفس۔ اپنے اوپر جبر کرکے اپنا فوکس اور ارتکاز بہتر کرنا۔ اگر ممکن ہو تو ٹک ٹاک اپنے موبائل فون سے ڈیلیٹ ہی کردیجیے۔ میرے موبائل میں یہ نہیں۔ پھر ہر روز نہ سہی تو کسی روز یہ طے کرلیں کہ آج فیس بک پر ریلز نہیں دیکھنی، یوٹیوب شارٹس نہیں دیکھنے۔ کچھ طویل اور زیادہ مفید دیکھیں۔ بے شک انٹرٹینمنٹ کے لیے فلم ہی دیکھیں، مگر چھان پھٹک کرکے کوئی اچھی معیاری فلم یا ڈرامے کا انتخاب کریں، جو آپ کے ذہن کو فریش کردے، اس پر کچھ مثبت نقوش بھی چھوڑے۔

اس سے بھی زیادہ اپنے آپ کو پھر سے کتاب کی طرف لائیں۔ اگر آپ کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے تو ابتدا کسی ہلکی پھلکی کتاب سے کریں۔ اپنے آپ سے عہد کریں کہ ایک گھنٹہ روزانہ پڑھنا ہے۔ کسی کتاب کو پڑھیں، بے شک ہارڈ کاپی ہو یا ڈیجیٹل کاپی۔ ای بک یا پی ڈی ایف پڑھنے کے لیے مگر فون کے بجائے لیپ ٹاپ کا انتخاب کریں اور نیٹ آف ہی رکھیں تاکہ توجہ ادھر ادھر نہ بھٹکے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ فیس بک پوسٹ یا واٹس ایپ اسٹیٹس پڑھنا اصل مطالعہ نہیں۔ اس کی بھی افادیت ہے، خاص کر اگر آپ نے فیس بک پر اچھے لکھنے والوں کو فالو کر رکھا ہے، مگر بہرحال کتاب کی اپنی اور مرکزی اہمیت ہے۔ اس میں زیادہ گہرائی، زیادہ معلومات ہے اور یہ آپ کے دماغ کو زیادہ کچھ فراہم کرسکتی ہے۔ فکشن پڑھیں یا نان فکشن، مجھے اس سے مسئلہ نہیں۔ مطالعے سے بس جڑے رہیں، یہ اہم ہے۔

دو اور باتیں بھی یاد رکھیں۔ پہلی یہ کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف جسمانی مسلز کمزور پڑتے ہیں بلکہ اگر دماغ کو متحرک، فعال اور تیز نہ بنایا جائے تو یہاں بھی بہت کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بہتر مطالعے کی عادت ہے۔ کتابیں آپ کو نئے جہانوں کی سیر کراتی ہیں، نئی معلومات، چیزوں کو دیکھنے کے نئے زاویے ملتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو اپنے روایتی موضوعات میں نئے کا اضافہ کریں۔ اپنی دلچسپیاں بڑھائیں۔ نئے شعبے کا رخ کریں۔ کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔

دوسرا یہ کہ اپنی یادداشت کو بھی بہتر کرتے رہیں۔ اسکرین ٹائم اور کم دورانیے کی ریلز، شارٹس وغیرہ کی بمباری کا سب سے زیادہ نقصان ہماری میموری کو پہنچا ہے۔ اوپر سے موبائل فون کی وجہ سے ہم نے فون نمبرز تک یاد رکھنے چھوڑ دیے ہیں۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو اپنے بیشتر دوستوں کے فون نمبرز یاد نہیں ہوں گے، ایسا کرنے کی اب کوئی زحمت ہی نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ تجربے کے طور پر اپنے قریبی عزیزوں اور احباب کے 10 فون نمبرز تو یاد کرلیں۔ طے کرلیں کہ آئندہ انہیں کانٹیکٹس سے دیکھ کر سلیکٹ کرنے کے بجائے زبانی نمبر ملائیں گے۔ آپ کے دماغ کے یادداشت سیلز میں کچھ تو نیا جائے۔

میں اپنی فیس بک وال پر مسنون دعائیں شیئر کرتا رہتا ہوں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ کچھ اچھی دعائیں دوسروں تک پہنچیں اور یہ بھی کہ میرے ریکارڈ میں آجائے تاکہ وقت ضرورت میں اسے پھر سے پڑھ سکوں۔ اب میں نے سوچا ہے کہ بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان دعاؤں کو یاد کیا جائے۔ کورونا کے دنوں میں 4، 5 دعائیں یاد کی تھیں، حفاظت اور بیماریوں سے بچاؤ وغیرہ کی دعائیں۔ صبح شام پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرز پر کئی اور عمدہ دعائیں یاد کی جاسکتی ہیں۔ کوشش کریں تو نئی سورتیں بھی یاد کرلیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ تھوڑی سی محنت سے لوگ سورۃ یٰسین، رحمان، ملک وغیرہ یاد کرلیتے ہیں۔ یہ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن فہمی بہت ضروری ہے، قرآن کو سمجھیں، اس پر غور کریں، لیکن اگر اس کے ساتھ اللہ کا نور آپ کے سینے میں محفوظ ہوجائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔

