امریکی فیڈرل اپیلز کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی ٹیرف سے متعلق اہم عدالتی فیصلے کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے حکومت کو وقتی ریلیف دے دیا ہے۔ اس فیصلے سے صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے ایک اہم ستون پر پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق یو ایس کورٹ آف اپیلز فار دی فیڈرل سرکٹ نے ایک مختصر حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تجارتی عدالت کی جانب سے ٹیرف کو کالعدم قرار دینے اور 10 روز کے اندر ان کا خاتمہ کرنے کا حکم عارضی طور پر معطل رہے گا۔ یہ حکم نامہ بغیر کسی تفصیلی وضاحت کے جاری کیا گیا۔

قبل ازیں، امریکی محکمہ انصاف نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ 28 مئی کو جاری ہونے والے تجارتی عدالت کے فیصلے سے امریکی سفارت کاری کو نقصان پہنچا ہے اور یہ صدر ٹرمپ کے خارجہ امور سے متعلق آئینی اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اسی بنا پر وفاقی حکومت نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اس حکم کو اپیل کے دوران مؤخر رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف کے خلاف امریکا کی 12 ریاستوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

اپیلز کورٹ نے اس درخواست پر مکمل سماعت کے لیے فریقین کو 9 جون تک تحریری دلائل جمع کرانے کی مہلت دی ہے۔ اس معاملے کی سماعت 11 رکنی بینچ کر رہا ہے، جن میں سے صرف 3 جج ریپبلکن صدور کے مقرر کردہ ہیں، باقی ڈیموکریٹس کی نامزدگی ہیں۔

یاد رہے کہ تجارتی عدالت کے 3 ججوں پر مشتمل بینچ نے ایک حیران کن فیصلے میں قرار دیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے 1977 کے ایمرجنسی اقتصادی اختیارات کے قانون کا سہارا لے کر ’لبریشن ڈے‘ کے عنوان سے جو عالمی ٹیرف عائد کیے، وہ ان کے اختیارات سے تجاوز ہے۔ یہ مقدمہ چھوٹے کاروباری اداروں اور ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت والی متعدد ریاستوں نے دائر کیا تھا۔

ادھر واشنگٹن میں ایک اور مقدمے میں وفاقی جج روڈولف کونٹریرس نے بھی صدر ٹرمپ کی چین اور دیگر ممالک سے درآمدات پر لگائے گئے بعض ٹیرف کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ تاہم ان کا فیصلہ صرف فی الحال کھلونوں کی صنعت سے وابستہ مخصوص کمپنیوں تک محدود رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بھی اپنی جانب سے جاری کردہ حکم پر 14 دن کی تاخیر کی مہلت دی ہے تاکہ محکمہ انصاف اپیل کر سکے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف: یورپی یونین کو 9 جولائی تک مہلت مل گئی

جج کونٹریرس نے حکومتی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ مقدمہ کورٹ آف انٹرنیشنل ٹریڈ میں منتقل کرنے سے انکار کردیا۔ اگر اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تو وہ معاملہ ڈی سی سرکٹ کورٹ میں جائے گا۔

محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ اگر نچلی عدالتیں ٹیرف کے خاتمے کے احکامات پر عملدرآمد روکتی نہیں ہیں تو امریکا کو ’ناقابل تلافی نقصان‘ پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ ممکنہ طور پر سپریم کورٹ میں لے جایا جائے گا، اگر نچلی عدالتوں نے حکم امتناع جاری نہ کیا۔

دوسری جانب کنیکٹیکٹ کے اٹارنی جنرل ولیم ٹونگ، جن کی ریاست بھی ان مقدمات کا فریق ہے، نے کہا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ ٹرمپ کے ٹیرف بالآخر مستقل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عارضی حکم بنیادی حقیقت کو نہیں بدلتا۔ ٹرمپ نے ایک جعلی ایمرجنسی کے بہانے غیر قانونی اور بے مقصد تجارتی جنگ چھیڑی تھی جس سے معیشت میں غیر یقینی اور افراتفری پیدا ہوئی۔

محکمہ انصاف نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ قانون کے مطابق اور ملکی مفاد میں تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی فیڈرل اپیلز کورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی ٹیرف یو ایس کورٹ آف اپیلز فار دی فیڈرل سرکٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی ٹیرف محکمہ انصاف اپیلز کورٹ

پڑھیں:

کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی

سیول: کینیڈا کے وزیرِاعظم مارک کارنی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک اینٹی ٹیرف سیاسی اشتہار کے معاملے پر ذاتی طور پر معافی مانگ لی ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق مارک کارنی نے بتایا کہ انہوں نے اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ ڈگ فورڈ کو اشتہار نشر نہ کرنے کی ہدایت دی تھی، تاہم اشتہار کے نشر ہونے پر انہوں نے صدر ٹرمپ سے براہِ راست معذرت کرلی۔

مارک کارنی نے جنوبی کوریا میں ایشیا پیسیفک سربراہی اجلاس کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے عشائیے کے موقع پر معافی مانگی، جو جنوبی کوریا کے صدر کی جانب سے دیا گیا تھا۔

کینیڈین وزیرِاعظم نے مزید بتایا کہ اشتہار نشر ہونے سے پہلے انہوں نے ڈگ فورڈ کے ساتھ اس کا جائزہ لیا تھا اور مخالفت کی تھی، لیکن اس کے باوجود یہ اشتہار آن ایئر ہوگیا۔

رپورٹ کے مطابق یہ اشتہار ڈگ فورڈ نے تیار کروایا تھا، جو ایک قدامت پسند رہنما ہیں اور جنہیں اکثر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشابہت دی جاتی ہے۔

اشتہار میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کا ایک بیان شامل تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ "ٹیرف سے تجارتی جنگیں اور معاشی تباہی جنم لیتی ہیں"۔

اس اشتہار کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کینیڈا سے آنے والی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کا اعلان کیا تھا اور تجارتی مذاکرات روک دیے تھے۔

جنوبی کوریا سے روانگی کے موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی مارک کارنی سے ملاقات "بہت خوشگوار" رہی، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • کراچی کا ای چالان سسٹم سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج ،جرمانے معطلی پٹیشن
  • اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار