مودی حکومت اپنی ناکامی چھپانے کیلئے ملک کو چوتھی بڑی معیشت قرار دے رہی ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں مودی حکومت نے معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں، اب بی جے پی حکومت نے اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا اور حقیقت کو چھپایا۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر ملکارجن کھڑگے نے مودی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت صرف اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ہندوستان کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت قرار دے رہی ہے، جبکہ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ ایکس پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ حکومت کو جھوٹ بولنے کی عادت ہو چکی ہے، کیونکہ وہ ہر اقتصادی شعبے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں مودی حکومت نے معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ویڈیو میں مختلف معروف اخباروں کی رپورٹس کا حوالہ دے کر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح بی جے پی حکومت نے اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا اور حقیقت کو چھپایا۔ کانگریس صدر کے مطابق حکومت معاشی عدم مساوات، صنعتی زوال، عوامی اداروں کی نجکاری، چھوٹے کاروبار کی تباہی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل سے نظریں چرا رہی ہے۔
ویڈیو میں انگریزی روزنامہ دی ہندو کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہندوستان 2011ء میں ہی دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن چکا تھا لیکن اب مودی حکومت اس بات کو چھپا کر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے کا شور مچا رہی ہے تاکہ اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ملکارجن کھڑگے کے مطابق یہ محض تشہیر ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ویڈیو میں معاشی ناہمواری کو گرافکس کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملک کی 40 فیصد دولت صرف ایک فیصد آبادی کے پاس ہے، جبکہ 50 فیصد آبادی کے پاس محض 6.
ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ ہندوستان فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا میں 136ویں مقام پر ہے۔ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ یو پی اے دور حکومت میں فی کس آمدنی میں 258 فیصد اضافہ ہوا تھا لیکن مودی حکومت کے دوران یہ شرح محض 118 فیصد رہی۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے نشاندہی کی کہ موجودہ حکومت کے تحت ملک کی جی ڈی پی شرح 6.4 فیصد پر گر چکی ہے، جو گزشتہ چار برسوں کا کم ترین سطح ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی، غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن، ایم ایس ایم ای سیکٹر کی تباہی، پی ایس یو کی نجکاری اور "میک ان انڈیا" جیسے منصوبوں کی ناکامی نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ اگر حکومت کو واقعی عوام کی فکر ہوتی تو یہ اعداد و شمار چھپائے نہ جاتے بلکہ عوامی بھلائی کے لئے اقدامات کئے جاتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مودی حکومت بڑی معیشت حکومت نے رہی ہے
پڑھیں:
کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