عشرہ ذوالحجہ: فضیلت و اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
ماہِ ذوالحجہ اسلامی سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے۔ اس ماہ کی بعض عبادات و اعمال کے ساتھ خاص ہونے کی بناء پر اسے اہمیت و فضیلت اور امتیازی مقام حاصل ہے۔ نیز اس کا شمار بارہ مہینوں میں سے چار حرمت و عظمت اور احترام کے حامل مہینوں میں ہوتا ہے، اور انھیں ’’اشھر حرم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’زمانہ اپنی اسی ہئیت اور شکل میں آگیا ہے جوا س وقت تھی جب اﷲ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت کے حامل ہیں۔ تین تو مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری)
لیکن ان چار میں سے ذوالحجہ کا مقام اعلیٰ ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ماہ رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ محترم و مکرم ذوالحجہ ہے۔‘‘ (شعب الایمان)
لہٰذا اس کی عزت و احترام کا تقاضا ہے کہ اس مہینے میں اﷲ کی فرماں برداری و عبادت کی طرف متوجہ ہوں اور گناہوں سے اجتناب کا اہتمام کریں۔ اس کی عظمت و فضیلت کی درج ذیل وجوہات ہیں:
٭ حج جیسی عظیم الشان عبادت اسی مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔
٭ سنّت ابراہیمی (قربانی) کی ادائیگی اسی ماہِ مکرم میں کی جاتی ہے۔
٭ اس ماہ کے کچھ ایام میں تکبیراتِ تشریق کا ہر فرض نماز کے بعد اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭ ماہِ ذوالحجہ میں اﷲ تعالیٰ نے عیدالاضحی جیسا پیارا اسلامی تہوار بھی رکھا ہے۔
ان امتیازات و اوصاف کی وجہ سے اگرچہ یہ پورا مہینہ عظمت و فضیلت کا حامل ہے۔ مگر اس کے ابتدائی دس دن جنہیں عشرۂ ذوالحجہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، دیگر ایام کی نسبت زیادہ فضیلت و اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں سورہ الفجر کی ابتداء میں اﷲ تعالیٰ نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا ہے، مفہوم:
’’قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی اور جفت کی اور طاق کی۔‘‘ ان تین آیات میں اﷲ تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ ان میں سے پہلی قسم فجر کی کھائی گئی ہے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد عیدالاضحی کے دن کی فجر ہے۔ (معارف القرآن) دوسری قسم دس راتوں کی کھائی ہے، ان سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ تیسری اور چوتھی قسم جفت و طاق کی کھائی ہے، جفت سے مراد عیدالاضحی کا دن جب کہ طاق سے مراد یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ ہے۔ (مسند احمد)
اﷲ تعالیٰ جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو اس سے اس چیز کی اہمیت، عظمت و عزت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ جس سے عشرہ ذوالحجہ کے ان تعلقات کی عظمت عیاں ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک حدیث میں ان دنوں میں کیے گئے نیک اعمال کی عظمت و اہمیت کو یوں بیان کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (ماہ ذوالحجہ کے) ان دس دنوں میں کیا گیا نیک عمل دیگر ایام میں کیے گئے نیک عمل کے مقابلے میں زیادہ پاکیزہ و عظمت والا ہے۔
صحابہؓ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کیا دیگر دنوں میں جہاد کرنا بھی ان دس دنوں کے نیک عمل سے افضل نہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! دیگر دنوں کا جہاد بھی ان دس دنوں کے عمل سے افضل نہیں ہے۔ البتہ وہ شخص جو اپنی جان اور مال لے کر جہاد میں چلا جائے اور جان و مال کو اﷲ کی راہ میں قربان کردے اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ لوٹے۔‘‘ (تو اس شخص کا جہاد ان دس دنوں کے نیک عمل سے افضل ہوجاتا ہے) (ابوداؤد)
راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیرؓ ان دس دنوں میں عبادات میں بہت زیادہ جدوجہد فرماتے حتیٰ کہ یہ ان کے لیے مشکل ہوجاتی۔ ایک حدیث مبارکہ میں ان دنوں کے نیک اعمال کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں میں کیا گیا نیک عمل دیگر دنوں کی بہ نسبت زیادہ محبوب و عظمت والا ہے۔ اس لیے ان ایام میں تہلیل (لاالہ الااﷲ) تحمید (الحمدﷲ) اور تکبیر (اﷲ اکبر) کی کثرت کیا کرو۔‘‘ (مسند احمد) سنن ترمذی کی روایت میں ہے، مفہوم: ’’ذوالحجہ کے ان دس دنوں میں سے ہر دن (سوائے ایام عید کے) کے روزے کا اجر ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ جب کہ ہر رات کی عبادت کا اجر شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔‘‘ (ترمذی) اس روایت پر کلام کے باوجود اہل علم نے اسے فضائل کے باب میں قبول کیا ہے۔
ماہِ ذوالحجہ کے ان دس ایام میں نو ذوالحجہ یعنی یوم عرفہ کو خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے، اسی دن حجاج کرام حج کا عظیم رکن وقوف عرفہ ادا فرماتے ہیں۔
صحیح مسلم ہی کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اس سے اگلے اور پچھلے ایک ایک سال کے (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم) بعض روایات میں ہے کہ یوم عرفہ کے روزے کا اجر دو سال کے روزوں کے برابر ہے۔ (المعجم الکبیر) واضح رہے کہ ہر ملک میں یوم عرفہ اسی دن ہوگا جس دن وہاں ذوالحجہ کی نو تاریخ ہوگی۔ اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ ماہِ ذوالحجہ میں نوافل، ذکر، تسبیحات، تلاوت، روزے، صدقات اور دیگر عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ عشرہ ذوالحجہ میں روزے یوم عرفہ تک ہیں، عیدالاضحی اور اس کے بعد کے تین دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
(دارِقطنی) ان ایام میں ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے۔ (ردالمحتار و صحیح مسلم) عیدالاضحی کی رات بھی فضیلت و برکت سے معمور نعمت ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوامامہ ؓ کی روایت میں ہے، مفہوم: ’’جو شخص عیدین (عیدالفطر و عیدالاضحی) کی راتوں میں ثواب کی نیّت سے عبادت کے لیے قیام کرے، اس کا دل اس دن مردہ نہ ہوگا جس دن بہت سے دل مردہ ہوجائیں گے۔‘‘
(سنن ابن ماجہ) اس کا مطلب محدثین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے بُری موت سے محفوظ رکھیں گے اور ایمان کی موت عطا کریں گے۔ نیز حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے۔ مفہوم: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص چار راتوں کو عبادت کے ذریعے زندہ رکھے اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ترویہ کی رات، عرفہ کی رات، قربانی (عیدالاضحی) کی رات اور عیدالفطر کی رات۔‘‘ (الترغیب و الترہیب) ان چار میں سے تین راتیں عشرہ ذوالحجہ میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں جن کی عبادت پر جنّت کی بشارت سرور دو جہاں ﷺ کی زبان اطہر سے منقول ہے۔
