کراچی:

شہر قائد کے ایک نجی اسکول میں طالبہ، اس کے والدین اور خود کو ایس ایچ او ظاہر کرنے والے طالبہ کے ماموں نے خاتون ٹیچر کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

جمشید روڈ پرواقع نجی اسکول میں تاخیر سے اسکول آنے پر طالبہ کومعمولی سزا دینے پرطالبہ کے والدین اور پولیس اہلکارماموں کی جانب سے خواتین اساتذہ کوزدوکوب کرنے اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے کا مقدمہ جمشید کوارٹرتھانے میں درج کرلیا گیا ہے۔

مقدمہ متاثرہ خاتون اسکول ٹیچرکی مدعیت میں درج کیا گیا،جس میں طالبہ کے والدین اورپولیس اہلکارماموں کونامزد کیا گیا ہے۔

 جمشید کوارٹرز تھانے کی حدود جمشید روڈ اسلامیہ کالج کے قریب واقع نجی اسکول میں خاتون ٹیچر  کو ہراساں، زدوکوب اورتشدد کانشانہ بنانےکے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی تھی، جس پر ایس ایس پی ایسٹ کی جانب سے نوٹس لیا گیا تھا۔

گزشتہ روزواقعے کا مقدمہ جمشید کوارٹرز تھانے میں درج کرلیا گیا۔ متاثرہ اسکول ٹیچرسائرہ اقبال کی مدعیت میں بجرم دفعہ 504، 506 بی 345،337 اے آئی /34 کے تحت درج کیا گیا۔

مقدمے کے متن کے مطابق متاثرہ اسکول ٹیچرنے پولیس کوبتایا کہ 16 مئی کووہ ڈیوٹی پراسکول میں موجود تھیں  کہ ایشال شاہد نامی طالبہ مقررہ وقت سے تاخیرسےکلاس میں آئی تھی۔ ٓئے دن وہ تاخیرسے آتی تھی، جس کومیں تاخیرسےاسکول آنے پرڈانٹا اورسزا کے طورتھوڑی دیرکے لیےکھڑا کردیا۔

اس کی شکایت طالبہ نے اپنے والدین سے کردی تھی اور 17مئی کو طالبہ کی والدہ نے اسکول پرنسپل کے پاس آکرمیری شکایت کردی تھی اور پرنسپل کے بلانے پر جب میں ان کے دفتر پہنچی تو انہوں نے مغلظات بکنا شروع کردیں۔ پرنسپل اور میں نے طالبہ کی والدہ سے معذرت کرلی تھی اوراس کے بعد وہ اسکول سے چلی گئیں۔

26 مئی کو طالبہ ایشال کے والد شاہد ، ماموں عبدالحفیظ جس نےخود کو اسی نام سے متعارف کرایا اور بتایا کہ میں ایس ایچ او کلاکوٹ ہوں، بچی کی والدہ کے ہمراہ اسکول کے گیٹ پر پہنچے اور زبردستی اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی اورروکنے پرہنگامہ کیا۔

عبدالحفیظ، جس نے پولیس  یونیفارم سے مشابہ پینٹ پہن رکھی تھی، ہاتھ اسلحہ تھامے اسکول میں زبردستی داخل ہو گیا اوراسکول کے اندر مجھے تلاش کرنے لگے ۔

یہ افراد مجھے تلاش کرتے ہوئے ناظمہ ماریہ شاہد کی کلاس میں گھس گئے  اوربچوں کی موجودگی میں  ناظمہ ماریہ شاہد کومارپیٹ کا نشانہ بنایا اورگالیاں دیں۔

اسی اثنا میں پرنسپل نے مجھے کہا کہ ان سے مل کر معذرت کرلیں، میں پرنسپل کے آفس میں آئی توطالبہ ایشال شاہد، اس کے والد شاہد، ماموں حفیظ اور والدہ نے مجھے لاتوں اورتھپڑوں سے مارنا شروع کردیا۔ تشدد سے میرا نقاب اوراسکارف بھی اترگیا۔

اس دوران مجھےتحفظ دینے والےدیگر اساتذہ کو بھی مارپیٹ کا نشانہ بنایاگیا اورٹیچرشبانہ کی انگلی پر طالبہ ایشال کی والدہ نے دانتوں سے کاٹا، جس سے وہ زخمی ہوگئیں۔ طالبہ کے ماموں عبدالحفیظ نے ٹیچرفریال کا ہاتھ موڑااور دھکے دیے۔

متاثرہ خاتون ٹیچر کے مطابق میرا دعویٰ ہے کہ طالبہ ایشال شاہد ،والد شاہد اورماموں عبدالحفیظ اوروالدہ پراسلحہ کے زورپرزبردستی اسکول میں داخل ہونےاورخواتین اساتذہ کوتشدد کا نشانہ بنانے،ٹیچرکی عفت میں خلل ڈالنے،ٹیچرشبانہ کی ہاتھ کی انگی دانتوں کاٹنے اورقتل کی دھمکیاں دینے کا ہے، لہذا قانونی کارروائی کی جائے۔

اُدھر ایس ایس پی ایسٹ ڈاکٹر فرخ رضا کا کہنا  کہ اسکول انتظامیہ کی جانب سے درخواست موصول ہونے پرکارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے اور کارروائی میں کسی سے بھی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔  طالبہ اور اس کےوالدین کے ساتھ آنے والا شخص محکمہ پولیس کا ملازم ہے۔ کلاکوٹ کے علاقے میں رہائش ہے اور اس ملازم کے خلاف محکمہ کارروائی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے ۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طالبہ ایشال والدین اور خاتون ٹیچر اسکول میں کی والدہ طالبہ کے کا نشانہ تشدد کا

پڑھیں:

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی

آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔

وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟

وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔

بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟

ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔

ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔

سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی

بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔

لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔

صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔

لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد: نشے میں دھت ہو کر ہلڑ بازی اور پولیس اہلکار پر تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار، مقدمہ درج
  • برطانیہ : خاتون اہلکار سے زیادتی پر فوجی افسر کو سزا
  • چھٹی جماعت کی طالبہ، ٹیچر رویے سےعاجز ،چوتھی منزل سے کودگئی
  • سرگودھا: 15 سالہ طالبہ سے 16 ماہ تک 5 ملزمان کی مبینہ زیادتی
  • سابق خاتون ایم پی اے پر لاہور پولیس کا مبینہ تشدد، انکوائری کا حکم
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
  • پولیس اسٹیٹ
  • بلوچستان میں والدین و اساتذہ پر مشتمل اسکول انتظامی کمیٹیوں کا قیام