Express News:
2025-09-18@13:56:31 GMT

غزہ میں قحط کا ذمے دارکون؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

اپنے عہد کے ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی نے آج کی دنیا میں جنگی جنون کی کیفیت میں درست پیش بندی کی تھی کہ سرمایہ دارانہ منافع اور ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی قوتیں دنیا میں جنگوں کی منڈی لگا کر صرف انسانی المیوں کو جنم دیں گی۔آج فلسطین/غزہ میں مفادات کے تین سفاک گروہ امریکا ، اسرائیل اور حماس جنگ کی ہولناکیوں میں مصروف رہ کر فلسطین اور غزہ میں موت اور قحط بانٹ رہے ہیں، مگر امن کی خاطر جنگ کا خاتمہ کرنے پر تیار نہیں، اس پوری صورتحال میں ساحرکے یہ اشعار جنگی جنونیوں کے منہ پر بھرپورطمانچہ ہیں کہ!

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اسرائیل اور حماس بطور خاص غزہ کے بھوک و پیاس سے بلکتے بچے اور خاندانوں کی زندگیاں چھین کر بے حسی اور جنگی جنونیوں کی مفاد پرستی کا وہ خطرناک کھلواڑ کر رہی ہیں جس کا شکار ہوکر غزہ کے معصوم بچے قحط سالی کا عذاب جھیل رہے ہیں جب کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور اقوام متحدہ صرف غزہ کے بھوک و پیاس سے ترستے افراد کے اعداد و شمار بتانے کو ہی اپنا فرض سمجھ رہے ہیں جب کہ عالمی طور سے اقوام متحدہ کا یہ ادارہ اب تک جنگی جنون میں مبتلا امریکا،اسرائیل اور حماس کو جنگی خرمستیوں سے باز رکھنے کی کوئی سبیل نہ نکال پایا ہے۔ 

انقلاب روس کے بانی ولادیمر لینن نے اقوام متحدہ کے ادارے کے بارے میں درست ہی کہا تھا کہ’’ یہ سرمایہ دار اقوام کی وہ ایسوسی ایشن یا گٹھ بندھن ہے جو دراصل سرمایہ دار ممالک کے مفادات کو تحفظ دینے اور عوام کی معاشی تنگ دستی کا مذاق اڑانے کا وہ سفاک ذریعہ ہے جس کا آخرکار فائدہ استحصالی سرمایہ دار سامراج ہی اٹھاتا ہے۔‘‘

آج کی دنیا میں اسرائیل فلسطین جنگ کے تناظر میں لینن کا اقوام متحدہ کے ادارے کے بارے میں کیا گیا تجزیہ درست ثابت ہو رہا ہے۔یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ فلسطین کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں جب دنیا کی جمہوری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سر جوڑکر فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے لیے یکَسو تھیں تو عین اس وقت یعنی 1987 میں فلسطین میں شیخ یاسین کی سربراہی میں تنظیم ’’حماس‘‘ کو بنوایا گیا اور طویل عرصے سے فلسطین کی آزادی کے لیے جمہوری تقاضوں کے مطابق جدوجہد کرنے والی ’’ الفتح‘‘ کے مقابل ’’حماس‘‘ کے ذریعے مسلح سیاست کو روشناس کروایا گیا۔

حماس دو مختلف سمتوں (مزاحمت اور تعمیرکے نعرے) کے تحت آج بھی فلسطین کی حکومت کے زیر اثر خود اپنی آزادانہ حکمت عملی اپناتی ہے،کم و بیش 15 ماہ قبل جب فلسطین میں ’’حماس‘‘ نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اس وقت بھی فلسطین کی موجودہ حکومت کو حماس نے اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

اس سوال کو سمجھنے کے لیے ہمیں 15 ماہ پہلے حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملے کا پس منظر نظر میں لانا ہوگا اس وقت ہی میں نے لکھا تھا کہ ’’حماس کی جانب سے یہ حملہ پینٹاگون کی آشیرباد سے کروایا گیا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ملک سعودی عرب، ایران، روس اور چین کے ممکنہ بلاک بننے کے عمل کو رکوا کر سعودی عرب اور دیگر ممالک کو اسرائیل کی جنگی طاقت کا جنون دکھایا جائے تاکہ امریکی بلاک کے مقابل روس، چین، سعودی عرب اور ایران کا ممکنہ بلاک بننے سے روکا جائے اور ان کی قربتوں کو کمزورکرکے مشرق وسطیٰ اور ایشین ممالک کے مابین اس اہم اتحاد کو تباہ و برباد کیا جائے تاکہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ مل کر معاشی طور سے امریکی خرمستیوں سے چھٹکارا نہ پاسکیں اور مستقبل میں خطے کو معاشی استحکام دلوا کہیں خطے میں امریکی لوٹ کھسوٹ کے لیے خطرہ نہ بن پائیں۔

دوسری جانب اسرائیل، حماس اورکسی قدر ایران نے اسرائیل پر حملہ کر کے امریکی مقاصد کے لیے وہ کام کیا جس کے لیے نئے بلاک بننے کی اہم پیش رفت کو روکنے کی شدید ضرورت نظر آتی ہے، اس تناظر میں اسرائیل نے امریکی جدید ہتھیاروں کی مدد سے ایک ایسے لے پالک بیٹے کا کردار ادا کیا جس نے مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے مستحکم بننے والے اتحاد میں وقتی دوری پیدا کردی جس کے لیے ان مذکورہ ممالک کو شاید اب دوبارہ ازسرنو کوششیں درکار ہوں گی۔

اسرائیل کے جنگی جنون سے لاکھوں فلسطینی اور غزہ کے باشندوں کی بلاجواز ہلاکت بے گھری اور غزہ کے اپاہج ہو جانے والے افراد کی داد رسی کیسے ہوگی یا جنگ مسلط کرنے کی سزا اسرائیل یا دیگرگروپس کو عالمی دنیا یا عالمی انصاف کیسے دے گا، یہ آج کا سب سے اہم سوال ہے؟یاد کیجیے بقول مذہبی جنونی جب یہ معرکہ ’’حق و باطل‘‘ حماس نے شروع کیا تو اس وقت خطے کی صورتحال میں چائنا کی ڈپلومیسی زوروں پر تھی۔ چائنا افغانستان حکومت کو ساتھ ملا کر امریکا ابوظہبی انڈیا ٹرائیکا کے لیے افغانستان میں تجارتی اور فوجی تعلقات کے محاذ پر پسپا ہوچکا تھا۔

ایران اور پاکستان مل کر انڈین پشت پناہی پر چلنے والی بلوچ انسرجنسی اورکیمپس کو ایکسپوزکر رہے تھے یعنی سی پیک روٹ کوکلیئرکیا جا رہا تھا،گوادر تک پہنچنے والے راستے صاف کیے جا رہے تھے۔ جس وقت اسلام آباد میں بلوچ مسنگ پرسنزکی تصاویر اٹھائے دھرنا ہو رہا تھا عین اس وقت ایران ان ’’مسنگ پرسنز‘‘ کی فہرست مع تصاویر جاری کی جا رہی تھیں جو ایرانی علاقے میں بلوچ سرحد کے قریب دہشت گردی کے تربیتی کیمپ جمائے بیٹھے تھے۔

دوسرے روز پاکستانی فوج ایران کی حدود میں اس کیمپ پر بمباری کرتی رہی اور ایرانی حکومت خاموش احتجاج بھی نہیں کرپائی۔ عقلمند کو اشارہ کافی کے مصداق دونوں حکومتوں میں اس تعاون کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایران سعودیہ باہمی سفارت بحال کروا کر تجارتی روابط اور ’’دوستی‘‘ بحال کروائی جا رہی تھی۔

یاد کیجیے وہ تصویر جس میں چینی ذمے دار درمیان میں کھڑے ہوکر ایران اور سعودی مندوبین کا مصافحہ کروا رہے تھے۔ روس اور چین نیا علاقائی بلاک تقریباً بنا چکے تھے اور امریکا کے لیے خطے کے تمام انٹری پوائنٹس یکے بعد دیگرے بند ہوتے جا رہے تھے، لیکن پھر اچانک ایک روز حماس اسرائیل معرکے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ چائینیزگریٹ گیم جہاں تھا، وہیں رک جاتا ہے۔ ایران سعودیہ دور ہوجاتے ہیں۔

سارا پروسس ٹھپ ہوجاتا ہے اور پھر اس پروسس کو ٹھکانے لگانے کے بعد ایک روز حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی معاہدہ ہوجاتا ہے۔ اس پوری کہانی کے بعد دہشت گرد کہلائی جانے والی ’’حماس‘‘ کے حملے کی آڑ میں غزہ اور فلسطین کے ہزاروں بے گناہ مارے جاتے ہیں اور حماس بے گھر اور دربدر ہو جانے والوں کے رستے زخموں کی داد رسی کرنے کے بجائے ’’جشن‘‘ منا کر بھی دہشت گرد اسرائیل کی بمباری نہ رکوا سکی؟