بات کتابوں سے شروع ہوئی تھی۔ اپنے بچوں کو بھی کتابوں کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھا کریں۔ ایک کیلنڈر سا بنا لیں کہ ہفتے میں اتنا وقت پڑھنا ہے، فلاں کتاب ایک ہفتے یا 10 دن یا بے شک ایک مہینے میں پڑھنی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول انہوں نے اپنے گھر میں کچھ وقت مختص کیا ہوا ہے کہ یہ ہمارا ریڈنگ ٹائم ہے۔ عام طور سے ایسا رات ہی کو ہوپاتا ہے، اس وقت میاں بیوی اور ان کے تمام بچے بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پڑھیں گے۔ بچے اپنی اسکول کی پڑھائی کریں یا کوئی فکشن کی کتاب پڑھیں، ماں باپ جو چاہے پڑھیں، مگر اس وقت کچھ اور نہیں ہوگا۔

یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ اپنے حالات کے مطابق اسے ترمیم و اضافے کے ساتھ لاگو کرکے دیکھیں۔ ہم تو خود سوچتے رہتے ہیں کہ چھوٹے بیٹے کو کتابوں کی طرف کیسے لایا جائے۔ آج صبح میری اہلیہ نے اطلاع دی کہ وہ ’دراز‘ سے عبداللہ کے فیورٹ مصنف رولڈ ڈاہل کی 3 کتابیں منگوا رہی ہیں۔ عبداللہ نے ہی وہ کتابیں پسند کی ہیں۔ یہ طے ہوچکا ہے کہ ہفتے کے بعض دن ’سکرین لیس‘ ہوں گے جن میں اسے ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ یا اپنے ٹیبلٹ تک رسائی نہیں ہوگی بلکہ ایک یا 2 دن تو ایسے ہوں گے کہ ٹی وی پر کارٹون بھی نہیں۔ اسے جو بھی انٹرٹینمنٹ حاصل کرنا ہے وہ کتاب کے ذریعے کرے۔ اہلیہ نے تو ویسے یہ بھی فیصلہ کیا کہ انڈور گیمز کا رجحان بھی ختم ہورہا ہے اور بہن بھائیوں کو آپس میں مل کر کیرم بورڈ، چیس وغیرہ کھیلنا چاہیے۔ لڈو بھی ایک فیملی گیم بن جاتی ہے جب اماں کے ساتھ بچے کھیلتے اور انہیں ہرانے کے لیے نت نئی چالیں بلکہ ہوشیاریاں سوچتے ہیں۔

سب باتوں کا نچوڑ پھر وہی ہے کہ کتابوں کی طرف لوٹیں۔ بے شک کتاب خرید کر پڑھیں یا کسی ڈیجیٹل لائبریری سے استفادہ کریں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ سب باتیں اوور ریٹڈ لگتی ہیں کہ کتاب کا لمس ہوتا ہے، اس کی خوشبو ہوتی ہے، ویسے مزا نہیں آتا، وغیرہ وغیرہ۔ ہوتا ہوگا بھئی، جسے ایسا رومانس ہے وہ کتاب کی ہارڈ کاپی استعمال کرے۔ میں تو ڈیجیٹل کتابیں بھی آرام سے پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے ریختہ سے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ اشرف شاد کے 2، 3 ناول (وزیراعظم، جج صآحب، صدر محترم وغیرہ) وہاں سے پڑھے اور بھی بہت کچھ۔ ایک بار کہیں سے سید سلمان ندوی کی پرانی کتابوں کی پی ڈی ایف مل گئیں، میں نے کئی کتابیں وہاں سے پڑھیں۔ میں کئی واٹس ایپ گروپوں کا رکن ہوں جہاں ایسی پی ڈی ایف مل جاتی ہیں۔ نئی کتابوں کی پی ڈی ایف کا میں مخالف ہوں، مگر پرانی، خاص کر جو آؤٹ آف پرنٹ کتابیں ہیں یا پھر باہر سے چھپنی والی جو پاکستان کئی برسوں بعد پہنچتی ہیں، انہیں پڑھنے کے لیےای بک بہترین آپشن ہے۔

میں ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ پر پڑھتا ہوں، البتہ اب سوچ رہا ہوں کہ اس کے لیے ٹیبلٹ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بک ریڈر بھی استعمال کرسکتے ہیں، پاکستان میں معلوم نہیں کتنے کا ملتا ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تو یہ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ بہترین قسم کے بک ریڈرز گیجٹ مل جاتے ہیں۔ وہ کتاب کی شکل کے ہیں، صفحہ پلٹاؤ تو ویسا تاثر بھی ملتا ہے، پڑھنا بھی آسان ہے، لیٹ کر بھی پڑھ سکتے ہیں۔

یکم جولائی میری سالگرہ تھی، اس دن یہ عہد کیا کہ ان شااللہ زندگی کے اس نئے سال میں کتابیں زیادہ پڑھنی ہیں۔ ہفتہ وار، ماہانہ، سہہ ماہی کے اہداف رکھے ہیں۔ آپ لوگ اپنی ترجیحات، پسند ناپسند، مزاج کے مطابق ایسے اہداف بنا کر دوبارہ سے کتاب کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ آپ گھر میں کتاب پڑھیں گے تو بچے بھی اس جانب راغب ہوں گے۔

بچوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دیں، گیجٹس پر پابندی لگائیں، جرمانے لگائیں اور کسی نہ کسی طرح کتاب پڑھوائیں۔ اپنی زندگیوں کو بہتر کرنے اور فکری ارتقا کا کتاب سے بہتر نسخہ تاریخ انسانی میں ابھی تک نہیں ملا۔ اسے آزمائیے۔ ہر دور میں ایسا کرنے والے فائدے میں رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کتابوں کی پی ڈی ایف کے ساتھ وہ کتاب بھی یاد کتاب کی کی عادت کے لیے فیس بک کی طرف ہوں گے

پڑھیں:

کیا سعید غنی سے بھی استعفے کا مطالبہ کریں؟ نبیل گبول

نبیل گبول—فائل فوٹو

پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی نبیل گبول نے لیاری کے علاقے بغدادی میں عمارت گرنے کے واقعے کے ذمے داروں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں نبیل گبول نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) بدعنوان ادارہ ہے، ڈی جی ایس بی سی اے میرا فون تک نہیں اٹھاتے۔

کراچی: لیاری میں گرنیوالی عمارت میں ریسکیو آپریشن مکمل کر کے مشینری روانہ

کراچی کے علاقے لیاری میں گرنے والی عمارت میں ریسکیو آپریشن مکمل ہو گیا، جس کے بعد مشینری روانہ ہو گئی۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سعید غنی سے بھی استعفے کا مطالبہ کریں؟ کہا جاتا ہے کہ ایس بی سی اے کا ڈی جی ڈان ہے، اس کو کچھ کہیں گے تو اوپر سے فون آ جائے گا۔

پی پی رہنما نے کہا کہ یہ صرف معطل نہیں گرفتار ہونے چاہئیں، کل کے اجلاس میں آپ کو رزلٹ ملے گا، دو چار افسران کو میں نے ٹرانسفر بھی کرایا، وہ بلڈر سے پیسے لیتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ جب سے ایم این اے بنا ہوں کئی عمارتیں گروائیں، مگر 3 ماہ بعد یہ عمارتیں دوبارہ تعمیر ہو جاتی ہیں، لوگ غیر قانونی تعمیرات کی طرف کیوں جاتے ہیں؟ لوگوں کو شعور دینا ہے۔

نبیل گبول نے یہ بھی کہا کہ 122 عمارتوں کے خلاف کیسے آپریشن کریں گے، لوگوں کو گھروں سے نکالنا مذاق نہیں ہے، بہت بڑا آپریشن ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ یہ ویسا ہی آپریشن ہے جیسا کراچی میں گینگ وار کے خلاف کیا گیا تھا، تنظیموں میں کریمنلز کے خلاف 3 مہینےکا آپریشن کیا گیا تھا، اسی طرح کا آپریشن کرنا پڑے گا۔

پی پی کے رکنِ قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ کو علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے کو اختیار دینا ہو گا، بلڈر مافیا کے خلاف سندھ اسمبلی میں قانون سازی کریں گے، متاثرین کو معاوضہ ملنا چاہیے، ان کی بحالی کے اقدامات کرنا چاہئیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ 122 عمارتیں خالی کرا رہے ہیں، لوگ اسکول میں جانے کو تیار نہیں، ہمارے پاس دوسری جگہ نہیں۔

نبیل گبول نے کہا کہ 4 ملزمان کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں، 4 مرکزی ملزمان جو مافیا تھے بھاگ گئے ہیں، بھاگنے والے پی پی کے لیڈروں کا سہارا لیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سوالوں کا جواب لینے کے لیے کل اجلاس میں جا رہے ہیں، وزیرِاعلیٰ کے ساتھ کل کے اجلاس کے بعد ڈنڈا اٹھے گا۔

متعلقہ مضامین

  • سانپ زہریلا ہے یا نہیں،پہچان کیسے کریں؟
  • این ڈی ایم اے اور صوبائی ادارے فوری ایکشن میں آ جائیں، سیلابی خطرے پر تیاری مکمل رکھی جائے، وزیراعظم
  • اے سی میں ڈرائی موڈ کیا کام کرتا ہے اور یہ کیسے بجلی کا بِل کم کرسکتا ہے؟
  • سوال کیسے پوچھیں؟
  • جو ممالک برکس کی امریکہ مخالف پالیسیوں کی حمایت کریں گے ان پر 10 فیصد اضافی ٹیرف یعنی درآمدی ٹیکس عائد کیا جائے گا،ٹرمپ
  • کیا سعید غنی سے بھی استعفے کا مطالبہ کریں؟ نبیل گبول
  • شی جن پھنگ کی ماحولیاتی تہذیب پر منتخب تحریریں نامی کتاب کی پہلی جلد کی اشاعت
  • کلاشنکوف چھوڑ کر قلم اٹھا لیے
  • ’’ اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ ایک جائزہ