'گھر کے ماحول اور کراچی کے طرز زندگی نے میری شخصیت کو نکھارا'
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
پاکستان کے لیجنڈری کرکٹر یونس خان سے ملنا ایک یاد گار خوشگوار تجربہ تھا کہ کیسے ایک شخص میں عاجزی اور عظمت کی خصوصیات بیک وقت پائی جا سکتی ہیں، وہ نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں لیکن ان کی سوچ میں بہت گہرائی ہے۔
اپنے تقریباً 17 سالہ شاندار کرکٹنگ کیریئر میں انہوں نے اپنے بلے سے ناقدین کے منہ بند کرائے۔
کرکٹ کی دنیا میں یونس خان کے شاندار ریکارڈز اور زبردست کارنامیں بجا طور پر ان کی شخصیت کو بادشاہ کے لقب کا حقدار بنا دیتے ہیں، 10,000 سے زیادہ ٹیسٹ رنز، 34 سنچریاں، 6 ڈبل سنچریاں، ایک ٹرپل سنچری، 9 ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے خلاف سنچریاں، بطور فیلڈر 100 کیچ، پاکستان سے باہر 23 سنچریاں، 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کے فاتح کپتان ہیں جب کہ ان کے عبور کردہ سنگ میل کی شاندار فہرست میں مزید کئی اور ریکارڈز بھی شامل ہیں۔
کرکٹ کی دنیا میں شاندار کارناموں پر جب مردان سے تعلق رکھنے والے ملنسار کھلاڑی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ شرما جاتے ہیں، یونس خان نے حال ہی میں ایکسپریس ٹریبیون کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ’کامیابیاں ایک چیز ہیں لیکن جب لوگ آپ کو پیار سے یاد کرتے ہیں اور آپ کو سچا پاکستانی کہتے ہیں - تو یہ ہی اصل اثاثہ ہے۔
یونس خان نے مردان میں گزرے اپنے بچپن اور 6 بھائیوں کی حمایت کو کرکٹ سے اپنی لگن پروان چڑھانے کا سہرا دیا، ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کرکٹ کھیلتے تھے اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ان کی حمایت حاصل رہی، میرے اہل خانہ نے کرکٹ کو کبھی بھی وقت کا ضیاع نہیں کہا، انہوں نے میری لگن اور میرا شوق دیکھا۔
پاکستان اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے مثال بننے والے دائیں ہاتھ کے شاندار کھلاڑی اپنے بڑے بھائی شریف خان سے متاثر تھے جنہوں نے انہیں بطور پیشہ کرکٹ کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی۔
اپنے بڑے بھائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یونس خان کی آنکھیں چمک اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ’میرے بڑے بھائی شریف میرے لیے سب سے بڑے رول ماڈل تھے، وہ مکمل پیکج تھے، وہ کپتان، وکٹ کیپر، اوپننگ بلے باز، آف اسپنر اور شاندار فیلڈر بھی تھے، وہ آگے بڑھ کر قیادت کرنے والے کھلاڑی اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔
اسٹیل ملز سے فولادی اعصاب تک
کرکٹ کریئر میں اپنی بیٹنگ کے علاوہ بھی یونس خان نے بحرانوں کے دوران قابل ذکر استقامت برقرار رکھی، چاہے وہ ان کا ذاتی المیہ ہو، پاکستان سے بین الاقوامی کرکٹ کا خاتمہ ہو یا ہائی اسٹیک میچز، یونس کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ذہنی پختگی گھر میں میری پرورش کا حصہ تھی، یہ اچھے ماحول کی طاقت ہے، مجھے گھر میں وہ ماحول ملا جس نے میری ایسی شخصیت بنائی۔
ان کا خاندان 80 کی دہائی کے اوائل میں مردان سے کراچی منتقل ہوا اور یونس خان کے والد نے اسٹیل ملز کے علاقے کے قریب بسنے کا فیصلہ کیا۔
90 کی دہائی کے اوائل کے خراب حالات کے دوران کراچی میں رہنے کے تجربے نے بھی یونس خان کے اعصاب مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’شک ان دنوں شہر میں تشدد اور بےامنی عروج پر تھی لیکن میرا خواب زندہ رہا‘۔
پاکستان کے سابق کپتان نے ایسے واقعات کا ذکر کیا جب ان کی ٹیم کی گاڑیاں فائرنگ کی زد میں آگئیں اور انہیں نیچے بیٹھ کر چھپ کر جانا پڑا، ان کا کہنا تھا کہ میں نے خود وہ خوفناک دن دیکھے، جب آپ نے ان حالات کے دوران کرکٹ کھیلی ہو تو پھر کوئی بھی چیز آپ کو پریشان نہیں کرتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے 1992 میں ملیر جیم خانہ جوائن کیا تو یہ ایک پاور ہاؤس تھا، وحید مرزا، طارق عالم، راشد لطیف سب وہاں کھیلتے تھے، یہاں مجھے بڑے کرکٹرز اور کوچز ملے، اس مسابقتی ماحول نے بھی حیرت انگیز کام کیا‘۔
’یہ وہ پس منظر ہے جس نے میرے رویے کو نکھارنے میں مدد کی، جب میں نے 2000 میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں سری لنکا کے خلاف پاکستان کے لیے ڈیبیو کیا تو میرے کپتان نے مجھ سے پوچھا کہ میں دباؤ سے کیسے نمٹا، میں حیران رہ گیا، کیسا دباؤ؟ جو کچھ ہم بڑے ہوتے ہوئے دیکھ چکے، اس کے سامنے تو یہ کچھ بھی نہیں تھا‘۔
موازنے سے بے نیاز
