لا اینڈ جسٹس کمیشن میں وکلا برادری کے غیرسرکاری نمائندے بھی شامل
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
لا اینڈ جسٹس کمیشن نے غیر سرکاری اراکین کو بھی اجلاسوں میں شامل کرلیا، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اب وکلا برادری کے غیر سرکاری نمائندوں کو کمیشن میں بھی شامل کیا گیا ہے، عوامی رائے اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت لاء اینڈ جسٹس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، چیف جسٹس نے بطور چیئرمین قانون و انصاف کمیشن اجلاس کی صدارت کی۔ چیف جسٹس نے شرکاء کو کمیشن کی تشکیل میں ایک اہم تبدیلی سے آگاہ کیا۔
اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شرکا نے قانون سازی میں کلیدی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اجلاس میں غیر سرکاری اراکین کو شامل کرنے اور کمیشن کو فعال کرنے کے لیے باقاعدہ اجلاسوں کے انعقاد پر زور دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں قانون سازی سے متعلق تجاویز کے لیے کمیشن کے دائرہ کار کی وسیع موجودہ تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا، چیف جسٹس نے تحقیقاتی ایجنڈے پر بتدریج پیش رفت کرنے پر زور دیا۔
اجلاس میں قانونی برادری کے اراکین نے شرکت کی ان میں خواجہ حارث احمد، فضل الحق عباسی، کامران مرتضیٰ، محمد منیر پراچہ، احمد فاروق خٹک شامل تھے۔
اجلاس کا مقصد قوانین کے جائزے کے لیے ایک مؤثر طریقہ کار ترتیب دینا تھا، سیکرٹری وزارت قانون کی زیر صدارت ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، کمیٹی میں خواجہ حارث احمد، محمد منیر پراچہ اور کامران مرتضیٰ شامل ہوں گے۔ کمیشن نے کمیٹی کے لیے ٹی او آرز بھی طے کیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں کمیشن کے غیر سرکاری ارکان اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز ہوتے تھے، اب وکلا برادری کے غیر سرکاری نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، عوامی رائے اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس نے غیر سرکاری برادری کے کو بھی کے غیر کے لیے
پڑھیں:
بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
بھارت کی مودی حکومت نے ایک بار پھر سکھ برادری کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرتے ہوئے نومبر میں گرو نانک دیو جی کے پرکاش پورب پر پاکستان جانے والے یاتری جتھے کو سرحد پار کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف دہرا معیار ظاہر کرتا ہے بلکہ سکھوں کے ساتھ دہائیوں سے جاری ریاستی ناانصافی کی ایک تازہ مثال بھی ہے۔
دہرا معیار اور مذہبی آزادی کی پامالیسکھ برادری کا مؤقف ہے کہ بھارت ہمیشہ ان کے جذبات کو کچلتا آیا ہے، کبھی 1984 کے فسادات میں قتل عام، کبھی پنجاب کے پانیوں پر بندش اور کبھی یاترا پر پابندیوں کی صورت میں۔ اب سیکیورٹی کے نام پر ننکانہ صاحب جانے سے روکنا مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی حکومت ڈالروں کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف کرکٹ کھیلنے پر تیار ہو جاتی ہے مگر جب بات سکھ یاتریوں کی ہو تو سرحدیں بند کر دی جاتی ہیں۔
سیاسی ردعملپنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے اس اقدام کو دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرکٹ میچز ممکن ہیں تو یاترا کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ سکھ برادری کے مقدس مواقع پر اس طرح کی رکاوٹیں بھارت کے جمہوری اور سیکولر دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔
پاکستان کی فراخدلی اور سکھوں کی عقیدتپاکستان نے سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور کوریڈور کھول کر وہ سہولت فراہم کی جس کا خواب سکھ دہائیوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر سال ہزاروں سکھ پاکستان آ کر اپنے مقدس مقامات پر حاضری دیتے ہیں، جہاں انہیں مکمل عزت و احترام دیا جاتا ہے۔
بڑھتی بے چینی اور خالصتان تحریکماہرین کے مطابق بھارت کی پالیسیوں سے سکھ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ یہ اقدامات خالصتان تحریک کو مزید توانائی دے رہے ہیں اور سکھ نوجوانوں میں علیحدگی پسندی کے جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔
عالمی برادری کا کردار
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی حکومت کے ان امتیازی اقدامات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور سکھوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاکستان سکھ یاتری