اس ماہِ مکرم میں حج و قربانی جیسی عظیم عبادات کے ساتھ ایک اہم عبادت تکبیرات تشریق بھی ہے، جس سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کا بہ خوبی اظہار ہوتا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ کی کبریائی و محبّت بھی دلوں میں اجاگر ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر فرض نما ز کے بعد اس کے یہ الفاظ پڑھے جاتے ہیں: ’’اﷲاکبر، اﷲاکبر، لاالہ الااﷲ و اﷲاکبر، اﷲ اکبر و ﷲالحمد۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ) مرد حضرات ایک مرتبہ بلند آواز سے جب کہ خواتین آہستہ آواز سے پڑھیں گی۔ (فتاویٰ عالمگیری) یہ نو ذوالحجہ کی فجر سے شروع ہوتی ہیں اور تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک پڑھی جائیں گی۔
عیدالاضحی کے دن کا خاص و مہتم بالشان عمل قربانی کرنا ہے۔ جس کے متعلق سنن ترمذی میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’ قربانی کے دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک آدمی کا کوئی بھی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے یہ اﷲ کے ہاں مقبول ہوجاتی ہے۔ اس لیے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔‘‘ (سنن ترمذی)
ان فضائل و برکات سے اس ماہ کی عظمت اور عشرۂ ذوالحجہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ لہٰذا رضائیِ رب کریم کے حصول اور آخرت کی نعمتوں کو سمیٹنے کی غرض سے ان ایام میں رجوع الیٰ اﷲ خوش بختی کا سامان ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہِ مکرم کی برکات سے بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عشرہ ذوالحجہ ﷺ نے فرمایا ذوالحجہ میں ذوالحجہ کے ذوالحجہ کی اﷲ تعالی ایام میں یوم عرفہ دنوں کے ہوتا ہے نیک عمل کی عظمت کی رات میں ہے میں کی کے بعد اس ماہ
پڑھیں:
عمانحکومت نے بھی عیدالاضحیٰ پر 4 روز ہ تعطیلات کا اعلان کردیا
دوحہ (اوصاف نیوز)سلطنت عمان نے عید الاضحیٰ پر 4 روز کی تعطیلات کا اعلان کردیا۔ شاہی فرمان کے مطابق جمعہ کو عید ہونے کی وجہ سے اضافی چھٹی دی جارہی ہے۔
عرب میڈیا نے مسقط ڈیلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ آسمانی علوم کے عمانی ماہر ڈاکٹر صبیح بن رحمان السعدی نے کہا ہے کہ سلطنت عمان ممکنہ طور پر 6 جون 2025 بروز جمعہ عید الاضحی منائے گی۔
السعدی نے پیشین گوئی کی ہے کہ آج 27 مئی بروز منگل کی شام ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے گا۔
ڈاکٹر سعدی کا مزید کہنا ہے کہ ذوالحجہ 1446 ہجری کے چاند کا سورج کے ساتھ ملاپ 27 مئی کو مقامی وقت کے مطابق ٹھیک 7 بج کر 03 منٹ اور 29 سیکنڈ پر ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ چاند مسقط میں غروب آفتاب کے تقریباً 36 منٹ بعد غروب ہوجائے گا، جو سورج سے 8 ڈگری پر اور مغربی افق سے 7 ڈگری بلند ہوجائے گا اور یہ ہلال کو دیکھنے کیئے سازگار حالات ہیں۔
ڈاکٹر سعدی نے کہا کہ یہ فلکیاتی اشارے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ 28 مئی بروز بدھ ذوالحجہ کا پہلا دن ہوگا، نتیجتاً یوم عرفہ جمعرات 5 جون کو آئے گا اور عیدالاضحیٰ جمعہ 6 جون کو شروع ہوگی۔
سلطنت عمان کی جانب سے جاری شاہی فرمان نمبر 88/2022 کے مطابق الاضحی کی چھٹی 9 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ تک منائے گا، چونکہ اس سال عید کا پہلا دن جمعہ کو ہوگا، سرکاری اور نجی شعبوں کیلئے مکمل تعطیل کی مدت کو یقینی بنانے کیلئے ایک اضافی چھٹی دی جائے گی۔
اگر عیدالاضحی 6 جون بروز جمعہ کو توقع کے مطابق شروع ہوتی ہے، تو عمانی تعطیلات کی توسیع سے لطف اندوز ہوں گے، 9 ذی الحجہ سے 12 تاریخ تک عوام جمعرات 5 جون تا پیر 9 جون تک طویل ویک اینڈ منائیں گے۔
صدر آصف علی زرداری کو علاج کیلئے دبئی جانے سے کیوں روکا گیا ؟اہم کتاب میں انکشاف