اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 29 مئی ۔2025 )سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کرفیصلہ دے سکتے ہیں؟ عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لیے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کوئی آئین ری رائٹ نہیں کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ری رائٹ کیا گیا، تین دن کی مدت کو بڑھاکر پندرہ دن کیا گیا.

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کی دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کچھ فریقین نے اضافی گزارشات جمع کروادی ہیں، مجھے ان کی نقول آج ملی ہیں، اب ان کو دیکھوں گا جسٹس جمال مندوخیل نے نون لیگی وکیل سے سوال کیا کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے ڈیکلئیر کر دیاگیا، کیا آپ نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا؟ نون لیگ کے وکیل حارث عظمت نے موقف اپنایا کہ میں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے.

فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ کچھ درخواستوں میں سپریم کورٹ رولز کو مدنظر نہیں رکھا گیا ان درخواستوں کو مسترد کیا جائے مجھ سے پوچھا گیا تھا سنی اتحاد کا انتخابی نشان کیا ہے سنی اتحاد کا نشان گھوڑا ہے مگر حامد رضا آزاد لڑے، حامد رضا آزاد کیوں لڑے اس کا جواب دوں گا جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے کہ کون کیسے لڑا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ میرا سوال تھا مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہیں ملا صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے وہ اپنی جماعت سے نہیں لڑے پھرپارلیمانی جماعت کیوں بنائی مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے جبکہ ووٹ بنیادی حق نہیں ہے فیصلے میں 3 دن کو بڑھا کر پندرہ دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے جیسا تھا.

فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ 11 ججز نے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ 39 امیدواروں کی حد تک میں اور قاضی فائز عیسیٰ بھی 8 ججز سے متفق تھے جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کہا کہ پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے. جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اقلیتی ججز نے انہی گراونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جس پر اکثریتی ججز نے مانا تھا فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا اب نظر ثانی درخواستوں میں ان اقلیتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے دوسری جانب درخواستوں میں کہا گیا پی ٹی آئی کو ریلیف مل ہی نہیں سکتا تھا نظرثانی ان فیصلوں پر انحصار کر کے کیسے لائی جا سکتی ہے؟ ان فیصلوں میں تو پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا گیا ہے.

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی لانے والوں نے تو جس فیصلے کو چیلنج کیا اسے ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کرفیصلہ دے سکتے ہیں؟ عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لیے ہی سہی مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟فیصل صدیقی نے جواب دیا کوئی آئین ”ری رائٹ“ نہیں کیا گیا جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ری رائٹ کیا گیا 3 دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کیا گیا فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ اکثریتی ججز نے کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں.

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں فیصل صدیقی نے کہا کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا ہمیں ایک ہی بات ہے جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہوجائے گی فیصل صدیقی نے کہا کہ فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے آپ کا فیصلہ قبول ہوگا جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہیں پی ٹی آئی امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیے گئے.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت کی بات کی گئی ہے کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں، کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت کے لیے مجبور تو نہیں کیا جاسکتا جو آزاد امیدوار کسی اور پارلیمانی جماعت میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں. فیصل صدیقی نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کر دیا، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی آپ بار بار پیچھے کی طرف جا رہے ہیںفیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ آپ کے سامنے پہلی بار 13 رکنی بنچ کے فیصلے پر نظرثانی آئی ہے جس فیصلے پر نظرثانی آئی وہ ابھی تک آپ کے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا، آپ کہتے ہیں اکثریتی فیصلہ نظرثانی میں پڑھا ہی نہ جائے؟ میں تو حیران ہوں.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس نے روکا ہے فیصلہ پڑھنے سے کیوں گلہ کر رہے ہیں؟ دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس فیصلے کے بعد بھی جماعت تھی اس معاملے پر پی ٹی آئی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں تھی اگر غلط فہمی ہوتی وہ پارٹی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے. جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل انتخابات ہی نہیں لڑی آپ نے پی ٹی آئی والوں کو بتایا کیوں نہیں کہ ہم الیکشن نہیں لڑے، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کو بتانا چاہیے تھا کہ میں خود آزاد لڑا ہوں، جو جماعت انتخابات نہ لڑے آزاد امیدواروں کو کیسے شامل ہونے کا کہہ سکتی ہے؟.

فیصل صدیقی نے موقف اپنایا پورا پاکستان دیکھ رہا ہے میں اقلیتی فیصلہ بھی پڑھنا چاہوں گا، جسٹس امین کے فیصلے سے میں متفق نہیں مگر بڑا فورس فل فیصلہ تھا فیصل صدیقی نے جسٹس امین کے فیصلے پر غالب کا شعر سناتے ہوئے کہا غالب نے کہا تھا کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب، گالیاں کھا کے بے مزا نا ہوا فیصل صدیقی نے جسٹس امین الدین خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی چیل کی طرح مجھ پر نگاہ ہے جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اس کے باوجود آپ اتنا وقت لے رہے ہیں فیصل صدیقی نے موقف اپنایا معاف کیجیے گا، چیل نہیں عقاب کی طرح کہنا تھا جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ تعریف کرنا ویسے کوئی آپ سے سیکھے.

بعد ازاں عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت 16 جون تک ملتوی کردی آئندہ سماعت پر بھی سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے آپ کو ایک مزید سماعت ملے گی فیصل صدیقی نے کہا مجھے کم ازکم 2 سماعتیں اور چاہیے ہوں گی میں نے ابھی دلائل تو دیے ہی نہیں مجھے لگتا ہے نظرثانی میں نے دائر کی سارے سوال مجھ سے ہو رہے ہیں جنہوں نے نظرثانی دائر کی ان سے تو کوئی سوال ہی نہیں ہوا. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس فیصل صدیقی نے کہا سنی اتحاد کونسل نے موقف اپنایا امیدواروں کو مخصوص نشستوں پی ٹی آئی کو کیا جج آئین کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہی نہیں رہے ہیں کیا گیا کے لیے کیا کہ

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری

—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا 2 صفحات کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس جہانگیری کو کام سے روکا جا رہا ہے، اس کیس میں حساس نوعیت کے سوالات ہیں، جج کی اہلیت سے متعلق سوال ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ سپریم جوڈیشنل کونسل میں شکایت بھی زیر التوا ہے۔

عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دیا ہے۔

تحریری حکم نامے میں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے 21 اکتوبر کو معاونت طلب کی گئی ہے جبکہ ایک اور درخواست گزار کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ، پولیس نے عمران خان کی بہنوں کو چیف جسٹس کے چیمبر میں جانے سے روک دیا
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • سپریم کورٹ؛ پولیس نے عمران خان کی بہنوں کو چیف جسٹس کے چیمبر میں جانے سے روک دیا
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ
  • ’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