کم عمری میں شادی کے خلاف بل پر اعتراضات کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
شانزے جو ابھی کالج سے گھر آئی تھی، ماں کے کہنے پر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ سامنے بیٹھے انجان چہروں نے لڑکی پسند آنے کی نوید سنائی تو مارے خوشی کے ماں نے بیٹی کا ماتھا چوم لیا۔ شانزے کی عمر ابھی 17 برس ہے، شادی کے نام پر شانزے کا بچپن ختم کردیا گیا۔
کم عمری کی شادی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں ایسا مسئلہ ہے جو کئی دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یونیسیف کے مطابق 12 ملین لڑکیوں کی شادی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کردی جاتی ہے۔ عالمی منظرنامے پر نگاہ دوڑائی جائے تو صرف بھارت ہی ایک تہائی کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کا ملک ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جیسے ظالمانہ اقدامات کے بعد افغانستان میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جس کے نتیجے میں 15 سے 19 برس کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2002 میں ہر 3 میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 برس سے کم عمر میں ہوئی۔
افریقی ممالک جیسے کہ نائیجیریا، چاڈ اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی کی شرح 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ شدید غربت، تعلیم اور خواتین میں خودمختاری کا فقدان ہے۔
2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 18 فیصد لڑکیاں 18 برس سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 4 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں ہوجاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں اس شرح میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے، البتہ اب بھی یہ مسئلہ لاکھوں بچوں کو متاثر کررہا ہے۔
صحت پر مہلک اثرات
کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی بڑی وجہ غربت ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کی صحت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس عمر میں جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں میں غذائی کمی اور امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور ماں اور بچے کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین کے بچوں میں اسہال کی بیماری کا خطرہ 59 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو اکثر اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
تعلیم اور معاشی مواقع کی محرومی
کم عمری کی شادی میں زیادہ تر لڑکیوں پر گھریلو اور ازدواجی ذمے داریوں کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے خواتین مستقبل میں بہتر معاشی مواقع سے محروم رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 631,000 لڑکیاں کم عمری میں شادی کے باعث تعلیم سے محروم ہوئیں۔ یہ محرومی نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ قومی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کم ہو جاتی ہے۔
گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل
کم عمری کی شادی کے نتیجے میں لڑکیاں گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین میں گھریلو تشدد کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈپریشن، اضطراب اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرتی ہیں۔
کم عمر کی شادیوں کے لڑکوں پر اثرات
اگرچہ کم عمری کی شادیاں زیادہ تر لڑکیوں کو متاثر کرتی ہیں، لیکن لڑکوں پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں 115 ملین لڑکوں کی 18 سال سے پہلے شادی ہوئی۔ کم عمر لڑکوں کو خاندان کی مالی ذمے داری اٹھانے کا دباؤ پڑتا ہے، جس کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔ یہ ان کی تعلیم اور ذاتی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں شادی شدہ جوڑا جو ذہنی طور پر خود ناپختہ ہوتا ہے ان پر بچوں کی بھاری ذمے داری بھی پڑجاتی ہے جسے احسن طریقے سے پورا کرنا صرف ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
قومی اسمبلی میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل منظور ہونا خوش آئند ہے۔ اس بل میں نہ صرف کم عمر بچوں کے نکاح کے اندراج کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ ایسی شادیوں میں والدین اور سرپرستوں کےلیے سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں جن کا مقصد اس مسئلے کو حقیقتاً جڑ سے ختم کرنا ہے جو کہ یقیناً ایک بہترین اقدام ہے۔
لیکن بدقسمتی سے کئی حلقوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بل پر نہ صرف اعتراض اٹھایا ہے بلکہ بل کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے کر دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے۔ یعنی جن افراد کو قوم کو سمجھانے کا فرض ادا کرنا چاہیے تھا وہ ایسے بچوں کے ساتھ جنسی تعلق جوڑنا اور ازدواجی مسائل کو فروغ دینا جائز سمجھتے ہیں جن کو ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں دیا جاسکتا۔
ان تمام معترضین سے سوال ہے کہ کبھی وہ آبادی کے بڑھنے، بے ہنگم ہجوم سے لے کر خواتین پر تشدد سمیت ایسے کون سے مسائل ہیں جن کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوں؟ کیا ملک بھر میں تمام مسائل حل ہوچکے ہیں جو اب آپ 18 برس سے کم عمر بچوں سے ان کا بچپن اور لڑکپن چھین کر انھیں ازدواجی زندگی کے بوجھ تلے دبانے کے لیے اتنے پرجوش ہیں؟ اور اگر آپ ایسی خواہش رکھتے ہیں تو کیا کم عمری کی شادیوں کے سنگین نتائج کی ذمے داریاں بھی قبول کریں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کم عمری کی شادی پاکستان میں کم عمر بچوں لڑکیوں کی کے مطابق جاتی ہے شادی کے ہوتا ہے
پڑھیں:
فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) سے ایک بار پھر علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ 31 دسمبر 2026 سے مؤثر ہوگا، اور اس کی وجہ فلسطین کی یونیسکو میں رکنیت اور امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ تنازعات کو قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ یونیسکو کی پالیسیز اور سرگرمیاں امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ یونیسکو تقسیم پیدا کرنے والے سماجی اور ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور اس کا جھکاؤ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی جانب ہے، جنہیں انہوں نے ’عالمی ایجنڈا‘ اور ’سب سے پہلے امریکا پالیسی سے متصادم‘ قرار دیا۔
فلسطین کی رکنیت پر اعتراضٹیمی بروس نے 2011 میں یونیسکو کی جانب سے فلسطین کو مکمل رکنیت دیے جانے کو ’انتہائی مسئلہ انگیز‘ اور امریکی پالیسی کے خلاف قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدام تنظیم میں ’اسرائیل مخالف بیانیے‘ کو تقویت دیتا ہے۔
پہلے بھی 2 بار علیحدگی
یہ تیسری مرتبہ ہے جب امریکا نے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے 1984 میں صدر رونالڈ ریگن کے دور میں یونیسکو پر سیاسی رنگ غالب ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر علیحدگی اختیار کی گئی۔
2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنظیم پر ’اسرائیل مخالف تعصب’ اور ناقص انتظام کا الزام لگا کر علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
2023 میں صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں امریکا دوبارہ رکن بنا، مگر اب موجودہ حکومت نے ایک بار پھر علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
یونیسکو کی سربراہ کا ردعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے امریکی فیصلے پر ’ شدید افسوس‘ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’ کثیرالجہتی کے اصولوں کے منافی‘ ہے۔ انہوں نے امریکا کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے یونیسکو کی جانب سے ہولوکاسٹ کی تعلیم اور یہود دشمنی کے خلاف اقدامات کا حوالہ دیا۔
ازولے نے واضح کیا کہ تنظیم نے 2018 کے بعد اصلاحات کی ہیں، مالیاتی نظام کو متنوع بنایا ہے اور اب امریکی تعاون یونیسکو کے کل بجٹ کا صرف 8 فیصد ہے، جب کہ تنظیم کی رضاکارانہ مالی امداد دوگنی ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے اقوام متحدہ کی ماہر فرانچیسکا البانیز کو امریکی پابندیوں کا سامنا، اسرائیلی مظالم کی نشاندہی ’جرم‘ ٹھہری
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی ملازمتیں ختم نہیں کی جائیں گی اور یونیسکو امریکی نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا فلسطین یونیسکو