بلوچستان کی سرزمین پھر لہو لہان ہے۔ ایک بس جس میں معصوم بچے اسکول جا رہے تھے، دہشت گردی کی آگ میں جھلس گئی۔ دھماکے کی گونج نے نہ صرف خضدارکی وادی کو دہلا دیا بلکہ پورے پاکستان کے دل کو چیر ڈالا۔ وہ ننھے ہاتھ جوکتابیں پکڑنے کے لیے بنے تھے، وہ آنکھیں جنھوں نے ابھی زندگی کو جاننا شروع کیا تھا، ایک پل میں بند ہوگئیں۔
انسانیت نے ایک بار پھر ہار مانی اور سفاکیت نے ایک بار پھر جیت کا اعلان کیا۔ ہم سوال کرتے رہ گئے کہ آخرکب تک ہمارے بچے اس وحشت کا شکار بنتے رہیں گے؟ کب تک اسکول جو علم کے چراغ جلانے کی جگہ ہوتے ہیں بارود کی بُو سے مہکتے رہیں گے؟
خضدار کا یہ حملہ نیا نہیں لیکن ہر حملہ نیا زخم بن جاتا ہے۔ تاریخ بار بار دہرا رہی ہے۔ پاکستان کی دھرتی خاص طور پر بلوچستان برسوں سے نہ صرف محرومی کا شکار ہے بلکہ انتہا پسندی، تشدد علیحدگی پسندی اور بین الاقوامی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بنی ہوئی ہے۔
بس حملے کی خبر سنتے ہی ذہن کئی سال پیچھے چلا گیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ یاد آیا۔ مائیں اسی طرح اپنے بچوں کے بستے اور جوتے ڈھونڈ رہی تھیں، باپ اپنے ہاتھوں سے لحد تیارکر رہے تھے اور قوم رو رہی تھی۔ وہی آنسو وہی بے بسی وہی سوال مگر کوئی جواب نہیں۔
بلوچستان کی محرومیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو وسائل سے مالا مال ہے لیکن تعلیم، صحت، روزگار جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترستا رہا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو خواب دیکھنے کی اجازت نہیں اور اگر وہ خواب دیکھ لیں تو ان پر تعصب نفرت اور دہشت کی مہر لگ جاتی ہے۔
ایسے ماحول میں جب بچے تعلیم حاصل کرنے نکلتے ہیں تو وہ صرف علم سے نہیں موت کے سائے سے بھی نبرد آزما ہوتے ہیں۔ یہ لمحہ کس قدر ہولناک ہے کہ ایک ماں اپنے بچے کو اسکول بھیجتے ہوئے اس کی واپسی کی امید بھی نہ کر سکے۔
خضدار کا حملہ محض ایک واقعہ نہیں یہ ایک پیغام ہے۔ اس پیغام میں خون ہے آنسو ہیں، چیخیں ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک اجتماعی بے حسی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر دہشت گردوں کے نشانے پر بچے کیوں؟ وہ کون سی دشمنی ہے جو تعلیم سے ہے جو اسکول کے بستے سے ہے؟ یہ وہی دشمنی ہے جو شدت پسندوں کو ملالہ یوسفزئی سے تھی، یہ وہی دشمنی ہے جو ان دہشت گردوں کو ہر اس چراغ سے ہے جو جہالت کے اندھیرے میں روشنی کا امکان پیدا کرے۔
پاکستان کی سیاست نے ہمیشہ بلوچستان کو نظر اندازکیا۔ وہی زبان، وہی دعوے، وہی اعلانات لیکن جب زمین پرکچھ بھی نہ بدلے تو پھر محرومی نفرت میں بدلتی ہے۔ نفرت بندوق اٹھاتی ہے، بندوق گولیاں برساتی ہے اور ان گولیوں کا شکار ہوتے ہیں معصوم بچے ،بے گناہ شہری، اسکول جانے والے طالب علم۔ ان مظالم کے پیچھے کبھی قوم پرستی ہوتی ہے، کبھی مذہبی انتہا پسندی اور کبھی بین الاقوامی طاقتوں کی پراکسی وار۔ پاکستان اور بھارت کی دشمنی ہو یا چین کے ساتھ جاری سی پیک کا معاملہ بلوچستان ہمیشہ دو طرفہ سیاست کا مہرہ بنا رہتا ہے اور جب مہروں کی لڑائی ہوتی ہے تب تخت پر خون گرتا ہے اور زمین پر انسان۔
اس حملے کے بعد وزیر اعظم نے بھارت پر الزام عائد کیا۔ انھوں نے اسے بھارت کی تعلیم دشمنی قرار دیا۔ دوسری طرف بھارت نے اسے مسترد کردیا۔ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے؟ عام آدمی ان تجزیوں میں الجھ جاتا ہے مگر جس ماں نے اپنے بچے کو اس بس میں بھیجا تھا، اسے اس الزام تراشی سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنے بچے کی تصویرکو سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ اس کا بچہ زندہ ہوتا۔ وہ چاہتی ہے کہ سیاست دان، صحافی، فوجی اور انتہا پسند سب کچھ چھوڑکر صرف ایک دن کے لیے اس کے دکھ کو سمجھیں۔
یہ حملہ بلوچستان میں جاری عدم تحفظ کی ایک اورکڑی ہے۔ یہاں نہ صرف بچے غیر محفوظ ہیں بلکہ اساتذہ، صحافی،کارکن اور عام شہری سب خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ دہشت گردی کا یہ کھیل اب بچوں کی جان تک آن پہنچا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس راہ پر چل رہے ہیں۔ کب تک ہم اپنے اندرکی خرابیوں کو دوسروں پر ڈال کر آنکھیں بند کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے ہی بچوں کے قاتلوں کو غیر ملکی ہاتھ کہہ کر خود بری الذمے ہوتے رہیں گے؟
یہ وقت ہے کہ ہم بلوچستان کو سنجیدگی سے لیں۔ اسے صرف ایک صوبہ نہ سمجھیں بلکہ ایک زخم زدہ وجود سمجھیں جسے مرہم کی ضرورت ہے۔ وہاں کے بچوں کو تعلیم، صحت اور سکون چاہیے نہ کہ بندوق بارود اور سیاسی بیانات۔ ہمیں بلوچستان کے ہر بچے کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ پاکستانی ہے اور اس کی جان اس کا خواب اس کا قلم اس کی کتاب سب کی ذمے داری ہم سب پر ہے۔
اس واقعے نے ہمیں ایک بار پھر دکھایا ہے کہ جب تک ہم انتہا پسندی محرومی اور منافقت کو ختم نہیں کرتے تب تک امن محض ایک خواب رہے گا۔ کب ہم اپنے بچوں کو یہ یقین دلائیں گے کہ اسکول جانا کوئی جرم نہیں بلکہ حق ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا اور وہ جواب نہ اسلام آباد میں ہے نہ دہلی میں نہ کسی عسکری دفتر میں بلکہ وہ جواب ہے ایک اجتماعی بیداری میں ایک سچی نیت میں اور سب سے بڑھ کر انسانیت میں۔
بلوچستان کے بچے اب مزید لاشیں نہیں بن سکتے۔ انھیں زندگی چاہیے، روشن صبح چاہیے، کتابیں، قلم اور خواب چاہیے۔ انھیں امن چاہیے وہ امن جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ آج اگر ہم نے خضدار کے اس حملے کو ایک اور خبر سمجھ کر بھلا دیا تو کل یہ دہشت ہمارے دروازے پر دستک دے گی۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ایک بچہ بھی خوف کے سائے میں تعلیم حاصل کرے گا تو ہماری پوری قوم جاہلیت کی دلدل میں دھنس جائے گی۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف مذمت نہ کریں بلکہ عمل کریں۔ بلوچستان کو گلے لگائیں وہاں کے لوگوں کو اپنائیں اور اپنے تعلیمی اداروں کو تحفظ دیں، اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سیاست سے کنارہ کشی نہیں کی، بس اپنے کام سے کام رکھتا ہوں، شیر افضل مروت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی نہیں کی، بس اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہوگی کسی جلسے میں شرکت نہیں کروں گا۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ ایمل ولی کے ساتھ اختلافات اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کی بے توقیری کی ہے، انہوں نے جو الزامات لگائے ہیں اس پر وزیرِ اعظم کو نوٹس لینا چاہیے، ایسے لوگ پی ٹی اے کے چیئرمین کے منصب کے لیے نااہل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کے ایمل ولی کے مطالبے کی تائید کرتا ہوں۔
خیبر پختونخواہ میں 12سالہ بچے کا زیادتی کے بعد قتل، قریبی رشتے دار گرفتار
مزید :