جوہری باز دارندگی اورقومی وقار: 28 مئی کی میراث
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
28 مئی 1998ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک سنجیدہ مگر قابلِ فخر سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے یہ وہ دن تھا جب قوم نے اپنے مشرقی ہمسایہ کی جانب سے کیے گئے علاقائی اشتعال انگیزی اور جارحیت کے مظاہرے کے جواب میں، خود کو دفاعی صلاحیت سے لیس ثابت کرتے ہوئے اپنے خودمختار حق کا اعلان کیا۔ چاغی کے پہاڑوں میں صرف ایٹمی دھماکوں کی گونج نہ تھی بلکہ ایک ایسی قوم کے عزم کی آواز تھی جو کبھی مغلوب ہونے پر آمادہ نہ تھی۔ یہ اعلان تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن برقرار رکھے گا، اپنی سرزمین کی سالمیت کا دفاع کرے گا اور امن کو طاقت کے منصب سے حاصل کرے گا۔ دنیا نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بار بار آزمائشوں سے گزری، اور اب وزیرِ اعظم نواز شریف کی پختہ قیادت میں اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے عظیم سائنسدانوں اور ان گنت گمنام محسنوں کی قربانیوں سے ایٹمی طاقتوں کی صف میں باوقار انداز میں شامل ہو چکی تھی۔
11 اور 13 مئی 1998 ء کو بھارت کے پوکھران میں کیے گئے پانچ ایٹمی تجربات نہ صرف بین الاقوامی توقعات کی کھلی خلاف ورزی تھے، بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بھی تھے۔ یہ کوئی عام دشمن نہ تھا بلکہ ایک ایسا تاریخی حریف تھا جس نے 1947ء ،1965 ء اور 1971 میں جنگیں مسلط کیں اور قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک عناد کو زندہ رکھا۔ پاکستان ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا تھا جہاں اسے یا تو بین الاقوامی دبا کے سامنے جھکنا تھا یا اپنے دفاع کے خودمختار حق کا دعویٰ کرنا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے دوسرا راستہ اپنایا دانشمندی، جرات اور عزم کے ساتھ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ اور ان کے مقابلے کے لیے جس قدر ہو سکے طاقت مہیا رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، تاکہ اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں کو ڈرا سکو‘‘ (سورۃ الانفال، 8:60)
یہ خدائی حکم ہر مسلم ریاست پر لازم کرتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے کے لیے مناسب طاقت رکھے۔ پاکستان کی قیادت نے اس ذمہ داری کو نہایت حکمت اور صبر کے ساتھ، عالمی دبا کے باوجود، مکمل کیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی راہ راتوں رات ہموار نہ ہوئی۔ اس کی بنیاد 1974 ء میں بھارت کے پرامن ایٹمی تجربے کے بعد رکھ دی گئی تھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس موقع پر تاریخی الفاظ ادا کیے:
ہم گھاس کھا لیں گے، بھوکے رہیں گے، مگر اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
یہ اعلان ایک قومی عزم میں تبدیل ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محبِ وطن سائنسدانوں، اور پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن جیسے اداروں نے بین الاقوامی پابندیوں اور جاسوسی کی رکاوٹوں کے باوجود مسلسل محنت جاری رکھی۔
1998 ء تک پاکستان ایٹمی دفاع کی مکمل صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ جب بھارت نے ایٹمی تجربے کیے تو پاکستان نے 28 مئی کو چاغی اول اور 30 مئی کو چاغی دوم کے ذریعے بھرپور جواب دیا۔ یہ تجربے جارحیت نہیں بلکہ حکمت و ذمہ داری کا مظہر تھے تاکہ خطے میں توازنِ طاقت بحال ہو۔
قریب تین دہائیوں بعد، 7 مئی 2025 ء کو، پاکستان ایک بار پھر ایک وجودی بحران کا شکار ہوا۔ جسے ایک روزہ خطرناک جنگ کہا جا رہا ہے، اس میں پاکستان کے عوام اور افواج نے یکجہتی، شجاعت اور بے مثال قربانی کا مظاہرہ کیا۔ جس طرح1998 ء کے ایٹمی تجربات نے بیرونی خطرات کے خلاف ڈھال کا کام کیا، ویسے ہی 2025 ء کے واقعات نے پاکستان کے اندرونی اتحاد اور عملی تیاری کو ثابت کیا۔ عالمی سازشوں کے سائے میں جھونکنے کے باوجود، پاکستان سرخرو نکلا، زخموں کو فخر سے سہا، اور شہدا کو سلامِ عقیدت پیش کیا۔ چاغی کی روح صرف یورینیم اور پلوٹونیم میں نہیں، بلکہ ان دلوں میں زندہ رہی جنہوں نے وطنِ عزیز کے لے خون اور عزم سے قربانی دی۔ یوں یہ دونوں تاریخیں پاکستان کی اجتماعی یادداشت میں مزاحمت، قربانی اور قومی وقار کے طور پر ثبت ہو گئیں۔
مضبوط دفاع کی اہمیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی واضح ہے: (ترمذی)’’اونٹ کو باندھو اور پھر اللہ پر بھروسا کرو۔‘‘
یہ حدیث اس فہم کو اجاگر کرتی ہے کہ اگرچہ کامل بھروسا اللہ پر ہونا چاہیے، لیکن دنیاوی اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان نے یہی کیا اپنی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنایا۔
تاہم پاکستان کو اس خوش فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیل کہ ایٹمی ہتھیار ہر خطرے کا حل ہیں۔ آج کے دور کی جنگیں ہائبرڈ وار، سائبر حملے، معاشی سبوتاژ اور اندرونی خلفشار کی صورت میں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے:
(سورۃ الرعد، آیت 11) ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں۔‘‘
ایک مضبوط میزائل یا طاقتور بم اس وقت بے کار ہو جاتا ہے جب قوم اندرونی طور پر منقسم ہو یا معیشت تباہ حال ہو۔
ہر سال 28 مئی کو ہم اپنے سائنسدانوں، فوجیوں، سیاستدانوں اور ان سب گمنام ہاتھوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے خاموشی سے، خلوص سے، اور قربانی کے جذبے سے وطن کی خدمت کی۔ یہ دن صرف دھماکوں کی خوشی کا نہیں بلکہ عزم کی تجدید کا دن ہے یاددہانی کہ پاکستان، اگر متحد اور پرعزم ہو، تو کسی بھی عالمی دبائو یا سازش کے سامنے ڈٹ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس کے رہنمائوں کو عدل، حکمت اور اللہ کے خوف کے ساتھ فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کے لئے عدل پر قائم رہنے والے بنو، گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ اپنے خلاف ہی ہو‘‘(سورۃ النسا، آیت 135)
آئیے اس عزم کو اپنے ماضی کی طرح مستقبل کی تعمیر کا بھی سنگِ بنیاد بنائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کی کہ پاکستان اور ان
پڑھیں:
ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی میڈیا ادارے فاکس نیوز کو بتایا کہ تہران اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا جسے گزشتہ ماہ اسرائیل ایران لڑائی کے دوران شدید نقصان پہنچا تھا۔
لڑائی سے قبل تہران اور واشنگٹن نے عمان کی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی کس حد تک اجازت دی جائے۔
اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران افزودگی کے اس سطح تک پہنچنے کے قریب ہے جو اسے فوری طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت دے گا، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا افزودگی کا پروگرام صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔(جاری ہے)
وزیر خارجہ نے پیر کو نشر ہونے والے ایک کلپ میں فاکس نیوز کے شو ''بریٹ بائر کے ساتھ خصوصی رپورٹ‘‘ کو بتایا، ''اسے (جوہری پروگرام کو) روک دیا گیا ہے کیونکہ، ہاں، نقصانات سنگین اور شدید ہیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ ہم افزودگی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے اپنے سائنسدانوں کا کارنامہ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ قومی فخر کا سوال ہے۔‘‘ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران میں جوہری تنصیبات کو پہنچنے والا نقصان سنگین تھا اور اس کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا، ''یہ درست ہے کہ ہماری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، شدید نقصان پہنچا ہے، جس کی اب ہماری جوہری توانائی کی تنظیم کی طرف سے جانچ کی جا رہی ہے۔
لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں، انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘ ’بات چیت کے لئے تیار ہیں‘عراقچی نے انٹرویو کے آغاز میں کہا کہ ایران امریکہ کے ساتھ ''بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘، لیکن یہ کہ وہ ''فی الحال‘‘ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔
عراقچی کا کہنا تھا، ''اگر وہ (امریکہ) حل کے لیے آ رہے ہیں، تو میں ان کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے تیار ہوں۔
‘‘وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ''ہم اعتماد سازی کے لیے ہر وہ اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور ہمیشہ پرامن رہے گا، اور ایران کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جائے گا، اور اس کے بدلے میں ہم ان سے پابندیاں اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
’’لہذا، میرا امریکہ کو پیغام ہے کہ آئیے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل تلاش کریں۔
‘‘عراقچی نے کہا، ''ہمارے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل موجود ہے۔ ہم ماضی میں ایک بار ایسا کر چکے ہیں۔ ہم اسے ایک بار پھر کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
مشرق وسطیٰ میں جوہری طاقتامریکہ کے اتحادی اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کیا جس کے بعد مشرق وسطیٰ کے حریف 12 دن تک فضائی حملوں میں مصروف رہے، جس میں واشنگٹن نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی کی۔
جون کے آخر میں فائر بندی ہوئی تھی۔ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا فریق ہے جبکہ اسرائیل نہیں۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایران میں ایک فعال، مربوط ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں ''کوئی قابل اعتماد اشارہ‘‘ نہیں ہے۔ تہران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف اس کی جنگ کا مقصد تہران کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین