عمومی طور پر 2 ریاستی حل تصور ہی رہ گیا ہے، عدیل ملک
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
لاہور:
سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایک حد تک تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ابھی پچھلے2 سال سے خاص طور پہ جو صورتحال ہے یہ تو بہت ہی ایکسٹریم ہے، یہ تو نارمل حالات نہیں ہیں جتنے صحافی بند کر دیے گئے ہیں، میڈیا پو جو پریشر آیا ہے ایک غیر معمولی پریشر آیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ جو ہم بات کرتے ہیں کہ کیوں کہ سیاست میں بحران آیا ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں باقی تمام ادارے وہ بھی لیپٹ میں آ رہے ہیں، بشمول میڈیا کے، صحافت کے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پہلی بات تویہ ہے کہ اگر9 مئی کوحملے کیے گئے اور کچھ لوگوں پر الزام ہے کہ انھوں نے یہ کام کیا تو مجھے یقین ہے کہ یہ 27یوٹیوبر جو ہیں یہ ان میں سے نہیں ، میں تو ہر دو تین ہفتوں کے بعد ان مقدموں میں جا کر کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے تو یہ یوٹیوبرز وہاں پر نظر نہیں آئے، اگر ایک شہری نے غلط کام کیا ہے تو اس کی سزا دوسرے کو کیوں دی جا رہی ہے۔
ماہر بین الاقوامی امور عدیل ملک نے کہا کہ بنیادی طور پہ دو ریاستی حل پر کام کرنے والے لوگ وہ یہی کہتے ہیں کہ دو ریاستی حل بستر مگر پر نہیں ہے بلکہ تقریباً مر چکا ہے، اوسلو ایگریمنٹس کے بعد ایک امید تھی ایک ہلکی سی کرن تھی کہ کٹی پھٹی ریاست ہی سہی سیلف رول کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار وضع ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ یہودی آبادکاروں کی بستیوں کا ایشو بہت بڑا ایشو ہے جو جوں کا توں موجود ہے، اس پر کوئی انٹرنیشل لا بھی نہیں، کوئی خاص طریقے سے ایکٹ نہیں کیا، اس دوران اسرائیل اور بھی زیادہ بستیاں بنا رہا ہے، کوئی رستہ میرے خیال میں چھوڑا نہیں گیا فلسطینیوں کیلیے کہ وہ ایک آزاد ریاست کا خواب دیکھ سکیں، عمومی طور پر2ریاستی حل ایک تصور ہی رہ گیا ہے، خیالی کونسیپٹ ہے،اس کا علمی زمینی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت بننے سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا: شازیہ مری
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہےکہ بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت بننے سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ایک بیان میں شازیہ مری نے کہا کہ سرکاری ترقیاتی پروگرام کے فیصلے بند کمروں میں کیے جائیں تو یہ غلط ہے، پیپلز پارٹی کے ارکان اگر اسمبلی میں نہ جائیں تو اُن کا کورم بھی پورا نہیں ہوسکتا اور اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف وزیر اعظم بننے کی خواہش لے کر پیپلز پارٹی کے پاس آئے تو کچھ باتیں طے ہوئی تھیں۔شازیہ مری کا کہنا تھا کہ مجلس منتظمہ کے اجلاس میں ارکان نے حکومت کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا جس پر صدر زرداری نے ذمے داری لی کہ جو معاہدے ہوئے تھے ان پر عمل ہوگا تاہم بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت بننے سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں ڈھائی ڈھائی سال کی مدت کے معاہدے کی بازگشت سنائی دی گئی تھی۔مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ انہیں ان کی مرکزی قیادت نے ڈھائی ڈھائی سال کے معاہدے سے آگاہ کیا ہے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ ایسا کوئی معاہدہ ان کی نظر سے نہیں گزرا اور بلوچستان میں پی پی اپنے 5 سال کی مدت پوری کرے گی۔