حال ہی میں مشہور ویب سائٹ کی جانب سے دور حاضر کی عظیم شخصیات کے حوالے سے کیے گئے ایک موازنے میں یونس خان کو اپنے ہم عصروں پر ان کے حیرت انگیز کارناموں اور شاندار اوسط رنز کے باعث برتری حاصل رہی۔
تو کیا جب ویرات کوہلی اور اسٹیو اسمتھ کو میڈیا کی توجہ حاصل ہوتی ہے تو کیا انہیں برا محسوس ہوتا ہے؟ ان کا کہا تھا کہ ’ذرا بھی نہیں، ایمانداری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ میں موازنے پر یقین نہیں رکھتا، میرا اللہ جانتا ہے کہ میں نے کتنی محنت کی اور کیا حاصل کرنے میں کامیاب رہا، اس کے علاوہ، میرے مداحوں کی محبت ہی اصل انعام ہے، اس کے علاوہ میری خواہش ہے کہ ہمارے کرکٹ منتظمین اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اور زیادہ اور مخلصانہ کوششیں کریں کہ ہمیں اچھے انداز میں اپنے ملک کی خدمت کرنے پر عزت، انعام اور شناخت کے حوالے سے ہمارا حق دیا جائے‘۔
اپنے کرکٹ گُرو کے بارے میں پوچھے جانے پر یونس خان نے راشد لطیف کا نام لیا جن سے انہوں نے براہ راست سیکھا، لیکن وہ دو لیجنڈ کرکٹرز- جاوید میانداد اور عمران خان کے لیے خصوصی احترام کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ’میانداد بھائی وہ شخص تھے جن کی ہم سب پیروی کرنا چاہتے تھے، جس طرح انہوں نے اپنی اننگز بنائی، ٹیم کو آگے بڑھایا، نوجوانوں کی رہنمائی کی اور دباؤ میں کارکردگی دکھائی، اسی طرح عمران خان، یقیناً وہ ایک قومی آئی کون تھے جنہوں نے ملک کے ہر اس کرکٹر کو بہت متاثر کیا جس نے ان کے بعد کرکٹ کھیلی‘۔
یونس خان نے 2009 میں عمران کی تقلید کرتے ہوئے اپنے بچپن کا خواب پورا کیا’ میں ہمیشہ 1992 میں عمران خان کی طرح ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ بننا چاہتا تھا اور 2009 میں جب ہم نے ٹی 20 ورلڈ کپ جیتا تو میں کپتان تھا، یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ لگن اور نظم و ضبط کے سہارے سے خوابوں کو تعبیر مل جاتی ہے‘۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونس خان نے انہوں نے کا کہنا خان کے کے لیے کہ میں تھا کہ
پڑھیں:
قائداعظم ٹرافی میں کراچی ٹیم ضرور ہوگی ،نیا سسٹم نہیں بنا رہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( اسپورٹس رپورٹر)ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کراچی کے زونل عہدیداران کا ایک اجلاس صدر ندیم عمر کی صدارت میں ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کراچی کے سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مندرجہ زونل عہدیداران اور ریجن کے عہدیداران جوائنٹ سیکریٹری توصیف صدیقی، چیئرمین ٹورنامنٹ کمیٹی خالد نفیس، کوارڈینیٹر اعظم خان، صدر زون 1 اجمل نصیب، صدر زون 2 جمیل احمد، صدر زون 3 محمد رئیس، نائب صدر زون 4 سید محمد عاصم ، سیکریٹری زون 5 محمد سعید جبار، صدر زون 6 ضیاء احمد صدیقی، صدر زون 7 مظہر علی اعوان ، زون 1 کے سیکریٹری عارف وحید، زون 2 کے سیکریٹری نصرت اللہ، زون 4کے ٹریڑرار نوشاد احمد خان اور ممبر ٹورنامنٹ کمیٹی ظفر احمد نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوئی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے قائداعظم ٹرافی کے26-2025 کے سیزن میں صرف آٹھ ٹیموں کے شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے زونل عہدیداران اور کراچی کی عوام میں کافی تشویش پائی جاتی ہے جس پرتمام عہدیداران نے صدر ندیم عمر سے گزارش کی کہ وہ جلد از جلد چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے بات کرکے ہمارے تحفظات سے آگاہ کریں اور ان سے یہ استدعا کریں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور 26-2025 سیزن کو پچھلے فارمیٹ میں کر دیا جائے۔ کراچی 21 مرتبہ قائداعظم ٹرافی جیتنے والی واحد ایسوسی ایشن ہے اور کراچی شہر نے کئی شہرِ آفاق کھلاڑی پیدا کیے ہیں جنہوں نے دنیائے کرکٹ میں اپنے ملک اور شہر کا نام روشن کیا ہے۔ آخر میں ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کراچی کے عہدیداران نے اس امید کا اظہار کیا کہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی یقیناََ ہمارے تحفظات کا ازالہ کریں گے،جس سے کراچی کے کھلاڑیوں کی، ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کراچی کے عہدیداران کی اور عوام کی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے گا۔ اجلاس کے اختتام پر کراچی کے عوام کو یہ خبر سننے کو ملی کہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نیا سسٹم نہیں بنا۔ انشاء اللہ قائداعظم ٹرافی کے26-2025 کے سیزن میں کراچی کی ٹیم ہوگی، کراچی کی ایک حیثیت ہے۔ اس خبر سے کراچی کے عہدیداران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انکا شکریہ ادا کیا۔