جنگ بندی کی کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں جب کہ اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی کوششوں کو اسرائیل اور امریکا جوتے کی نوک پر رکھ کر غزہ میں قحط سالی ایسے غیر انسانی المیے کا باعث بن رہے ہیں،جس میں حماس اپنی مفاد پرستانہ پالیسیوں سے یہ باورکروا رہی ہے کہ وہ امریکا اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا حصہ ہے، گویا غزہ کے عوام اور فلسطینیوں پر اب بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جس کی بظاہر ذمے دار ’’حماس‘‘ نظر آتی ہے جب کہ بادی النظر میں ’’حماس‘‘ کی اسرائیلی مدد کے شاخسانے اس قحط زدہ غزہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس اہم موڑ پر غزہ کی جنگ بندی اب تک کیوں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، اس کی وجوہات کی تلاش کی جائے تو اس اسرائیل حماس گٹھ جوڑ کی بظاہر جنگ میں کامیابی کے نتیجے میں حماس کے سنجیدہ رہنما اسماعیل ہانیہ،حزب اسلامی کے رہنما نصراللہ، ایران کے کمانڈر ابرہیم عقیل اور صدر رئیسی کی وہ اموات ہیں جن کا سراغ دنیا کے امن کے پرچارک ممالک بطور خاص امریکا،حماس اور ایرانی حکومت اب تک لگانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔

ساری دنیا کو نظر آرہا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ اور عجم کے ان ممالک کو دیدہ دلیری سے نشانہ بنا رہا ہے جو خطے میں امریکا گٹھ جوڑ کی راہ میں کسی نہ کسی سطح پر ممکنہ مزاحمت کر سکتے تھے، مشرق وسطی کی اس خونین تباہی پر اسرائیل کو یورپ سمیت امریکا کی وہ تھپکیاں واضح نظر آرہی ہیں جن کی بنا پر اسرائیل پورے مشرق وسطی میں قابو نہ آنے والے گھوڑے کی مانند دندنا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک اس قابل نظر نہیں آتا کہ وہ اسرائیل کو لگام ڈال سکے۔

آخری تجزیے میں نظر آرہا ہے کہ غزہ کے بے گناہ عوام بچوں اور خواتین کی جنگ کے بہانے جہاں موت کے ذمے دار اسرائیل اور حماس ہیں، وہیں غزہ کے آفت زدہ بچوں کی غذائی قحط کے ذمے دار بھی بادی النظر میں یہ دو قوتیں یعنی اسرائیل اور حماس لگتی ہیں، جن کی پشت امریکی ٹرمپ حکومت تھپتھپا رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل اور حماس اقوام متحدہ سرمایہ دار جنگی جنون نے والے رہے تھے رہے ہیں رہا ہے کی جنگ غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

اسرئیلی وزیراعظم سے ملاقات : اسرائیل بہترین اتحاد ی، امریکی وزیرخارجہ: یاہوکی ہٹ دھرمی برقرار‘ حماس پر پھر حملوں کی دھمکی

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے غیر متزلزل حمایت کے عزم کا اعلان کیا۔ عالمی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حماس اب کسی کے لئے خطرہ نہیں رہے ہیں۔ غزہ کے لوگ ایک بہتر مستقبل کے مستحق ہیں اور یہ بہتر مستقل اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک حماس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اس موقع پر نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی تعریف کی اور انہیں سب سے بڑا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ مارکو روبیو کا دورہ ایک ’’واضح پیغام‘‘ تھا کہ امریکہ‘ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ مارکو روبیو نے اسرائیلی مؤقف دہرایا کہ مغربی ممالک کے تیزی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے  کے عمل سے کوئی فائدہ نہ ہو گا البتہ حماس کے حوصلہ افزائی ہوئی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔ حماس رہنمائوں پر مزید حملوں کی دھمکی دے دی۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں نیتن یاہو نے دوحہ میں حماس قیادت پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا حماس قیادت کہیں بھی ہو اسے نشانہ بنانے کا امکان مسترد نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے تحفظ کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر بھرپور قوت سے کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کو امریکہ کا بہترین اتحادی قرار دے دیا اور دہشت گردی کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • قطر نے اسرائیل کو تنہا کر دیا، ایران نے تباہ کرنے کی کوشش کی: نیتن یاہو
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • دوحہ حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر اقوام متحدہ کی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج جنیوا میں ہوگا
  • اسرئیلی وزیراعظم سے ملاقات : اسرائیل بہترین اتحاد ی، امریکی وزیرخارجہ: یاہوکی ہٹ دھرمی برقرار‘ حماس پر پھر حملوں کی دھمکی
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد
  • اسرائیلی وزیراعظم کی حماس رہنماؤں پر مزید حملے کرنے کی دھمکی
  • ہم اپنی خودمختاری کے دفاع کیلئے جوابی اقدام کیلئے پُرعزم ہیں، امیر قطر